Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 20
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ یُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌۚ
قُلْ : فرما دیں سِيْرُوْا : چلو پھرو تم فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ بَدَاَ : کیسے ابتدا کی الْخَلْقَ : پیدائش ثُمَّ : پھر اللّٰهُ : اللہ يُنْشِئُ : اٹھائے گا النَّشْاَةَ : اٹھان الْاٰخِرَةَ : آخری (دوسری) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
(اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ زمین میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ اس نے کس طرح مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا ، پھر اللہ اسے دوسری بار پیدا کر دے گا اور اللہ ہرچیز پر قادر ہے (ہر چیز کا اس نے بندھن باندھ دیا ہے)
اس زمین میں چل پھر کر دیکھو شاید ان نشانات کو دیکھ کر تمہاری عقل سیدھی ہوجائے : 20۔ آنکھیں کھول کر قدرت الہی کے نشانات کو اگر دیکھا جائے کر اور عقل وفکر کو وا کر کے دیکھنا نصیب ہوجائے تو سمجھ لو کہ تم مراد کو پہنچ گئے ۔ لیکن خیال رہے کہ اکثر دیکھنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ دیکھتے رہتے ہیں لیکن عقل وفکر پر بدستور پردہ پڑا رہتا ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ باوجود اس کے کہ دنیوی اعتبار سے بہت بڑے لوگ ہوتے ہیں لیکن ان کے دیکھنے اور ایک بیل کے دیکھنے میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کی نظر صرف اور صرف اس چیز تک محدود رہتی ہے جس کو وہ دیکھنے میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کی نظر میں صرف اور صرف اس چیز تک محدود رہتی ہے جس کو وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اس سے آگے ان کی نظر اس صانع تک نہیں پہنچتی ہے جس کی وہ تخلیق ہے اس لئے ان کو دیکھنا کچھ فائدہ نہیں دیتا اور فائدہ سے ہماری مراد فقط آخرت کا فائدہ ہے جس کی طرف ان کی آنکھیں ہمیشہ بند ہی رہتی ہیں اور وہ ان اشیاء کی ظاہری خوبی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں تا آنکہ ان کی سیاحت کا وقت ختم ہوجاتا ہے اگر تم ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو گے تو تم کو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جوان تمام اشیاء کو وجود عطا کیا اور ہر ایک کے لئے الگ الگ اصول مقرر کردیئے اس میں راز کیا ہے ؟ کیا ایک انسان اور حیوان کی زندگی میں تمیز کرنے کی کوئی چیز نہیں ؟ بلاشبہ ہے تو اس فرق کو محلوظ خاطر رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرو تو تم کو قدرت الہی کے نشانات ہی نشانات دکھائی دیں اور یقینا تم پکار کر کہو کہ ایسا خالق ‘ مالک اور رازق ہے اور اس نے ہرچیز کے لئے ایک بندھن باندھ دیا ہے اور اسی بندھن کے مطابق ہر ایک چیز کا وجود قائم ہے اور اسی بندھن میں وہ قائم رہے گا اور بلاشبہ اس بندھن کا باندھنے والا ہی اس کا اختیار رکھتا ہے کہ وہ جب چاہے اس کو کھول دے ، گویا اللہ تعالیٰ نے منکرین قیامت کو سرے و تفریح کا حکم دیا ہے جس سے خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ قیامت پر یقین رکھنے والوں کو بدرجہ اتم سیروسیاحت کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے نشانات کو دیکھ کر اپنے ایمان کو تازہ کرنا چاہئے بشرطیکہ ایسا ممکن ہو۔
Top