Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 23
اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ : جو لوگ تہمت لگاتے ہیں الْمُحْصَنٰتِ : پاکدامن (جمع) الْغٰفِلٰتِ : بھولی بھالی انجان الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتیں لُعِنُوْا : لعنت ہے ان پر فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
بلاشبہ جو لوگ پاک دامن ، بیخبر اور ایمان والی عورتوں پر اتہام لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے
پاکدامن مومن عورتوں پر الزام لگانے والے لعنت الہی کے مستحق ہیں : 33۔ پیچھے ایک خاص واقعہ کا ذکر تھا اور زیر نظر آیت میں عام قانون بیان کیا جا رہا ہے کہ یاد رکھو جو لوگ پاکدامن عورتوں پر اس طرح کا الزام لگائیں خصوصا وہ عورتیں جو طبعا انتی نیک ہوتی ہیں کہ ان کے دلوں میں کسی ایسی حاکت کا خیال تک بھی نہیں آتا ‘ جو ایسے ماحول میں پرورش پاتی ہیں جو ماحول فرشتوں سے بھی پاکیزہ لوگوں کا ہے جو ایسی مصروف ترین زندگی بسر کر رہی ہوتی ہے کہ ان کے لئے ایسے گندے تخیلات کے اپنانے کا وقت ہی نہیں ہوتا اور جن کا قدم کبھی چار دیواری سے باہر ہی نہیں نکلتا الا کسی شرعی ضرورت کے لئے اور وہ اپنی فطرت و پاکیزگی کے باعث کمینہ خصلت لوگوں کے طور اطوار سے بالکل ناواقف اور انجان ہوا کرتی ہیں اور انہیں کبھی بھولے سے بھی ایسا خیال نہیں آتا کہ ان پر بھی کوئی شخص انگشت زنی کرسکتا ہے فرمایا جو شخص ایسی نیک فطرت ‘ عفت شعار مسلمان عورتوں پر اس قسم کا گھناؤنا الزام لگاتا ہے دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی اس پر پھٹکار ہوگی اور انجام کار اس کو درد ناک عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا ، ایک ایسا واقعہ معرض وجود میں آیا جس سے اس وقت یقینا کچھ افراد کو ذہنی اذیت پہنچی لیکن الزام لگانے والے جب خود قانون کی زد میں آگئے اور ملزم کو الہی عدالت سے بری کردینے کا اعلان ہوا تو یقینا ان کی ذہنی اذیت بھی دور ہوئی اور اس بریت سے ایک خوشی بھی حاصل ہوگئی اور امت کے عورتوں کے لئے ایک قانون بھی پاس ہوگیا جو رہتی دنیا تک کام آتا رہے گا ۔ بعض مفسرین نے زیر نظر آیت کو امہات المومنین کے لئے خاص کرنے کی سعی و کوشش کی ہے جو کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے نہ قانون کے اندر کوئی ایسا اشارہ موجود ہے نہ شارع نے اس کی کوئی ایسی تشریح کی ہے اور نہ ہی عقل ہی اس کو قبول کرتی ہے بلکہ اس کے برعکس نبی اعظم وآخر ﷺ نے جن سات موبقات چیزوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اس میں ساتواں نمبر اسی کو قرار دیا ہے احادیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچتے رہو ۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ ہلاک کردینے والی سات چیزیں کیا ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : 1۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کا شریک کرنا ۔ 2۔ جادو کرنا (جادو کیا ہے اس کا ذکر پیچھے گزر چکا) 3۔ کسی بےگناہ کو قتل کرنا ۔ 4۔ سود کھانا ۔ 5۔ یتیم کا مال کھانا ۔ 6۔ میدان جنگ سے بھاگ آنا ۔ 7۔ پاکدامن ‘ بیخبر مومن عورتوں پر تہمت لگانا ۔ شاید کسی ذہن میں خیال پیدا ہو کہ یہ ایمان کی شرط کیوں ؟ یقینا اس لئے کہ یہ معاشرہ اسلامی کا قانون بیان کیا جارہا ہے اور اس کو کفر کے معاشرہ سے الگ کرنے کے لئے یہ لفظ بیان کیا گیا تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ یہ اسلام کا قانون ہے جو کسی دنیوی مقننہ کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی طرف سے محمد رسول اللہ ﷺ پر وحی کیا گیا ہے اور جس مملکت میں اس کا نفاذ نہیں ہوگا وہ مملک اسلامی نہیں ہوگی ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلامی مملکت میں غیر مسلم عورت کی عزت کو محفوظ نہیں رکھا گیا بلکہ تشریحات میں اس کی وضاحت موجود ہے نبی اعظم وآخر ﷺ نے ارشاد فرمایا قذف المحصنۃ یھدم عمل مائۃ سنۃ (طبرانی) کسی پاکدامن عورت پر بہتان لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کردیتا ہے لہذا اسلامی مملکت میں نفاذ قانون میں ہر ” محصنہ “ کے لئے یہی قانون ہے ۔ اور قانون میں علیحدہ وضاحت کی بجائے ساتھ ہی وضاحت کردی گئی ہے کہ پاکبازی ایمان کی شرائط میں سے ہے ۔ فرمایا دنیوی سزا جو مقرر کی گئی ہے وہ نظم وضبط کے لئے رکھی گئی ہے اور یقینا وہ دنیوی رسوائی بھی ہے لیکن آخرت کا عذاب تو اور بھی سخت ہے اور اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو وہ بھی یقینا ان کو دیا جائے گا ۔ ” اگر انہوں نے توبہ نہ کی “ کی شرط اگرچہ زیر نظر آیت میں نہیں لگائی گئی تاہم دوسری جگہ اس کی وضاحت موجود ہے اور وہ پیچھے آیت پانچ میں گزر چکی ہے اور یہ بھی کہ جو اصول ہوتے ہیں ان کو ہر بار بیان نہیں کیا جاتا بلکہ وہ ایک ہی بار بیان کردیئے جاتے ہیں اور وہ ہر جگہ قائم رہتے ہیں اسی لئے ان کو اصول کہا جاتا ہے ۔
Top