Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 15
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَ تَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّ تَحْسَبُوْنَهٗ هَیِّنًا١ۖۗ وَّ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمٌ
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ : جب تم لاتے تھے اسے بِاَلْسِنَتِكُمْ : اپنی زبانوں پر وَتَقُوْلُوْنَ : اور تم کہتے تھے بِاَفْوَاهِكُمْ : اپنے منہ سے مَّا لَيْسَ : جو نہیں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : کوئی علم وَّتَحْسَبُوْنَهٗ : اور تم اسے گمان کرتے تھے هَيِّنًا : ہلکی بات وَّهُوَ : حالانکہ وہ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمٌ : بہت بڑی (بات)
جب تم ان (ہفوات) کو اپنی زبانوں پر لا رہے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات نکالتے تھے جس کا تم کو ہرگز علم نہ تھا اور تم اس کو معمولی بات سمجھتے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی
سننا اور سن کر اس کو آگے بیان کردینا اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے : 23۔ سماعت کس کا فعل ہے ؟ کان کا بلاشبہ جو کچھ کوئی بیان کرے گا کان ان کو سنے گا لیکن سن لینے کے بعد سوچنے اور سمجھنے کے لئے اللہ نے تم کو کوئی چیز نہیں دی ؟ کیوں نہیں عقل وفکر اس لئے دی گئی کہ جو کچھ سنو اس کو عقل وفکر پر رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرو پھر سنی ہوئی بات غلط بھی ہو سکتی ہے صحیح بھی ۔ اگر بات صحیح ہے تو آگے چلاؤ ورنہ اس کی تردید کر دو ۔ کان کے سوراخ نے اپنا کام کیا تو عقل نے اپنا کام کیوں چھوڑ دیا ؟ اور یہ گز بھر زبان تم نے اسیے ہی کیسے چلا دی اس کو کو روک کر کیوں نہ رکھا تاکہ عقل کو اپنا کام کرلینے کے بعد زبان اپنا کام کرتی اور وہ اس طرح چلتی جس طرح چلنے کا حکم اس کو عقل دیتی ، افسوس ہے تم پر کہ تم ان ہفوات کو اپنی زبانوں پر لا رہے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات نکالتے تھے جس کا تم کو ہرگز ہرگز علم نہ تھا اور یہ صحیح ہے کہ تم میں کتنے تھے جو خاموش تھے لیکن خاموش رہنے کی بھی آخر کوئی حد ہوتی ہے تمہاری زبانیں آخر گنگ کیوں ہوگئیں اور تم نے اس واقعہ کی تردید کیوں نہ کردی کیا تمہاری عقل نے کچھ کہنے سے انکار کردیا کیا تم نے اس بات کو ہلکا سمجھا اس لئے خاموش ہوگئے اگر تم نے اس کو ہلکا سمجھا تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو یہ بات بہت بڑی تھی اور اس کی پاداش میں تم کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا جاسکتا تھا لیکن اللہ کے خاص فضل و رحمت کی چادر نے تم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور تم کو موقع فراہم کردیا کہ گزشتہ را صلوۃ اور آئندہ را احتیاط کے اصول سے کام لیتے ہوئے اپنی اصلاح کرلو ، لیکن غور کرو کہ آج ہماری قوم کی حالت کیا ہے ؟ کیا نقل ودرایت کے معاملہ میں جس احتیاط کی ہم کو ہدایت دی گئی ہے اس سے آج ہم کام لے رہے ہیں ؟ کیا جو اصول ہم نے روایات کو قبول کرنے اور رد کرنے کے لئے بنائے ہیں وہ اسی اصول کے مطابق ہیں ؟ راویوں کی بحث کے جو اصول ہمارے ہاں چلے آ رہے ہیں کیا وہ اسی اصول کے مطابق ہیں ؟ کیا عقل کو بالائے طاق رکھ کر صرف زبان کو قبولیت روایت کا ذریعہ بنانا صحیح ہو سکتا ہے ؟ کیا ہمارے ہاں کے بڑے بڑے متقی اور پرہیزگار جن کے علم کا طوطی بولتا ہے جن کے تقوی کی لوگ قسمیں کھاتے ہیں ان کی زبانیں یہ احتیاط برت رہی ہیں جس احتیاط کا اس آیت میں ہم کو حکم دیا گیا ہے ؟ اہل علم وفکر کے لئے یہ آیات کریمات اپنے اندر بہت اسباق رکھتی ہیں اس لئے ان پر غور وفکر کرنا ان کے لئے بہت ضروری ہے اگر اس اصول کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو کسی بات کو غلط یا صحیح قرار دینے کے لئے جس طرح اور جس انداز سے راویوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں رہتی لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں جہالت کا نام علم رکھ دیا گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جہالت کبھی علم نہیں ہو سکتی ، ہمارے ہاں زیادہ احتیاط کے لئے یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے اس لئے سمجھدار اسی کو سمجھا جاتا ہے جو چھاچھ کو پھونک پھونک کر پئے حالانکہ عقل وفکر ہم کو دودھ اور چھاچھ میں فرق بتا دیتی ہے اور اگر عقل سے کام لیا جاتا تو ہم چھاچھ ہی کو پھونکیں نہ مارتے رہتے ، گھوڑے کے دانت کتنے ؟ فیصلہ کے لئے ہم کتابوں کے ڈھیر رکھتے ہیں دونوں طرف سے دلائل کی بھرمار ہوتی ہے ‘ بڑے بڑے پروہت اور علامہ حضرات دلائل کو بیان کرتے ہیں اور نقل پر نقل پیش کی جاتی ہے لیکن اگر کوئی نوجوان یہ کہہ دے کہ جناب عالی ! میں یہ گھوڑا لے آیا ہوں مہربانی فرما کر اس کے دانت گن لیں تاکہ بات ختم ہوجائے تو فریقین اس نوجوان پر پل پڑتے ہیں اور مار مار کر ان کو ہلکان کردیتے ہیں اس طرح نہ گھوڑا نظر آتا ہے اور نہ گھوڑے والا اور ہماری بحث جوں کی توں قائم رہتی ہے ۔ اللہ ہم سب کو بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے لیکن اس دعا کی قبولیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم عقل سے کام لیں کیونکہ یہ اس اللہ کی عطا کردہ ہے جس نے اس کتاب کو نازل کیا ہے ۔
Top