Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 193
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ
وَقٰتِلُوْھُمْ : اور تم ان سے لڑو حَتّٰى : یہانتک کہ لَا تَكُوْنَ : نہ رہے فِتْنَةٌ : کوئی فتنہ وَّيَكُوْنَ : اور ہوجائے الدِّيْنُ : دین لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنِ : پس اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَلَا : تو نہیں عُدْوَانَ : زیادتی اِلَّا : سوائے عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور ان سے لڑائی جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ ہی کیلئے ہوجائے ، پھر اگر ایسا ہو کہ یہ لوگ لڑائی سے باز آجائیں تو تم بھی ہاتھ روک لو مگر انہی لوگوں کے مقابلہ میں جو ظلم کرنے والے ہیں
فتنہ کے خاتمہ تک جنگ جاری رہے گی ، فتنہ ختم ہوگا تو اللہ کا دین جاری ہوگا : 332: ” ان سے لڑائی جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے “ فتنہ کیا ہے ؟ فتنہ یہ ہے کہ اللہ کے دین کو انہوں نے اللہ کا نہیں رہنے دیا۔ اگر اللہ کے دین کو وہ اللہ ہی کا رہنے دیتے تو آخر لڑائی ہی کیوں لڑتے ؟ مسلمانوں کو جو دکھ دیا جاتا ہے اس کا سبب کیا ہے ؟ اس کا سبب صرف ان کا مسلمان ہونا ہے اور مشرکین گویا جنگ اس لئے لڑ رہے ہیں کہ یہ مسلمان ، مسلمان کیوں ہیں ؟ اب فرمایا جا رہا ہے کہ اے مسلمانو ! تم بھی ان مشرکوں سے جنگ لڑو یہاں تک کہ مسلمانوں کو دین اسلام کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے۔ آگے فرمایا : ” وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ 1ؕ“ اور دین صرف اللہ کے لئے ہوجائے۔ یعنی جب دین کے لئے کوئی دکھ دینے والا نہ ہو تو دین اللہ کا ہوگا۔ یعنی اسلام کے نزدیک جنگ کی غرض مذہبی آزادی کا قائم کرنا ہے اور یہی معنی لَاۤ اِكْرَاہَ فِی الدِّیْنِ 1ۙ۫کے ہیں یعنی دین میں کوئی جبر نہ رہے۔ ” دین اللہ کے لئے ہو “ کا مطلب جو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اسلام ہی اسلام ملک میں ہو یہ صحیح نہیں کیونکہ اگر اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ مشرکین سے جنگ جاری رکھو جہاں تک کہ ملک میں اسلام ہی اسلام ہوجائے تو پھر ان آیات کا کیا بنے گا جن سے کفار سے صلح کرلینے کا حکم ہے اور خود نبی کریم ﷺ نے کفار سے صلح کی اور اس وقت تک جنگ جاری نہیں رکھی جب تک اسلام ہی اسلام ہوجائے۔ حدیبیہ کے میدان میں نبی کریم ﷺ نے کفار کی پیش کردہ شرائط پر صلح کی یہاں تک کہ جو کافروں میں سے مسلمان ہو کر آپ ﷺ کے پاس آئے ان کو بھی واپس کردینا منظور فرمایا۔ پھر اہل مکہ کو حالت کفر پر چھوڑ کر معاف کردیا اور اس طرح کی سینکڑوں مثالیں اسلام میں موجود ہیں۔ آپ ذرا غور کریں کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کے پاس مشرکین کے ۔ یہود کے اور نصاریٰ کے وفد آتے رہے حالانکہ اس وقت مشرکین مشرک ہی تھے وہ مسلمان نہیں ہوگئے تھے۔ اس طرح یہود یہود ہی تھے اور نصاریٰ بھی نصاریٰ ہی تھے ۔ یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو اس وقت بھی عرب میں یہود و نصاریٰ موجود تھے۔ اسلام ہی اسلام نہ ہوچکا تھا۔ دراصل دیکھنے میں تو یہ الفاظ کہ ” سارے کا سارا اسلام ہی ہوجائے “ بڑے اچھے محسوس ہوتے ہیں لیکن اس میں دین کے لئے جبر بالکل صاف صاف نظر آتا ہے جو اسلام کا مطمع نظر بالکل نہیں تھا۔ اسلام نے جبر کو کبھی پسند نہیں کیا اور جب تک جبر رہے دین اللہ کا دین نہیں کہلا سکتا یہاں جو لڑائی لڑنے کا حکم دیا جارہا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ دین اللہ کے لئے ہوجائے۔ اس لئے کہ مشرکین نے اللہ کے دین کو اللہ کا نہیں رہنے دیا تھا اگر وہ دین کو اللہ کا رہنے دیتے تو مسلمانوں سے جنگ کیوں کرتے ؟ فرمایا کہ : ” اگر یہ لوگ لڑائی سے باز آجائیں تو تم بھی ہاتھ روک لو۔ “ باز آجانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آجانا نہیں بلکہ فتنہ سے باز آجانا ہے۔ کافر ، مشرک ، دہریئے ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھنا چاہتا ہے رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی بھی نہ کرے۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لئے ہم اسے فہمائش اور نصیحت کریں گے۔ اس کے باطل عقائد کا رد کریں گے اپنے عقیدے کی خوبی بیان کریں گے مگر اس وجہ سے اور پھر صرف اسی وجہ سے اس سے لڑیں گے نہیں۔ لیکن اس کو بھی یہ ہرگز حق نہیں کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کی بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور اللہ کے بندوں کو غیر اللہ کا بندہ بنائے۔ کیونکہ یہی وہ فتنہ ہے اور اس فتنے کو رفع کرنے کے لئے حسب موقع اور حسب امکان تبلیغ سے کام لیا جائے گا اور پھر تبلیغ میں وہ رکاوٹ ہوں گے تو شمشیر سے بھی کام لیا جائے گا اور مؤمن اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کفار اپنے اس فتنے سے باز نہ آجائیں اور پھر یہ فرمایا کہ ” اگر وہ باز آجائیں تو تم بھی ہاتھ روک لو مگر انہی لوگوں کے مقابلہ میں جو ظلم کرنے والے ہیں۔ “ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب نظام حق قائم ہوجائے تو عام لوگوں کو معاف کردیا جائے گا لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہل حق بالکل حق بجانب ہوں گے کہ جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں نظام حق کا راستہ روکنے کے لئے ظلم و ستم کی حد کردی ہو اگرچہ اس معاملے میں بھی عفو و درگزر سے کام لینا ہی صالحین کو زیب دیتا ہے تاہم فتح یاب ہونے کے بعد اگر وہ دیکھیں ان کے جرائم کی فہرست بہت زیادہ طویل ہے تو ان کو سزا دنیا بھی جائز ہے اور اس اجازت سے خود نبی کریم ﷺ نے فائدہ اٹھایا۔ چناچہ جنگ بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن معیط اور نضر بن حارث کو قتل کر ادیا گیا وہ اسی اجازت سے تھا۔ ” وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ 1ؕ“ کا مطلب عبد اللہ بن عمر ؓ سے دریافت کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ : ” اتاہ رجلان فی فتنۃ ابن الزبیر فقالا ان الناس ضعفوا وانت ابن عمرو صاحب النبی۔ فما یمنعک ان تخرج فقال یمنعنی ان اللہ حرم دم اخی فقال الم یقل اللہ فقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ فقال قاتلنا حتی لما تکن فتنۃ و کان الدین للہ وانتم تریدون ان تقاتلوا حتی تکون فتنۃ و یکون الدین لغیر اللہ “ ( بخاری) عبد اللہ بن زبیر کے فتنہ میں دو شخص ابن عمر کے پاس آئے اور کہا کہ لوگوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ آپ عمر ؓ کے صاجزادے ہیں اور رسول اکرم ﷺ کے صحابی ہیں کیوں نہیں نکلتے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے یہ بات منع کرتی ہے کہ اللہ نے میرے بھائی کا خون حرام کردیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کیا اللہ کا یہ حکم نہیں : ” وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ “ ابن عمر ؓ نے کہا ہم نے جنگ کی یہاں تک کہ فتنہ فرو ہوگیا اور دین صرف اللہ کا ہوگیا اور تم اس لئے جنگ کرتے ہو کہ فتنہ پیدا ہو اور دین غیر اللہ کے لئے ہوجائے۔ انہی حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فتنہ کے متعلق یہ بھی بیان فرمایا کہ : ” کان الا سلام قلیلا و کان الرجل یفتتن فی دینہ اما قتلوہ واما یعذبوہ حتی کثر الا سلام فلم تکن فتنۃ “ یعنی جب اسلام کمزور و ناتواں تھا تو دشمنان دین و ملت مسلمانوں کو فنا کرنے کی فکر میں رہتے تھے مگر جب اسے حکومت و سلطنت نوازش کی گئی اور اسے تمکین فی الاض حاصل ہوگئی تو اب کسی مخالف میں اتنی ہمت نہ رہی کہ فرزند ان اسلام کو نچا دکھا سکے اور ان کی راہ ترقی میں رکاوٹ پیدا کرسکے گویا سرزمین عرب میں اسلام کو غلبہ و اقتدار حاصل ہوگیا اور اس کے دشمن ذلیل و رسوا ہوگئے۔ ان دونوں روایات کے ملانے سے اس آیت کے معنی خود بخود صاف ہوتے ہیں کہ تم برابر جنگ کرتے رہو تاآنکہ فتنہ و فساد کے اجزاء عناصر محوو باطل ہوجائیں کلمۃ اللہ اور قانون الٰہی بلندو برتر ہو کسی شخص کو خدائی قانون کی خلاف ورزی کی طاقت نہ ہو اور اگر کوئی شخص اس کی توہین کرے تو حکومت اس کو فوراً سزا دے۔ اسلام اس امر کا آروز مند ہے کہ قانون الٰہی عام ہوجائے جملہ مذاہب امن و اطمینان سے اس کے ماتحت زندگی بسر کریں۔ مذہبی مقامات گرجے ، عبادت گاہیں اور مسجدیں بدکار لوگوں کی دستبرد سے محفوظ رہیں۔ مذہبی آزادی ہو۔ اسلام کی راہ ترقی میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا کرے خود آپس میں لڑنے نہ پائیں ۔ جب کبھی ان میں سے کوئی اسلام کی یا قانون اسلام کی علی الا علان توہین کرے تو اس سے مواخذہ کیا جائے۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس سے دنیا میں امن قائم رہ سکتا ہے ورنہ فتنہ ہمیشہ سر اٹھاتا رہے گا اور لوگ کبھی چین سے زندگی بسر نہ کریں گے۔ اگر یہ لوگ اسلام کی مخالفت سے باز آجائیں اور اس کی صرف دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں : ! جس وقت مسلمانوں نے ان کو اسلام کی دعوت دی ۔ ان کے شکوک و شبہات کو دور کردیا تو وہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ " اسلام قبول کرنے کو تیار نہیں مگر اس کی مخالفت نہ کرنے کا بھی عہد کرتے ہیں اور سوائے توحید کے ماتحت رہنا پسند کرتے ہیں تو شوق سے رہیں مگر انہیں جزیہ ادا کرنا ہوگا۔ اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی انکو اسلام کی مخالفت سے باز نہ رکھ سکے اللہ کے قانون کی خلاف ورزی کرتے رہیں اور برابر اسلام کی تباہی کیلئے تدبیریں سوچتے رہیں تو پھر انکی سزا قتل ہوگی اور انہیں کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ وہ فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں۔
Top