Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 30
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
قُلْ : آپ فرما دیں لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومون مردوں کو يَغُضُّوْا : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظُوْا : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں ذٰلِكَ : یہ اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : باخبر ہے بِمَا : اس سے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
(اے پیغمبر اسلام ! ) آپ ایمان والوں سے فرما دیں کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنے ستروں کی حفاظت کریں یہ بات ان کے لیے بڑی پاکیزہ ہے بلاشبہ اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے
ایمان والوں کو حکم کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنے ستروں کی حفاظت کریں : 41۔ (یغضوا) کی اصل غ ض ض ہے اور (غض) نظر اور آواز میں کمی کرنے کے معنوں میں استعمال ہے چناچہ قرآن کریم میں بھی دونوں باتوں میں استعمال ہوا ہے چناچہ ارشاد الہی ہے کہ (واغضض من صوتک) (لقمن 31 : 19) اور (آیت) ” یغضوا من ابصارھم “۔ کے الفاظ اس جگہ استعمال ہوئے ہیں یعنی اپنی نظروں کو نیچا رکھو ۔ اسلام ہم کو صرف گناہوں ہی سے نہیں روکتا اور ان کے ارتکاب پر ہی سزا نہیں دیتا بلکہ وہ ان تمام وسائل اور ذرائع پر پابندی عائد کرتا ہے اور انہیں ممنوع قرار دیتا ہے جو انسانوں کو گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں کیونکہ جب گناہوں کی طرف لے جانے والا راستہ ہی بند ہوگا تو گناہوں کا ارتکاب یقینا نہیں ہوگا ۔ طبیعت میں ہیجان پیدا کرنے والے اور جذبات میں شہوت کو مشتعل کرنے والے اسباب سے نہ رکنا اور ان کو کھلی چھٹی دے دینا اور پھر یہ توقع رکھنا کہ ہم اپنے قانون کی قوت سے لوگوں کو برائی سے بچا لیں گے بہت بڑی نادانی کی بات ہے اگر کوئی نظام ان عوامل اور محرکات کا قلع قمع نہیں کرتا جو انسان کو بدکاری کی طرف دھکیل کرلے جاتے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اس برائی کو برائی ہی نہیں سمجھتا اور نہ اس سے لوگوں کو بچانے کی مخلصانہ کوشش کرتا ہے ، اس کی زبان پر جو کچھ ہے وہ اس کے دل کی صدا نہیں بلکہ محض ریا کاری اور ملمع سازی ہے ۔ درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہوشیار باش ! کسی کو چلتے دریا میں غوطہ زن کردیا جائے اور پھر اس کو یہ بھی کہا جائے کہ خبردار اپنے دامن کو پانی سے بچانا سراسر زیادتی ہے ۔ اس سورت کا آغاز بدکاری کی سزا کے ذکر سے ہوا یہاں ان راستوں ہی کو بند کیا جا رہا ہے جو انسان کو اس جرم شنیع کی طرف لے جاتے ہیں ، بدکاری کا سب سے خطرناک راستہ نظر بازی ہے اس لئے سب سے پہلے اس کو بند کیا جا رہا ہے ، مردوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھو اور دنیا کی جڑ کو سنبھال کر رکھو ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ جب نگاہیں دوچار نہیں ہوں گی تو دل میں کسی قسم کی کشش پیدا نہیں ہوگی اور پھر جب کشش ہی پیدا نہیں ہوگی تو کسی بدفعل کا ارتکاب ہی آخر کیوں کر ہوگا ۔ زیر نظر آیت میں آنکھوں کو مطلقا بند رکھنے کا حکم نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور نظر بھر کر دیکھنے سے منع کیا جا رہا ہے پھر یہ بھی کہ اتفاقی نظر کوئی جرم کی نظر نہیں ہاں ! اتفاقی نظر پڑی اور اس سے دل میں ایک بار پھر دیکھنے کا داعیہ پیدا ہوا لیکن فورا شریعت درمیان میں حائل ہوگئی اور اس نے دوبارہ نظر اوپر نہ اٹھنے دی اور دل نے فورا مہر ثبت کردی کہ دوبارہ دیکھنا حرام ہے تو اس طرح سے رک جانا کمالات انسانی میں سے ایک بہت بڑا کمال ہے ۔
Top