Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ : طلاق مَرَّتٰنِ : دو بار فَاِمْسَاكٌ : پھر روک لینا بِمَعْرُوْفٍ : دستور کے مطابق اَوْ : یا تَسْرِيْحٌ : رخصت کرنا بِاِحْسَانٍ : حسنِ سلوک سے وَلَا : اور نہیں يَحِلُّ : جائز لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ : کہ تَاْخُذُوْا : تم لے لو مِمَّآ : اس سے جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : تم نے دیا ان کو شَيْئًا : کچھ اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ يَّخَافَآ : دونوں اندیشہ کریں اَلَّا : کہ نہ يُقِيْمَا : وہ قائم رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا يُقِيْمَا : کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَا : ان دونوں پر فِيْمَا : اس میں جو افْتَدَتْ : عورت بدلہ دے بِهٖ : اس کا تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَا : پس نہ تَعْتَدُوْھَا : آگے بڑھو اس سے وَمَنْ : اور جو يَّتَعَدَّ : آگے بڑھتا ہے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ ھُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
طلاق دو مرتبہ ہے یا تو معروف طریقے سے روک لینا ہے یا پھر حسن سلوک کے ساتھ الگ کردینا ، اور مردوں کیلئے جائز نہیں کہ جو کچھ وہ اپنی بیویوں کو دے چکے طلاق کے وقت واپس لے لیں ہاں ! اگر میاں بیوی کو اندیشہ ہو کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حقوق ادا نہ کرسکیں گے تو رضامندی سے ایسا ہوسکتا ہے میاں بیوی میں کچھ گناہ نہیں کہ بیوی اپنا پیچھا چھڑانے کیلئے بطور معاوضہ اپنے حق میں سے کچھ دے کر طلاق حاصل کرلے ، یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدبندیاں ہیں پس ان سے قدم باہر نہ نکالو جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدبندیوں سے نکل جائے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں
دو طلاق دینے کے بعد بھی مرد رجوع کا حق رکھتا ہے : 388: پچھلی آیت میں فرمایا تھا کہ : ” بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ “ ان کے شوہر یعنی طلاق دینے والے اگر عدت کے اندر اندر اصلاح حال پر آمادہ ہوجائیں تو وہ انہیں اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔ اب اس طلاق کی مزید تفصیل کی جاتی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ طلاق کی ایک قسم رجعی ہے جس کا اس آیت میں تذکرہ ہے۔ جس کی تفصیل کی حسب ذیل ہے : 1 : ایسی طلاق جس کے بعد عورت اپنے پہلے خاوند کی طرف لوٹائی جاسکتی ہے صرف دو ہی مرتبہ ہے بشرطیکہ ادائے حقوق کا خیال ہو۔ اس سے مقصد یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو طلاق کا وقوع نہایت ہی شاذ حالات میں ہو۔ 2 : عرب میں دستور تھا کہ صدہا مرتبہ طلاق دینے کے بعد بھی خاوند رجوع کرسکتا تھا جس سے عورتوں کے حقوق مکمل طور پر فنا ہوجاتے تھے ، اسلام نے آتے ہی مرد کی اسی آزادی کو چھین لیا اور فرمایا کہ اگرچہ ایک شخص دو دفعہ طلاق دے کر رجوع کا حق رکھتا ہے مگر تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد یہ حق سلب ہوجائے گا اور اب میاں بیوی میں مکمل طور پر علیحدگی ہوجائے گی۔ دو طلاق کے بعد اسے اجازت دی گئی کہ : الف : خاوند عدت کے اندر رجوع کرلے ، اس سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے اور اس کے حقوق و مراعات کا خیال رکھے۔ ب : ورنہ تیسری مرتبہ طلاق دے کر نیکی کے ساتھ رخصت کر دے۔ یاد رہے کہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک تین طلاقیں نہ دی جائیں اس وقت تک طلاق واقعہ ہی نہیں ہوتی۔ اس غلط فہمی کی بنا پر جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ تین بار لکھتا ہے کہ طلاق ، طلاق ، طلاق۔ یہ بات بالکل لغو ہے اور جہالت پر مبنی ہے۔ طلاق ایک بار دینے سے بھی واقع ہوجاتی ہے البتہ مرد کو رجوع کا حق رہتا ہے کہ عدت کے اندر اندر اپنے الفاظ واپس لے کر بزبان حال یا بزبان قال عورت کو واپس اپنی زوجیت میں لے لے لیکن اگر وہ واپس نہیں لینا چاہتا تو خاموش رہے۔ جبھی عدت کے دن گزرے عورت عقد ثانی کرنے کے لیے بالکل آزاد ہے جو مدت خاوند کو دی گئی تھی اس نے اس سے فائدہ حاصل نہیں کیا۔ طلاق دینے والے کو کوئی حق نہیں کہ اب بزور اس عورت کو واپس اپنی زوجیت میں لے۔ ہاں ! اگر عدت گزرنے کے بعد یہ دونوں پھر دوبارہ نکاح کرنے پر راضی ہوجائیں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر عوت نے اس خاوند کے علاوہ کسی دوسری جگہ عقد ثانی کرلیا تو اب ان کے دوبارہ مل بیٹھنے کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ تاوقتیکہ دوسرا خاوند طلاق نہ دے یا وفات نہ پا جائے۔ گویا یہی وہ فضیلت تھی جو مرد کو عورت پر دی گئی کہ ایک طلاق دینے کے بعد اس کو رجوع کا حق دیا گیا لیکن اگر طلاق دینے کے بعد جب مرد نے رجوع کرلیا اور دونوں میاں بیوی کی طرح رہنے سہنے لگے پھر زندگی کے کسی موڑ پر دوبارہ خاوند نے ایک طلاق دیدی تو گویا اب یہ ایک طلاق نہ ہوئی بلکہ دوسری طلاق ہوگئی اور چونکہ دوسری طلاق کے بعد بھی مرد کو رجوع کا حق ہے اس نے عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا تو خیر اگر مدت گزر گئی تو اب بھی اس نے رجوع کا حق ضائع کردیا اب بزور اس عورت کو خاوند یعنی طلاق دینے والا اپنی زوجیت میں واپس نہیں لے جاسکتا ۔ ہاں ! عدت گزرنے کے بعد عورت رضا مند ہو تو یہ دونوں دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ گویا عورت اپنے عقد ثانی کرنا چاہے تو جس جگہ چاہے کرسکتی ہے خواہ اس دوسری بار طلاق دینے والے سے یا کسی دوسری جگہ۔ اگر انہوں نے دوبارہ رضا مندی سے نکاح کرلیا تو پھر وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ اس طرح سے اب یہ دونوں میاں بیوی تو ہوگئے لیکن احتیاط کی بہت ضرورت ہے کہ اگر کہیں اب بھی طلاق دے دی تو گویا اب نہ مرد کو رجوع کا حق رہا اور نہ ہی عورت اگر اس سے دوبارہ نکاح کا ارادہ کرنا چاہے تو کرسکے کیونکہ تین طلاقیں مکمل ہوگئیں۔ اب بتائو کہ کیا ایک طلاق دینے سے طلاق ہوئی یا نہیں ؟ کیوں نہیں بالکل طلاق واقع ہوئی لیکن آپ یہ کہہ لیں کہ کچی طلاق ہوئی اس کے پختہ ہونے کی ایک مدت یا میعاد ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا جب یہ مدت گزر گئی تو گویا طلاق پختہ ہوگئی اور عورت اب آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کرے۔ کتنی وسعت تھی اس اسلامی نکاح میں جس کی مسلمانوں نے دھجیاں اڑا دیں اور اللہ کے دین کو مذاق بنا کر خود استہزاء مذاق بن گئے۔ سچ ہے کہ کسی کو ذلیل کرنے والا خود ذلیل ہوتا ہے اور جو کسی کے لئے کنواں کھودتا ہے خود ہی اس میں جا گرتا ہے ۔ ایک صورت تو یہ تھی جو اوپر ذکر کی گئی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خاوند نے طلاق کا پختہ ارادہ کرلیا کہ ہر حال طلاق دینا ہے کیونکہ نباہ کی کوئی صورت اس کے نزدیک نہیں رہی۔ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے رازوں کو جانتے ہیں خاوند جب دیکھے کہ بیوی کے ” ناپاکی “ کے دن گزر گئے اور اب وہ ” پاک “ ہوگئی اور اس کا پختہ ارادہ طلاق کا ہے تو ایک طلاق دے۔ پھر دوسرے مہینے کے ” ناپاکی “ کے دن گزرنے کے بعد گویا ایک مہینے کے بعد دوبارہ طلاق دے بزبان قال یا بزبان تحریر اب دو طلاقیں ہوگئیں لیکن ابھی ایک موقع اس کے پاس مزید باقی ہے ۔ عورت حسب عادت اپنے اذیت کے دنوں سے ” پاک “ ہوئی خاوند نے رجوع نہ کیا بلکہ تیسیری بار طلاق دے دی خواہ بزبان قال یا بزبان تحریر تو اب خاوند نے گویا رجوع کا حق ضائع کردیا اب اگر دوبارہ میاں چاہے یا بیوی چاہے یا دونوں ہی چاہیں کسی صورت بھی یہ عورت اس کی بیوی نہیں رہ سکتی تاوقتیکہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے اور پھر وہ کسی وجہ سے طلاق دے دے یا وہ مر جائے۔ اس طرح سے طلاق گویا تین ” حیض “ تین ” طہر “ تین ” مہینے “ میں مکمل ہوگئی۔ غور کیجئے کہ اللہ ، اللہ کی کتاب اور اللہ کا رسول ﷺ ایک مومن خاوند کی۔ اس کے گھر بار کی کتنی عزت و حرمت ملحوظ رکھتے ہیں اور کس طرح مرد کی فوقیت کو واضح فرماتے ہیں اور اس کی بےعزتی و بےحرمتی ان کو کسی حال میں گوارا نہیں۔ کاش ! کہ آج مسلمان خود بھی اپنی اور اپنے خاندان کی عزت و حرمت کا اتنا خیال کرتا جتنا اس کے اللہ کو ہے تو آج خانگی فضیحتوں کا کوئی وجود بھی باقی نہ رہتا۔ طلاق دینے والا مطلقہ سے کوئی چیز دی ہوئی واپس لینے کا حق نہیں رکھتا : 389: اکثر انسان جب غصہ میں آ کر طلاق دیتا ہے تو یہ بھی کر گزرتا ہے کہ اب تک جو کچھ بیوی کو دیا ہے اس سے واپس چھین لے عرب جاہلیت میں تو یہ دستور اور بھی زیادہ پھیلا ہوا ہے۔ یہاں اس ظالمانہ دستور کی نشاندہی کی جا رہی ہے اور فرمایا جا رہا ہے کہ جب خاوند اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ مہر وغیرہ سے ایک پائی بھی واپس لینے کا مجاذ نہیں۔ قرآن کے الفاظ پر مزید غور کرو فرمایا ” وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْـًٔا “ ” مردوں کے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ وہ اپنی بیویوں کو دے چکے یا دینے کا عہد کیا تھا طلاق کے وقت اس میں سے کچھ واپس لے لیں۔ “ اور اب تک اگر مہر ادا نہیں کیا تو طلاق کے وقت ایک ایک کوڑی شمار کر کے دینی ہوگی۔ یہ بھی ایک طرح کا طلاق کی آزادی کو روکنا ہے۔ جب تک اتنی مدت تک دونوں کی صحبت و یکجائی رہی اور نکاح کے وقت تو یہی عہد و پیمان ہوا تھا کہ ہمیشہ ساتھ رہیں گے اب اگر بعض اسباب کی بنا پر نا چاقی ہوگئی تو پھر بھی دیا ہوا مہر واپس نہیں لیا جاسکتا۔ پھر جب مہر واپس نہیں لیا جاسکتا جو مرد کی طرف سے دیا گیا تھا تو وہ مال و دولت جو عورت ساتھ لائی تھی اس کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ اگر حق مہر سے یا جو خاوند نے خوشی سے بیوی کو دیا تھا اس میں سے واپس لینا حلال نہیں اور یہ ایک طرح کا ظلم ہے کہ اس میں سے کچھ واپس لے تو عورت کا ساتھ لایا ہوا سامان روکنا تو ہر حال حرام ہوگا اور صرف وہ مال ہی حرام نہ ٹھہرا بلکہ یہ ظلم عظیم ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ عام مفسرین نے تو اس سے صرف حق مہر کی رقم ہی مراد لی ہے لیکن بہت سے مفسرین اور خصوصاً ابن العربی (رح) مالکی نے اس سے ہر وہ مال مراد لیا ہے جو خاوند اپنی بیوی کو دے چکا ہو پھر حسن معاشرت ، حسن معیشت ، حسن سلوک کی تاکید ہر صورت میں ہے کہ بیویوں کو رکھو تو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ ، رخصت کرو تو بھی ہنسی خوشی یعنی اللہ کی رضا کے مطابق۔ ہاں عورت خلع کرنا چاہے تو مہر کا کچھ حصہ یا زیادہ سے زیادہ مکمل واپس لیا جاسکتا ہے : 390: فرمایا ہاں ! مہر واپس لینے کی صرف ایک صورت ہے کہ اس وقت جب کہ مرد و عورت میں اختلاف ہو اور پھر وہ اتنا بڑھ جائے یا اس انتہا کو پہنچ جائے کہ مصالحت کو کوئی صورت باقی نہ رہے ۔ جانبین سے بذریعہ حکم فیصلہ کی کوشش کی گئی مگر وہ بھی ناکام رہی ہو۔ مرد طلاق دینے پر راضی نہیں اور عورت اس فکر میں ہے کہ جس قدر ممکن ہو اس سے نجات حاصل کرے۔ ایسی حالت میں اگر عورت خودبخود اپنے خاوند کو کچھ دینے پر راضی ہوجائے تو خاوند اس رقم کے وصول کرنے پر شریعت کے لحاظ سے گنہگار نہ ہوگا۔ اس قسم کی طلاق کو شرعی اصطلاح میں خلع کہا جاتا ہے ان روایات سے اس مسئلہ پر اور زیادہ روشنی پڑتی ہے۔ (حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ جَمِیلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِیُّ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ أَتَتْ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَیْهِ فِی خُلُقٍ وَلَا دِینٍ وَلَکِنِّی أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِی الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اقْبَلْ الْحَدِیقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِیقَةً ) صحیح بخاری ، جلد ثانی ، باب الطلاق حدیث : 260) ” ازہر بن جمیل ، عبدالوہاب ثقفی ، خالد ، عکرمہ ، ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں ثابت بن قیس سے کسی بری عادت یا دینداری کی وجہ سے ناراض نہیں ہوں ، لیکن میں حالت اسلام میں ناشکری نہیں کرنا چاہتی ہوں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو اس کا باغ اس کو واپس کرنے کو تیار ہے ، اس نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے ثابت بن قیس سے فرمایا کہ اس کا باغ لے لو اور اس کو ایک طلاق دے دو ۔ “ (حَدَّثَنَی إِسْحَاقُ الْوَاسِطِیُّ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ عَنْ عِکْرِمَةَ أَنَّ أُخْتَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أُبَیٍّ بِهَذَا وَقَالَ تَرُدِّینَ حَدِیقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ فَرَدَّتْهَا وَأَمَرَهُ یُطَلِّقْهَا وَقَالَ إِبْرَاہِیمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ خَالِدٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَطَلِّقْهَا وَعَنْ أَیُّوبَ بْنِ أَبِی تَمِیمَةَ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ جَائَتْ امْرَأَةُ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنِّی لَا أَعْتِبُ عَلَی ثَابِتٍ فِی دِینٍ وَلَا خُلُقٍ وَلَکِنِّی لَا أُطِیقُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ ) بخاری جلد ثانی ص : 794 باب الخلع و کیف الطلاق فیہ) ” اسحاق واسطی ، خالد ، خالد حذاء ، عکرمہ ؓ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی اوفیٰ کی بہن نے اس کو روایت کیا اور بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو اس کا باغ واپس کردے گی ؟ اس نے کہا ہاں ! چناچہ اس کو باغ واپس دے دیا اور اس کو ایک طلاق دے دی ، ابراہیم بن طہمان نے بواسطہ خالد ، عکرمہ ، آپ ﷺ سے طَلِّقْهَا (اس کو طلاق دے دی) کا لفظ بیان کیا اور ابن تیمیہ (رح) سے بواسطہ عکرمہ ، ابن عباس ؓ منقول ہے ، انہوں نے کہا کہ ثابت بن قیس کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ثابت سے اس کی دینداری اور اخلاق کی وجہ سے ناراض نہیں ہوں ، لیکن میں اس کے ساتھ رہ نہیں سکتی ، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو اس کا باغ واپس کردے گی ، اس نے جواب دیا ہاں ! “ (حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ زَوْجَ بَرِیرَةَ کَانَ عَبْدًا یُقَالُ لَهُ مُغِیثٌ کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَیْهِ یَطُوفُ خَلْفَهَا یَبْکِی وَدُمُوعُهُ تَسِیلُ عَلَی لِحْیَتِهِ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعبَّاسٍ یَا عَبَّاسُ أَلَا تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِیثٍ بَرِیرَةَ وَمِنْ بُغْضِ بَرِیرَةَ مُغِیثًا فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَوْ رَاجَعْتِهِ قَالَتْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ تَأْمُرُنِی قَالَ إِنَّمَا أَنَا أَشْفَعُ قَالَتْ لَا حَاجَةَ لِی فِیہِ ) بخاری ج 2 ص : 295 باب شفاعۃ النبی۔ فی زوج بریرۃ) ” محمد ، عبدالوہاب ، خالد ، عکرمہ ، ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ بریرہ کا شوہر ایک مغیث نامی غلام تھا ، گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں کہ وہ بریرہ کے پیچھے روتا ہوا گھوم رہا ہے ، آنسو اس کی داڑھی پر گر رہے ہیں ، آپ ﷺ نے حضرت عباس ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اے عباس ! کیا تمہیں بریرہ سے مغیث کی محبت اور بریرہ کی مغیث سے عداوت پر تعجب نہیں ہوتا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کاش ! تو اسے لوٹا لے ، یعنی رجوع کرلے ، اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ مجھے حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا (نہیں بلکہ) میں تو صرف سفارش کر رہا ہوں ، بریرہ نے کہا تو پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ “ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مذکورہ آیت جس کا بیان جاری ہے سے معلوم ہوا جس کی وضاحت حدیث نے بھی کردی کہ جس طرح مرد کو طلاق دینے کا حق ہے اس طرح عورت کو بھی اپنے خاوند سے طلاق لینے کا حق ہے۔ یہ قانون اسلامی کے حدود ہیں ان سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ عورت جب طلاق طلب کریگی تو اسکو مہر کی رقم واپس لوٹانا ہوگی کلی طور پر یا جزوی طور پر یعنی جو صورت فریقین کے نزدیک خوش اسلوبی سے طے ہوجائے لیکن خلع دینے والے خاوند کو حق مہر سے زیادہ مال طلب کرنا کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے اگر وہ زیادہ مال طلب کریگا تو یہ حدود اللہ سے تجاوز ہوگا اگر عورت کے پاس وسعت مال ہے وہ اس سے زیادہ بھی دے سکتی ہے اس وقت بھی خاوند کیلئے لینا درست نہ ہوگا۔ میاں بیوی کے درمیان کچھ ایسے راز ہوتے ہیں جن میں زیادہ گہرائی میں جانا مناسب نہیں ہے ایک حدیث میں ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ تو طلاق کیوں طلب کرتی ہے۔ ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ قیس کے دین میں مجھے کوئی نقص معلوم نہیں ہوتا بس میں اس کو پسند نہیں کرتی اور میں نہیں چاہتی کہ اسلام میں رہتے ہوئے کفر رکروں۔ ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ثابت بن قیس ؓ کو بلوایا اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ تیری بیوی آخر طلاق کیوں طلب کرتی ہے ؟ ثابت بن قیس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے اللہ کی قسم آپ کی ذات اقدس کے بعد مجھے اپنی بیوی سب سے زیادہ عزیز اور پیاری ہے ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے ثابت بن قیس کی بی بی کی طرف دیکھا اور اشارہ کیا کہ تو کیا کہتی ہے اور ثابت بن قیس کیا کہتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ میں تو آپ ﷺ سے ایک بات کہہ چکی ہوں اب اس کے خلاف نہ کہوں گی بیشک یہ سب سے زیادہ اپنی بیوی پر یعنی مجھ پر مہربان ہیں لیکن میرے دل کو نہیں بھاتے نہ میں ان سے خوش ہوں نہ یہ مجھ سے خوش ہیں۔ یہ روایت بخاری میں ہے۔ آپ مزید غور کریں کہ خاوند قسمیہ کہہ رہا ہے کہ مجھے میری بیوی بہت محبوب ہے لیکن بیوی اس کی تردید نہ کرتے ہوئے پھر کہتی ہے کہ وہ میرے دل کو نہیں بھاتے نہ میں ان سے خوش ہوں اور نہ وہ مجھ سے خوش ہیں۔ بس اس میں راز ہے جس کی کرید اس سے زیادہ جائز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے بھی اس میں کوئی بحث نہیں فرمائی اور ثابت بن قیس ؓ کو اس کا باغ جو انہوں نے اپنی بیوی کو مہر میں دیا تھا واپس دلوا کر معاہدہ نکاح فسخ کرا دیا۔ قرآن کریم کے معجزانہ الفاظ پر ایک بار پھر غور کریں ارشاد ہوتا ہے : فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ 1ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ 1ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا 1ۚ ” اگر میاں بیوی کو اندیشہ ہو کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حقوق ادا نہ کرسکیں گے تو رضامندی سے ایسا ہو سکتا ہے میاں بیوی میں کچھ گناہ نہیں کہ بیوی اپنا پیچھا چھڑانے کیلئے بطور معاوضہ اپنے حق میں سے کچھ دے کر طلاق حاصل کرلے۔ یعنی معاہدہ نکاح فسخ کرا لے “ اس کا شرعی نام خلع ہے۔ ” اللہ کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہو سکیں گے۔ “ کے الفاظ پر نظر کرو جن کو قرآن کریم کی زبان نے اس طرح بیان فرمایا کہ : اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ 1ؕ، مختصر یہ کہ یہ کوئی ایسا حق نہیں جو کسی ایک کے ادا کرنے سے اد ہوجائے بلکہ یہ کوئی ایسا حق ہے جو دونوں کی رضامندی میں ہی ادا ہو سکتا ہے اس طرح کے خطرہ کو میاں بیوی ہی جان سکتے ہیں۔ ایسی صورت جب بھی اور جہاں بھی واقع ہو تو بہتر یہی ہے کہ خاوند عورت کو اس کی رضامندی کے مطابق فارغ کردینے میں پہل کرے ، یہ طریقہ مستحسن ہے اور زیادہ سے زیادہ وہ بیوی کے عزیزوں کو صورتحال سے آگاہ کر دے مزید بہتر ہوگا۔ لیکن عورت اتنی مجبور ہوجائے کہ اس نہ ظاہر کرنے والی بات کو ظاہر کر دے یعنی وہ خود طلاق کا مطالبہ کر دے تو خاوند کو زیادہ دیر لگائے بغیر معاملہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کردینا چاہیے تاکہ وہ نہ اپنی ذات پر ظلم کا باعث ہو اور نہ فریق ثانی یعنی بیوی کے لیے باعث ظلم بنے کیونکہ یہ کوئی ایسا حق نہیں جو اکیلے میاں کے ادا کرنے سے بھی ادا ہوتا رہے گا۔ فقط
Top