Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 54
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ١ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ١ؕ وَ اِنْ تُطِیْعُوْهُ تَهْتَدُوْا١ؕ وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
قُلْ : فرما دیں اَطِيْعُوا اللّٰهَ : تم اطاعت کرو اللہ کی وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو الرَّسُوْلَ : رسول کی فَاِنْ تَوَلَّوْا : پھر اگر تم پھرگئے فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو حُمِّلَ : بوجھ ڈالا گیا (فرقے) وَعَلَيْكُمْ : اور تم پر مَّا حُمِّلْتُمْ : جو بوجھ ڈالا گیا تم پر (ذمے) وَاِنْ : اور اگر تُطِيْعُوْهُ : تم اطاعت کرو گے تَهْتَدُوْا : تم ہدایت پا لوگے وَمَا : اور نہیں عَلَي : پر الرَّسُوْلِ : رسول اِلَّا : مگر۔ صرف الْبَلٰغُ : پہنچا دینا الْمُبِيْنُ : صاف صاف
آپ ﷺ فرما دیجئے کہ تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا حکم مانو اور پھر اگر تم منہ موڑو گے تو ان کی اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ہے اور تم کو تمہاری ذمہ داری سے ، اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو (یقینا) ہدایت پاؤ گے اور رسول کے ذمہ تو صاف صاف پہنچا دینا ہے
رسول اللہ ﷺ کے پیروؤں کے لئے غلبہ تمکن کی بشارت : 88۔ دودھ سفید ہوتا ہے ‘ صحیح ہے لیکن ہر سفید چیز کو دودھ نہیں کہا جاسکتا بلاشبہ ایمان والوں کو خلافت دیئے جانے کی پیش گوئی زیر نظر آیت میں دی گئی ہے لیکن اس کا مفہوم یہ سمجھنا کہ جس شخص کو حکومت وفرمانروائی مل گئی وہ ایماندار ہوگیا کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے ۔ لیکن افسوس کہ بعض لوگوں نے اس کا یہی مطلب سمجھا اور انہوں نے ہر اس شخص کو سچا مسلمان سمجھا اور ہر اس ملت کو ملت اسلامی تصور کرلیا جس شخص کو حکومت و بادشاہی دیکھی جھٹ انکو مسلمان فرمانبردار سمجھ لیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے دین کے ہر رکن کی تاویل کی اور ہر کفر کو اسلام اور اسلام کو کفر بنانے کے لئے کمر بستہ ہوگئے جس کا نتیجہ وہی ہوا جو ایسے لوگوں کا ہوا کرتا ہے کہ نہ وہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے ۔ بلاشبہ زیر نظر آیت میں ذکر ہے اس جماعت کا جس نے اللہ کی غلامی لی اور اس کے قانون کی پابندی کو اپنی غایت الغایات بنا لیا ہے اور عمل صالح ان کا طغرائے افتخار ہے ان لوگوں سے قدوس حق نواز حسب ذیل وعدے کرتا ہے کہ : ا : انہیں ارض مقدس کی حکومت ملے گی جیسے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی ۔ ب : جو دین ان کو قرآن کریم کی معرفت ملا ہے اس کو تمکین فی الارض نصیب ہوگی اور یہ لوگ اس قرآن کو اپنی سلطنت کا قانون بنائیں گے ۔ ج : انہیں کسی دشمن کا خوف نہ ہوگا اور اس کی کمزوری سے وہ فائدہ نہ اٹھا سکے گا ‘ دنیا کا ایک حصہ تو ان کے زیرنگیں ہوگا اور دوسرا حصہ ان کو ضرر نہ پہنچا سکے گا بلکہ جب کبھی ان پر حملہ آور ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو ناکام اور خائب و خاسر واپس کر دے گا ۔ وعدہ الہی میں ان تینوں باتوں کے ساتھ اس خلافت کی بقاء و استحکام کے لئے چند شرطوں کی پابندی ضروری قرار دے دی اور فرمایا کہ جب تک یہ خصوصیات مسلمانوں میں باقی رہیں گی وہی اس حکومت کے مالک رہی گے اور جہاں انہوں نے جادہ اعتدال سے انحراف کیا تو قعرمذلت میں گرا دیئے جائیں گے اور وہ شرائط اس طرح بیان فرمائیں : ا : جب تک تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ‘ میری ہی غلامی کو طرہ امتیاز بناؤ گے اور میرا قانون نافذ کرتے وقت انسانو سے بالکل خوف نہ کرو گے ۔ ب : راہ حق وتبلیغ اسلام میں جس قدر بدنی تکلیفیں ہوں ان کو نماز کی طرح شوق وولولہ کے ساتھ برداشت کرو گے ۔ ج : مال زکوۃ کی طرح سلطنت کے مصارف اور قیام جہاد کے لئے ایک مستقل رقم ادا کرتے رہو گے تاکہ ضرورت کے وقت حکومت اسلامی کی اعانت کی جاسکے ۔ د : امام جس امر کا حکم دے اسے بسر وچشم قبول کرتے ہوئے اس سے کسی حال میں بھی انحراف نہ کرو گے ۔ فرمایا یہی وہ باتیں ہیں جن سے سلطنت اسلامی قائم رکھ سکو گے اور ان پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی رحمتیں تم پر نازل ہوں گی بلاشبہ یہ وعدہ پورا ہوگیا اور ساری دنیا اس کی آج تک گواہ ہے تاریخ اغیار بھی پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس وعدہ کے نتیجہ میں خلافت راشدہ قائم ہوئی اور دنیا کے کثیر حصہ پر فرزندان اسلام کا پرچم لہرانے لگا ۔ مسلمان من حیث القوم جب تک ان شرائط کو پورا کرتے رہے اور ان کی کمزوریوں سے ساری شرائط ہی فوت نہ ہوگئیں وہ بلاشرکت غیرے ان علاقوں کے حکمران رہے اور اقوام عالم میں سے کسی کو اس کی جرات نہ ہوئی کہ وہ ان کے سامنے سر اٹھائے اور کبھی کہیں کسی قوم نے کوشش کی بھی تو اس کو اسی وقت سر سے پکڑ لیا گیا اور کسی کو آنکھ اٹھانے کی جرات نہ ہوئی اور اس کا نتیجہ آج بچہ بچہ کی زبان پر ہے ، بلاشبہ اس وقت تھا جو تھا لیکن : آج بھی مسلمانوں کی تیرہ سو سالہ زندگی کو جب تاریخ کے اوراق میں دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم عزت و عظمت ‘ شان و شوکت ‘ دبدبہ و حشمت کے تنہا مالک اور اجارہ دار ہیں لیکن جب ان اوراق سے نظر ہٹا کر موجودہ حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم انتہائی ذلت و خواری ‘ افلاس وناداری میں مبتلا نظر آتے ہیں ‘ نہ زور وقوت ہے نہ زرودولت ‘ نہ شان و شوکت ہے نہ باہمی اخوت والفت ‘ نہ عادت اچھی نہ اخلاق اچھے ‘ نہ اعمال اچھے نہ کردار اچھے ‘ ہر برائی ہم موجود ہے اور ہر بھلائی سے ہم کوسوں دور ‘ اغیار ہماری اس زبوں حالی پر خوش ہیں اور برملا ہماری اس کمزوری کو اچھال رہے ہیں اور ہمارا خوب مضحکہ اڑا رہے ہیں پھر اسی پر بس نہیں کہ اغیار یہ سب کچھ کر رہے ہیں بلکہ اس وقت تو خود ہمارے جگر گوشے نئی تہذیب کے دلدادہ نوجوان اسلام کے ان مقدس اصولوں کا مذاق اڑاتے ہیں بات بات پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں اور اس شریعت مقدسہ کو ناقابل عمل ‘ لغو اور بیکار گردانتے ہیں ۔ عقل حیران ہے کہ جس قوم نے دنیا کو سیراب کیا وہ آج کیوں تشنہ کام ہے ؟ جس قوم نے دنیا کو تہذیب و تمدن کا سبق پڑھایا وہ آج کیوں غیر مہذب اور غیر متمدن ہے ۔ راہنمایان قوم نے ہماری اس حالت زار کا کئی بار اندازہ لگایا اور مختلف طریقوں پر ہماری اصلاح کے لئے جدوجہد کی مگر نتیجہ یہ نکلا کہ ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی : بدقسمتی سے آج ہماری حالت بد سے بدتر تو ہوچکی اور آنے والا زمانہ ماسبق سے بھی زیادہ پرخطر اور تاریک نظر آرہا ہے ‘ ہمارا خاموش بیٹھنا اور عملی جدوجہد نہ کرنا ایک ناقابل تلافی جرم ہے لیکن ہم ہیں کہ گہری نیند سو رہے ہیں اور جب آنکھ کھلتی ہے اور اسلام اسلام کا ایک شور بپا دیکھتے ہیں تو ہم آنکھیں ملتے ملتے ایک اعلان کردیتے ہیں اور اس کا نام اسلام کا قانون رکھتے ہیں لیکن اس کو جب اصل اسلامی قانون پر رکھ کر دیکھتے ہیں تو نظر آنے لگتا ہے کہ یہ قانون اسلام کا قانون تو نہیں پھر اس جھگڑے میں پھنس کر رہ جاتے ہیں ایک گروہ اس کو اسلامی قانون ثابت کرنے پر لگ جاتا ہے اور دوسرا اس کو غیر اسلامی گردانتا ہے اس طرح ایک نیا بھیڑ بھڑ نا شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ ہم سب کا دعوی ہے کہ ہماری شریعت ایک مکمل قانون الہی ہے جو ہماری دینی اور دنیوی فلاح و بہبود کا تاقیام قیامت ضامن ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم خود ہی اپنا مرض تشخیص کریں اور خود ہی اس کا علاج شروع کردیں بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر قرآن کریم سے اپنا اصل مرض معلوم کریں اور اس مرکز رشد وہدایت سے طریق علاج معلوم کرکے اس پر کار بند ہوں۔ جب قرآن کریم قیامت تک کے لئے ہے اور وہ مکمل دستورالعمل ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس نازک حالت میں ہماری راہبری سے قاصر رہے ۔ مالک ارض وسماء جل وعلا کا سچا وعدہ ہے کہ روئے زمین کی حکومت وخلافت مومنوں کے لئے ہے جیسا کہ زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ” اللہ کا وعدہ ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ وہ انکو ملک کا حاکم بنا دے گا جیسا کہ ان سے قبل لوگوں کو حاکم بنا چکا “ اس پر تحدی کے طور پر یہ اعلان بھی فرمایا گیا کہ مومن ہمیشہ کفار پر غالب رہیں گے اور کافروں کا کوئی یار و مددگار نہ ہوگا ۔ کس وضاحت سے ارشاد فرمایا گیا کہ ” اور اگر تم سے یہ کافر لڑے تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلیں گے اور پھر وہ کوئی اپنا یارومددگار نہ پائیں گے ۔ “ ( سورة الفتح 28 : 22) اور مزید ارشاد فرمایا کہ ” اور ایمان والوں کی مدد کرنا تو ہم پر لازم وضروری ہے “ اور پھر فرمایا کہ ” تم ہمت مت ہارو اور غم مت کرو تم ہی غالب آنے والے ہو اگر تم مومن ہوئے ۔ “ (آل عمران 3 : 139) فرمایا خیال رکھو کہ ’ اللہ ہی کے لئے عزت ہے اور اس کے رسول اور ایمان والوں کے لئے “ (المنافقون 63 : 8) ہاں ! آج اگر ہماری حالت اس کے برعکس ہے تو ہم کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ ہماری ایمانی حالت کمزور سے کمزور تر ہوچکی ہے اور صحیح معنوں میں ہم ایمان والے کہلانے کے حق دار نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہمارے ساتھ نہیں رہا اور یہ اس لئے ہوا کہ ہم وہ نہ رہے جن کے ساتھ اس نے یہ وعدہ فرمایا تھا ۔
Top