Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور ایسا نہ ہو کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھاؤ اور نہ ایسا ہو کہ مال و دولت کو حاکموں کے دلوں تک پہنچنے کا ذریعہ بناؤ تاکہ دوسروں کے مالوں کا کوئی حصہ ناحق حاصل کرلو اور تم جانتے ہو
ناجائز طریقوں سے ایک دوسرے کا مال مت کھاؤ : 323: قانون بنانے کے دو ہی مقصد ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ جھگڑے کثرت سے ہوں۔ عدالت کو مداخلت کا موقع ملے اور حکومت کی جانب فیصلے لے جانے کے لئے لوگ مجبور ہوں۔ اس سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ فریب کا دروازہ کھل جائے ، کذب آفرینی میں ترقی ہو اور جھوٹے مقدمات سے عدالت کو فرصت ہی نہ ملے غیراسلامی قانون خواہ کہیں نافذ ہو اور کسی نے بنایا ہو حقیقت اس کے بنانے سے یہی ہے مشاہدہ کرنے کے لئے لئے دور نہ جاؤ خود اپنے ملک کے اندر دیکھ لو عدلیہ کا کاروبار کیا ہے اور انتظامیہ کیا کررہی ہے ؟ دوسری صورت یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو لوگوں میں جھگڑے کم ہوں۔ اس کے لئے بہترین صورت یہ ہے کہ پہلے قوم کے اندر صحیح کیر کڑ پیدا کیا جائے۔ ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور احتساب عمل کا خوف دل میں ہو۔ اس صورت میں ہر معاملہ کا فیصلہ ان کی دیانت اور امانت پر چھوڑ دیا جائے۔ حکومت کو صرف خاص خاص حالتوں میں مداخلت کرنے کی ضرورت محسوس ہو۔ قرآن کریم یہی چاہتا ہے اور اس کا قانون یہی مقصد عظمیٰ پیش نظر رکھتا ہے اور اس گئے گزرے دور میں بھی اچھی طرح دیکھ لو کہ جہاں قرآن کریم کا قانون نافذ ہے وہاں جھگڑے اور دوسرے باقی قضیے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں قرآن کریم کے قانون کی کوئی یا کسی حد تک صورت باقی ہے تو وہ صرف سعودیہ ہی ہے اور پوری دنیا کے مقابلہ میں آج بھی جرائم اور دوسرے ہر قسم کے جھگڑے دوسری دنیا کے مقابلہ میں وہیں کم ہیں۔ اس آیت میں قرآن کریم نے دراصل تمام ان مباحث اور فقہی مسائل کو بیان کردیا ، جو کتب فقہ کے صدہا اوراق میں بھی نہ سما سکے۔ قرآن کریم نے روزوں کو فرض کیا کہ اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے وہ حلال چیزوں کو ترک کرنے کی اپنے اندر عادت پیدا کریں تاکہ آئندہ ناجائز طریق سے حاصل کیا ہوا مال ان کے نزدیک حرام ہو اور اس سے پرہیز کریں۔ ” لَا تَاْكُلُوْۤا “ اکل سے ہے اور اکل یہاں لفظی معنی میں نہیں یعنی اس سے صرف کھانا مراد نہیں بلکہ کسی طرح بھی اپنے تصرف میں لے آنا مراد ہے ۔ اردو محاورہ میں بھی ایسے موقع پر بولتے ہیں کہ فلاں صاحب روپیہ کھا گئے ۔ انہوں نے مکان تک کھالیا ۔ گھر کا جتنا زیور اور زمینیں وغیرہ تھیں سب ہضم کر گئے۔ اس طرح محاورہ کی صورت میں دو مختصر لفظوں میں تقویٰ مال کی ساری تعلیم آگئی۔ ہر خیانت سے احتیاط کی تاکید اور ہر قسم کی امانت و دیانت کا حکم۔ پھر اکل باطل کی تمام صورتوں سے پرہیز جس میں قمار ، غصب ، حق تلفی ، کم تولنا ، کم ماپنا ، لوگوں کی اشیاء میں کھوٹ ملانا سب داخل ہوگئے۔ وہ مال جو مالک سے بغیر اس کی خوشدلی کے حاصل کیا جائے یا مالک اگر خوشدلی سے دے رہا ہو لیکن خود شریعت نے اس مد کو ناجائز قرار دیا ہو۔ اَمْوَالَكُمْ “ خطاب تمام مسلمانوں سے ہے اور حکم کے مخاطب تمام افراد امت ہیں جس کا اصل مفہوم ” اپنا مال “ سے نہیں بلکہ ” ایک دوسرے کا مال “ سے ظاہر ہوگا۔ ” بَیْنَكُمْ “ کے دائرہ کی وسعت میں ساری نسلآدم آگئی اور صرف مسلمانوں کے مال تک حکم محدود نہ رکھا۔ مسلم یا کافر کسی کا بھی مال دغا ، فریب اور ظلم وغیرہ سے لینا جائز نہ رہاصرف کافر حربی کے مال پر تصرف و تسلط جائز ہے وہ بھی جنگ کی حالت میں یعنی جب اعلان جنگ ہوچکا ہو اور وہ بھی خاص خاص قیود کے ساتھ۔ رشوت ، جعلسازی اور خیانت کافر حربی کے معاملات میں بھی درست نہیں ہے۔ دنیا کی کوئی عدالت بہتر ہو اور کوئی حاکم عادل سے عادل ہوبہر حال دنیوی فیصلے علم غیب کی بنا پر نہیں روئداد مقدمہ ہی کی بناء پر صادر ہوں گے اور پھر ان میں غلطی ، لغزش ، ناانصافی ، دھوکے کا احتمال ہر وقت ہے۔ آیت اسی حقیقت کی طرف توجہ دلا رہی ہے کہ جو حق ہے وہ عند اللہ حق ہی رہے گا اور جو ناحق ہے وہ اللہ کے ہاں ناحق ہی میں شمار ہوگا اگرچہ حکام کا فیصلہ اس کے برعکس ہی ہو۔ قاضی کے فیصلے حق کو ناحق اور ناحق کو حق نہیں بنا سکتے۔ اصل شے انسان کی توجہ ولحاظ کے قابل خود اس کا ضمیر اور تقویٰ ہے۔ حدیث میں اس مضمون کی صراحت بہت زور کے ساتھ آچکی ہے اور مفسرین نے بھی اس کو خوب صاف کردیا ہے۔ بلکہ جو لوگ اپنی چرب زبانی سے ، سخن سازی سے ، اپنے ” اثر “ و ” پیروی “ سے جھوٹ مقدمات جیت جائیں انہیں اور زیادہ ڈرنا چاہئے کہ ان پر علاوہ دوسرے جرائم کے فریق ثانی کی حق تلفی کا ایک مزید جرم حاکم عدالت کو فریب میں مبتلا کرنے کا بھی عائد ہوتا ہے۔ ” تُدْلُوْا بِهَاۤ “ تدلوا۔ ادلاء کے معنی کنوئیں میں ڈول ڈالنے اور پھر مجازاً کسی چیز کو کہیں پہنچانے یا اسے ذریعہ یا وسیلہ بنانے کے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ مال کو حاکم تک پہنچا کر اپنی رسائی اور اثر و رسوخ پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بناؤ اور رشوت وغیرہ مالی تحفہ وتحائف سے حاکم پر اثر نہ ڈالو۔ اسلامی حکومت قائم ہونا اور اسلام کے سارے قانون دیوانی وفوجداری کا نافذ کرنا تو خیر بڑی چیز ہے قرآن کریم کی صرف اس آیت پر اگر آج عمل درآمد ہوجائے تو جھوٹے وعدوں ، جعلی دستاویزوں ، جھوٹی گواہیوں ، جھوٹے حلف ناموں ، اہل کاروں اور عہدہ داروں کی رشوتوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حکام کی خدمات میں نذرانوں اور شاندار دعوتوں کا وجود کہیں باقی نہ رہ جائے۔ ” بِالْاِثْمِ “ گناہ کا لفظ عام ہے۔ ہر قسم کے معصیتیں جو عدالتی کارروائیوں اور انتظامی معاملات کے سلسلہ میں کام میں لائی جاتی ہیں اس کے تحت آجاتی ہیں اور فریقاً کے معنی اس جگہ پارٹی یا گروہ کے نہیں بلکہ حصہ یا جزو کے معنی ہیں۔ یعنی مال کا ایک حصہ یا ایک جزو۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے اپنے حجرہ کے دروازہ کے قریب لوگوں کو جھگڑتے سنا ، تو آپ ﷺ باہر تشریف لے گئے اور فرمایا ” میرے پاس مقدمہ آتا ہے ، مدعی اپنی چرب زبانی سے دعویٰ ثابت کردیتا ہے ، حالانکہ حق دوسری جانب ہوتا ہے ۔ میں اس بیان کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ نافذ کردیتا ہوں ۔ مگر وہ یہ سمجھ لے کہ ایک مسلمان کا مال ناجائز طریق سے لینا آگ کو لینا ہے ” فانماھی قطعۃ من النار “ اب وہ آزاد ہے اسے قبول کرے یا چھوڑ دے۔ چلتے چلتے ایمانداری کے ساتھ ذرا غور کرلو کہ ان آیات کو اگر مرنے والوں کے سرہانے بیٹھ کر پڑھا جائے یا تیسرے اور ساتویں کی رسموں پر ان کو مذہبی مجالس یا سیاسی مجالس کی زینت یا برکت کے لئے تلاوت کیا جائے یا عدالتوں میں ان کے قطعات لکھوا کر آویزاں کئے جائیں آخر ان ساری چیزوں کا کوئی فائدہ ؟ جب کہ زندہ لوگوں نے ان آیات کی روشنی میں اپنے آپ کو درست نہ کیا تو پھر جھوم جھوم کر پڑھنے کا اجر کیا ؟
Top