Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 160
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِكَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو تَابُوْا : جنہوں نے توبہ کی وَاَصْلَحُوْا : اور اصلاح کی وَبَيَّنُوْا : اور واضح کیا فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ ہیں اَتُوْبُ : میں معاف کرتا ہوں عَلَيْهِمْ : انہیں وَاَنَا : اور میں التَّوَّابُ : معاف کرنے والا الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
مگر ہاں ! جن لوگوں نے توبہ کرلی اور اپنی بگڑی ہوئی حالت سنوار لی اور ان کو بیان کرنے کا شیوہ اختیار کرلیا تو ایسے ہی لوگ ہیں جن کی توبہ ہم قبول کرلیتے ہیں اور ہم بڑے ہی درگذر کرنے والے بخش دینے والے ہیں
فساد کی اصلاح کریں جو چھپایا ہے ظاہر کردیں تو یہ ان کی تو بہ ہوگی : 284: توبہ کرنے سے مراد ہے باز آنا۔ نادم ہونا اور عزم و ارادہ کو ترک کرکے فساد کی اصلاح کرلینا اپنی آسمانی کتابوں کے ان مضامین کو جنہیں وہ اب تک چھپاتے رہے تھے ظاہر کردینا یعنی وہ پیشگوئیاں جو رسول عربی ﷺ کے متعلق ان کی آسمانی کتابوں میں موجود ہیں اور وہ جان بوجھ کر ان کو چھپائے ہوئے ہیں ان کو ظاہر کردیں تو یقیناً تلافی ہوجائے گی ۔ اور یہ تائبین لعنت الٰہی کی زد سے نکل جائیں گے بلکہ رحمت ومغفرت الٰہی کے ماتحت بھی آجائیں گے۔ توبہ اور قبول توبہ کا بیان قرآن کریم میں بار بار آتا رہتا ہے ۔ اس جگہ توبہ کے ساتھ قید کی اصلاح اور تبیین کی لگی ہوئی ہے یعنی جو فساد پھیلا تھا اس کی اصلاح اور جو چھپایا تھا اس کا اظہار۔ مطلب یہ ہے کہ جن گناہوں سے صرف حقوق اللہ کی خلاف ورزی ہوتی ہے مثلاً نماز ، روزہ کا ترک اس کے لئے محض توبہ و استغفار کافی ہے کہ اس کا تعلق صفات و رحمانیت سے ہے لیکن جن گناہوں سے بندوں کی حق تلفی لازم آتی ہے مثلاً قتل ، چوری ، بدامنی ، سود خوری عقائد باطلہ کا اعلان ان کے لئے ضروری ہے کہ ہر متعین معصیت کے ضرر کا عملی تدراک بھی بقدر امکان کرلے جب توبہ قبول ہوگی کہ یہاں واسطہ حق تعالیٰ کی صفت عدل سے ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص کفر و بدعت کی طرف لوگوں کو بلانے والا ہو وہ بھی جب سچے دل سے توبہ کرلے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلے تو اس کی توبہ بھی قبول ہوجاتی ہے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ توبہ ، توبہ کرنے سے توبہ نہیں ہوتی بلکہ توبہ نام ہے غلط کاموں کے چھوڑدینے کا۔ فساد کو اصلاح سے بدل دینے کا۔ برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کا۔ قرآن کریم کا بار بار توبہ پر زور دینا ایک طرف ان گمراہ قوموں کے مقابلہ میں ہے جو سمجھتے ہیں کہ قانون مکافات عمل جس کو اردو زبان میں ” کرم “ کہتے ہیں ہر حال اور ہر صورت میں اپنا عمل کر کے رہتا ہے اور کوئی الٰہی قوت اس پر غالب نہیں آسکتی اور دوسری طرف ان گمراہ قوموں کے مقابلہ میں جو سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صفت رحیمی کا اظہار پوری طرح کر ہی نہیں سکتا اور اس کی صفت عدل کے تقاضا کو پورا کرنے اور گنہگاروں کو معافی دلانے کے لئے کسی کفارہ کا وجود لازمی ہے جس طرح مسیحیوں کے لئے ان کے عقیدہ میں عیسیٰ (علیہ السلام) کفارہ ہوئے۔
Top