Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 36
فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ١ۙ یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِۙ
فِيْ بُيُوْتٍ : ان گھروں میں اَذِنَ : حکم دیا اللّٰهُ : اللہ اَنْ تُرْفَعَ : کہ بلند کیا جائے وَيُذْكَرَ : اور لیا جائے فِيْهَا : ان میں اسْمُهٗ : اس کا نام يُسَبِّحُ : تسبیح کرتے ہیں لَهٗ : اس کی فِيْهَا : ان میں بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام
(انہی) گھروں میں جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کی عظمت کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے وہاں لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں
وہ عظمت والے گھروں میں صبح وشام تسبیح میں مصروف رہتے ہیں : 60۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا نور ہر جگہ کار فرما ہے لیکن اس کو اخذ کرنے کے لئے کچھ مخصوص گھر بھی بنائے گئے ہیں جو کچھ کسی کی زبان سے نکلتا ہے بلاکم وکاست سب کا سب کائنات کے اندر محفوظ ہے لیکن دوسروں جگہوں پر جو سنائی دیتا ہے لیکن فائدہ کون حاصل کرتے ہیں ؟ وہی جو فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ اپنے سر پر آنکھیں رکھتے ہیں ۔ لیکن جو سپرہ چشم ہیں ان کو تو عین دوپہر کے وقت بھی کچھ نظر نہیں آتا۔ اس طرح اللہ رب کریم کے نور کو اخذ کرنے کے لئے کچھ خاص عبادت خانے بنائے گئے ہیں جن کو اسلام کی زبان میں مساجد کا نام دیا گیا ہے اور ہم ان کو ” اللہ کے گھروں “ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں اس لئے اس میں بتایا یہ گیا ہے کہ اللہ کے نور کو اخذ کرنے کے لئے سلیم الطبع لوگ صبح وشام کی نمازوں میں مسجدوں کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی تسبیح وتہلیل اور تقدیس و پاکیزگی میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے لئے وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب محمد رسول اللہ ﷺ نے بتایا اور سمجھایا ہے کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس کی طرف ہم کو دعوت دی گئی ہے ۔ قرآن کریم نے صبح وشام ہی کا اکثر مقامات میں ذکر کیا ہے کیونکہ یہی اوقات سارے انسانوں کے لئے یا اکثریت کے لئے گھر میں رہنے کے ہیں اور باقی اوقات مختلف جگہوں پر آسکتے ہیں اور آتے ہیں ۔ (ترفع) سے مراد مساجد کا بلند کرنا ہے یعنی ان کی عمارات بھی شاندار ہوں اور نہایت پاک وستھری بھی ہوں ‘ کوڑے کرکٹ کا نام ونشان تک نہ ہو۔ دیواروں اور فرش پر بدنما دھبے اور داغ بھی نظر نہ آئیں ‘ چھتوں پر مکڑی نے جالے نہ تن دیئے ہوں ، حدیث میں ہے کہ من بنی اللہ مسجدا بنی اللہ لہ بیتا فی الجنہ ” جو شخص رضائے الہی کے لئے مسجد بناتا ہے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے گھر تعمیر فرما دیتا ہے “ لیکن ہمارے ملک میں جو لوگوں سے مانگ مانگ کر مسجدیں بنانے اور اس کو ایک کاروبار بنا لینے کا رواج ہوچکا ہے اس کی کوئی اصل اسلام میں نہیں ہے ۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ مقامی لوگ اپنی ضرورت کے مطابق اپنی استطاعت کے مطابق مسجد تعمیر کریں یا اگر کوئی ایک ہی شخص یا جماعت اپنی مرضی سے کسی مناسب جگہ مسجد تعمیر کردے اور مسجد تعمیر کرنے کے بعد اس میں باقاعدہ جماعت کا انتظام کیا جائے ، زیادہ سے زیادہ اگر مسجد کی ضرورت کی مسافر خانہ کے قریب ضروری ہو تو ان مسافروں سے بھی اس میں کسی طرح کی مدد لی جاسکتی ہے تاہم مانگنا اور مسلسل کئی کئی سالوں تک مانگتے ہی رہنا مطلق اسلام کا کام نہیں ہے کیونکہ سوال کرنا اور مانگنا تو بجائے خود ایک طرح کی آلودگی اور گندگی ہے اور مساجد کو تو آلودگیوں اور گندگیوں سے پاک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، مسجد کے ساتھ بالکل ملحق اور بعض اوقات مسجد کی مخصوص چار دیواری کے اندر طہارت خانوں کا انتظام بھی مستحسن امر نہیں ہے ، اگر اس کی اشد ضرورت ہو تو مسجد کے باہر قرب و جوار میں کوئی جگہ انتخاب کرکے وہاں اس طرح کا انتظام کرنا زیادہ صحیح ہے ، لیکن رواج ایک ایسی چیز ہے کہ جو ایک وقت پڑجاتا ہے اس کو اٹھانا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے ، بدقسمتی سے آج کل جس مولوی اور عالم کے تین بچے ہوں وہ سوچتا ہے کہ تین مسجدیں الگ الگ میرے لڑکوں کی تعمیر ہونا چاہئے اور وہ اس کے لئے متحرک ہوتا ہے اور لوگوں سے اپلییں کر کرکے مسجدوں پر مسجدیں بنائے چلا جاتا ہے گویا یہ مسجد نہیں بلکہ ایک فیکٹری ہے اس بدنظمی کا نتیجہ کیا نکلا ؟ یہ کہ مسجدوں میں اللہ کا ذکر بلند کرنے کی بجائے مسجدیں بنانے اور تعمیر کرنے کی اپیلوں پراپیلیں ہوتی ہیں اور جو لوگ اس سے آگے بڑھتے ہیں تو وہ گیارہویں کے ختم کی اپیلیں شروع کردیتے ہیں اور اب لوگ تیسرے کی مجلسیں بھی مساجد میں جمانے لگے ہیں اور ابھی معلوم نہیں ان مساجد کو کیا کیا گندے اور غیر اسلامی کام کرنے کے لئے مختص کیا جائے گا کیونکہ ایک بڑی عمارت سے اور بھی بہت سے کام لئے جاسکتے ہیں اور مساجد کی بےحرمتی کی حد یہ ہے کہ گم شدہ چیزوں کے اعلان مساجد میں ہوتے ہیں اور اس طرح کے کتنے ہی کام ہیں جو مسجدوں سے لئے جا رہے ہیں اور اگر اس کے لئے کوئی واضح قدم نہ اٹھایا گیا تو آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟
Top