Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 26
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ١ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ١ۚ اُولٰٓئِكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ۠   ۧ
اَلْخَبِيْثٰتُ : ناپاک (گندی) عورتیں لِلْخَبِيْثِيْنَ : گندے مردوں کے لیے وَالْخَبِيْثُوْنَ : اور گندے مرد لِلْخَبِيْثٰتِ : گندی عورتوں کے لیے وَالطَّيِّبٰتُ : اور پاک عورتیں لِلطَّيِّبِيْنَ : پاک مردوں کے لیے وَالطَّيِّبُوْنَ : اور پاک مرد (جمع) لِلطَّيِّبٰتِ : پاک عورتوں کے لیے اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ مُبَرَّءُوْنَ : مبرا ہیں مِمَّا : اس سے جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : مغفرت وَّرِزْقٌ : اور روزی كَرِيْمٌ : عزت کی
ناپاک باتیں ناپاک لوگوں (کا کام ہے) اور ناپاک لوگ ناپاک باتیں (ہی کیا کرتے) ہیں اور پاکیزہ باتیں پاکیزہ لوگ (کرتے) اور پاکیزہ لوگ پاکیزہ باتیں (ہی کیا کرتے ہیں) یہ سب لوگ ایسی باتوں سے مبرا ہیں جو وہ لوگ کہتے ہیں ، ان کے لیے تو اللہ کی بخشش اور عزت کی روزی ہے
ناپاک باتیں ناپاک لوگوں کا کام ہے اور پاکیزہ باتیں پاکیزہ لوگوں کا : 36۔ ا : زیر نظر آیت کا ایک مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ناپاک منافقوں کے لئے ناپاک باتیں ہی رہ گئی ہیں کیونکہ وہ ناپاک باتوں کو پسند کرتے ہیں نہ ان کے دلوں میں پاک خیالات آتے ہیں نہ وہ دوسروں کی طرف انہیں منسوب کرتے ہیں اور (اولئک) میں اشارہ ان پاک لوگوں کی طرف ہے جن پر انہوں نے اتہام باندھا تھا لیکن آخر ان گندے لوگوں نے ایسے گندے کام کی نسبت ان کی طرف کر کے ان کا کیا نقصان کیا ؟ وہ آخر نقصان کر بھی کیا سکتے تھے جب کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت و بخشش ان کا ساتھ دے رہی تھی اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے عزت والا رزق رکھا تھا ۔ چونکہ (خبیثات) اور (طیبت) سے برے اعمال اور اچھے اعمال بھی مراد لئے جاسکتے ہیں اس لئے اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی سمجھا گیا ہے کہ ” برے اعمال ہی لوگوں کو سجتے ہیں اور نیک اعمال نیک لوگوں کو سزاوار ہیں نیک لوگ اس سے پاک ہیں کہ برے کام ان پر چسپاں ہوں جو منسوب کرنے والوں نے ان کی طرف منسوب کیے ۔ “ ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کو اور پاک عورتوں پاک مردوں کو زیب دیتی ہیں : 36۔ ب : یہ بات مشاہدہ میں ہے اور دنیا کا عام دستور یہی ہے کہ فاحشہ عورتیں شریف مردوں کے ساتھ کبھی زندگی بسر نہیں کرسکتیں بلکہ ان کی محبت والفت ہمیشہ خبیث اور گندے مردوں کے ساتھ ہوتی ہے یہی حال مردوں کا ہے کہ شریف مرد و عورت کانباہ تو آپس میں ہو سکتا ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ ایک شریف انسان کے گھر میں ایک فاحشہ عورت رہ سکے یا بداخلاق کے گھر میں شریف عورت۔ تم سب کو تسلیم ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ سے بڑھ کر دنیا میں کوئی شخص بھی صاحب تقوی وورع نہیں ہو سکتا ‘ تمہیں ان کی طہارت و پاکیزگی اور معصومیت پر پورا اعتماد ہے بلکہ یہ تمہارے عقیدہ کا ایک خاص جز ہے پھر یہ کس قدر حماقت ونادانی ہے کہ ان کی اہلیہ ام المومنین پر تم اتہام لگاتے ہو حالانکہ آپ خود اس امر کا اعلان کرچکے ہیں کہ مجھے اپنی اہلیہ پر پورا پورا اعتماد ہے پھر کسی دوسرے کا کیا حق ہے کہ وہ اس معاملہ میں لب کشائی کرے ۔ یہ اور اسی طرح کے دوسرے اور مطلب بھی اس آیت کے بیان کئے گئے ہیں لیکن ہمیں پہلا مطلب سب سے جامع معلوم ہوتا ہے اس لئے ہم نے اس کو پہلے تحریر کیا ہے ۔ پہلے مطلب ہی کو عبداللہ بن عباس ؓ نے بھی بیان کیا ہے چناچہ آپ نے فرمایا کہ (الخبیثت) سے مراد بری باتیں ہیں اور (الطیبت) سے مراد اچھی باتیں پھر مجاہد ‘ عطاء ‘ سعید بن جبیر ‘ شعبی ‘ حسن بصری ‘ حبیب بن ابی ثابت اور ضحاک کی بھی یہی رائے تفاسیر میں بیان کی گئی ہے اور اس کو ابن جریر طبری نے اختیار کیا ہے اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسی بیہودہ باتیں وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خود بداخلاق اور خبیث ہوں اور جو متقی و پرہیز گار ہوں ان کے دلوں میں ہمیشہ جذبات صادقہ اور افکار صالحہ پیدا ہوتے ہیں اور بلاشبہ اہل بیت ان تمام بیہودہ باتوں سے پاک ہیں ۔ اس آیت 36 پر وہ واقعہ ختم ہوگیا جو افک کے نام سے معروف ہے بلکہ یہ آیت پردے کے احکام کے لئے توطیہ وتمہید کا کام بھی دیتی ہے اور یہ انسانی زندگی کے اصول ومبادیات میں سے ہے جس کو تسلیم کرلینے کے بعد ہم حسب ذیل نتائج پر پہنچتے ہیں : (i) خاوند اور بیوی میں ایک دوسرے پر کامل اعتماد پیدا ہوگا اور اختلاط وارتباط بڑھے گا جو ازدواج کے مثمر کرنے کے لئے ضروری ولازمی ہے ۔ (ii) ان کا تمام وقت بیرونی دنیا کے لئے پراسرار ہے اور بلاشبہ پر اسرار ہی ہونا چاہئے ۔ (iii) کسی شخص کو ان کے تعلقات وروابط میں مداخلت کا حق نہیں پہنچتا ضرورت اس امر کی ہے کہ ادنی ترین مداخلت کو بھی روکا جائے اسی لئے باہمی روابط کو صاف اور غیر مخدوش رکھنے کے لئے ان قوانین کا نفاذ ضروری ہے جو آنے والی آیت 27 میں آئے ہیں ۔ (iv) اس آیت سے زنا کے پیشہ کی جڑ کٹ جاتی ہے جس کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ زنا کی صورت میں لوگ عموما عورت کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں اور مرد سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی لیکن افسوس کہ اس وقت مسلمانوں میں اور خصوصا اس ملک عزیز میں یہ مرج ترقی پذیر ہے جو قرآن کریم کی آیات سے دوری کی واضح علامت ہے ۔
Top