Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 5
مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِهِمْ١ؕ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ؕ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا
مَا : نہیں لَهُمْ بِهٖ : ان کو اس کا مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم وَّلَا : اور نہ لِاٰبَآئِهِمْ : ان کے باپ دادا كَبُرَتْ : بڑی ہے كَلِمَةً : بات تَخْرُجُ : نکلتی ہے مِنْ : سے اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ (جمع) اِنْ : نہیں يَّقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِلَّا : مگر كَذِبًا : جھوٹ
اس بارے میں انہیں کوئی علم نہیں نہ ان کے باپ دادوں کے پاس کوئی علم تھا کیسی سخت بات ہے جو ان کی زبانوں سے نکلتی ہے (اللہ کی اولاد قرار دے کر) یہ کچھ نہیں کہتے مگر سرتاسر جھوٹ
لوگوں میں کتنے ہیں جو اپنے مذہب کی بنیاد علم کی بجائے باپ دادا کی پیروی پر رکھتے ہیں : 5۔ غور کرو کہ لوگوں کو اس جاہلیت سے ٹوکا گیا تھا کہ وہ اپنے مذہب کی بنا علم کی بجائے قیاس پر رکھتے ہیں اور پھر کسی طرح علمی طریقہ سے یہ تحقیق کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ ہم جس مذہب پر چلے جا رہے ہیں اس کی کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں اور سلسلہ میں عیسائیوں اور بعض دوسرے اہل مذاہب کی اس نادانی پر ٹوکا گیا ہے کہ انہوں نے محض گمان سے کسی کو خدا کا بیٹا ٹھہرا لیا ہے ، جو بات زیر نظر آیت میں بیان کی گئی ہے وہی سورة یونس میں بھی بیان ہوئی جیسا کہ فرمایا ” لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ، سبحان اللہ ! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملک ہے تمہارے پاس اس قول کی آخر دلیل کیا ہے ؟ (آیت) ” ان عندکم من سلطن بھذا “۔ کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہیں جو تمہارے علم میں نہیں ہیں ؟ “۔ (یونس 10 : 69) ان کے اس قول کی تردید میں اس جگہ تین باتیں کہی گئی ہیں (1) اللہ بےعیب ہے ۔ (2) ۔ وہ بےنیاز ہے ۔ (3) آسمانوں و زمین کی ساری موجودات اس کی ملک ہیں ۔ یہ مختصر جوابات تھوڑی سی تشریح سے بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ بیٹا یا تو صلبی ہوگا یا متبنی ۔ اگر یہ لوگ خدا کا بیٹا صلبی معنوں میں قرار دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو وہ اس حیوان پر قیاس کرتے ہیں جو شخصی حیثیت سے فانی ہوتا ہے اور جس کے وجود کا تسلسل بغیر اس کے قائم نہیں ہو سکتا کہ اس کی کوئی جنس ہو اور پھر اس جنس سے کوئی اس کا جوڑا بھی ہو اور ان دونوں کے صنفی تعلق سے اس کی اولاد ہو جس کے ذریعہ سے اس کا نوعی وجود اور اس کا کام باقی رہے اور اگر یہ لوگ اس معنی میں خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو متبنی بنایا ہے تو یہ بھی دو حال سے خالی نہیں یا تو انہوں نے خدا کو اس انسان پر قیاس کیا ہے جو لاولد ہونے کی وجہ سے اپنی جنس کے کسی فرد کو اس لئے بیٹا بناتا ہے کہ وہ اس کا وارث ہو اور اس نقصان کی جو اسے بےاولاد رہ جانے کی وجہ سے پہنچ رہ ہے برائے نام ہی سہی کچھ تو تلافی کردے یا پھر ان کا گمان یہ ہے کہ خدا بھی انسان کی طرح جذباتی میلانات رکھتا ہے اور اپنے بیشمار بندوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کا کچھ ایسی محبت ہوگئی ہے کہ اس نے اس کو بیٹا بنا لیا ہے ۔ اب ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو بہرحال اس عقیدے کے بنیادی تصورات خدا پر بہت سے عیوب بہت سی کمزوریاں بہت سے نقائص سی احتیاجوں کی تہمت لگی ہوئی ہے ، اس بنا پر پہلے فقرے میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب ‘ نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جو تم اس کی طرف منسوب کر رہے ہو ، دوسرے فقرے میں ارشاد ہوا کہ وہ ان حاجتوں سے بھی بےنیاز ہے جس کی وجہ سے فانی انسانوں کو اولاد کی یا بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور تیسرے فقرے میں صاف صاف کہہ دیا گیا کہ زمین و آسمان میں سب اللہ کے بندے اور اس کے مملوک ہیں ان میں سے کسی کے ساتھ بھی اللہ کا کوئی ایسا مخصوص ذاتی تعلق نہیں ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسے وہ اپنے بیٹا یا اکلوتا یا ولی عہد قرار دے لے ۔ صفات کی بنا پر بلاشبہ اللہ بعض بندوں کو بعض کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتا ہے مگر اس محبت کے یہ معنی ہیں ہیں کہ کسی بندے کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی کا مقام دیدے ، زیادہ سے زیادہ اس محبت کا تقاضا بس وہ ہے جو اس آیت میں بیان کردیا کہ ” جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی اختیار کیا ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ‘ دنیا اور آخرت دونوں میں ان کے لئے بشارت ہی بشارت ہے ۔ “ (یونس 10 : 62 ، 63) غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ آج بھی دوسری قوموں کی جو حالت ہے وہ ہے ہی خود مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ جو کچھ مذہب کے طور پر مانتے اور تسلیم کرتے ہیں اس میں کثیر حصہ انہیں ادہام اور قیاسات اور باپ دادا کے رسم و رواج کا ہے جن کی بنیاد علم پر یقینا نہیں ، پھر تعجب یہ ہے کہ وہ گزشتہ گمراہیوں کو تو گمراہیاں مانتے اور تسلیم کرتے ہیں لیکن جو گمراہیان انہوں نے خود اختیار کر رکھی ہیں یا ان کے باپ دادوں سے آئی ہیں ان پر دھیان دینے کے لئے کبھی تیار نہیں بلکہ الٹا ان لوگوں پر لعن طعن کرتے ہیں جو ان کی گمراہیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ علم وفکر سے کام لینے کی توفیق دے اور ان وہمی اور قیاسی مفروضوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
Top