Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 54
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا : اور البتہ ہم نے پھیر پھیر کر بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مِنْ : سے كُلِّ مَثَلٍ : ہر (طرح) کی مثالیں وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان اَكْثَرَ شَيْءٍ : ہر شے سے زیادہ جَدَلًا : جگھڑنے والا
اور ہم نے اس قرآن کریم میں لوگوں کی ہدایت کے لیے ہر طرح کی مثالیں لوٹا لوٹا کر بیان کردیں مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے
قرآن کریم میں ہم نے کتنی مثالیں بیان کردیں لیکن انسان بہت ہی پھڈے باز ہے : 57۔ اس جگہ انسان کا مقابلہ دوسری چیزوں سے نہیں کیا گیا جس کے نتیجہ میں یہ بیان کیا ہے کہ وہ بہت پھڈے باز ہے بلکہ انسانوں کے درمیان ہی مقابلہ ہے گویا انسانوں ہی میں سے کتنے انسان ہیں جن کے سامنے حق کو طرح طرح کے پیرایوں میں بار بار بیان کیا جاتا ہے مگر باایں ہمہ بھی انسان سے جھگڑا ہی زیادہ سرزد ہوتا ہے اور وہ اسے قبول کرنے کی بجائے کٹ حجتیاں ہی کرتا چلا جاتا ہے ، ایک بات کا غلط مفہوم بیان کرتا ہے ، سمجھتا ہے لیکن اس کے باوجود کہ اس کو صحیح ثابت کرنے کی کوئی دلیل نہیں رکھتا اس پر اڑا رہتا ہے ، جدال وہی ہے جس کو ہماری زبان میں دھاندلی کہتے ہیں (جدلت الحبل) کے معنی اس بٹنے کے ہیں چونکہ جھگڑا کرنے میں بھی بڑے بیچ وتاب کھانے پڑتے ہیں اور ہر ایک دوسرے کی رائے کو اپنے ہی پیچ میں لانا چاہتا ہے اس لئے اس طرح کی گفتگو کو جدال کہا جاتا ہے ، بعض لوگوں نے جدال کے معنی کشتی لڑنے کے بھی کئے ہیں اور مقابل کو زمین پر دے مارنے کے بھی اور اسی طرح (جدالہ) سخت زمین کو بھی کہتے ہیں جو ہل چلانے میں مانع آتی ہے اور کھودنے میں نہایت سخت ہوتی ہے ۔ زیر نظر آیت میں حق واضح ہوجانے کے بعد حقیقت کو تسلیم نہ کرنے اور خواہ مخواہ الجھاؤ پیدا کرنے کے لئے یہ لفظ بولا گیا ہے ، مزید دیکھنا مطلوب ہو تو سورة ہود کی آیت 32 کا مطالعہ کریں اور یہ سورة تفسیر عورۃ الوثقی کی چوتھی جلد میں آئی ہے وہاں نوح (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کی گفتگو قرآن کریم میں بیان کی ہے :
Top