Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 17
یَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٖۤ اَبَدًا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
يَعِظُكُمُ : تمہیں نصیحت کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ تَعُوْدُوْا : تم پھر کرو لِمِثْلِهٖٓ : ایسا کام اَبَدًا : کبھی بھی اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ اس قسم کی بات پھر کبھی نہ کرنا اگر تم ایمان رکھتے ہو
اگر تم ایمان رکھتے ہو تو آئندہ اس طرح کی غلطی کبھی نہ کرنا : 25۔ اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے ہر زمانہ کے مسلمانوں کو مخاطب کرکے ایک بات کہہ دی جو ہر دور کے مسلمانوں کین لئے ایک ہی طرح کی حیثیت رکھتی ہے جو اس وقت موجود تھے اور آج موجود ہیں اور جو رہتی دنیا تک آتے رہیں گے یہ سب کے لئے تنبیہہ ہے کہ جو ہوا سو ہوا اس پر لڑنے بھڑنے اور مرنے مارنے کی ضرورت نہیں آئندہ کبھی ایسا نہ ہو کیونکہ یہ بات ایمان کے تقاضے کے خلاف ہے کہ معاشرہ اسلامی میں رہتے ہوئے کسی پاکباز مرد یا عورت کے متعلق کوئی ایسی ہوائی بات کہے اور تم لوگ خاموش رہو اور اس بات کو واگزار کر دو گویا اس طرح کی باتوں سے احتراز ایمان کا لازمی تقاضا ہے اگر ان سے احتراز نہ کیا گیا تو ایمان کا دعوی بالکل بےمعنی ہو کر رہ جائے گا ۔ اب غور وفکر کی بات یہ ہے کہ آج جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں کیا اس معاشرہ کو ان آیات کریمات کی روشنی میں اسلامی معاشرہ کہا جاسکتا ہے ؟ کیا ہمارے عوام و خواص اور اخص الخواص قوم کے سیاسی اور مذہبی لیڈر ایمان کے ان تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں ؟ سچی اور صاف بات تو یہی ہے کہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے اور اسلام کی قدروں کو اس طرح پامال کیا جا رہا ہے کہ شاید کبھی کسی زمانہ میں ایسا ہوا ہو اور پھر طرہ یہ کہ یہ سب کچھ کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کو عوام نہیں بلکہ خواص کہا جاتا ہے ، موجودہ واقعات جو روپذیر ہو رہے ہیں وہ اپنی جگہ پر ہیں ہمارے ہاں تو آج تک مسلمان کہلانے والوں کے ہاں بھی گزشتہ واقعات پر زبانیں اسی طرح چلائی جاتی ہیں جس طرح اس وقت منافقین نے چلائی تھیں بلکہ ان سے ان کا مقام بہت آگے ہے کہ وہ جو کچھ کہتے تھے گول مول الفاظ میں کہتے تھے اور آج کے یہ نام کے مسلمان صاف صاف کہتے نظر آتے ہیں ۔ جس گروہ کو شیعہ کہا جاتا ہے اگر ان کے لٹریچر سے کچھ بھی واقفیت ہے یا ان کے علماء گرامی قدر کی مجالس سے شناسائی ہے تو یقینا یہ بات واضح ہوگی کہ ایک طرف یہ مسلمان کہلانے والا گروہ ہے اور دوسری طرف عیسائی کہلانے والا ‘ ایک عیسائی عالم لکھتا ہے کہ ” عائشہ ؓ کی سیرت سے متعلق کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔ ان کی زندگی واقعہ سے قبل بھی اور بعد بھی اس پر گواہ ہے کہ ہم انہیں اس الزام سے بالکل بری تسلیم کریں “ (لائف آف محمد ﷺ 303 ‘ 304) افسوس کہ ہمارے یہ قضئے آج تک حل نہ ہوئے تو آئندہ کیا حل ہوں گے اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق دے ۔
Top