Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 57
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّهٖ فَاَعْرَضَ عَنْهَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ١ؕ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا١ؕ وَ اِنْ تَدْعُهُمْ اِلَى الْهُدٰى فَلَنْ یَّهْتَدُوْۤا اِذًا اَبَدًا
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ : اس سے جو ذُكِّرَ : سمجھایا گیا بِاٰيٰتِ : آیتوں سے رَبِّهٖ : اس کا رب فَاَعْرَضَ : تو اس نے منہ پھیرلیا عَنْهَا : اس سے وَنَسِيَ : اور وہ بھول گیا مَا قَدَّمَتْ : جو آگے بھیجا يَدٰهُ : اس کے دونوں ہاتھ اِنَّا جَعَلْنَا : بیشک ہم نے ڈال دئیے عَلٰي قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں پر اَكِنَّةً : پردے اَنْ : کہ يَّفْقَهُوْهُ : وہ اسے سمجھ سکیں وَ : اور فِيْٓ : میں اٰذَانِهِمْ : ان کے کان وَقْرًا : گرانی وَاِنْ : اور اگر تَدْعُهُمْ : تم انہیں بلاؤ اِلَى : طرف الْهُدٰى : ہدایت فَلَنْ : تو وہ ہرگز يَّهْتَدُوْٓا : نہ پائیں ہدایت اِذًا : جب بھی اَبَدًا : کبھی بھی
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جسے اس کے پروردگار کی آیتیں یاد دلائی جائیں اور وہ ان سے گردن موڑ لے اور اپنی بدعملیاں بھول جائے جو پہلے کرچکا ہے ؟ بلاشبہ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ کوئی بات پا نہیں سکتے اور کانوں میں گرانی ہے تم انہیں کتنی ہی سیدھی راہ کی طرف بلاؤ مگر وہ کبھی راہ پانے والے نہیں
احکام الہی سے منہ موڑنے والے سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے ؟ : 60۔ ظلم شرک ہے ، ظلم اندھیرا ہے ، ظلم زیادتی ہے اسی طرح ظالم ہر شرک کرنے والا ہے ، ہر اندھیرے میں رکھنے والا ہے اور ہر زیادتی کرنے والا ہے اور سب سے بڑے ظالم وہ ہیں جن کے سامنے اللہ کی آیتیں پڑھی جائیں اور وہ ان کے احکام کو سمجھ جائیں لیکن اس کے باوجود ان سے منہ پھیر دیں اور وہی کریں جو سارے لوگ کر رہے ہیں اگرچہ وہ احکام الہی کی خلاف ورزی کر رہے ہوں ، لیکن چونکہ ان کی کثرت ہے اس لئے وہ کثرت کا خلاف سمجھتے کہ اگر میں ان کا خلاف کروں گا تو یہ سب ملکر مجھے پریشان کریں گے تو اس کا مطلب کیا ہوا ؟ یہی کہ اس نے لوگوں کے خوف و ڈر کو اللہ کے خوف وڈر سے بڑا جانا اور سمجھا حالانکہ یہی وہ گمراہی ہے جس نے آج تک حق پر چلنے والوں کو سب سے زیادہ پریشان کیا اور آج بھی پریشان کر رکھا ہے کہ سارے لوگ ایک کام کرتے ہیں ‘ سارے لوگ اسی طرح سمجھتے ہیں سارے لوگ اسی طرح بیان کرتے چلے آئے ہیں اور یہ آدمی ان سب کے خلاف کام کرتا ہے ‘ سب کے خلاف سمجھتا ہے ، سب کے خلاف بیان کرتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ سارے غلط ہوں اور یہ صحیح ہو حالانکہ یہ نہ کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی حجت ہے ہاں ! دلیل وحجت یہ ہے کہ کتاب وسنت میں وہ بات یا وہ کام موجود نہ ہو جو وہ کر رہا ہے اگر کتاب وسنت کے خلاف نہ ہو بلکہ کتاب وسنت