Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 56
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاَقِيْمُوا
: اور تم قائم کرو
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاٰتُوا
: اور ادا کرو تم
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَاَطِيْعُوا
: اور اطاعت کرو
الرَّسُوْلَ
: رسول
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم پر
تُرْحَمُوْنَ
: رحم کیا جائے
اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول اللہ کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
بھولے ہوؤں کو راہ راست کی طرف آنے کی دعوت : 90۔ غور کرو کہ علم الہی کس قدر کامل واکمل علم ہے اس کو معلوم تھا کہ لوگ دین اسلام میں سستی کریں گے تو ان کی سستی کو دور کرنے کے لئے ان کو علاج بھی بتایا جانا ضروری ہے فرمایا اس سستی کا علاج یہ ہے کہ تم اپنے دلوں کی زمین کو صاف کرو اور ان کی صفائی کا طریقہ یہ بتایا کہ نمازوں کو قائم کرو ‘ زکوۃ کو باقاعدہ ادا کرو اور رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کی بےچون وچرا اطاعت کرو اگر ایسی راہ اختیار کرو گے تو تم پر اللہ کی رحمتوں کی بارش ہوگی اور تم دنیا وآخر دونوں میں کامیاب وکامران ہو گے ۔ اطاعت رسول کے متعلق یہ چوتھی بار تاکید کی گئی ہے اسلام کا سارا انحصار اسی اطاعت پر ہی رکھا گیا لیکن اطاعت رسول کیا ہے ؟ اس میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے یہاں اس کی حقیقت کو سمجھ لینا ضروری خیال کیا گیا ہے اس لئے سمجھ لینا چاہئے کہ اطاعت رسول کے مسئلہ میں یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ کوئی رسول اپنی ذاتی حیثیت میں مطاع اور متبوع نہیں ہوسکتا نہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اطاعت وپیروی اس بنا پر ہے کہ وہ موسیٰ بن عمران ہیں نہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اس وجہ سے لائق اطاعت واتباع ہیں کہ وہ عیسیٰ بن مریم ہیں اور نہ نبی عربی محمد رسول اللہ ﷺ کا اتباع اس حیثیت سے لازم ہے کہ آپ محمد بن عبداللہ ﷺ ہیں ۔ اطاعت اور پیروی جو کچھ بھی ہے صرف اس حیثیت سے کہ یہ سب حضرات اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ علم حق عطا کیا جو عام انسانوں کو عطا نہیں کیا اور ان کو وہ ہدایت بخشی جو عام لوگوں کو نہیں بخشی اور ان کو دنیا میں اپنی رضا کے مطابق زندگی بسر کرنے کے وہ صحیح طریقے بتائے جن کو عام لوگ اپنی رائے اور عقل یا انبیاء کے سوا دوسرے لوگوں کی راہنمائی سے معلوم نہیں کرسکتے ، اب اختلاف جس امر میں واقع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ رسول کی اطاعت اور پیروی کس امر میں ہے اور کس حد تک ہے پھر اس اختلافات کے باعث لوگوں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے : 1۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اطاعت اور پیروی صرف اس کتاب کی ہے جو اللہ کی طرف سے اس کا رسول لے کر آتا ہے ، تبلیغ کتاب کے بعد رسول کی حیثیت رسالت ختم ہوجاتی ہے پھر وہ بھی ویسا ہی ایک انسان ہے جیسے دوسرے انسان۔ دوسرے انسان اگر امیر اور سردار قوم ہوں تو محض نظم وضبط (Discipline) کے لئے ان کی اطاعت لازم ہوگی مگر مذہبی فریضہ نہ ہوگی ، دوسرے اگر عالم ‘ حکیم اور مقنن ہوں تو ان کے اوصاف (Marits) کا لحاظ کرتے ہوئے ان کی پیروی کی جائے گی اور یہ پیروی اختیاری ہوگی واجب نہ ہوگی ۔ یہی معاملہ رسول اللہ کا بھی ہے کہ تبلیغ کتاب کے سوا دوسرے تمام معاملات میں رسول کی حیثیت محض شخصی ہے بحیثیت ایک شخص کے اگر وہ امیر ہے تو اس کیا طاعت بالمشافہ ہے نہ کہ دائمی ۔ اگر وہ قاضی بنے تو اس کے فیصلے وہیں تک نافذ ہوں گے جہاں تک اس کے حدود قضا (Jurisdiction) ہیں۔ ان سے باہر زیادہ سے زیادہ ایک فاضل جج کی حیثیت سے اس کے فیصلے بطور ایک نظیر کے لئے جائیں گے نہ کہ ایک شارع اور واضع قانون کی حیثیت سے ۔ اگر وہ حکیم ہے تو اس کی زبان سے جو حکمت اور اخلاق کی باتیں نکلیں گی وہ اپنی قدر و قیمت کے لحاظ سے قبول کی جائیں گی ‘ جس طرح دوسرے علماء وعقلاء کیا یسی ہی باتیں قبول کی جاتی ہیں ، محض اس بنا پر کہ وہ حامل منصب رسالت کی زبان سے نکلی ہیں وہ داخل دین نہیں سمجھی جائیں گی ، اسی طرح اگر وہ ایک نیک سیرت انسان ہے اور اس کی زندگی اپنے اطوار ‘ آداب اور معاملات کے اعتبار سے ایک بہترین زندگی ہے ‘ تو ہم بلا اختیار اس کو ایک نمونہ (Model) بنائیں گے جس طرح ایک غیر نبی کی اچھی زندگی کو نمونہ قرار دینے میں ہم مختار ہیں ۔ لیکن اس کا کوئی عمل اور قول ہمارے لئے اخلاق معاشرت ‘ معیشت اور معاملات میں ایسا قانون نہ ہوگا جس کی پیروی ہم پر واجب ہو۔ یہ مذہب اس کا گروہ کا ہے جو آج کا اہل قرآن کہلاتا ہے ۔ ایک دوسرا گروہ اس خیال میں تھوڑی سی ترمیم کرتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ رسول کے ذمہ صرف کتاب پہنچا دینا ہی نہ تھا بلکہ کتاب کے احکام پر عمل کرکے دکھا دینا بھی تھا کہ امت اسی نمونہ پر عامل ہو ۔ لہذا عبادات و طاعات وغیرہ کے متعلق احکام کتاب کی جو تفصیلی عملی صورت رسول نے بتائی ہے ‘ اس کی پیروی بھی کتاب ہی کی پیروی ہے اور دینی فرض ہے ۔ باقی رہے وہ معاملات جو احکام کتاب کے علاوہ رسول اپنی شخصی حیثیت میں ایک امیر ‘ ایک قاضی ‘ ایک مصلح قوم ‘ ایک حکیم ‘ ایک شہری اور ایک فرد جماعت کی حیثیت سے انجام دے ‘ تو ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ایک دائمی اور عالمگیر ضابطہ و قانون بنانے والی ہو اور جس کی پیروی ہمیشہ کے لئے ایک دینی فرض ہو۔ ایک تیسرا گروہ ہے جو رسول کی حیثیت رسالت کو اس کی زندگی کے ایک بہت بڑے حصے پر حاوی سمجھتا ہے ۔ اخلاق ‘ معاشرت ‘ معاملات ‘ احکام وقضایا اور بہت سے دوسرے معاملات میں اس کے قول اور فعل کا خدا کی جانب سے ہونا تسلیم کرتا ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ یہ سب چیزیں امت کے لئے اسوہ حسنہ ہیں ۔ مگر وہ حیثیت رسالت اور حیثیت شخصی میں فرق ضرور کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ رسول کی زندگی کے کچھ معاملات ایسے ضرور ہیں جو حیثیت رسالت سے خارج ہیں اور قابل تقلید نمونہ نہیں اگرچہ وہ کوئی ایسا واضح خط نہیں کھینچ سکتا جو حیثیت رسالت اور حیثیت شخصی میں بین امتیاز کردیتا ہو اور ایک ایسی حد مقرر کرتا ہو جہاں پہنچ کر رسول کی حیثیت محض ایک انسان کی رہ جاتی ہے ۔ چوتھا گروہ وہ کہتا ہے کہ رسول کی حیثیت شخصی اور رسالت کی حیثیت اگرچہ اعتبار میں دو جداگانہ حیثیتیں ہیں مگر وجود میں دونوں ایک ہی ہیں اور ان درمیان عملا کوئی فرق کرنا ممکن نہیں ہے ۔ منصب رسالت دنیوی عہدوں کی طرح نہیں ہے کہ عہدہ دار جب تک اپنے عہدہ کی کرسی پر بیٹھا ہے ‘ عہدہ دار ہے اور جب اس سے اترا تو ایک عام انسان ہے ، بلکہ رسول جس وقت منصب رسالت پر سرفراز ہوتا ہے اس وقت سے مرتے دم تک ہر وقت اور ہر آن مامور (On Duty) ہوتا ہے اور وہ کوئی ایسا فعل نہیں کرسکتا جو اس سلطنت کی پالیسی کے خلاف ہو جس کا وہ نمائندہ بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ اس کی زندگی کے معاملات عام اس سے کہ امام کی حیثیت سے ہوں یا امیر کی حیثیت سے ہوں یا ایک شوہر ‘ باپ ‘ بھائی ‘ رشتہ دار اور دوست کی حیثیت سے ‘ سب پر اس کی حیثیت رسالت اس طرح حاوی ہوتی ہے کہ اس کی ذمہ داریاں کسی حال میں ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے منفک نہیں ہوتیں ۔ حتی کہ جب وہ اپنی خلوت میں اپنی بیوی کے پاس ہوتا ہے اس وقت بھی وہ اسی طرح اللہ کا رسول ہوتا ہے جس طرح وہ مسجد میں نماز پڑھاتے وقت ہوتا ہے ، زندگی کے مختلف شعبوں میں وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کی ہدایت کے تحت کرتا ہے۔ اس پر ہر آن اللہ کی طرف سے سخت نگرانی قائم رہتی ہے ، جس کے ماتحت وہ انہیں حدود کے اندر چلنے پر مجبور ہوتا ہے جو اللہ نے مقرر کردی ہیں اور اپنے اقوال میں ‘ اعمال میں اور زندگی کے پورے روئیے میں دنیا کے سامنے اس امر کا مظاہرہ کرتا ہے کہ یہ ہیں وہ اصول جن پر انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی کا نظام قائم ہونا چاہئے ، اور یہ ہیں وہ حدود جن کے دائرے میں انسان کی آزادی عمل کو محدود ہونا چاہئے ، اس خدمت کو نبی اپنی شخصی وخانگی زندگی میں بھی اسی طرح انجام دیتا رہتا ہے جس طرح اپنی سرکاری حیثیت میں اور کسی معاملہ میں بھی اگر اس کے قدم کو ذرا سی لغزش ہوجاتی ہے تو اس کو فورا تنبیہ کی جاتی ہے کیونکہ اس کی خطا صرف اسی کی خطا نہیں بلکہ ایک پوری امت کی خطا ہے ۔ اس کو بھیجنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرکے ان کے سامنے ایک ” مسلم “ کی زندگی کا مکمل نمونہ پیش کر دے اور صرف یہی نہیں کہ انفرادی معاملات میں ان کی رہنمائی کرکے ان کو فردا فردا مسلمان بنائے بلکہ اس کے ساتھ ہی اسلام کا تمدنی ‘ سیاسی ‘ معاشی اور اخلاقی نظام قائم کرکے صحیح معنوں میں ایک مسلم سوسائٹی بھی وجود میں لے آئے ۔ لہذا اس کا خطا اور غلطی سے محفوظ ہونا لازم ہے تاکہ کامل اعتماد کے ساتھ اس کی پیروی کی جاسکے اور اس کے قول وفعل کو بالکلیہ اسلام کی تعلیم اور اسلامیات کا معیار قرار دیا جاسکے ، اس میں شک نہیں کہ نبی کے اقوال وافعال میں تقلید وتاسی کے لحاظ سے فرق مراتب ضرور ہے۔ بعض وجوب اور فرضیت کے درجہ میں ہیں ‘ بعض استحباب کے درجہ میں اور بعض ایسے ہیں جن کی حیثیت درجہ استکمال کی ہے۔ لیکن فی الجملہ نبی کی پوری زندگی ایک ایسا نمونہ (Modi ) ہے جس کو اسی لئے پیش کیا گیا ہے کہ بنی آدم اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں ۔ جو شخص اس نمونہ کی مطابقت میں جتنا بڑھا ہوا ہوگا وہ اتنا ہی کامل انسان اور مسلمان ہوگا اور جو اس کی مطابقت کے کم از کم ناگزیر مرتبہ سے بھی گھٹ جائے گا وہ اپنی کوتاہی کے لحاظ سے فاسق ” فاجر ‘ گمراہ اور مغضوب ہوگا ۔ ہمارے نزدیک یہی آخری گروہ حق پر ہے اور ہم قرآن اور عقل کی روشنی میں جتنا زیادہ غور کرتے ہیں اس مسلک کی حقانیت پر ہمارا یقین بڑھتا جاتا ہے ، انبیاء کرام (علیہ السلام) کے جو حالات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں انکو دیکھنے سے ہم کو نبوت کی حقیقت یہ نہیں معلوم ہوتی کہ اللہ یکایک کسی راہ چلتے کو پکڑ کر اپنی کتاب پہنچانے کے لئے مامور کردیتا ہو یا کسی شخص کو اسی طور پر اپنی پیغام بری کے لئے مقرر کرتا ہو کہ وہ منجملہ اپنے دوسرے کاروبار کے ایک پیغمبری کا کام بھی انجام دے دیا کرے ‘ گویا کہ وہ ایک جز وقتی مزدور (Part.timeWorker) ہے جو مقرر اوقات میں ایک مقرر کام کردیتا ہے اور اس کام کو ختم کرنے کے بعد آزاد ہوتا ہے کہ جو چاہے کرے برعکس اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی قوم میں نبی بھیجنا چاہا ہے تو خاص طور پر ایک شخص کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ نبوت کی خدمت انجام دے ۔ اس کے اندر انسانیت کی وہ بلند ترین صفات اور وہ اعلی درجہ کی ذہنی وروحانی قوتیں ودیعت کی ہیں جو اس اہم منصب کو سنبھالنے کے لئے ضروری ہیں ۔ پیدائش کے وقت سے خاص اپنی نگرانی میں اس کی پرورش اور تربیت کرائی ہے ، نبوت عطا کرنے سے پہلے بھی اس کو اخلاقی عیوب اور گمراہیوں اور غلط کاریوں سے محفوظ رکھا ہے ‘ خطرات اور مہلکوں سے اس کو بچایا ہے اور ایسے حالات میں اس کی پرورش کی ہے جن میں اس کی استعداد نبوت ترقی کرکے فعلیت کی طرف بڑھتی رہی ہے پھر جب وہ اپنے کمال کو پہنچ گیا ہے تو اس کو خاص اپنے پاس سے علم اور قوت فیصلہ (Judgemint) اور نور ہدایت عطا کر کے منصب نبوت پر مامور کیا ہے اور اس سے اس طرح یہ کام لیا ہے کہ اس منصب پر آنے کے بعد سے آخری سانس تک اس کی پوری زندگی اسی کام کے لئے وقف رہی ہے ۔ اس کے لئے دنیا میں تلاوت آیات اور تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفوس کے سوا اور کوئی مشغلہ نہیں رہا ہے ۔ رات دن ‘ اٹھتے بیٹھتے ‘ چلتے پھرتے اس کو یہی دھن رہی ہے کہ گمراہوں کو راہ راست پر لائے اور راہ راست پر آجانے والوں کو ترقی کر کے اعلی منزلوں پر جانے کے قابل بنائے ، وہ ہمیشہ ایک ہمہ وقتی ملازم (Whole.time.Servant) رہا ہے جس کو کبھی چھٹی نہیں ملی اور نہ اس کے لئے کبھی اوقات کار (Working.Hours) مقرر کئے گئے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے شدید نگرانی قائم رہی ہے کہ خطا نہ کرنے پائے ۔ ہوائے نفس کے اتباع اور شیطانی وساوس سے اس کی سخت حفاظت کی گئی ہے ۔ معاملات کو بالکل اس کی بشری عقل اور اس کے انسانی اجتہاد پر نہیں چھوڑ دیا گیا ‘ بلکہ جہاں بھی اس کی خواہش یا اس کے اجتہاد نے اللہ کے مقرر کئے ہوئے خط مستقیم سے بال برابر جنبش کی ہے وہی اس کو ٹوک کر سیدھا کردیا گیا ہے ، کیونکہ اس کی پیدائش اور اس کی بعثت کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ اللہ کے بندوں کو سوآء السبیل “۔ اور صراط مستقیم پر چلائے ‘ اگر وہ اس خط سے یک سر مو بھی ہٹتا تو عام انسان میلوں اس سے دور نکل جاتے ۔ ہم یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے لفظ لفظ پر قرآن گواہ ہے ۔ 1۔ یہ بات کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) پیدائش سے پہلے ہی نبوت کے لئے نامزد کردیئے جاتے تھے اور ان کو خاص طور پر اسی منصب کے لئے پیدا کیا جاتا تھا ‘ متعدد انبیاء کے احوال سے معلوم ہوتی ہے ، مثلا حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی پیدائش اور نبوت کی خوشخبری دے دی جاتی ہے ۔ (آیت) ” وبشرناہ باسحق نبیا من الصلحین ، وبرکنا علیہ وعلی اسحاق “۔ (الصف 37 : 112) حضرت یوسف (علیہ السلام) کے متعلق بچپن ہی میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ انکو برگزیدہ کرنے اور ابراہیم واسحق (علیہما السلام) کی طرح ان پر نعمت کا اتمام کرنے والا ہے ، حضرت زکریا (علیہ السلام) بیٹے کے لئے دعا کرتے ہیں تو ان کو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری ان الفاظ میں دی جاتی ہے کہ ۔ (آیت) ” ان اللہ یبشرک بیحیٰ مصدقا بکلمۃ من اللہ وسیدا وحصورا ونبیا من الصلحین “۔ (آل عمران 3 : 39) حضرت مریم (علیہ السلام) کے پاس خاص طور پر فرشتہ بھیجا جاتا ہے کہ ان کو ایک پاک طینت لڑکے (غلام زکی) کی خوشخبری دے اور جب ان کے وضع حمل کا وقت آتا ہے تو خاص حق تعالیٰ کی طرف سے ان کی زچگی کے انتظامات ہوتے ہیں (ملاحظہ ہو سورة مریم رکوع دوم) پھر اس اسرائیلی چرواہے کو بھی دیکھئے جس سے وادئی مقدس طوی میں بلا کر باتیں کی گئیں ۔ وہ بھی عام چرواہوں کی طرح نہ تھا ۔ اسے مصر میں خاص طور پر فرعونیت کو تباہ کرنے اور بنی اسرائیل کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے پیدا کیا گیا ۔ اس کو قتل سے بچانے کے لئے ایک تابوت میں رکھوا کر دریا میں ڈلوایا گیا ، خاص اس فرعون کے گھر میں پہنچایا گیا جس کو وہ تباہ کرنے والا تھا ، اس کو پیاری صورت دی گئی کہ فرعون کے گھر والوں کے دل میں گھر کرلے ۔ (والقیت علیک محبۃ منی) (طہ 20 : 39) اس کے منہ کو تمام عورتوں کے دودھ سے روک دیا گیا گیا یہاں تک کہ وہ پھر اپنی ماں کی آغوش میں پہنچ گیا اور اس کی پرورش کا انتظام خاص حق تعالیٰ کی نگرانی میں ہوا (ولتصنع علی عینی) (طہ 20 : 39) یہ چند مثالیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) خاص طور پر نبوت ہی کے لئے پیدا کئے جاتے ہیں ۔ 2۔ پھر دیکھئے کہ اس طرح جن لوگوں کو پیدا کیا جاتا ہے وہ عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتے بلکہ غیر معمولی قابلیتوں کے ساتھ وجود میں آتے ہیں ، انکی فطرت نہایت پاکیزہ ہوتی ہے ، ان کے ذہن کا سانچہ ایسا ہوتا ہے کہ اس سے جو بات نکلتی ہے ‘ سیدھی نکلتی ہے ۔ غلط اندیشی اور کج بینی کی استعداد ہی ان میں نہیں ہوتی ۔ وہ جبلی طور پر ایسے بنائے جاتے ہیں کہ بلا ارادہ اور بلا کسی غور وفکر کے محض حدی اور وجدان (Intuition) سے ان صحیح نتائج پر پہنچ جاتے ہیں جن پر دوسر انسان غور وفکر کے بعد بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ ان کے علوم کسبی نہیں ہوتے بلکہ جبلی وہبی ہوتے ہیں ۔ حق اور باطل ‘ صحیح اور غلط کا امتیاز ان کی عین سرشت میں ودیعت کیا جاتا ہے ، وہ فطرتا صحیح سوچتے ہیں ‘ صحیح بولتے ‘ صحیح عمل کرتے ہیں ، مثال کے طور پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو دیکھئے ، حضرت یوسف کا خواب سنتے ہیں ان کے دل میں کھٹک پیدا ہوجاتی ہے کہ اس بچے کو اس کے بھائی جینے نہ دیں گے ، برادران یوسف ان کو کھیل کے لئے لے جانا چاہتے ہیں تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نہ صرف ان کی بری نیت کو بھانپ جاتے ہیں بلکہ ان کو ٹھیک وہ بہانہ بھی معلوم ہوجاتا ہے جو بعد میں وہ بنانے والے تھے ، فرماتے ہیں (آیت) واخاف ان یاکلہ الذئب وانتم عنہ غفلون “۔ (یوسف 12 : 13) پھر جب یوسف کے بھائی خون کا بھرا ہوا کرتہ لا کر دکھاتے ہیں تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) دیکھ کر فرماتے ہیں (آیت) ” بل سولت لکم انفسکم امرا “۔ (یوسف 12 : 18) اسی طرح جب برادران یوسف مصر سے واپس آکر کہتے ہیں کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور یقین دلانے کے لئے یہاں تک عرض کرتے ہیں کہ اس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجئے جہاں سے ہم آرہے ہیں تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) پھر وہی جواب دیتے ہیں کہ یہ تمہارے نفس کا دھوکہ ہے ، بیٹوں کو پھر مصر بھیجتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ (آیت) ” اذھبوا فتحسسوا من یوسف واخیہ “۔ (یوسف : 87) اس کے بعد جب ان کے بیٹے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قیمص لے کر مصر سے چلتے ہیں تو ان کو دور ہی سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنے لگتی ہے ۔ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی نفسی ورحانی قوتیں غیر معمولی ہوتی ہیں ۔ یہ صرف حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہی کی خصوصیت نہیں ۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کا یہی حال ہے ۔ حضرت یحییٰ کے متعلق ارشاد ہے : (آیت) ” واتینہ الحکم صبیا ، وحنانا من لدنا وزکوۃ “۔ (مریم 19 : 13) ہم نے بچپن ہی میں اس کو قوت فیصلہ اور رحم دلی اور پاک طینتی اپنی طرف سے عطا کی : حضرت عیسیٰ کی زبان سے گہوارے میں کہلوایا جاتا ہے کہ : (آیت) ” وجعلنی مبارکا این ماکنت واوصانی بالصلوۃ والزکوۃ مادمت حیا۔ وبرا بوالدتی ولم یجعلنی جبارا شقیا “۔ (مریم 19 : 31 : 32) ” اور اللہ نے مجھ کو برکت والا بنایا جہاں بھی میں رہوں اور اس نے مجھ کو وصیت کی کہ جب تک جیوں نماز پڑھوں اور زکوۃ دوں اور اس نے مجھ کو اپنی ماں کا خدمت گار بنایا اور مجھ کو جبار اور شقی نہیں بنایا ۔ نبی عربی ﷺ کے متعلق فرمایا : (آیت) ” وانک لعلی خلق عظیم “۔ (القلم 67 : 4) ” اور تم اخلاق کے بڑے رتبے پر ہو۔ “ یہ سب ان جبلی اور فطری کمالات کی طرف اشارات ہیں جن کو لے کر انبیاء کرام (علیہ السلام) پیدا ہوتے ہیں ، پھر حق تعالیٰ ان کی انہی فطری استعدادات کو ترقی دے کر فعلیت کی طرف لے جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو وہ چیز عطا کرتا ہے جس کو قرآن میں علم اور حکم (قوت فیصلہ) اور ہدایت اور ربینہ وغیرہ الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم سے کہتے ہیں : (آیت) ” واعلم من اللہ مالا تعلمون “۔ (الاعراف : 62) ” میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملکوت سماوات وارض کا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے ۔ (الانعام : 9) اور جب وہ اس مشاہدہ سے علم یقین لے کر پلٹتے ہیں تو اپنے باپ سے کہتے ہیں : (آیت) ” یابت انی قد جآءنی من العلم مالم یا تک فاتبعنی اھدک صراط سویا “۔ (مریم 19 : 43) ” اے باپ ! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو تیرے پاس نہیں ‘ لہذا میری پیروی کر ‘ میں تجھے سیدھا راستہ بتاؤں گا ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد ہے : (آیت) ” وانہ لذوعلم لما علمناہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون “۔ (یوسف 12 : 68) ” اور یقینا وہ علم رکھتا تھا جو ہم نے اس کو تعلیم کیا تھا مگر اکثر لوگ یہ راز نہیں جانتے ۔ حضرت یوسف کے حق میں فرمایا : (آیت) ” ولما بلغ اشدہ اتینہ حکما وعلما “۔ (یوسف 12 : 22) ” اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا تو ہم نے اس کو دانش اور قوت فیصلہ عطا کی ۔ یہی بات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں بھی فرمائی (قصص : 2) یہی حکم اور علم حضرت لوط (علیہ السلام) کو عطا کیا گیا (انبیائ : 5) اور اسی غیر معمولی عم سے نبی کریم ﷺ بھی سرفراز ہوئے ۔ (آیت) ” وانزل اللہ علیک الکتب والحمۃ وعلمک مالم تکن تعلم “۔ (النسائ : 113) اور اللہ نے تیرے اوپر کتاب اور حکمت اتاری اور تجھے وہ علم دیا جو پہلے تو نہیں جانتا تھا ۔ (آیت) ” قل انی علی بینۃ من ربی “۔ (الانعام 6 : 57) ” کہو کہ میں اپنے رب کی طرف سے ایک واضح اور روشن راستے پر ہوں ۔ (آیت) ” قل ہذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی “۔ (یوسف 12 : 108) کہو کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں بھی بصیرت پر ہوں اور وہ بھی جو میرے پیرو ہیں ۔ اسی علم اور حکم سے نبی اور عام انسانوں کے درمیان اتنا عظیم تفاوت واقع ہوجاتا ہے جتنا ایک آنکھوں والے اور ایک نابینا کے درمیان ہوتا ہے ۔ (آیت) ” ان اتبع الا ما یوحی الی قل ھل یستوی الاعمی والبصیر “۔ (الانعام 6 : 50) ” میں تو اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے ، کہو اے محمد ! کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ ۔ ان آیات میں جس چیز کا ذکر کیا گیا ہے وہ محض کتاب نہیں ہے بلکہ وہ ایک روشنی ہے جو انبیاء کرام (علیہ السلام) کے نفس میں پیدا کردی جاتی ہے ۔ اسی لئے اس کا ذکر کتاب سے الگ کیا گیا ہے اور اسے انبیاء کی صفت کے طور پر بیان کیا گیا ہے ، وہ اس روشنی سے حقائق کا عینی مشاہدہ کرتے ہیں ‘ اسی سے غلط اور صحیح میں امتیاز کرتے ہیں ‘ اسی سے معاملات میں فیصلہ کرتے ہیں اور اسی سے ان امور میں نظر کرتے ہیں جو ان کے سامنے پیش ہوتے ہیں ، علمائے اسلام نے اسی چیز کا نام وحی خفی رکھا ہے یعنی وہ اندرونی ہدایت وبصیرت جو ہر وقت ان بزرگوں کو حاصل رہتی تھی اور جس سے وہ ہر موقع پر کام لیتے تھے ، دوسرے لوگ غوروفکر کین بھی جن باتوں کی تہ کو نہیں پہنچ سکتے اور جن امور میں حق اور صواب معلوم نہیں کرسکتے ‘ ان میں نبی کی نظر اللہ کی دی ہوئی روشنی اور بصیرت کے زور سے آن واحد میں تہ تک پہنچ جاتی تھی ۔ 3۔ اس کے بعد قرآن مجید ہم کو بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو نہ صرف حکمت اور قوت فیصلہ اور غیر معلومی دانش وبینش عطا کی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی وہ ہمیشہ ان پر خاص نظر رکھتا ہے ‘ غلطیوں سے ان کی حفاظت کرتا ہے ‘ گمراہیوں سے ان کو بچاتا ہے ، خواہ وہ انسانی اثرات کے تحت ہوں یا شیطانی وساوس کے تحت یا خود ان کے اپنے نفس سے پیدا ہوں ۔ حتی کہ اگر بمقتضائے بشریت کبھی وہ اپنے اجتہاد میں بھی غلطی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فورا انکی اصلاح کردیتا ہے ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصے میں دیکھئے جب قریب تھا کہ عزیز مصر کی بیوی انکو اپنے جال میں پھنسالے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ” برہان “ دکھا کر ان کو بدکاری سے محفوظ کردیا ۔ (آیت) ” ولقد ھمت بہ وھم بھا لولا ان را برھان ربہ کذالک لنصرف عنہ السوء والفھشآء انہ من عبادنا المخلصین “۔ (یوسف 12 : 24) ” اس نے یوسف سے ارادہ بد کر ڈالا اور وہ بھی اس کی طرف ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا ۔ ایسا ہوا تاکہ ہم اس کو برائی اور بےحیائی سے پھیر دیں کیونکہ وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھا جن کو ہم نے اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے ۔ حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو جب فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا گیا تو انہیں خوف ہوا کہ کہیں فرعون ان پر زیادتی نہ کرے ، اس پر حق تعالیٰ نے فرمایا کہ کچھ خوف نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں اور سب کچھ سن اور دیکھ رہا ہوں (طہ : 2) خوف بشریت کی بنا پر تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بشری کمزوری کو اپنی وحی سے دور کیا ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) بیٹے کو ڈوبتے دیکھ کر چیخ اٹھے (رب انی ابنی من اھلی) (ھود 11 : 45) ” خدایا یہ میرا بیٹا ہے ۔ “ یہ بشری کمزوری تھی ، اللہ نے اسی وقت یہ حقیقت ان پر واضح کردی کہ وہ تیرے نطفہ سے ہو تو ہوا کرے ‘ مگر تیرے ” اہل “ سے نہیں کیونکہ عمل غیر صالح ہے ۔ بشریت نے محبت پدری کے جوش میں ذرا سی دیر کے لئے نبی کی نظر سے اس حقیقت کو چھپا دیا تھا کہ حق کے معاملہ میں باپ ‘ بیٹا ‘ بھائی کوئی چیز نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے اسی وقت آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا اور حضرت نوح مطمئن ہوگئے ۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھ بھی متعدد مرتبہ ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں ، اپنی فطری رحمت ورافت ‘ کفار کو مسلمان بنانے کی حرص ‘ کفار کی تالیف قلب ‘ لوگوں کے چھوٹے سے چھوٹے احسان کا بدلہ دینے کی کوشش ‘ منافقین کے دلوں میں ایمان کی روح پھونکنے کی خواہش اور کبھی کبھی اقتضائے بشریت کی بنا پر جب آپ سے کوئی اجتہادی لغزش ہوئی ہے ‘ وحی جلی سے اس کی اصلاح کی گئی ہے ۔ (آیت) ” ماکان لنبی ان یکون لہ اسری “۔ (الانفال : 70) (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) (التوبہ : 43) (استغفرلھم اولاتستغفرلھم ان تستغفرلھم سبعین مرۃ فلن یغفر اللہ لھم) (التوبہ 80) (ولا تصل علی احد منھم مات ابدا) (توبہ : 84) (یا ایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک) (تحریم : 1) یہ سب آیات اسی امر کی شہادت دیتی ہیں ، لوگ ان آیات کو اس امر کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے غلطیاں سرزد ہوتی تھیں اور آپ غلطیوں سے مبرا نہ تھے ۔ خصوصا ہمارے بعض حضرات کو تو ان آیات کے ذریعہ سے اللہ کے رسول کی غلطیاں پکڑنے میں خاص مزہ آتا ہے لیکن دراصل یہی تو وہ آیتیں ہیں جن سے صریح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اپنی نبی کو غلطیوں سے بچانے اور اس کی زندگی کو ٹھیک معیار حق پر قائم رکھنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے ذمے لے رکھی تھی ، اور یہ حقیقت صرف مذکورہ بالا آیات ہی میں بیان نہیں ہوئی ہے بلکہ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اسے اصولی حیثیت سے بھی بیان فرمایا ہے مثلا فرمایا : (آیت) ” وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْْکَ وَرَحْمَتُہُ لَہَمَّت طَّآئِفَۃٌ مُّنْہُمْ أَن یُضِلُّوکَ وَمَا یُضِلُّونَ إِلاُّ أَنفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّونَکَ مِن شَیْْء ٍ وَأَنزَلَ اللّہُ عَلَیْْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ (النسائ 4 : 113) اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ تم کو راہ راست سے ہٹا دینے کا عزم کر ہی چکا تھا مگر وہ خود اپنے آپ کو بہکانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے اور تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ، کیونکہ اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری ہے اور تم کو وہ علم دیا ہے جو تم پہلے نہ جانتے تھے ۔ (آیت) ” وَإِن کَادُواْ لَیَفْتِنُونَکَ عَنِ الَّذِیْ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ لِتفْتَرِیَ عَلَیْْنَا غَیْْرَہُ وَإِذاً لاَّتَّخَذُوکَ خَلِیْلاً (73) وَلَوْلاَ أَن ثَبَّتْنَاکَ لَقَدْ کِدتَّ تَرْکَنُ إِلَیْْہِمْ شَیْْئاً قَلِیْلاً (بنی اسرائیل 17 : 73 ‘ 74) ” قریب تھا کہ وہ تم کو اس بات سے جو ہم نے تم پر وحی کی ہے منحرف کردیتے تاکہ تم اس کے سوا کچھ اور ہم پر بنا لو اور اس وقت وہ تم کو دوست بنا لیتے ، اگر ہم تم کو ثابت قدم نہ رکھتے تو کسی قدر تم ان کی طرف جھک ہی جاتے ۔ (آیت) ” وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّی أَلْقَی الشَّیْْطَانُ فِیْ أُمْنِیَّتِہِ فَیَنسَخُ اللَّہُ مَا یُلْقِیْ الشَّیْْطَانُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللَّہُ آیَاتِہِ (الحج 22 : 52) ” ہم نے تم سے جو نبی یا رسول بھیجا ہے اس نے جب کبھی کسی بات کی تمنا کی شیطان نے اس کی تمنا میں وسوسہ ڈال دیا ۔ مگر اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ (نبی کے دل میں) شیطان جو وسوسہ بھی ڈالتا ہے اللہ اسے مٹا دیتا ہے اور پھر اپنی آیات کو مضبوط کردیتا ہے ۔ ان اصولی ارشادات سے اور اوپر کی واقعاتی مثالوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زندگی کو ٹھیک ٹھیک معیار مطلوب پر قائم رکھنے کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لی ہے اور اس نے اس بات کا سخت اہتمام کیا ہے کہ بنی سے جو لغزش بھی سرزد ہوجائے اس کی فورا اصلاح کرے ‘ خواہ وہ لغزش کسی ذاتی معاملہ میں ہو یا پبلک معاملہ میں ۔ پھر اگر اصولی طور پر یہ بات مان لی جائے تو اسی سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ نبی کے جن کاموں پر اللہ تعالیٰ نے گرفت نہیں کی ہے وہ سب کے سب اللہ کے معیار مطلوب پر پورے اترتے ہیں اور گویا ان پر خود اللہ ہی کی مہر توثیق ثبت ہے ۔ یہاں جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ اس امر کی توضح کے لئے بالکل کافی ہے کہ نبوت کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ ایک انسان جو تمام حیثیات سے دوسرے انسانوں جیسا ایک انسان ہو ‘ ایک عمر کو پہنچنے کے بعد یکایک خدا کی طرف سے نزول وحی کے لئے چن لیا جائے اور بجز اس کتاب کے جو اس پر نازل کی گئی ہو اور کسی بات میں بھی اس کی رائے اس کے خیالات ‘ اس کے اعمال ‘ اس کے احکام اور اس کے فیصلے غیر نبی انسانوں سے ممتاز نہ ہوں ‘ جیسا کہ نام نہاد اہل قرآن کا گمان ہے یا یہ کہ اس میں اور عام انسانوں میں صرف اتنا ہی فرق ہو کہ تنزیل کتاب کے ساتھ ساتھ اس کو احکام کتاب کی عملی تفصیلات بھی بتا دی گئی ہوں اور اس خاص امتیازی حیثیت سے قطع نظر کرکے وہ محض عام امیروں جیسا ایک امیر اور عام قاضیوں جیسا ایک قاضی اور عام لیڈروں جیسا ایک لیڈر ہو ۔ اسی طرح نبوت کی حقیقت یہ بھی نہیں ہے کہ نبی کی ذات بشریہ پر نبوت عارضی ہوتی ہے اور اس کے عروض کے بعد بھی نبی کی بشریت اور اس کی نبوت دونوں علیحدہ علیحدہ رہتی ہوں حتی کہ ہم اس کی زندگی کو دو مختلف شعبوں میں تقسیم کرکے صرف اس شعبہ کو اطاعت واتباع کے لئے منتخب کرسکیں جو نبوت سے تعلق رکھتا ہے ، یہ تینوں خیالات بےاصل ہیں ، ان کے برعکس قرآن مجید سے نبوت کی حقیقت پر جو روشنی پڑی ہے اس سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ نبی اپنی پیدائش اور پرورش کے مراحل سے گزرنے کے بعد نبوت کے لئے منتخب نہیں کیا جاتا ہے بلکہ وہ کار نبوت ہی کے لئے پیدا کیا جاتا ہے وہ اگرچہ بشر ہی ہوتا ہے اور ان تمام حدود سے محدود ہوا کرتا ہے جو حق تعالیٰ کی فطرت بشریہ کے لئے مقرر تمام قوتیں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں جو زیادہ سے زیادہ ایک انسان کو حاصل ہونی ممکن ہیں ، اس کے جسمانی نفسانی اور عقلی وروحانی قوی عدل وتسویہ (Balance And Moderation) کے انتہائی مقام پر ہوتے ہیں ۔ اس کے ادراکات اتنے لطیف ہوتے ہیں کہ وہ بلا کسی غور وفکر کے اپنے وجدان سے اس الہام الہی کو پا لیتا ہے جس کی طرف (فالھمھا فجورھا وتقوھا) الشمس : 8) میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس کی فطرت اتنی صحیح ہوتی ہے کہ وہ کسی خارجی تعلیم وتربیت کے بغیر صرف اپنے میل طبعی سے فجور کی راہ چھوڑ کر تقوی کی راہ اختیار کرتا ہے ، اس کا قلب اتنا سلیم ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں جو اس کے سامنے آئے اس الہی ہدایت کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیتا ہے جس کی طرف (وھدینہ النجدین) میں اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اس کے قلب کی سلامتی اور اس کی فطرت کی صحت اس کو خود بخود ان راستوں سے ہٹا دیتی ہے جو رضائے الہی کے خلاف ہیں اور وہ آپ سے آپ ان راستوں پر چلتا ہے جو مرضات الہی کے عین مطابق ہیں ۔ یہی کامل واکمل بشریت ہے جس کے ساتھ وہ صحیح معنوں میں بالفعل خدا کا خلیفہ ہوتا ہے اور یہی چیز ہے جو اپنی پختگی اور اپنے کمال کو پہنچ جانے کے بعد ہدایت عام کے منصب پر سرفراز کی جاتی ہے ، حق تعالیٰ کی جانب سے علم کی مزید روشنی پا کر سراج منیر بنتی ہے ‘ مصالح عامہ بشریہ کے لئے تعلیمات اور احکام کا مہبط قرار پاتی ہے اور اصطلاح میں نبوت و رسالت سے موسوم ہوتی ہے لہذا یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ نبوت ایک عرض ہے جو ایک خاص وقت میں نبی کے جوہر انسانیت پر عارض ہوتا ہے ‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی انسانیت کاملہ کا جوہر ہے جو نبوت کی استعداد کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے اور فعلیت کی طرف ترقی کرتے کرتے آخر کار نبوت بنا دیا جاتا ہے ، نبوت کا منصب ایسا نہیں ہے کہ ایک انسان تھا جو وائسرائے بنا دیا گیا حتی کہ اگر اس کی جگہ کوئی دوسرا انسان ہوتا تو وہ بھی اسی کی طرح وائسرائے بنا دیا جاسکتا تھا بلکہ دراصل نبوت ایک پیدائشی چیز ہے اور نبی کی حیثیت ذاتی ہی اس کی حیثیت نبوی ہے ، فرق اگر ہے تو صرف اتنا ہے کہ بعثت سے قبل اس کی حیثیت نبوی بالقوۃ ہوتی ہے اور بعث کے بعد بالفعل ہوجاتی ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے میٹھا پھل کہ وہ بالذات میٹھا پھل ہی پیدا ہوا ہے لیکن اس کی مٹھاس پختگی کی ایک خاص حد پر پہنچ کر ہی ظاہر ہے ہوتی ہے ۔ اب ان آیات کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبوت اور ذات نبوی کے حق میں متعدد مقامات پر ارشاد فرمائی ہیں ، میں توضیح مدعا کے لئے ان آیات کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ مرتب کرکے نقل کرتا ہوں ۔ 1۔ (آیت) ” وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشآء فامنوا باللہ ورسلہ “۔ (آل عمران 3 : 179) اللہ کا یہ قاعدہ نہیں کہ اگر تم کو براہ راست غیب کا علم دے بلکہ وہ اس کام کے لئے اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہتا ہے جن لیتا ہے ، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ۔ 2۔ (آیت) ” وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ “۔ (النسائ 4 : 64) اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لئے بھیجا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اذن سے ۔ یعنی رسول بذات خود مطاع نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے اذن یا اس کے حکم کی بنا پر مطاع ہوتا ہے ۔ 3۔ (آیت) ” من یطع الرسول فقد اطاع اللہ “۔ (النسائ 4 : 80) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ۔ 4۔ (آیت) ” والنجم اذا ھوی ، ما ضل صاحبکم وما غوی ، وما ینطق عن الھوی ، ان ھو الا وحی یوحی “۔ (النجم 35 : 1 تا 4) تارے کی قسم جب وہ ٹوٹتا ہے ‘ تمہارا صاحب (یعنی نبی) نہ گم کردہ راہ ہے اور نہ کج راہ اور نہ وہ ہوائے نفس سے بولتا ہے ، وہ صرف وحی ہے جو اس پر کی جاتی ہے ۔ 5۔ (آیت) ” ان اتبع الا ما یوحی الی “۔ (الانعام 6 : 50) میں صرف اس وحی کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر کی جاتی ہے ۔ 6۔ (آیت) ” لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ “۔ (الاحزاب 33 : 21) تمہارے لئے رسول خدا میں ایک اچھا نمونہ ہے ۔ 7۔ (آیت) ” قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ “۔ (آل عمران 3 : 31) اے محمد ! کہہ دو کہ اگر تم کو خدا سے محبت ہے تو میرا اتباع کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا ۔ 8۔ (آیت) ” انماکان قول المؤمنین اذا دعوا الی اللہ ورسولہ لیحکم بینم بینھم ان یقولوا سمعنا واطعنا فاولئک ھم المفلحون “۔ (النور 24 : 51) اہل ایمان کا کام تو یہ ہے کہ جب انکو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ (رسول) ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا ، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ (آیت) ” وان تطیعوہ تھتدوا “۔ (النور 24 : 54) ” اور اگر تم اس کی (یعنی رسول کی) اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤگے ۔ 9۔ (آیت) ” فل اوربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجربینم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما “۔ (النسائ : 65) پس قسم ہے تیرے پروردگار کی ‘ نہیں ! وہ ہرگز مومن نہیں ہیں جب تک کہ وہ اپنے آپس کے جھگڑے میں تجھ کو فیصلہ کرنے والا نہ بنائیں ‘ پھر تو جو فیصلہ کرین اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی نہ پائیں بلکہ سربسرتسلیم کرلیں ۔ 10۔ (آیت) ” وما کان لمؤمن ولا مؤمنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالا مبینا “۔ (احزاب : 36) کسی مومن مرد یا عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دے تو اس کے لئے اپنے معاملہ میں خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے ۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا ۔ ان آیات پر غور کیجئے تو تمام حقیقت آپ پر کھل جائے گی ۔ 1۔ پہلی آیت میں نبی اور عام انسانوں کے درمیان فرق ظاہر کیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ نبی پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ اپنے غیب کا علم ہر انسان پر فردا فردا ظاہر نہیں کرتا بلکہ اپنے بندوں میں سے کسی خاص بندے پر ظاہر کرتا ہے ‘ اس لئے عام انسانوں پر لازم ہے کہ وہ اس بندے پر ایمان لائیں ۔ غیب ‘ یعنی وہ غیر محسوس حقیقتیں جن سے واقف ہوئے بغیر دنیا میں انسانی زندگی کے لئے کوئی صحیح طریقہ اور نظام نہیں بن سکتا ۔ مثلا یہ کہ انسان کی اصلیت کیا ہے ؟ وہ آزاد ہے یا کسی کا محکوم ؟ محکوم ہے تو کس کا محکوم ہے ؟ اپنے حاکم سے اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟ اسے کبھی اپنے حاکم کو جواب دینا ہے یا نہیں ؟ جواب دینا ہے تو کہاں ؟ کس شکل میں ؟ کس معیار پر ؟ کن معاملات میں ؟ اور اس جواب دہی میں کامیاب یا ناکام ہونے کا کیا نتیجہ ہوگا ؟ ان سوالات کا جواب تک کوئی جواب اور وہ بھی قیاسی وگمانی جواب نہیں بلکہ علمی اور یقینی جواب معلوم نہ ہو انسانی زندگی کے لئے کوئی اسکیم نہیں بن سکتی اور یہی وہ علم ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس آیت میں ” غیب کے علم “ سے تعبیر فرما رہا ہے ۔ 2۔ دوسری آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسول پر ایمان لانے کا مدعا صرف یہی نہیں ہے کہ اس کو رسول خدا مان لیا جائے ‘ بلکہ اس کے ساتھ رسول کی اطاعت بھی ضروری ہے ، یہ اطاعت کا حکم نہ صرف اس آیت میں بلکہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی دیا گیا ہے ‘ مطلق ہے ‘ مقید نہیں ہے ۔ کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ رسول کی اطاعت فلاں فلاں امور میں ہے اور ان امور کے سوا کسی دوسرے امر میں نہیں ہے پس قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے اس کا رسول ایک حاکم عام ہے ۔ جو حکم بھی وہ دے ‘ مومنوں پر اس کا ماننا لازم ہے ، یہ خود رسول کے اپنے اختیار میں ہے کہ الہی ہدایت کے ماتحت اپنی حکومت کے اقتدار کو مخصوص حدود کے اندر محدود کردے اور ان حدود سے باہر لوگوں کو رائے اور عمل کی آزادی بخش دے لیکن مومنوں کو یہ حق ہرگز نہیں دیا گیا کہ وہ خود رسول کے اختیارات کی حد بندی کردیں ۔ وہ تو قطعا محکوم ومامور ہیں ۔ اگر رسول ان کو زراعت اور نجاری اور حدادی وغیرہ کے طریقوں میں سے بھی کسی خاص طریقے کو اختیار کرنے کا حکم دیتا تو ان کا فرض یہی تھا کہ بےچون وچرا اس کے حکم کی اطاعت کرتے ۔ 3۔ جب اطاعت غیر مشروط اور غیر محدود کا حکم دے دیا گیا تو یہ اطمینان دلانا بھی ضروری تھا کہ نبی کی اطاعت ‘ اپنے جیسے ایک انسان کی اطاعت نہیں ہے جیسا کہ جاہل کفار کا خیال تھا جو کہتے تھے کہ (ھل ھذا الا بشر مثلکم) الانبیائ : 3) کیا یہ تمہیں جیسا ایک بشر نہیں ہے ؟ اور (آیت) ” ما ھذا الا بشر مثلکم یرید ان یتفضل علیکم “۔ (المؤمنون) ” یہ کچھ نہیں ہے مگر تمہارے ہی جیسا ایک بشر اور اس پر یہ چاہتا ہے کہ تم پر فضیلت حاصل کرے ۔ “ اور (آیت) ” ولئن اطعتم بشرا مثلکم انکم اذا الخسرون “۔ (مومنون : 34) ” اگر تم نے اپنے جیسے ایک بشر کی اطاعت کی تو تم ضرور خسارے میں رہوگے “ بلکہ دراصل یہ خدا کی اطاعت ہے ‘ کیونکہ نبی جو کچھ کہتا ہے خدا کی طرف سے کہتا ہے اور جو کچھ عمل کرتا ہے خدا کی ہدایت کے ماتحت کرتا ہے ‘ وہ خود اپنے نفس کی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتا بلکہ خدا کی وحی کا اتباع کرتا ہے ‘ اس لئے تم کو مطمئن ہوجانا چاہئے کہ اس کی پیروی میں کسی قسم کی گمراہی اور غلط روی کا خطرہ نہیں ہے ۔ یہی بات ہے تو تیسری ‘ چوتھی اور پانچویں آیت میں بیان کی گئی ہے ، چوتھی اور پانچویں آیت میں جس چیز کو وحی کہا گیا ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد کتاب اللہ ہے اور کتاب کے سوا کوئی وحی نبی پر نازل نہیں ہوتی لیکن یہ خیال قطعا غلط ہے ، قرآن مجید سے ثابت ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) پر صرف کتاب ہی نازل نہیں کی جاتی تھی بلکہ ان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ وحی نازل کرتا رہتا تھا اور اسی وحی کی روشنی میں وہ سیدھی راہ چلتے تھے ‘ معاملات میں صاحب رائے قائم کرتے تھے اور تدبیریں عمل میں لاتے تھے ، مثال کے طور پر دیکھئے نوح (علیہ السلام) طوفان کی پیش بندی کے لئے اللہ کی نگرانی میں اور اس کی وحی کے ماتحت کشتی بناتے ہیں (واصنع الفلک باعیننا ووحینا) (ہود : 37) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ملکوت سموات وارض کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے اور مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت دکھائی جاتی ہے کہ ان دل کے مردہ لوگوں کی زندگی کیونکر ممکن ہے ؟ حضرت یوسف کو خوابوں کی تعبیر بتائی جاتی ہے (آیت) ” ذالکما مما علمنی ربی “ (یوسف : 37) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے طور پر بحالت استغراق باتیں کی جاتی ہیں ، پوچھا جاتا ہے کہ یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ میری لاٹھی ہے ‘ اس سے بکریاں چراتا ہوں۔ حکم ہوتا ہے کہ اس کو پھینک دو ، جب لاٹھی ازدہابن جاتی ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ڈر کر بھاگتے ہیں تو فرمایا جاتا ہے ۔ (آیت) ” یا موسیٰ اقبل ولا تخف انک من الامنین “۔ (قصص : 31) ” موسیٰ ڈرو نہیں آگے بڑھو ‘ تم امن میں ہو۔ “ پھر وہ حکم دیا جاتا ہے ۔ (اذھب الی فرعون انہ طغی) (طہ : 24 ‘ نازعات : 17) ” فرعون کی طرف جاوہ سرکش ہوگیا ہے ۔ “ استغراق کا پردہ اٹھتا ہے تو وہ اپنی مدد کے لئے ہارون (علیہ السلام) کو مانگتے ہیں اور یہ درخواست قبول کی جاتی ہے ، دونوں بھائی فرعون کے پاس جاتے ہوئے ڈرتے ہیں تو ارشاد ہوتا ہے ۔ (لا تخافا اننی معکما اسمع واری) (طہ : 46) ” ڈرو نہیں ‘ میں تم دونوں کے ساتھ ہوں اور سنتا ہوں۔ “ فرعون کے دربار میں سانپوں کو دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ڈرتے ہیں تو وحی آتی ہے (آیت) ” لا تخف انک انت الاعلی “۔ (طہ : 68) ” مت ڈرو ‘ تمہارا ہی بول بالا ہوگا “۔ جب فرعون پر اتمام حجت ہو چکتا ہے تو ان کو حکم دیا جاتا ہے کہ (آیت) ” اسر بعبادی لیلا انکم متبعون “۔ (الشعراء : 52) ” میرے بندوں کو لے کر راتوں رات چل پڑو ‘ تمہارا تعاقب کیا جائے گا “ دریا پر پہنچتے ہیں تو فرمان آتا ہے (اضرب بعصاک البحر “۔ (الشعرائ : 62) ” دریا پر اپنا عصا مارو “ اور ان کو گزر گاہ بتا دو کہ اس جگہ سے گزرنا ہے کیا ان میں سے کوئی وحی بھی ایسی ہے جو کتاب کی صورت میں ہدایت عامہ کے لئے نازل ہوئی ہو ؟ یہ مثالیں اس امر کے ثبوت میں کافی ہیں کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرف اللہ تعالیٰ متوجہ رہتا ہے اور ہر ایسے موقع پر جہاں بشری فکر و رائے کی غلطی کا امکان ہو اپنی وحی سے ان کی رہمائی کرتا رہتا ہے اور یہ وحی اس وحی سے ماسوا ہوتی ہے جو ہدایت عام کے لئے ان کے واسطہ سے بھیجی جاتی اور کتاب میں ثبت کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کے لئے ایک الہی ہدایت نامے اور دستورالعمل کا کام دے ۔ ایسی ہی وحی غیر متلو اور وحی خفی نبی کریم ﷺ پر بھی نازل ہوتی تھی جس کے طرف قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اشارے کئے گئے ہیں ، اگرچہ اس حقیقت کے یہ نام وضاحت کے لئے رکھ لئے گئے ہیں ، حضور اکرم ﷺ نے پہلے بیت المقدس کو قبلہ بنایا تھا ، اس کے متعلق کوئی حکم کتاب اللہ میں نہیں آیا تھا بلکہ لوگوں نے اپنی طرف سے اس کو قبلہ بنا لیا ‘ مگر جب اس قبلہ کی منسوخ کرکے بیت الحرام کو قبول بنانے کا حکام دیا گیا اس وقت ارشاد ہوا : (آیت) ” وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ “۔ (البقرہ : 143) جس قبلہ پر تم تھے اس کو ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ رسول کا اتباع کرنے والے اور اتباع سے منہ موڑنے والے کے درمیان امتیاز ہوجائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے جو بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تھا ‘ وہ وحی کی بنا پر تھا ۔ جنگ احد کے موقع پر حضور ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کے لئے فرشتے بھیجے گا ، بعد میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے اس ارشاد کا ذکر قرآن میں اس طرح فرمایا : (آیت) ” وما جعلہ اللہ الا بشری لکم “۔ (آل عمران : 126) اللہ نے اس وعدے کو تمہارے لئے خوشخبری بنایا ۔ ظاہر ہوا کہ یہ وعدہ اللہ کی طرف سے تھا ۔ جنگ احد کے بعد رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر ثانیہ کے لئے لوگوں کو نکلنے کا حکم دیا ، یہ حکم قرآن میں کہیں نہیں آیا ۔ مگر اللہ نے بعد میں تصدیق کی کہ یہ بھی اسی کی جانب سے تھا۔ (آیت) ” الذین استجابوا اللہ والرسول من بعد ما اصابھم القرح “۔ (آل عمران : 172) جن لوگوں نے لڑائی میں زخم کھانے کے بعد پھر اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا ۔ جنگ بدر کے موقع پر حضور ﷺ کے مدینے سے نکلنے کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا گیا ہے : (آیت) ” کما اخرجک ربک من بیتک “۔ (الانفال : 5) جس طرح تیرے رب نے تجھے تیرے گھر سے نکالا۔ گھر سے نکلنے کا حکم قرآن میں نہیں آیا ‘ مگر بعد میں اللہ نے تصدیق فرمائی کہ یہ خروج اس کے حکم سے تھا نہ کہ اپنی رائے سے ۔ پھر عین جنگ کے موقع پر اللہ نے اپنے نبی کو خواب دکھایا : (آیت) ” اذ یریکھم اللہ فی منامک قلیلا “۔ (الانفال : 43) جب کہ اللہ ان کو قلیل بنا کر تیرے خواب میں تجھے دکھا رہا تھا ۔ منافقین نے رسول اللہ ﷺ کی تقسیم صدقات پر ناک بھوں چڑھائی تو اللہ نے اس حقیقت پر سے پردہ اٹھایا کہ یہ تقسیم خود اللہ رب العزت کے ارشاد سے عمل میں آئی تھی ۔ (آیت) ” ولو انھم رضوا ما اتھم اللہ ورسولہ “۔ (التوبہ : 59) اگر وہ راضی ہوجاتے اس حصہ پر جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کو دیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر تمام صحابہ صلح کے مخالف تھے اور صلح کی شرائط ہر شخص کو ناقابل قبول نظر آتی تھیں مگر اللہ کے نبی نے ان کو قبول کیا اور اللہ نے بعد میں تصدیق کی کہ یہ صلح اسی کی جانب سے تھی ۔ (آیت) ” انا فتحنالک فتحا مبینا “۔ (فتح : 1) ” ہم نے تجھ کو فتح مبین عطا کی۔ “ آیات کے تتبع سے اس قسم کی اور بھی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں مگر یہاں استقصاء مقصود نہیں ہے ، صرف یہ ثابت کرنا مقصود ہیں کہ اللہ کا تعلق اپنے انبیاء کے ساتھ کوئی عارضی اور موقتی نہیں ہے کہ جب کبھی اس کو اپنے بندوں تک کوئی پیغام پہنچانا ہو بس اسی وقت یہ تعلق بھی قائم ہو اور اس کے بعد منقطع ہوجائے بلکہ دراصل اللہ تعالیٰ جس شخص کو اپنی پیغمبری کے لئے منتخب فرماتے ہیں اس کی طرف وہ ہمیشہ ایک توجہ خاص کے ساتھ متوجہ رہتے ہیں اور دائما اپنی وحی سے اس کی ہدایت و راہنمائی فرماتے رہتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں ٹھیک ٹھیک راہ راست پر گامزن رہے اور اس سے کوئی ایسا قول یا فعل صادر نہ ہونے پائے جو مرضات الہی کے خلاف ہو۔ سورة نجم کی ابتدائی آیات میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے وہ دراصل اسی حقیقت کا اظہار ہے اور جیسا کہ ہم اس مضمون کے پہلے حصہ میں عرض کرچکے ہیں یہ بات بھی قرآن نے کھول کر بیان کردی ہے کہ انبیاء پر ہمیشہ اللہ کی نگرانی رہتی ہے ‘ ان کو غلط روی سے محفوظ رکھا جاتا ہے اور اگر باقتضائے بشریت ان سے کبھی کوئی لغزش ہوتی ہے یا وحی خفی کے لطیف اشارے کو سمجھنے میں وہ کبھی غلطی کرتے ہیں یا اپنے اجتہاد سے کوئی ایسی روش اختیار کرجاتے ہیں جو مرضات الہی سے یک سرمو بھی ہٹی ہوئی ہو تو اللہ تعالیٰ فورا ان کی اصلاح کرتا ہے اور تنبیہہ کرکے سیدھے رستے پر لے آتا ہے ۔ قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ اور دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی لغزشوں اور ان پر اللہ تعالیٰ کی تنبیہات کا جو ذکر آیا ہے ‘ اس کا ہرگز یہ منشا نہیں کہ لوگوں کے دلوں سے انبیاء کرام (علیہ السلام) کا اعتماد اٹھ جائے اور لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ جب انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی ہماری طرح نعوذ باللہ غلط کار ہیں تو ان کے احکام کی اطاعت اور انکی روش کی پیروی کامل اطمینان کے ساتھ کیسے کی جاسکتی ہے بلکہ اس ذکر سے مقصود یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ہوائے نفس کا اتباع کرنے یا اپنی رائے اور بشری اجتہاد پر چلنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا ہے وہ چونکہ اس کی طرف سے اس کے بندوں کی راہنمائی کے لئے مامور کئے گئے ہیں اس لئے ان پر یہ پابندی عائد کردی گئی ہے کہ دائما اس کی ہدایت پر کاربند رہیں اور اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی ان کی رضا کے خلاف عمل نہ کریں ، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں بعض ایسی باتوں پر بھی رسول اللہ ﷺ کو تنبیہہ کی گئی ہے جو عام انسانی زندگی میں قطعا کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ۔ مثلا کسی انسان کا شہد کھانا یا نہ کھانا اور کسی کے لئے دعائے مغفرت کرنا ‘ کونسا اہم واقعہ تھا ؟ مگر اللہ نے اپنے نبی کو ایسے چھوٹے معاملات میں بھی اپنی رائے یا دوسروں کی مرضی پر چلنے نہ دیا ۔ اسی طرح جنگ کی شرکت سے کسی کو معاف کردینا اور بعض قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا ایک امیر کی زندگی میں محض ایک معمولی واقعہ ہے مگر نبی کی زندگی میں یہی واقعہ اتنا اہم بن جاتا ہے کہ اس پر وحی جلی کے ذریعہ سے تنبیہہ کی جاتی ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ اللہ کے نبی کی زندگی میں یہی واقعہ اتنا اہم بن جاتا ہے کہ اس پر وحی جلی کے ذریعہ سے تنبیہہ کی جاتی ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ اللہ کے نبی کی حیثیت عام امراء کی سی نہیں ہے کہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کرنے میں آزاد ہو بلکہ منصب نبوت پر مامور ہونے کی وجہ سے نبی کے لئے لازم ہے کہ اس کا اجتہاد بھی ٹھیک ٹھیک منشاء الہی کے مطابق ہو ۔ اگر وہ اپنے اجتہاد میں وحی خفی کے اشارے کو نہ سمجھ کر مرضی الہی کے خلاف بال برابر بھی جنبش کرتا ہے تو اللہ وحی جلی سے اس کی اصلاح کرنا ضروری سمجھتا ہے ۔ 4۔ اللہ نے اپنے نبی کی اس خصوصیت کو ہمارے سامنے اسی لئے بیان فرمایا ہے کہ ہم کو اسی لئے بیان فرمایا ہے کہ ہم کو اس کے نبی کی راست روی پر کامل اعتماد ہو اور ہم پورے وثوق کے ساتھ یقین رکھیں کہ نبی کا قول اور عمل گمراہی اور کج راہی اور اتباع ہوی اور بشری فکرورائے کی غلطیوں سے قطعا محفوظ ہے ، زندگی میں اس کا قدم مضبوطی کے ساتھ صراط مستقیم پر جما ہوا ہے جو ٹھیک ٹھیک خدا کی بتائی ہوئی ہے ‘ اس کی سیرت پاک اسلامی سیرت کا ایک ایسا معیاری نمونہ ہے جس میں کسی نقص کا شائبہ تک نہیں ہے اور اللہ نے خاص طور پر اس کامل واکمل نمونہ کو اسی لئے بنایا ہے کہ اس کے بندوں میں سے جو کوئی اس کا مقبول ومحبوب بندہ بننا چاہے وہ بےخطر اس کی پیروی کرے ، اس مقصد کو چھٹی اور ساتویں آیت میں کھول دیا گیا ہے ، چھٹی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ میں ایک ” اسوہ حسنہ “ ہے اور ساتویں آیت میں رسول اللہ ﷺ کے اتباع کو محبوب الہی بننے کا واحد ذریعہ بتایا گیا ہے ۔ یہاں پھر ہم کو کسی قسم کی تخصیص وتحدید نظر نہیں آتی ، صریح تعمیم واطلاق ہے ۔ رسول اللہ کی ذات کو مطلقا اسوہ حسنہ بتایا گیا ہے اور مطلقا ہی آپ ﷺ کے اتباع کی ہدایت کی گئی ہے ، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس قدر زیادہ آپ ﷺ کا اتباع کرو گے اور اپنی زندگی میں سیرت پاک کا رنگ جتنا زیادہ پیدا کرو گے اتنا ہی تقرب کو بارگاہ الہی میں حاصل ہوگا اور اللہ اتنا ہی تم کو پیار کرے گا ۔ مگر رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو نمونہ قرار دینے اور آپ ﷺ کے اتباع کا حکم دینے سے یہ مراد نہیں ہے کہ تمام معاملات زندگی میں آپ نے کچھ کیا ہے اور جس طرھ کیا ہے سب انسان بعینہ وہی فکر کریں اور اپنی زندگی میں آپ ﷺ کی حیات طیبہ کیا یسی نقل اتاریں کہ اصل اور نقل میں کوئی فرق نہ رہے ، یہ مقصد نہ قرآن کا ہے ‘ نہ ہو سکتا ہے ، دراصل یہ ایک عام اور اجمالی حکم ہے جس پر عمل کرنے کی صحیح صورت ہم کو خود نبی کریم ﷺ کی تعلیم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے طریقہ سے معلوم ہوجاتی ہے ، یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں ۔ مجملا میں عرض کرتا ہوں کہ جو امور فرائض وواجبات اور ارکان اسلام کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں تو حضور ﷺ کے ارشادات کی اطاعت اور آپ ﷺ کے عمل کی پیروی طابق النعل بالنعل کرنی ضروری ہے مثلا نماز ‘ روزہ ‘ حج ‘ زکوۃ اور طہارت وغیرہ مسائل کہ ان میں جو کچھ آپ ﷺ نے حکم دیا ہے اور جس طرح خود عمل کرکے بتایا ہے اس کی ٹھیک ٹھیک پیروی لازم ہے ، رہے وہ امور جو اسلامی زندگی کی عام ہدایات سے تعلق رکھتے ہیں مثلا تمدنی ‘ معاشی ‘ اور سیاسی معاملات اور معاشرت کے جزئیات تو ان میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا حضور ﷺ نے حکم دیا ہے یا جن سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے بعض ایسی ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ عمل کے مختلف طریقوں میں سے کونسا طریقہ روح اسلامی سے مطابقت رکھتا ہے ، پس اگر کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ حضور ﷺ کا اتباع کرنا چاہئے اور اسی غرض سے آپ ﷺ کی سنت کا مطالعہ کرے تو اس کے لئے یہ معلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ کن امور میں آپ ﷺ کا اتباع طابق النعل بالنعل ہونا چاہئے کن امور میں آپ ﷺ کی سنت سے اخلاق و حکمت اور خیر وصلاح کے عام اصول مستنبط کرنے چ ہیں ، مگر جن لوگوں کی طبیعت نزاع پسند واقع ہوئی ہے وہ اس میں طرح طرح کی حجتیں نکالتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عربی بولتے تھے تو کیا ہم بھی عربی بولیں ؟ آپ ﷺ نے عربوں سے شادیوں کیں تو کیا ہم بھی عربوں سے شادی کریں ؟ آپ ﷺ ایک خاص وضع کا لباس پہنتے تھے تو کیا ہم بھی ویسا ہی لباس پہنیں ؟ آپ ﷺ ایک خاص قسم کی غذا کھاتے تھے تو کیا ہم بھی وہی غذا کھائیں ؟ آپ ﷺ کی معاشرت کا ایک خاص طریقہ تھا تو کیا ہم بھی بعینہ ویسی ہی معاشرت اختیار کریں ؟ کاش یہ لوگ غور کرتے کہ اصل چیز وہ زبان نہیں ہے جو آپ ﷺ بولتے تھے بلکہ وہ اخلاقی حدود ہیں جن کی پابندی کو حضور ﷺ نے ہمیشہ کلام میں ملحوظ رکھا ۔ اصل چیز یہ نہیں ہے کہ شادی عرب عورت سے کی جائے یا غیر عرب سے بلکہ یہ ہے کہ جس عورت سے بھی کی جائے اس کے ساتھ ہمارا معاملہ کیسا ہو ‘ اس کے حقوق ہم کس طرح ادا کریں اور اپنے جائز شرعی اختیارات کو اس پر کس طرح استعمال کریں ۔ اس معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کو جو برتاؤ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ تھا اس سے بہتر نمونہ ایک مسلمان کی خانگی زندگی کے لئے اور کونسا ہو سکتا ہے ، پھر یہ کس نے کہا کہ آپ ﷺ جس وضع کا لباس پہنتے تھے وہی مشروع لباس ہے ؟ اور جو کھانا آپ ﷺ کھاتے تھے بعینہ وہی کھانا ہر مسلمان کو کھانا چاہئے ؟ اصل میں اتباع کے قابل جو چیز ہے وہ تو تقوی اور پاکیزگی کے وہ حدود ہیں جو آپ ﷺ اپنے کھانے ‘ پینے اور پہننے ‘ اوڑھنے میں ملحوظ رکھتے تھے ۔ انہیں حدود سے ہم کو معلوم ہو سکتا ہے کہ رہبانیت اور نفس پرستی کے درمیان جس معتدل روش کا ہم کو قرآن میں ایک مجمل سبق دیا گیا ہے اس پر ہم کس طرح عمل کریں کہ نہ تو طیبات سے ناروا اجتناب ہو اور نہ اسراف ، یہی حال حضور ﷺ کی پرائیویٹ اور پبلک زندگی کے دوسرے تمام معاملات کا بھی ہے ۔ وہ پاک زندگی پوری کی پوری ایک سچے اور خدا ترس مسلمان کی زندگی کا معیاری نمونہ تھی ، حضرت عائشہ ؓ نے سچ فرمایا ہے کہ کان خلقہ القرآن اگر تم کو معلوم کرنا ہو کہ قرآن کی تعلیم اور اسپرٹ کے مطابق ایک مومن انسان کو دنیا میں کس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو دیکھ لو ، جو اسلام خدا کی کتاب میں مجمل ہے وہی رسول خدا کی ذات میں تم کو مفصل نظر آئے گا ۔ الحمد للہ کہ ہمارے بعض دوست ایسے لوگوں کے ہم خیال نہیں ہیں مگر بعض احادیث سے ان کو یہ شبہ ہو گای ہے کہ ” حضور ﷺ ہر آن اور ہر حال میں رسول نہیں ہوتے تھے اور آپ ﷺ کا ہر قول اور ہر فعل بہ حیثیت رسول نہیں ہوتا تھا “ یہ غلط فہمی جن روایات سے پیدا ہوتی ہے وہ دراصل ایک دوسری حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ہر آن اور ہر حال میں اللہ کے رسول ہی تھے اور یہ شان رسالت ہی تھی کہ آپ ﷺ ہمیشہ اس مقصد کو پیش نظر رکھتے تھے جس کے لئے آپ ﷺ کو بھیجا گیا تھا ۔ آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد یہ تو نہ تھا کہ لوگوں سے رائے اور عمل کی آزادی قطعا سلب کرلیں اور ان کی عقل وفکر کو معطل کردیں ۔ نہ آپ ﷺ دنیا کی زراعت اور صنعت وحرفت سکھانے آئے تھے ، نہ آپ ﷺ کو اس لئے بھیجا گیا تھا کہ لوگوں کے کاروبار اور ان کے ذاتی معاملات میں ان کی راہنمائی فرمائیں ۔ آپ ﷺ کی زندگی کا مقصد صرف ایک تھا اور وہ اسلام کو عقیدہ کی حیثیت سے دلوں میں بٹھانا اور عمل کی حیثیت سے افراد کی سیرت اور سوسائٹی کے نظام میں نافذ کردینا تھا ، اس مقصد کے سوا دوسری کسی چیز کی طرف حضور اکرم ﷺ نے کبھی توجہ نہیں فرمائی اور اگر شاذ ونادر کسی موقع پر کچھ فرمایا بھی تو صاف کہہ دیا کہ تم اپنے رائے اور عمل میں آزاد ہو جس طرح چاہو کرو انتم اعلم باموردنیاکم اگرچہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپ ﷺ کے ہر ارشاد کو رسول کا ارشاد سمجھ کر بدل وجان اس کی اطاعت پر آمادہ تھے اور آپ ﷺ کو مطلقا مطاع ومتبوع سمجھتے تھے اور اسی لئے جب کبھی حضور ﷺ کسی دنیوی مسئلہ میں بھی کچھ ارشاد فرماتے تو صحابہ کو شبہ گزرتا تھا کہ شاید یہ حکم رسالت ہو لیکن کبھی ایسا نہ ہوا کہ آپ ﷺ نے کسی ایسے مسئلہ میں جو آپ ﷺ کے مقصد بعثت سے متعلق نہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو کوئی حکم دیا ہو اور انہیں اطاعت پر مجبور کیا ہو ۔ 23 سال کی مدت میں ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے مشن سے غافل نہ ہونا اور ہر آن اس باریک فرق کو ملحوظ رکھنا کہ کونسا معاملہ اس مشن سے تعلق رکھتا ہے اور کونسا نہیں رکھتا اور اپنے متبعین پر کامل اقتدار رکھنے کے باوجود کبھی ان کو کسی غیر متعلق امر میں حکم نہ دینا خود اس بات پر شاہد ہے کہ شان رسالت کسی وقت بھی حضور ﷺ سے منفک نہ ہوتی تھی ، مگر یہ خیال کرنا صحیح نہ ہوگا کہ دنیوی معاملات میں جو کچھ حضور ﷺ نے فرمایا وہ اللہ کی وحی سے نہ تھا ۔ اگرچہ آپ ﷺ کے ایسے ارشادات آپ ﷺ کے احکام نہیں ہیں ‘ نہ آپ ﷺ نے ان کو حکم کے انداز میں فرمایا اور نہ کسی نے ان کو حکم سمجھا مگر پھر بھی جو بات آپ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی وہ سراسر حق تھی اور غلطی کا اس میں شائبہ تک نہ تھا ، مثال کے طور پر طب نبوی کے باب میں جو کچھ آپ ﷺ سے ثابت ہے وہ ایسی ایسی حکیمانہ باتوں سے لبریز ہے جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ عرب کا امی جو طبیب نہ تھا ‘ جس نے کبھی فن کی تحقیق نہ کی تھی ‘ وہ کس طرح اس فن کی حقیقتوں تک پہنچا ‘ جو صدیوں کے تجربات کے بعد اب منکشف ہو رہی ہیں ، اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہم کو حضور ﷺ کے حکیمانہ ارشادات میں ملتی ہیں ، اگرچہ یہ باتیں بقول آپ ﷺ کے تبلیغ رسالت سے تعلق نہیں رکھتیں ، مگر اللہ اپنے رسولوں کی جبلت میں جو غیر معمولی قوتیں ودیعت فرماتا ہے وہ صرف تبلیغ رسالت کے کام ہی نہیں آتیں بلکہ ہر معاملہ میں اپنی شان امتیاز دکھا کر رہتی ہیں ، حدادی اور زرہ سازی کا تبلیغ رسالت سے کیا تعلق ہو سکتا ہے ؟ مگر حضرت داؤد (علیہ السلام) اس میں غیر معمولی کمال دکھاتین ہیں اور اللہ رب العزت خود فرماتا ہے کہ یہ فن ہم نے ان کو سکھایا تھا ۔ (آیت) ” وعلمنہ صنعۃ لبوس لکم لتحصنکم من باسکم “۔ (الانبیائ : 80) پرندوں کی بولیاں جاننے سے تبلیغ رسالت کو کیا واسطہ ؟ مگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس میں کمال ظاہر فرماتے ہیں اور خود کہتے ہیں کہ (آیت) علمنا منطق الطیر “۔ (النمل : 16) نجاری اور کشتی سازی تبلیغ رسالت کا کونسا شعبہ ہے ؟ مگر اللہ تعالیٰ حضرت نوح (علیہ السلام) سے یہ نہیں کہتا کہ ایک مضبوط سی کشتی بنوا لو بلکہ فرماتا ہے (آیت) ” واصنع الفلک باعیننا ووحینا “۔ (ہود : 37) پس انبیاء کے حق میں یہ گمان کرنا صحیح نہیں کہ ان پر صرف وہی امور وحی کئے گئے تھے جو براہ راست تبلیغ رسالت سے تعلق رکھتے تھے ، درحقیقت ان کی ساری زندگی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تابع تھی ، البتہ اگر فرق ہے تو یہ کہ ان کی زندگی کا ایک شعبہ ایسا ہے جس میں ان کے قدم بقدم چلنا مسلمان ہونے کے لئے ناگزیر شرط ہے اور ایک شعبہ ایسا ہے جس میں ان کا اتباع ہر مسلمان پر فرض نہیں ۔ مگر جو شخص اللہ کا محبوب ومقبول بندہ بننا چاہتا ہو اور بارگاہ الہی میں تقرب کا طلبگار ہو اس کے لئے بغیر اس کے چارہ نہیں کہ ٹھیک ٹھیک نبی کی سنت پر چلے ‘ حتی کہ اگر ایک سرمو بھی اس خط سے ہٹے گا تو تقرب اور محبوبیت میں اسی انحراف کی حد تک کسر رہ جائے گی اور اس لئے کہ محبوبیت کیلئے بجز اتباع نبی کے اور کوئی راستہ ہی نہیں ۔ (آیت) ” فاتبعونی یحببکم اللہ “۔ (آل عمران : 31) 5۔ اس بحث کے بعد یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کی امارت اور دوسرے امیروں کی امارت میں کیا فرق ہے اور نبی کے فیصلے اور دوسرے قاضیوں کے فیصلے میں کتنا عظیم الشان تفاوت ہے ، تاہم ہم نے تین آیتیں آخر میں ایسی نقل کی ہیں جن سے یہ فرق قطعی طور پر واضح ہوجاتا ہے ، ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم پر سر جھکا دینا اور آپ ﷺ کے فیصلے کو تسلیم کرنا ایمان کے لئے ضروری شرط ہے جو اس سے انکار کرے وہ مومن ہی نہیں ۔ کیا یہ بات کسی دوسرے امیر یا قاضی کو حاصل ہے ؟ اگر نہیں تو یہ کہنا کس قدر غلط ہے کہ ” اللہ اور رسول کے الفاظ قرآن میں جہاں جہاں ساتھ ساتھ آئے ہیں ان سے مراد امارت ہے “ نہیں ایسا کہنے والوں پر بلاشبہ اعتراج ہے اور ہم اس کو قرآن کریم کی تعلیم کے قطعا خلاف سمجھتے ہیں ، قرآن کریم محفوظ رہے جس میں اتباع رسول کا حکم دیا گیا ہے اور اتباع کی صورت محفوظ نہ رہے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ۔ ہاں ! ہم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد اولی الامر کی اطاعت واجب ہے اور اولی الامر اسلامی حکومت کے وہ تمام فرائض انجام دیں گے جو رسول اکرم ﷺ اپنی حیات طیبہ میں انجام دیتے تھے اور معاملات میں اولی الامر کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہوگا ۔ حتی کہ اگر کوئی شخص اپنی دانست میں ان کے فیصلہ کو حکم خدا ورسول کے خلاف بھی سمجھتا ہو تب بھی ایک حد خاص تک اس کے لئے لازم ہوگا کہ اپنی رائے پر قائم رہتے ہوئے ان کے فیصلے کو تسلیم کرے ، لیکن اس کے یہ معنی کبھی نہیں ہو سکتے کہ امارت بعینہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں ” اللہ اور رسول “ کہا گیا ہے اور امارت کے احکام ہو بہو وہی ہیں جو اللہ اور رسول کے احکام ہیں ، اگر ایسا ہو تو امراء کے بگڑ جانے اور ارباب حل وعقد کے کتاب وسنت سے منحرف ہوجانے کی صورت میں مسلمانوں کے لئے کوئی چارہ ان کی اطاعت کرنے کے سوا اور ہلاکت کے راستوں میں ان کی پیروی کرنے کے سوا باقی نہ رہے گا ، ایسی صورت میں اگر کوئی بندہ خدا اٹھے اور اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرنے کی تاکید کرے تو ان بزرگوں کے فتوے کی رو سے تو امراء اس کو باغی قار دے کر قتل کردینے میں بالکل حق بجانب قرار پائیں گے اور ان کو یہ کہنے کا حق ہوگا کہ ” اللہ اور رسول “ تو ہم ہی ہیں ۔ دوسرا کون ہے جس کی طرف تو ہم کو پھیرنا چاہتا ہے ؟ حالانکہ یہ بات اتنی ہی غلط ہے جتنی گدھے کے سر پر سینگ ۔ ہاں ! ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق دے ۔
Top