Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 23
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآئِهٖۤ اُولٰٓئِكَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : انکار کیا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیوں کا وَلِقَآئِهٖٓ : اور اس کی ملاقات اُولٰٓئِكَ : یہی ہیں يَئِسُوْا : وہ ناامید ہوئے مِنْ رَّحْمَتِيْ : میری رحمت سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں (اس کی کتاب) کا اور اس سے ملنے کا انکار کیا وہی میری رحمت سے ناامید ہوں گے اور ان ہی کے لیے دردناک عذاب ہو گا
جن لوں لوگوں نے آیات قرآنی اور ملاقات الہی کا انکار کیا ان کو عذاب دیا جائے گا : 23۔ گزشتہ آیتوں پر غور وفکر کرکے بتاؤ کہ آیات قرآنی اور اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے کس نے انکار کیا ؟ ظاہر ہے کہ اس کا ایک اور صرف ایک ہی جواب ہے کہ ان لوگوں نے انکار کیا جو اپنے ظلم سے باز نہ آئے قرآن کریم کی تعلیمات کے خلاف وہ کفر وشرک کے مرتکب ہوئے اور اپنی پوری زندگی میں وہ ظلم وکفر اور شرک سے باز نہ آئے خواہ وہ نام کے مسلمان تھے یا یہود ونصاری یا انہوں نے اپنا کوئی نام رکھا ، اگر ان کا اللہ رب ذوالجلال والاکرام سے ملاقات پر ایمان ہوتا اور آخرت کی فکر ہوتی تو وہ زندگی میں ان گناہوں اور جرائم سے باز کیوں نہ آتے ؟ زندگی میں وہ اپنے پیٹ کی خاطر لوگوں کو دھوکا میں کیوں ڈالتے اور ملاں ازم کا نام دین اسلام وہ کیوں رکھتے جب پوری زندگی اس طرح کے ظلم میں انہوں نے بسر کی اور قرآن کریم کی آیات کریمات کو دیکھ کر پڑھ کر اس طرح کے فراد چلائے اور پھر انہیں قرآن کریم کی آیات کے مطابق وہ عذاب الہی کے مستحق ٹھہرے اور قرآن کریم ان کے متعلق کہتا رہا کہ یہی لوگ ہیں جو فی الواقع رحمت الہی کے مطابق وہ عذاب الہی کے مستحق ٹھہرے اور قرآن کریم ان کے متعلق کہتا رہا کہ یہی لوگ ہیں جو فی الواقع رحمت الہی سے دور کردیئے گئے اور یہی لوگ ہیں کہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے لیکن اس کے خلاف ملاں ازم اب بھی ان کے لئے بخشش کی امید لگائے ہوئے ہے اور وہ بھی محض اس لئے کہ اس کے پیٹ کا دھندا چلتا رہے اور ان کے پیٹ کے جہنم میں کچھ ڈلتا رہے ، اب اس درس توحید کے بعد مضمون کو دو بار اس طرح پھیر دیا گیا ہے جہاں سے اس کو چلایا گیا تھا ، توحید کا باب چونکہ سارے انبیاء ورسل کا ایک ہی طرح کی تعلیم سے بیان کیا گیا ہے اس لئے مضمون کو نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹایا گیا تھا اور اب دوبارہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف لوٹایا جا رہا ہے اور یہی بات ثابت کرتی ہے قرآن کریم گزشتہ بیانات محض اس لئے پیش کرتا ہے کہ موجودہ حالات کے مطابق ان کو بیان کر کے حاضر لوگوں کی تفہیم کرائی جائے جیسا کہ ان آیات کریمات میں کیا گیا کہ کہاں ابراہیم (علیہ السلام) اور کہاں نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کا زمانہ لیکن مضمون کو بیان کرتے ہی موجودہ حاضرین کی تفہیم بھی کرا دی گئی اس طرح لازم ہے کہ مفسرین مبلغین قرآن کریم کی آیات کو بیان کرتے وقت اپنے حالات کو پیش نظر رکھ کر تقابل بھی کرتے جائیں تاکہ موجودہ سامعین کی تفہیم کرائی جاسکے لکنا افسوس کہ ہمارے ہاں اس بات کا رواج نہیں ہم گزشتہ واقعات صرف گزشتہ واقعہ اور کہانی کی طرح بیان کرتے ہیں الا یہ کہ کہیں اپنی غرض کی بات ہو تو کچھ کہہ دیں ، اللہ تعالیٰ ہمارے ہمارے کرام کو بھی سیدھا ہونے کی توفیق عطا فرما دے تاکہ وہ ملاں ازم کی بجائے اسلام کی تعلیم لوگوں کے سامنے بیان کرسکیں اور فرعون موسیٰ کی بات کرتے وقت ‘ وقت کے فرعونوں کا تذکرہ کرکے لوگوں کو بتائیں اور ڈرائیں کہ اس مقصد کے تحت فرعون موسیٰ کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے ۔
Top