Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب سَاَلَكَ : آپ سے پوچھیں عِبَادِيْ : میرے بندے عَنِّىْ : میرے متعلق فَاِنِّىْ : تو میں قَرِيْبٌ : قریب اُجِيْبُ : میں قبول کرتا ہوں دَعْوَةَ : دعا الدَّاعِ : پکارنے والا اِذَا : جب دَعَانِ : مجھ سے مانگے ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پس چاہیے حکم مانیں لِيْ : میرا وَلْيُؤْمِنُوْا : اور ایمان لائیں بِيْ : مجھ پر لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْشُدُوْنَ : وہ ہدایت پائیں
اور جب میرے بندے میری نسبت تم سے دریافت کریں انہیں کہہ دو کہ میں تو ان کے پاس ہوں وہ جب پکارتے ہیں تو میں ان کی پکار سنتا ہوں اور اسے قبول بھی کرتا ہوں ، پس ان کو چاہیے کہ وہ میری پکار کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ حصول مقصد میں کامیاب و کامران ہوں
اللہ ” بندے “ کے اتنا قریب ہے کہ ” بندہ “ اتنا اپنے قریب بھی نہیں : 316: اسلام سے پہلے قوموں نے بھی اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقرار تو کیا لیکن ذات باری کو انسان سے معنوی لحاظ سے بھی اس قدر دور رکھا کہ گویا انسان اللہ کا تصور بھی نہیں کرسکتا جب تک مادی شکل و صورت وہ اختیار نہ کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے اپنے اللہ کو پانے کے لئے واسطوں اور وسیلوں کی شکل اختیار کی پھر اپنے اپنے خیال کے مطابق کسی نے بت اور مورتیاں بنائیں اور کسی نے سورج ، چاند اور ستاروں کی شکل میں اپنے اللہ کو دیکھنے کی کوشش کی۔ اسلام نے ان سب کو مخاطب کر کے کہا کہ یاد رکھو اللہ ظاہری شکل و صورت میں نظر آئے یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ اللہ نہ کوئی مادی شے ہے اور نہ ہی وہ نظر آسکتا ہے بلکہ جوا للہ کو نظر سے دیکھنا چاہے وہ سب سے زیادہ ظالم ہے کہ ایک ناممکن ہی نہیں بلکہ ممتنع چیز کو ممکن کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو کبھی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اللہ کو کوئی ظاہری آنکھ دیکھ ہی نہیں سکتی اور ایسی کوئی شکل و صورت تصور کرنا جس میں اللہ نظر آئے یہی شرک کرنا ہے۔ اللہ کو صرف معنوی شکل ہی میں دیکھا جاسکتا ہے اور اس کے لئے دور جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ انسان اپنے ہی اندر سے دیکھ سکتا بلکہ اس دیکھنے کے لئے تو ظاہری آنکھ کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ظاہری آنکھ سے تو اللہ دیکھاجا ہی نہیں سکتا اور معنوی لحاظ سے اللہ انسان کے اتنا قریب ہے کہ اتنا قریب انسان اپنی ذات کے بھی نہیں اور ظاہر ہے کہ یہ قرب مادی یا مکانی تو مراد ہو ہی نہیں سکتا اور پھر یہ کہ حق تعالیٰ کا یہ قرب اپنے بندوں سے تو ہمیشہ ہی رہتا ہے لیکن ماہ رمضان میں یہ قرب اور مخصوص صورت اختیار کرلیتا ہے اور یہ قرب ہے جس کو تعلق خاص کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ کا قرب نصیب ہونے سے مراد ہے کہ اللہ سے تعلق خاص قائم ہوجائے۔ آپ بھی غور کریں کہ بندہ کی تسکین اور تسلی کا کس قدر سامان اس آیت کے اندر موجود ہے۔ ہمیں اپنے اللہ کو ڈھونڈنے کہیں اور نہیں جانا ہے وہ تو ہم سے قریب ہے کہ ہم سے متصل ہی ہے۔ گویا اللہ اور بندے کے درمیان فاصلہ موجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی فاصلہ ہو سکتا ہے۔ مزید غور کریں کہ آیت کے اندر متکلم کی ساری ضمیریں آیت میں بجائے جمع کے واحد ہیں یعنی عنی ، انی ، اجیب ، دعان ، دونوں صیغوں کا عموی فرق ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کیونکہ صیغہ جمع اکثر قدرت ، عظمت اور قوت کا مظہر اور واحد اس کے برعکس التفات اور اختصاص و توجہ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ پھر یہاں توجہ اور التفات ہی کی طرف اشارہ بھی ہونا چاہئے۔ آیت کے الفاظ سے دعا کی ترغیب بھی نکل آئی اور اشارہ اس جانب بھی ہوگیا کہ دعا بندہ کا کوئی سراسر خودغرضانہ اور دنیوی عمل نہیں بلکہ عین عبادت اور موجب تقرب الٰہی ہے اور ایک حدیث مبارک میں بھی یہ مضمون آیا ہے کہ جس کے لئے دعا کا دروازہ کھل جاتا ہے یعنی دعا کی توفیق ہوجاتی ہے اس کے لئے گویا رحمت ہی کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہوتا ہے : وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ 1ۖۚ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ 0016 ” اور یقینا انسان کو ہم نے پیدا کیا ہے اس کے دل میں پیدا ہونے والے وساوس تک کو ہم جانتے ہیں اور ہم اس کی گردن رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ “ اور ایک جگہ ارشاد ہوا کہ : فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ0083 وَ اَنْتُمْ حِیْنَىِٕذٍ تَنْظُرُوْنَۙ0084 وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ 0085 ” سو جب جان حلقوم تک پہنچ جاتی ہے اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم اس مرنے “ والے کے تم سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تمہی نظر نہیں آتے۔ “ دین اسلام کی روح حقیقی یہی ہے کہ انسان سے کٹ کر صرف ایک اللہ کا ہو رہے۔ اس سے اپنی ہر مراد مانگے اور اسی کے آگے دست سوال دراز کرے۔ اس کی زندگی و موت اور اس کا اقدام ادبار یعنی آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا اس کی عبادت اور قربانی سب اسی کے لئے ہو۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ00162 لَا شَرِیْكَ لَهٗ 1ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ 00163 (الانعام 6 : 163 ، 164) ” اے پیغمبر اسلام ! کہہ دو میری نماز ، میرا حج ، میرا مرنا سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلموں میں پہلا فرمانبردار ہوں۔ “ ایام رمضان میں روزوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ چونکہ ان ایام میں قرب الٰہی کی راہیں کھل جاتی ہیں اس لئے تم خدائے واحد سے دعا کرو کیونکہ بہت نور والی رات ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا اور یہ نہایت ہی برکت والی رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا فرمایا اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص ہے کہ وہی سب سے بڑھ کر سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ ایک حدیث شریف کا مضمون اس طرح ہے کہ ” ہر شب کے آخری ثلث میں الٰہ العالمین آسمان دنیا پر نزول اجلال فرما کر اعلان کرتا ہے کہ کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کی دعا کو استجابت بخشوں ، سوال کرنے والا ہے کہ اس کی نوازش کروں اور طلب مغفرت کے لئے کوئی مضطرب روح ہے کہ اس کو تسکین دوں۔ تمام مذاہب وادیان کی اصل اساس یہی دعا ہے ہر ملک اور ہر زمانہ کے نیک لوگوں اور راست باز انسانوں نے اپنے مقاصد مہمہ محض اس دعا کی بدولت حاصل کئے ہیں ۔ جب تمام ظاہری اسباب و وسائل ناکام رہے تو اس وقت بھی دعانے گرہ کشائی کی اور ان کی تمام تکالیف و مصائب دور ہوگئیں ۔ انبیائے کرام کی کامیابی کا راز بھی اس دعا ہی میں پنہاں تھا۔ اسی لئے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ : ” الدعاء مخ العبادۃ “ دعا حاصل عبادت ہے اور عصارہ بندگی ہے اور ایک جگہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ : ” الدعاھو العبادۃ “ دعا ہی دراصل عبادت ہے مگر اس کے متعلق حسب ذیل امور کا پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ (ب) ہم اللہ تعالیٰ کو حاکم علی الاطلاق تسلیم کر کے دعا مانگتے ہیں اس لئے ضروری نہیں کہ ہر دعا قبول ہو کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ اس دعا کی قبولیت ہمارے حق میں مضر ہو۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا : بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ (الانعام 6 : 41) ” نہیں بلکہ اس کو پکارو اور اگر چاہے گا تو تمہاری مصیبت دور فرما دے گا۔ “ ایک دوسری حدیث میں اس طرح ہے کہ ” اللہ تعالیٰ اس درجہ باحیاء اور کریم ہے کہ وہ کسی دعا کرنے والے کو خالی ہاتھوں واپس نہیں کرنا چاہتا مگر قبولیت دعا کے لئے یہ شرط یہ ہے کہ قلب غافل اور دل بےپروانہ ہو۔ “ ترمذی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ ” اللہ تعالیٰ سے پورے یقین و ایمان کے ساتھ دعا مانگو ! وہ یقینا اس کو قبول فرمائے گا اور اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بےدلی اور بےرغبتی سے مانگی گئی دعاؤں کو کبھی قبول نہیں فرماتا۔ “ اور یہ بھی فرمایا کہ ” دعا مانگنے والے کو مانگتے ہی رہنا چاہئے اور یہ نہ کہنا چاہئے کہ میری تو دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ “ اس لئے کہ دعا کو قبول کرنے والا جانتا ہے کہ یہ دعا اس کے حق میں اچھی ہے یا نہیں ؟ (ج) بعض دعاؤں کے قبول نہ ہونے کی وجہ سے کہنا غلط ہے کہ دعا کا کوئی فائدہ نہیں۔ دیکھو ! ہم حالت مرض میں دوا استعمال کرتے ہیں بسا اوقات دوا مفید نہیں ہوتی مگر علاج ترک نہیں کرتے۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ دعا قبول نہ ہونے پر اس کو ترک کردیا جائے۔ بلکہ ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا کہ ہے کہ جو شخص اللہ سے دعا نہیں مانگتا اللہ اس پر غصہ ہوتا ہے۔ (ترمذی ، عن ابی ہریرۃ ؓ د۔ اگر ہم کسی کو بتانا چاہیں کہ کھیتی کس طرح ہوتی ہے ؟ اور پودے کس طرح پھل دیتے ہیں ؟ تو اس کو مخصوص موسم ہی میں دکھائیں گے اسی طرح دعا کے بھی آداب و مراسم اور خاص مواقع ہیں جن میں اس کو شرف اجابت بخشا جاتا ہے۔ گذشتہ ذکر میں بھی بعض شرطوں کا تذکرہ کیا گیا تھا اس ذیل میں ایک حدیث بھی سن لیجئے ! رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (من سرہ ان یستجیب اللہ لہ عند الشدائد والکرب فلیکثر الدعاء فی الرخاء ) ” جو شخص تکالیف ومصائب کے وقت اجابت دعا کا آرزو مند ہے وہ فراخی و فارغ البالی کے ایام میں بھی خوب دعا کرے۔ “ اس آیت کے آخری ٹکڑے نے یہ بات واضح کردی کہ ہمارے قانون کی کامل فرمانبرداری کرو گے تو دعا ضرور قبول ہو کر رہے گی۔ پس اگر واقعی میری طلب رکھتے ہیں تو چاہئے کہ میری پکار کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ حصول مقصد میں کامیاب ہوں۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ 00186
Top