کے خلاف وہ ہو جو سارے کر رہے ہیں اور کرتے آئے ہیں تو حق یہ ہے کہ سارے غلط ثابت ہوں گے اور ان کے مقابلہ میں وہ ایک ہی صحیح قرار دیا جائے گا کیونکہ صحیح اور غلط کو پرکھنے کا آلہ قلت و کثرت نہیں بلکہ کتاب وسنت ہے ، افسوس کہ پہلے بھی یہی ہوتا چلا آ رہا تھا اور اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے کہ حق و باطل کا معیار قلت و کثرت کو سمجھا جاتا ہے اگرچہ زبان سے اقرار بھی کیا جاتا ہے کہ حق وہ ہے جو کتاب وسنت میں ہے اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق ہے ، لیکن جب وقت آتا ہے تو کیا وہی جاتا ہے ، جو وقت کارواج اور برادری وخاندان کی ریت ہوتی ہے ۔ وہ کیوں نہیں سمجھتے اس لئے کہ وہ کان اور آنکھ سے وہ کام نہیں لیتے جو لینا چاہئے : 61۔ جو بات بالکل سیدھی اور صاف ہے اس کے سمجھنے سے وہ قاصر ہیں ‘ کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ وہ قانون الہی کی زد میں ہیں اس لئے کہ جو کام ان کو دلوں سے لینا چاہئے وہ دلوں سے اور جو کام کانوں سے لینا چاہئے وہ کانوں سے لینے کے لئے تیار نہیں اس لئے جب کوئی شخص غیر فطری کام کرے گا تو اس کا رزلٹ فطرت کے مطابق کیسے ہو سکتا ہے اور جو اعضاء جس مقصد کے لئے بنائے گئے ہیں اگر وہ کام ان سے نہ لیا جائے تو دوسرا کام دینے کے لئے وہ تیار نہیں اور اگر کوئی لینے کی کوشش بھی کرے گا تو سوائے وقت ضائع کرنے کے اس کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا چاہے ایسا کرنے والا ایک ہو یا ایک ہزار۔ قلت و کثرت اس راہ میں کام نہیں دیتی ، فرمایا جب انہوں نے سیدھی بات نہ ماننے اور سیدھا کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو تو وہ بات ان کے دلوں میں کیسے بٹھائی جاسکتی ہے ، جس کے لئے وہ دلوں کو استعمال ہی نہ کریں کانوں تک وہ کیسے پہنچائی جاسکتی ہے جس لئے وہ کان ہی نہ کھولیں ، یاد رہے کہ جو بات سن کر ان سنی کردی جائے اور پھر سمجھ کر اس کو نہ کرنے کا تہیہ کرلیا جائے ممکن نہیں کہ دل خود بخود ہی اس کو سرانجام دینے لگے ، اس طرح جو کان سن کر ان سنی کر دے اس سننے کو سننا نہیں کہا جاسکتا اس لئے فرمایا کہ اگر آپ انکو ہدایت کی طرف دعوت دیں تو بھی وہ اس دعوت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور جب وہ خود تیار نہیں تو دعوت اٹھ کر ان کی گود میں جانے سے رہی کیونکہ جو ئندہ ہی یا بندہ ہوتا ہے یہ قانون الہی ہے اور وہ رب العزت والا کرام ذات کسی کو بزور ہدایت دینے کے لئے تیار نہیں کیونکہ یہ بات اس کے قانون کے خلاف ہے ، معلوم ہوا کہ دلوں پر پردے ابتداء نہیں بلکہ بطور سزا ڈالے جاتے ہیں جو شخص ہدایت سے روگردانی کرتا اور بدکاریوں کی طرف دوڑتا ہے اور جو اس کے ہاتھ کرتے ہیں اس کو ساتھ ہی ساتھ بھولتا چلا جاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں اس کا دل سیاہ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور حق کو وہ قبول نہیں کرتا اور یہی حال تھا ان لوگوں کو جو اس وقت نبی کریم ﷺ کے مخاطب تھے ۔
Top