Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 25
یَوْمَئِذٍ یُّوَفِّیْهِمُ اللّٰهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ وَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ
يَوْمَئِذٍ : اس دن يُّوَفِّيْهِمُ : پورا دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ دِيْنَهُمُ : ان کا بدلہ الْحَقَّ : سچ (ٹھیک ٹھیک) وَيَعْلَمُوْنَ : اور وہ جان لیں گے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ هُوَ : وہی الْحَقُّ : برحق الْمُبِيْنُ : ظاہر کرنے والا
اس دن اللہ ان کو پوری پوری (جرم کے مطابق) سزا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی سچا ہے ، ظاہر کرنے والا ہے
جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس کی ان کو پوری پوری جزاء دی جائے گی : 35۔ زیر نظر آیت اور اس جیسی قرآن کریم کی دوسری آیتیں انسان کے ہر عمل کی جزا سزا کے لئے دلیل ہیں اور بلاشبہ انسان جو کچھ اس زندگی میں کرتا ہے اس کے نتیجہ سے اس کو دوچار ہونا لازم وضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر انسان کے لئے اس کے ہر ہر عمل کی علیحدہ علیحدہ جزاء وسزا ہوگی نہ تو اس کی عقل تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی قرآن وسنت میں اس کی اس طرح وضاحت کی گئی ہے اس لئے کہ اس طرح تو کوئی ایک انسان بھی خواہ وہ کتنا ہی پاکباز اور پرہیزگار کیوں نہ ہو سزا سے نہیں بچ سکتا اور یہ نظریہ قرآن کریم اور احادیث میں کہیں بھی نہیں پیش کیا گیا بلکہ نظریہ یہ ہے کہ انسان نے جو کچھ زندگی میں کیا ہوگا اس کا باقاعدہ حساب کتاب ہوگا اور اگر اس کی برائیوں سے اس کی نیکیوں کا وزن زیادہ ہوگا تو وہ کامیاب قرار پائے گا اور اس طرح جو کامیاب ہوا وہ یقینا سزا سے بچ گیا یعنی بچالیا گیا اور جس کی برائیوں کا وزن زیادہ نکلا وہ اپنی برائیوں کی زیادتی کے مطابق سزا کا مستحق ٹھہرے گا اور جتنی اس کی سزا ہوگی اس کو بھگت لینے کے بعد وہ جنت کا مستحق قرار پائے گا اور اس کو اس سزا سے نکال باہر کیا جائے گا ۔ ہاں ! اس سلسلہ میں قرآن کریم نے چند اصولی باتیں ہیں جو وضاحت کے ساتھ پیش کی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ : 1۔ کافر ‘ مشرک اور منافق کے وہ اعمال جو نیک اعمال کے ضمن میں آتے ہیں ضائع ہو کر رہ جائیں گے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے خود ضائع کئے ہوں گے مثلا فصل لینے کے لئے بیج ڈالنا ضروری ہے لیکن بیج اگر پتھر کی چٹان پر ڈال دیا جائے تو پھر کیا وہ بار آور ہوگا ؟ اور اگر شور زمین پر ڈال دیا جائے پھر ؟ قرآن کریم نے اس کی مثال اس طرح کبھی پتھر کی چٹان پر بیج ڈالنے سے اور کبھی ناکارہ زمین میں بیج ڈالنے سے ‘ کبھی بیج ڈال کر جب وہ اگ آئے تو اس پر ہل چلا دینے سے ‘ کبھی طغیانی سے اور کبھی راکھ اور ریت سے دی ہے ملاحظہ ہو سورة الاعراف 7 : 147 ‘ التوبہ 9 : 17 ‘ 67 تا 69 ‘ ہود 11 : 15 ‘ 16 ‘ ابراہیم 14 : 18 ‘ الکہف 18 : 104 ‘ 105 وغیرہ وغیرہ ۔ 2۔ برائی کی سزا اتنی ہی دی جاتی ہے جتنی کہ کسی برائی کرنے والے نے برائی کی مگر نیکیوں کی جزا اصل فعل سے زیادہ دی جائے گی بلکہ تصریح ہے کہ ہر نیکی کا اجر دس گنا ہے اور اس سے زیادہ جتنا چاہے اللہ تعالیٰ اور بڑھا دے ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سورة البقرہ 2 : 261 ‘ الانعام 6 : 160 ‘ یونس 10 : 26 ‘ 27 وغیرہ ۔ 3۔ مومن اگر موبقات اور کبائر سے پرہیز کریں گے تو ان کے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف کردیئے جائیں گے ۔ تفصیل کے لئے دیکھو سورة النساء 4 : 41 ‘ سورة الشوری 42 : 37 وغیرہ ۔ (یوفیھم اللہ) اللہ تعالیٰ ان کو پورا پورا دے گا ‘ کیا پورا پورا دے گا ؟ فرمایا (دینھم) ان کا بدلہ (الحق) جس کے وہ حق دار ہیں (ویعلمون) اور وہ جان لیں گے کہ (آیت) ” ان اللہ ھو الحق المبین “۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہر بات واضح کرنے والا ہے ۔
Top