Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 7
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا
اِنَّا : بیشک ہم جَعَلْنَا : ہم نے بنایا مَا : جو عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر زِيْنَةً : زینت لَّهَا : اس کے لیے لِنَبْلُوَهُمْ : تاکہ ہم انہیں آزمائیں اَيُّهُمْ : کون ان میں سے اَحْسَنُ : بہتر عَمَلًا : عمل میں
رُوئے زمین پر جو کچھ بھی ہے اسے ہم نے زمین کی خوشنمائی کا موجب بنایا ہے اور اس لیے بنایا ہے کہ لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں ، کون ایسا ہے جس کے کام سب سے زیادہ اچھے ہوتے ہیں
زمین میں جو کچھ ہے ان کی آزمائش کے لئے ہے تاکہ اچھے برے کی تمیز ہوجائے : 7۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے یہ سورت مکی ہے بلکہ مکی عہد کی آخری سورتوں میں سے ایک ہے یہ وہ وقت تھا کہ منکروں کی سرکشی انتہائی حد تک پہنچ چکی تھی اور پیغمبر اسلام کا قلب مبارک لوگوں کی شقاوت و محرومی کے غم سے بڑا ہی دل گیر ہو رہا تھا ، ان کے جوش دعوت واصلاح کا یہ حال تھا کہ چاہتے تھے ہدایت گھونٹ بنا کر ان کو پلا دیں اور منکروں کا یہ حال تھا کہ سیدھی سے سدھی بات بھی ان کے دلوں کو نہیں پکڑتی تھی ، انبیائے کرام ہدایت واصلاح کے صرف طالب ہی نہیں ہوتے عاشق ہوتے ہیں انسان کی گمراہی ان کے دلوں کا ناسور ہوتی ہے اور انسان کی ہدایت کا جوش ان کے دل کے ایک ایک ریشہ کا عشق ‘ اس سے بڑھ کر ان کے لئے کوئی غم گینی نہیں ہو سکتی کہ ایک انسان سچائی سے منہ موڑے ، اس سے بڑھ کر ان کے لئے کوئی شادمانی نہیں ہو سکتی کہ ایک گمراہ قوم راہ راست پر آجائے ، قرآن کریم میں اس صورت حال کی بار بار مثالیں ملتی ہیں گزشتہ آیتوں میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی گمراہی عجب نہیں کہ تجھے شدت غم سے بےحال کر دے لیکن جو گمراہی میں ڈوب چکے ہیں وہ کبھی اچھلنے والے نہیں اور زیر نظر آیت میں واضح کردیا کہ قانون الہی اس بارے میں ایسا ہی واقع ہوا ہے یہ دنیا آزمائش گاہ عمل ہے یہاں جو چیز کار آمد نہیں ہوتی چھانٹ دی جاتی ہے پس جن لوگوں نے اپنی ہستی خراب کردی ہے ضروری ہے کہ وہ چھانٹ دیئے جائیں ان کی محرومی پر غم کرنا لاحاصل ہے ، دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمایا گیا کہ ” وہ ذات جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے ۔ “ گویا دنیا میں انسانوں کے مرنے اور جینے کا یہ سلسلہ اس لئے شروع کیا ہے کہ ان کا امتحان لے اور یہ دیکھے کہ کس انسان کا عمل زیادہ بہتر ہے ، اس مختصر سے فقرے میں بہت سی حقیقتوں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے اول یہ کہ موت اور حیات اس کی طرف سے ہے کوئی دوسرا زندگی بخشنے والا ہے نہ موت دینے والا ، دوسرے یہ کہ انسان جیسی ایک مخلوق جسے نیکی اور بدی کرنے کی قدرت عطا کی گئی ہے اس کی نہ زندگی بےمقصد ہے نہ موت ، خالق نے اسے یہاں امتحان کے لئے پیدا کیا ہے زندگی اس کے لئے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے امتحان کا وقت ختم ہوگیا تیسرے یہ کہ اس امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک کو عمل کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دنیا میں کام کرکے اپنی اچھائی یا برائی کا اظہار کرسکے اور عملا یہ دکھا دے کہ ہو کیسا انسان ہے ؟ چوتھے یہ کہ خالق دراصل اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا برا ؟ اعمال کی اچھائی اور برائی کا معیار تجویز کرنا امتحان دینے والوں کا کام نہیں ہے بلکہ امتحان لینے والے کا کام ہے لہذا جو بھی امتحان میں کامیاب ہونا چاہے اسے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ممتحن کے نزدیک حسن عمل کیا ہے ؟ پانچواں نکتہ خود امتحان کے مفہوم میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ جس شخص کا جیسا عمل ہوگا اس کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی کیونکہ اگر جزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے ۔
Top