Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 22
وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ١٘ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ۠   ۧ
وَمَآ اَنْتُمْ : اور نہ تم بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنے والے فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا : اور نہ فِي السَّمَآءِ : آسمان میں وَمَا : اور نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مِنْ وَّلِيٍّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ نَصِيْرٍ : کوئی مددگار
اور ( آپ ﷺ فرما دیں اے پیغمبر اسلام ! ﷺ کہ اے منکرو) تم زمین و آسمان میں (اللہ کو) عاجز نہیں کرسکتے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں
تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور اسکے سوا تمہارا کوئی مدگار نہیں : 22۔ ایک آدمی کفر وشرک میں مبتلا ہے اس کفر وشرک پر اس کی موت واقع ہوجاتی ہے اور اب وہ خود یا کوئی دوسرا چاہئے کہ اس کو اللہ کے عذب سے نجات مل جائے اور پھر وہ موت کے بعد مختلف طرح کے حیلے بہانے نکالے کہ اس کی بخشش ہوجائے گی تو بلاشبہ اس کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے نہ تو وہ خود کسی تدبیر سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا اس کے کام آسکتا ہے کیونکہ آسمان و زمین کی ساری قوتیں اس ذات اقدس کے اپنے قبضہ قدرت میں ہیں کوئی نہیں جو اس کو اس عذاب سے بچا سکے اگر کوئی کہتا ہے تو وہ بلاشبہ جھوٹ کہتا ہے ، اس دنیاوی زندگی میں اگر کوئی بد اعتدالیاں کرکے دنیوی عذاب سے بچ جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آخرت میں بھی انہیں چالاکیوں کے باعث نجات پا جائے گا تو اس کا یہ خیال و گمان مکڑی کے ایک جالے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ ایں خیال است ومحال است وجنوں : لیکن افسوس کہ آج کل ایسے نمائشی دینداروں کی بھی کوئی کمی نہیں جو اپنی چرپ زبانی اور شوشہ پن کے باعث اپنے مرنے والوں کے لئے بخشش اکٹھی کرتے رہتے ہیں اور اپنے خاندان کے لوگوں کو اس طرح کی دھاندلیوں کے عذاب سے بچانے کی لاحاصل سعی کرتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم نے اپنی مکاریوں اور فریب کاریوں کے باعث دنیا کا مال اکھٹا کرلیا ہے اسی طرح اب اس مال حرام کے باعث آخرت کے درجات بھی بلند کروا لئے جائیں گے ،۔ اس لئے جب ان کے ہاں کسی کی موت واقع ہوتی ہے توہ قرآن خوانیاں کرواتے ہیں ‘ تیسرے ‘ چوتھے کے ختمات کی تشہیر کرتے ہیں ۔ اسلامی مدرسوں میں پیغام بھجوا کر وہاں سے کئی کئی سو قرآن کریم پڑھوا کر اپنے اعزہ و اقارب کی بخشش کا سامان پیدا کر کے خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے مرنے والے کے لئے اتنی مقدار میں قرآن کریم ختم کروا لئے ہیں اور اتنی دیگیں کھانے کی تقسیم کردی ہیں کیا اب بھی اس کی بخشش نہیں ہوگی حالانکہ قرآن کریم دوسری جگہ نہایت وضاحت سے بیان کردیا ہے کہ ” اگر ان ظالموں کے پاس زمین کی ساری دولت بھی ہو اور اتنی اور بھی تو یہ لوگ روز قیامت کے برے عذاب سے بچنے کے لئے سب کچھ فدیئے میں دینے کے لئے تیار ہوجائیں گے “ (الزمر 39 : 47) اور دوسری جگہ اس کی وضاحت اس طرح کردی کہ ” ان کی حالت یہ ہوگی کی زمین کی ساری دولت دینے پر آمادہ ہوں گے کہ کسی طرح وہ عذاب دوزخ سے بچ جائیں لیکن ان کی پیشکش قبول نہیں کی جائے گی اور ان کا حساب بڑا سخت ہوگا ان کا ٹھکانا دوزخ ہے بہت ہی بری جگہ ہے ۔ “ (الرعد 13 : 18) اس طرح ایک طرف یہ چودہویں صدی کا ملاں ہے اور دوسری طرف اللہ رب ذوالجلال والاکرام اور بیان دونوں کا آپ نے پڑھ لیا فیصلہ خود کرلیں کہ یہ چودہویں صدی کا ملاں صحیح کہتا ہے یا اللہ رب ذوالجلال والاکرام ۔ کاش کہ اس کٹھ پتلی ملاں سے کوئی یہ بات بھی پوچھ لیتا کہ تیرا نظریہ قرآن کریم کی کس آیت اور نبی کریم ﷺ کی کس حدیث ہے ذرا اس کی وضاحت تو کر دے ۔ حالانکہ ہم میں سے ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ لوگ ان مردوں کی قبروں پر قرآن کریم پڑھنے کے لئے بیٹھتے ہیں جن کے ورثاء ان کو ان کے بنائے عقیدے کے مطابق آفر کرتے ہیں کہ ہمارے مرنے والے کی قبر پر بیٹھو اور پھر جمعرات تک یہ لوگ یہ سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور جمعرات کو ایک ختم کی تقریب کرکے دوسرے لفظوں میں یہ بےغیرت اللہ میاں سے بخشوا کر گھرواپس آجاتے ہیں حالانکہ مرنے والے کے لوگوں نے جو کچھ بھی ان کو پشک کیا اس کی حیثیت سوائے چند کوڑیوں کے کچھ بھی نہیں ہے ۔ حالانکہ مرنے والا جس طرح کا ظالم تھا وہ تو تھا ہی اس کے ساتھ یہ نظریہ رکھنے والے بھی ظالم ٹھہرے جنہوں نے پیٹ کی خاطر اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے دین کو بدل ڈالا اور اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھوننے کے لئے یہ اتنا بڑا جھوٹ گھڑا جس کا نہ سر تھا نہ پیر لیکن مرنے والے کے گھر والوں نے اس کو کیونکر قبول کرلیا ؟ اس لئے کہ انہوں نے آباء و اجداد سے یہ سن رکھا تھا اور اس ملاں ازم کے لوگوں نے اس کو باور کردیا تھا کہ مرنے والے کی بخشش کا سامان اس طرح کیا جاسکتا ہے ۔ کوئی نہیں کہ قرآن کریم ہی نے تو یہ بتایا کہ ایسے گناہ کو کسی طرح ٹالے بھی نہیں ٹل سکتے تم لوگ چار آنے کی خاطر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بات کو ٹھکرا کر کیوں اتنا بڑا ظلم کمانے کے لئے تیار ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے ظلم سے بچائے خصوصا ان ظالموں کے ظلم سے بھی جو ظلم کماتے مرے اور ان ظالموں سے بھی جنہوں نے اپنے پیٹ کی خاطر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے دین ہی کو بدل ڈالا تفصیل کے لئے عروۃ الوثقی جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 91 جلد چہارم سورة یونس کی آیت 54 کا مطالعہ کریں ‘ عروۃ الوثقی جلد اول سورة البقرہ کی آیت 229 میں بھی اس کی تفصیل دیکھ جاسکتی ہے ۔
Top