Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ
: طلاق
مَرَّتٰنِ
: دو بار
فَاِمْسَاكٌ
: پھر روک لینا
بِمَعْرُوْفٍ
: دستور کے مطابق
اَوْ
: یا
تَسْرِيْحٌ
: رخصت کرنا
بِاِحْسَانٍ
: حسنِ سلوک سے
وَلَا
: اور نہیں
يَحِلُّ
: جائز
لَكُمْ
: تمہارے لیے
اَنْ
: کہ
تَاْخُذُوْا
: تم لے لو
مِمَّآ
: اس سے جو
اٰتَيْتُمُوْھُنَّ
: تم نے دیا ان کو
شَيْئًا
: کچھ
اِلَّآ
: سوائے
اَنْ
: کہ
يَّخَافَآ
: دونوں اندیشہ کریں
اَلَّا
: کہ نہ
يُقِيْمَا
: وہ قائم رکھ سکیں گے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا يُقِيْمَا
: کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَلَاجُنَاحَ
: تو گناہ نہیں
عَلَيْھِمَا
: ان دونوں پر
فِيْمَا
: اس میں جو
افْتَدَتْ
: عورت بدلہ دے
بِهٖ
: اس کا
تِلْكَ
: یہ
حُدُوْدُ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَلَا
: پس نہ
تَعْتَدُوْھَا
: آگے بڑھو اس سے
وَمَنْ
: اور جو
يَّتَعَدَّ
: آگے بڑھتا ہے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَاُولٰٓئِكَ
: پس وہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الظّٰلِمُوْنَ
: ظالم (جمع)
طلاق دو مرتبہ ہے یا تو معروف طریقے سے روک لینا ہے یا پھر حسن سلوک کے ساتھ الگ کردینا ، اور مردوں کیلئے جائز نہیں کہ جو کچھ وہ اپنی بیویوں کو دے چکے طلاق کے وقت واپس لے لیں ہاں ! اگر میاں بیوی کو اندیشہ ہو کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حقوق ادا نہ کرسکیں گے تو رضامندی سے ایسا ہوسکتا ہے میاں بیوی میں کچھ گناہ نہیں کہ بیوی اپنا پیچھا چھڑانے کیلئے بطور معاوضہ اپنے حق میں سے کچھ دے کر طلاق حاصل کرلے ، یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدبندیاں ہیں پس ان سے قدم باہر نہ نکالو جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدبندیوں سے نکل جائے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں
دو طلاق دینے کے بعد بھی مرد رجوع کا حق رکھتا ہے : 388: پچھلی آیت میں فرمایا تھا کہ : ” بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ “ ان کے شوہر یعنی طلاق دینے والے اگر عدت کے اندر اندر اصلاح حال پر آمادہ ہوجائیں تو وہ انہیں اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔ اب اس طلاق کی مزید تفصیل کی جاتی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ طلاق کی ایک قسم رجعی ہے جس کا اس آیت میں تذکرہ ہے۔ جس کی تفصیل کی حسب ذیل ہے : 1 : ایسی طلاق جس کے بعد عورت اپنے پہلے خاوند کی طرف لوٹائی جاسکتی ہے صرف دو ہی مرتبہ ہے بشرطیکہ ادائے حقوق کا خیال ہو۔ اس سے مقصد یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو طلاق کا وقوع نہایت ہی شاذ حالات میں ہو۔ 2 : عرب میں دستور تھا کہ صدہا مرتبہ طلاق دینے کے بعد بھی خاوند رجوع کرسکتا تھا جس سے عورتوں کے حقوق مکمل طور پر فنا ہوجاتے تھے ، اسلام نے آتے ہی مرد کی اسی آزادی کو چھین لیا اور فرمایا کہ اگرچہ ایک شخص دو دفعہ طلاق دے کر رجوع کا حق رکھتا ہے مگر تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق سلب ہوجائے گا اور اب میاں بیوی میں مکمل طور پر علیحدگی ہوجائے گی۔ دو طلاق کے بعد اسے اجازت دی گئی کہ : الف : خاوند عدت کے اندر رجوع کرلے ، اس سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے اور اس کے حقوق و مراعات کا خیال رکھے۔ ب : ورنہ تیسری مرتبہ طلاق دے کر نیکی کے ساتھ رخصت کر دے۔ یاد رہے کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک تین طلاقیں نہ دی جائیں اس وقت تک طلاق واقعہ ہی نہیں ہوتی۔ اس غلط فہمی کی بنا پر جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ تین بار لکھتا ہے کہ طلاق ، طلاق ، طلاق۔ یہ بات بالکل لغو ہے اور جہالت پر مبنی ہے۔ طلاق ایک بار دینے سے بھی واقع ہوجاتی ہے البتہ مرد کو رجوع کا حق رہتا ہے کہ عدت کے اندر اندر اپنے الفاظ واپس لے کر بزبان حال یا بزبان قال عورت کو واپس اپنی زوجیت میں لے لے لیکن اگر وہ واپس نہیں لینا چاہتا تو خاموش رہے۔ جبھی عدت کے دن گزرے عورت عقد ثانی کرنے کے لیے بالکل آزاد ہے جو مدت خاوند کو دی گئی تھی اس نے اس سے فائدہ حاصل نہیں کیا۔ طلاق دینے والے کو کوئی حق نہیں کہ اب بزور اس عورت کو واپس اپنی زوجیت میں لے۔ ہاں ! اگر عدت گزرنے کے بعد یہ دونوں پھر دوبارہ نکاح کرنے پر راضی ہوجائیں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر عوت نے اس خاوند کے علاوہ کسی دوسری جگہ عقد ثانی کرلیا تو اب ان کے دوبارہ مل بیٹھنے کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ تاوقتیکہ دوسرا خاوند طلاق نہ دے یا وفات نہ پا جائے۔ گویا یہی وہ فضیلت تھی جو مرد کو عورت پر دی گئی کہ ایک طلاق دینے کے بعد اس کو رجوع کا حق دیا گیا لیکن اگر طلاق دینے کے بعد جب مرد نے رجوع کرلیا اور دونوں میاں بیوی کی طرح رہنے سہنے لگے پھر زندگی کے کسی موڑ پر دوبارہ خاوند نے ایک طلاق دیدی تو گویا اب یہ ایک طلاق نہ ہوئی بلکہ دوسری طلاق ہوگئی اور چونکہ دوسری طلاق کے بعد بھی مرد کو رجوع کا حق ہے اس نے عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا تو خیر اگر مدت گزر گئی تو اب بھی اس نے رجوع کا حق ضائع کردیا اب بزور اس عورت کو خاوند یعنی طلاق دینے والا اپنی زوجیت میں واپس نہیں لے جاسکتا ۔ ہاں ! عدت گزرنے کے بعد عورت رضا مند ہو تو یہ دونوں دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ گویا عورت اپنے عقد ثانی کرنا چاہے تو جس جگہ چاہے کرسکتی ہے خواہ اس دوسری بار طلاق دینے والے سے یا کسی دوسری جگہ۔ اگر انہوں نے دوبارہ رضا مندی سے نکاح کرلیا تو پھر وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ اس طرح سے اب یہ دونوں میاں بیوی تو ہوگئے لیکن احتیاط کی بہت ضرورت ہے کہ اگر کہیں اب بھی طلاق دے دی تو گویا اب نہ مرد کو رجوع کا حق رہا اور نہ ہی عورت اگر اس سے دوبارہ نکاح کا ارادہ کرنا چاہے تو کرسکے کیونکہ تین طلاقیں مکمل ہوگئیں۔ اب بتائو کہ کیا ایک طلاق دینے سے طلاق ہوئی یا نہیں ؟ کیوں نہیں بالکل طلاق واقع ہوئی لیکن آپ یہ کہہ لیں کہ کچی طلاق ہوئی اس کے پختہ ہونے کی ایک مدت یا میعاد ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا جب یہ مدت گزر گئی تو گویا طلاق پختہ ہوگئی اور عورت اب آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کرے۔ کتنی وسعت تھی اس اسلامی نکاح میں جس کی مسلمانوں نے دھجیاں اڑا دیں اور اللہ کے دین کو مذاق بنا کر خود استہزاء مذاق بن گئے۔ سچ ہے کہ کسی کو ذلیل کرنے والا خود ذلیل ہوتا ہے اور جو کسی کے لئے کنواں کھودتا ہے خود ہی اس میں جا گرتا ہے ۔ ایک صورت تو یہ تھی جو اوپر ذکر کی گئی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خاوند نے طلاق کا پختہ ارادہ کرلیا کہ ہر حال طلاق دینا ہے کیونکہ نباہ کی کوئی صورت اس کے نزدیک نہیں رہی۔ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے رازوں کو جانتے ہیں خاوند جب دیکھے کہ بیوی کے ” ناپاکی “ کے دن گزر گئے اور اب وہ ” پاک “ ہوگئی اور اس کا پختہ ارادہ طلاق کا ہے تو ایک طلاق دے۔ پھر دوسرے مہینے کے ” ناپاکی “ کے دن گزرنے کے بعد گویا ایک مہینے کے بعد دوبارہ طلاق دے بزبان قال یا بزبان تحریر اب دو طلاقیں ہوگئیں لیکن ابھی ایک موقع اس کے پاس مزید باقی ہے ۔ عورت حسب عادت اپنے اذیت کے دنوں سے ” پاک “ ہوئی خاوند نے رجوع نہ کیا بلکہ تیسیری بار طلاق دے دی خواہ بزبان قال یا بزبان تحریر تو اب خاوند نے گویا رجوع کا حق ضائع کردیا اب اگر دوبارہ میاں چاہے یا بیوی چاہے یا دونوں ہی چاہیں کسی صورت بھی یہ عورت اس کی بیوی نہیں رہ سکتی تاوقتیکہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے اور پھر وہ کسی وجہ سے طلاق دے دے یا وہ مر جائے۔ اس طرح سے طلاق گویا تین ” حیض “ تین ” طہر “ تین ” مہینے “ میں مکمل ہوگئی۔ غور کیجئے کہ اللہ ، اللہ کی کتاب اور اللہ کا رسول ﷺ ایک مومن خاوند کی۔ اس کے گھر بار کی کتنی عزت و حرمت ملحوظ رکھتے ہیں اور کس طرح مرد کی فوقیت کو واضح فرماتے ہیں اور اس کی بےعزتی و بےحرمتی ان کو کسی حال میں گوارا نہیں۔ کاش ! کہ آج مسلمان خود بھی اپنی اور اپنے خاندان کی عزت و حرمت کا اتنا خیال کرتا جتنا اس کے اللہ کو ہے تو آج خانگی فضیحتوں کا کوئی وجود بھی باقی نہ رہتا۔ طلاق دینے والا مطلقہ سے کوئی چیز دی ہوئی واپس لینے کا حق نہیں رکھتا : 389: اکثر انسان جب غصہ میں آ کر طلاق دیتا ہے تو یہ بھی کر گزرتا ہے کہ اب تک جو کچھ بیوی کو دیا ہے اس سے واپس چھین لے عرب جاہلیت میں تو یہ دستور اور بھی زیادہ پھیلا ہوا ہے۔ یہاں اس ظالمانہ دستور کی نشاندہی کی جا رہی ہے اور فرمایا جا رہا ہے کہ جب خاوند اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ مہر وغیرہ سے ایک پائی بھی واپس لینے کا مجاذ نہیں۔ قرآن کے الفاظ پر مزید غور کرو فرمایا ” وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْـًٔا “ ” مردوں کے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ وہ اپنی بیویوں کو دے چکے یا دینے کا عہد کیا تھا طلاق کے وقت اس میں سے کچھ واپس لے لیں۔ “ اور اب تک اگر مہر ادا نہیں کیا تو طلاق کے وقت ایک ایک کوڑی شمار کر کے دینی ہوگی۔ یہ بھی ایک طرح کا طلاق کی آزادی کو روکنا ہے۔ جب تک اتنی مدت تک دونوں کی صحبت و یکجائی رہی اور نکاح کے وقت تو یہی عہد و پیمان ہوا تھا کہ ہمیشہ ساتھ رہیں گے اب اگر بعض اسباب کی بنا پر نا چاقی ہوگئی تو پھر بھی دیا ہوا مہر واپس نہیں لیا جاسکتا۔ پھر جب مہر واپس نہیں لیا جاسکتا جو مرد کی طرف سے دیا گیا تھا تو وہ مال و دولت جو عورت ساتھ لائی تھی اس کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ اگر حق مہر سے یا جو خاوند نے خوشی سے بیوی کو دیا تھا اس میں سے واپس لینا حلال نہیں اور یہ ایک طرح کا ظلم ہے کہ اس میں سے کچھ واپس لے تو عورت کا ساتھ لایا ہوا سامان روکنا تو ہر حال حرام ہوگا اور صرف وہ مال ہی حرام نہ ٹھہرا بلکہ یہ ظلم عظیم ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ عام مفسرین نے تو اس سے صرف حق مہر کی رقم ہی مراد لی ہے لیکن بہت سے مفسرین اور خصوصاً ابن العربی (رح) مالکی نے اس سے ہر وہ مال مراد لیا ہے جو خاوند اپنی بیوی کو دے چکا ہو پھر حسن معاشرت ، حسن معیشت ، حسن سلوک کی تاکید ہر صورت میں ہے کہ بیویوں کو رکھو تو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ ، رخصت کرو تو بھی ہنسی خوشی یعنی اللہ کی رضا کے مطابق۔ ہاں عورت خلع کرنا چاہے تو مہر کا کچھ حصہ یا زیادہ سے زیادہ مکمل واپس لیا جاسکتا ہے : 390: فرمایا ہاں ! مہر واپس لینے کی صرف ایک صورت ہے کہ اس وقت جب کہ مرد و عورت میں اختلاف ہو اور پھر وہ اتنا بڑھ جائے یا اس انتہا کو پہنچ جائے کہ مصالحت کو کوئی صورت باقی نہ رہے ۔ جانبین سے بذریعہ حکم فیصلہ کی کوشش کی گئی مگر وہ بھی ناکام رہی ہو۔ مرد طلاق دینے پر راضی نہیں اور عورت اس فکر میں ہے کہ جس قدر ممکن ہو اس سے نجات حاصل کرے۔ ایسی حالت میں اگر عورت خودبخود اپنے خاوند کو کچھ دینے پر راضی ہوجائے تو خاوند اس رقم کے وصول کرنے پر شریعت کے لحاظ سے گنہگار نہ ہوگا۔ اس قسم کی طلاق کو شرعی اصطلاح میں خلع کہا جاتا ہے ان روایات سے اس مسئلہ پر اور زیادہ روشنی پڑتی ہے۔ (حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ جَمِیلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِیُّ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ أَتَتْ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَیْهِ فِی خُلُقٍ وَلَا دِینٍ وَلَکِنِّی أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِی الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اقْبَلْ الْحَدِیقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِیقَةً ) صحیح بخاری ، جلد ثانی ، باب الطلاق حدیث : 260) ” ازہر بن جمیل ، عبدالوہاب ثقفی ، خالد ، عکرمہ ، ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں ثابت بن قیس سے کسی بری عادت یا دینداری کی وجہ سے ناراض نہیں ہوں ، لیکن میں حالت اسلام میں ناشکری نہیں کرنا چاہتی ہوں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو اس کا باغ اس کو واپس کرنے کو تیار ہے ، اس نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے ثابت بن قیس سے فرمایا کہ اس کا باغ لے لو اور اس کو ایک طلاق دے دو ۔ “ (حَدَّثَنَی إِسْحَاقُ الْوَاسِطِیُّ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ عِکْرِمَةَ أَنَّ أُخْتَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبَیٍّ بِهَذَا وَقَالَ تَرُدِّینَ حَدِیقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ فَرَدَّتْهَا وَأَمَرَهُ یُطَلِّقْهَا وَقَالَ إِبْرَاہِیمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ خَالِدٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَطَلِّقْهَا وَعَنْ أَیُّوبَ بْنِ أَبِی تَمِیمَةَ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ جَائَتْ امْرَأَةُ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنِّی لَا أَعْتِبُ عَلَی ثَابِتٍ فِی دِینٍ وَلَا خُلُقٍ وَلَکِنِّی لَا أُطِیقُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ ) بخاری جلد ثانی ص : 794 باب الخلع و کیف الطلاق فیہ) ” اسحاق واسطی ، خالد ، خالد حذاء ، عکرمہ ؓ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی اوفیٰ کی بہن نے اس کو روایت کیا اور بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو اس کا باغ واپس کردے گی ؟ اس نے کہا ہاں ! چناچہ اس کو باغ واپس دے دیا اور اس کو ایک طلاق دے دی ، ابراہیم بن طہمان نے بواسطہ خالد ، عکرمہ ، آپ ﷺ سے طَلِّقْهَا (اس کو طلاق دے دی) کا لفظ بیان کیا اور ابن تیمیہ (رح) سے بواسطہ عکرمہ ، ابن عباس ؓ منقول ہے ، انہوں نے کہا کہ ثابت بن قیس کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ثابت سے اس کی دینداری اور اخلاق کی وجہ سے ناراض نہیں ہوں ، لیکن میں اس کے ساتھ رہ نہیں سکتی ، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو اس کا باغ واپس کردے گی ، اس نے جواب دیا ہاں ! “ (حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ زَوْجَ بَرِیرَةَ کَانَ عَبْدًا یُقَالُ لَهُ مُغِیثٌ کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَیْهِ یَطُوفُ خَلْفَهَا یَبْکِی وَدُمُوعُهُ تَسِیلُ عَلَی لِحْیَتِهِ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعبَّاسٍ یَا عَبَّاسُ أَلَا تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِیثٍ بَرِیرَةَ وَمِنْ بُغْضِ بَرِیرَةَ مُغِیثًا فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَوْ رَاجَعْتِهِ قَالَتْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ تَأْمُرُنِی قَالَ إِنَّمَا أَنَا أَشْفَعُ قَالَتْ لَا حَاجَةَ لِی فِیہِ ) بخاری ج 2 ص : 295 باب شفاعۃ النبی۔ فی زوج بریرۃ) ” محمد ، عبدالوہاب ، خالد ، عکرمہ ، ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ بریرہ کا شوہر ایک مغیث نامی غلام تھا ، گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں کہ وہ بریرہ کے پیچھے روتا ہوا گھوم رہا ہے ، آنسو اس کی داڑھی پر گر رہے ہیں ، آپ ﷺ نے حضرت عباس ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اے عباس ! کیا تمہیں بریرہ سے مغیث کی محبت اور بریرہ کی مغیث سے عداوت پر تعجب نہیں ہوتا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کاش ! تو اسے لوٹا لے ، یعنی رجوع کرلے ، اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ مجھے حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا (نہیں بلکہ) میں تو صرف سفارش کر رہا ہوں ، بریرہ نے کہا تو پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ “ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مذکورہ آیت جس کا بیان جاری ہے سے معلوم ہوا جس کی وضاحت حدیث نے بھی کردی کہ جس طرح مرد کو طلاق دینے کا حق ہے اس طرح عورت کو بھی اپنے خاوند سے طلاق لینے کا حق ہے۔ یہ قانون اسلامی کے حدود ہیں ان سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ عورت جب طلاق طلب کریگی تو اسکو مہر کی رقم واپس لوٹانا ہوگی کلی طور پر یا جزوی طور پر یعنی جو صورت فریقین کے نزدیک خوش اسلوبی سے طے ہوجائے لیکن خلع دینے والے خاوند کو حق مہر سے زیادہ مال طلب کرنا کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے اگر وہ زیادہ مال طلب کریگا تو یہ حدود اللہ سے تجاوز ہوگا اگر عورت کے پاس وسعت مال ہے وہ اس سے زیادہ بھی دے سکتی ہے اس وقت بھی خاوند کیلئے لینا درست نہ ہوگا۔ میاں بیوی کے درمیان کچھ ایسے راز ہوتے ہیں جن میں زیادہ گہرائی میں جانا مناسب نہیں ہے ایک حدیث میں ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ تو طلاق کیوں طلب کرتی ہے۔ ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ قیس کے دین میں مجھے کوئی نقص معلوم نہیں ہوتا بس میں اس کو پسند نہیں کرتی اور میں نہیں چاہتی کہ اسلام میں رہتے ہوئے کفر رکروں۔ ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ثابت بن قیس ؓ کو بلوایا اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ تیری بیوی آخر طلاق کیوں طلب کرتی ہے ؟ ثابت بن قیس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے اللہ کی قسم آپ کی ذات اقدس کے بعد مجھے اپنی بیوی سب سے زیادہ عزیز اور پیاری ہے ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے ثابت بن قیس کی بی بی کی طرف دیکھا اور اشارہ کیا کہ تو کیا کہتی ہے اور ثابت بن قیس کیا کہتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ میں تو آپ ﷺ سے ایک بات کہہ چکی ہوں اب اس کے خلاف نہ کہوں گی بیشک یہ سب سے زیادہ اپنی بیوی پر یعنی مجھ پر مہربان ہیں لیکن میرے دل کو نہیں بھاتے نہ میں ان سے خوش ہوں نہ یہ مجھ سے خوش ہیں۔ یہ روایت بخاری میں ہے۔ آپ مزید غور کریں کہ خاوند قسمیہ کہہ رہا ہے کہ مجھے میری بیوی بہت محبوب ہے لیکن بیوی اس کی تردید نہ کرتے ہوئے پھر کہتی ہے کہ وہ میرے دل کو نہیں بھاتے نہ میں ان سے خوش ہوں اور نہ وہ مجھ سے خوش ہیں۔ بس اس میں راز ہے جس کی کرید اس سے زیادہ جائز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے بھی اس میں کوئی بحث نہیں فرمائی اور ثابت بن قیس ؓ کو اس کا باغ جو انہوں نے اپنی بیوی کو مہر میں دیا تھا واپس دلوا کر معاہدہ نکاح فسخ کرا دیا۔ قرآن کریم کے معجزانہ الفاظ پر ایک بار پھر غور کریں ارشاد ہوتا ہے : فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ 1ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ 1ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا 1ۚ ” اگر میاں بیوی کو اندیشہ ہو کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حقوق ادا نہ کرسکیں گے تو رضامندی سے ایسا ہو سکتا ہے میاں بیوی میں کچھ گناہ نہیں کہ بیوی اپنا پیچھا چھڑانے کیلئے بطور معاوضہ اپنے حق میں سے کچھ دے کر طلاق حاصل کرلے۔ یعنی معاہدہ نکاح فسخ کرا لے “ اس کا شرعی نام خلع ہے۔ ” اللہ کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہو سکیں گے۔ “ کے الفاظ پر نظر کرو جن کو قرآن کریم کی زبان نے اس طرح بیان فرمایا کہ : اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ 1ؕ، مختصر یہ کہ یہ کوئی ایسا حق نہیں جو کسی ایک کے ادا کرنے سے اد ہوجائے بلکہ یہ کوئی ایسا حق ہے جو دونوں کی رضامندی میں ہی ادا ہو سکتا ہے اس طرح کے خطرہ کو میاں بیوی ہی جان سکتے ہیں۔ ایسی صورت جب بھی اور جہاں بھی واقع ہو تو بہتر یہی ہے کہ خاوند عورت کو اس کی رضامندی کے مطابق فارغ کردینے میں پہل کرے ، یہ طریقہ مستحسن ہے اور زیادہ سے زیادہ وہ بیوی کے عزیزوں کو صورتحال سے آگاہ کر دے مزید بہتر ہوگا۔ لیکن عورت اتنی مجبور ہوجائے کہ اس نہ ظاہر کرنے والی بات کو ظاہر کر دے یعنی وہ خود طلاق کا مطالبہ کر دے تو خاوند کو زیادہ دیر لگائے بغیر معاملہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کردینا چاہیے تاکہ وہ نہ اپنی ذات پر ظلم کا باعث ہو اور نہ فریق ثانی یعنی بیوی کے لیے باعث ظلم بنے کیونکہ یہ کوئی ایسا حق نہیں جو اکیلے میاں کے ادا کرنے سے بھی ادا ہوتا رہے گا۔ فقط
Top