Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر جس جگہ پہنچ کر لوگ لوٹتے ہیں تم بھی وہیں سے لوٹو اور اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو ، بلاشبہ اللہ ہی خطائیں بخشنے والا اور رحمت رکھنے والا ہے
حج کا مقصد تفریق مٹانا ہے ڈالنا نہیں : 347: زمانہ جاہلیت میں قریش بیت اللہ کے مجاور ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو حمس کہتے تھے زمانہ حج میں عام لوگ عرفات کے میدان میں جا کر قیام کرتے جس کو وقوف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگر قریش مزدلفہ ہی تک جاتے کیونکہ وہ حرم کی حدود کے اندر ہے اور عرفات اس سے باہر۔ انہیں خیال تھا کہ حدود حرم سے باہرجانا ان کی شرافت ، وجاہت اور عزت کے خلاف ہے اور عوام الناس سے ملنا اور ان میں گھل مل جانا تقدس مذہبی کے منافی ہے ۔ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ کے ذریعہ دو غلطیوں کو دور کیا جن میں دنیا ہمیشہ مبتلا رہی اور آج بھی باوجود تمدن و تہذیب میں انتہائی ترقی حاصل ہوجانے کے اس کا قدم اسی جگہ ہے اور اپنے مقام سے ایک انچ بھی نہیں ہلا۔ 1: اللہ کے نزدیک قومی امتیازات و خصائص کوئی چیز نہیں بلکہ اس کی نظر میں سب یکساں ہیں۔ وہاں اگر کسی چیز کی پرسش ہے تو وہ تقویٰ و ورع ہی کی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ 1ؕ ، ” بلاشبہ تم میں بزرگی والا وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ “ اس لئے نسل انسانی میں حقیقی مساوات ہونا ضروری ہے اور یہ ممکن نہیں جب تک تمام امتیازات قومی مٹانہ دیئے جائیں۔ 2: قوموں کی تباہی و بربادی کی ابتدایوں ہوتی ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ اور عوام الناس میں تعلقات و روابط قائم نہ رہیں اور ایک دوسرے سے ملنا ترک کردیں بہترین دل و دماغ کو دست وبازو کی تلاش و جستجو رہتی ہے۔ جب عام لوگوں سے میل جول نہ رہے گا تو اعوان و انصار کا فقدان ان کی فنا سامانی کا باعث بن جائے گا۔ عوام الناس کو قدم قدم پر راہمنا اور مصلح کی ضرورت رہتی ہے جب انہیں راہ حق و حریت بتانے والا کوئی نہ رہے گا تو روز بروز ضلالت وگمراہی میں بڑھتے جائیں گے تاآنکہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق و امتیاز ظاہر صورت کے علاوہ باقی نہ رہے گا۔ میدان عرفات میں اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرو : 348: ” اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو۔ “ صحیح حدیث میں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں یوم عرفہ سے زیادہ بندے آگ سے آزاد کئے جاتے ہوں۔ حج کا بیان جہاں سے شروع ہوا ہے دیکھتے آیئے تزکیہ قلب کا قدم قدم پر کس درجہ اہتمام ہے۔ حرم شریف نہیں ، حدود حرم بھی ابھی منزلوں فاصلے پر ہیں کہ ساری عمر کا مالوف و مانوس لباس جسم سے اتر گیا اور اب نہ سر پر ٹوپی ہے نہ عمامہ اور جسم پر نہ شیروانی ہے نہ کوٹ ، نہ عبا اور نہ قمیص ، شاہ وگدا ، رئیس و رعایا ، حکام و عوام سب کے سب دو دو چاروں میں ملبوس ! پھر احرام پہنتے ہی جو چیزیں حرام تھیں ان کا تو ذکر ہی کیا جو ہمیشہ حلال تھیں اور فی نفسہ جائز تھیں ایک خاصی طویل مدت کے لئے بالکل ممنوع ہوگئیں۔ کتنی ہی مرغوبات و مالوفات سے اس دوران میں دستبرداری کرنا پڑی۔ پھر یہ سب بھی کافی نہیں گھڑی گھڑی لبیک لبیک کہتے رہو۔ اللہ کے حضور اپنی ہاضری بولتے رہو۔ مسلسل ذکر الٰہی کرتے رہو اور اب یہ حکم مل رہا ہے کہ خطاؤں کو ، گناہوں کو سیہ کاریاں کو یاد کر کر کے اپنے اللہ سے معافی چاہتے رہو ....... اتنے پاکیزہ ، ایسے ستھرے ، اس قدر اصلاحی اجتماع سے دنیا جہاں کے میلوں ٹھیلوں ، بت پرستانہ ، وہم پرستانہ ، ہوس پرستانہ ، میلوں تہواروں کو کوئی بھی مناسبت ہے ؟ ^کوئی نسبت بھی ان آنکھوں سے ہے پیمانہ کو ! کیا صریح ظلم وہ اہل قلم خود اپنی بصارت و بصیرت پر کرتے ہیں جو اسلام کو دوسرے ادیان و مذاہب کی سطح پر سمجھے ہوئے ہیں۔ غَفُوْرٌ: آیت کے آخر میں یاد دلادیا کہ تمہارے رب کی صفت ” غفر “ بہت بڑی ہے۔ اس سے مغفرت طلب کر کے دیکھ لو۔ طالبین مغفرت کی مغفرت وہ کیوں نہ کرے گا ؟ رحیم اور ساتھ ہی اسکی صفت رحمت بھی تو بےپایاں ہے طالبان مغفرت کے ساتھ وہ رحمت کا معاملہ بھلا کیوں نہ کرے گا ؟
Top