Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 51
مَاۤ اَشْهَدْتُّهُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَا خَلْقَ اَنْفُسِهِمْ١۪ وَ مَا كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّیْنَ عَضُدًا
مَآ : نہیں اَشْهَدْتُّهُمْ : حاضر کیا میں نے انہیں خَلْقَ : پیدا کرنا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَا خَلْقَ : نہ پیدا کرنا اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں (خود وہ) وَمَا كُنْتُ : اور میں نہیں مُتَّخِذَ : بنانے والا الْمُضِلِّيْنَ : گمراہ کرنے والے عَضُدًا : بازو
میں نے انہیں اپنے ساتھ شریک نہیں کیا تھا ، جب آسمان و زمین کو پیدا کیا اور نہ اس وقت وہ شریک ہوئے جب خود انہیں پیدا کیا میں ایسا نہ تھا کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست وبازو بناتا
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کہ اپنے اپنے شریکوں کو لے آؤ جو تم نے بنا رکھے تھے : 54۔ غور کرو کہ کیا للہ کا کوئی شریک ہے ؟ نہیں اور یقینا نہیں تو پھر یہ کیسے کہا گیا کہ میرے شریکوں کو بلا لاؤ ، جس طرح یہ بات بیان کی گئی ہے کہ تم میرے شریکوں کو بلاؤ اور اس کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اوپر کی آیت میں ابلیس کو مخاطب کیا گیا ہے اگرچہ انسان کے باہر اس کا کوئی مرئی وجود نہیں ہے الا یہ کہ وہ ایک طاقت یاقوت ہے اور بلاشبہ ہر طاقت وقوت ایک تخلیق شدہ چیز ہے اس لئے اس کے مخلوق ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور کتنی ہی مخلوقات ہیں جو ایسا جسم نہیں رکھتیں جو انسانی آنکھ دیکھ سکے ، میرے شریکوں کو بلاؤ یعنی جن جن کو تم نے بزعم خویش شریک خداوندی بنا رکھا تھا ، فرمایا میں نے تو اپنے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تھا جب آسمان و زمین جیسے بڑے بڑے اجرام کو پیدا کیا اور نہ وہ خود اس وقت شریک تھے جب ان کو پیدا کیا جن کو تم شریک ٹھہرا رہے ہو ، پھر جب وہ مخلوق ہیں تو مخلوق ہو کر فعل خلق ہی میں ان کو شریک ٹھہرایا جاتا یہ کیسے ممکن تھا ؟ بات وہ کرو جس کی کم از کم کوئی دلیل تو پیش کرسکو ایک چیز خالق بھی ہو اور مخلوق بھی ناممکن امر ہے ، کم از کم تم نے اتنا ہی خیال کیا ہوتا کہ اللہ ان کو اپنا دوست وبازو بناتا جو اللہ ہی کے مقابلہ میں لوگوں کو گمراہ کرنے والے تھے اور آج بھی بدقسمتی سے کتنے لوگ ہیں جو مسلمان کہلانے کے باوجود اس بیماری میں مبتلا ہیں کتنے ہیں جن کو اولاد دینے والے ، تکلیفیں دور کرنے والے ، رزق تقسیم کرنے والے ‘ آفات وبلیات آسمانی سے بچانے والے مختلف قسم کی حاجتوں کو پورا کرنے والے حاجت روا اور مختلف مشکلوں سے بچانے والے مشکل کشا بنا رکھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ کوئی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا حاجت روا یا مشکل کشا ہو پھر تعجب یہ ہے کہ جن کو حاجت روا سمجھتے ہیں ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں کہ وہ سارے کے سارے خود محتاج ہیں اور جتنے لوگوں کو مشکل کشا سمجھتے ہیں ان میں سے ایک ایک کے متعلق جانتے ہیں کہ وہ خود اپنی زندگی میں مشکلات میں پھنسا رہا اور جو خود محتاج ہو وہ کسی کی حاجت کیا پوری کرے گا اور اسی طرح جو خو مشکلات میں پھنسا ہوا ہے اور وہ دوسروں کو مشکلات سے کیا نکالے گا ۔
Top