Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 2
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ
اَحَسِبَ : کیا گمان کیا ہے النَّاسُ : لوگ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا : کہ وہ چھوڑ دئیے جائیں گے اَنْ : کہ يَّقُوْلُوْٓا : انہوں نے کہہ دیا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَهُمْ : اور وہ لَا يُفْتَنُوْنَ : وہ آزمائے جائیں گے
کیا لوگ اس خیال میں ہیں کہ یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ ہو گی
کیا لوگوں کو صرف ایمان کے دعوی پر ہی چھوڑ دیا جائے گا ان کی آزمائش نہ کی جائے : 2۔ سونا بلاشبہ سونا ہی ہوتا ہے پھر کسوٹی استعمال کرکے اس کی قسم کو بھی دیکھ لیا جاسکتا ہے تاہم کھرا سونا وہی کہلاتا ہے جس کو ایک بار بھٹی میں تپایا جائے اور اس کو پانی پانی کردیا جائے اس کی جتنی میل تھی گویا ساری کی ساری دھل گئی اور خالص سونا باقی رہ گیا ۔ اب اس کو کوئی شخص بھی جب چاہے تپا لے اس کے کھرا ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوگا یہ حال صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی تھی جو مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے ایمان لائے تھے کہ کفار نے ان پر سختیاں کرکے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعنج نے سختیاں برداشت کرکے لوگوں پر یہ ثابت کردیا تھا کہ اب یہ لوگ تڑپ تڑپ کر جان تو دے سکتے ہیں لیکن ایمان سے باز نہیں آسکتے اس لئے وہ لوگ جو ہجرت سے پہلے ایمان لائے تھے ان کے ایمان کی حالت اتنی مضبوط تھی کہ ایسا کھرا ایمان ہجرت کے بعد کسی کو کم ہی نصیب ہوا ہوگا ۔ اس مضمون کی تشریح دراصل قبل ازیں سورة البقرہ کی آیت 214 ‘ سورة آل عمران کی آیت 42 میں نہایت تفصیل سے گزر چکی ہے اس لئے ہم دوبارہ بیان نہیں کر رہے وضاحت کے لئے محولہ بالا آیتوں کی تفسیر دیکھیں ، بلکہ اس مضمون کی آیات سورة آل عمران کی آیت 179 ‘ سورة التوبہ کی آیت 16 میں گز چکی ہیں ، ان آیات کریمات سے اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین کرائی ہے کہ آزمائش ہی وہ کسوٹی ہے جس سے کھوٹا کھرا پر کھا جاتا ہے ، کھوٹا میل کی طرح خود بخود ہی اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹ جاتا ہے اور کھرا چھانٹ لیا جاتا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان انعامات سے سرفراز ہو جو سچے مسلمانوں ہی کا حصہ ہے اس کی مثالیں اب بھی دیکھی جاسکتی ہیں بلاشبہ آزمائش کے وقت آج بھی کھرے لوگوں نے کبھی کوئی کام بھیڑ چال کے تحت نہیں کیا بلکہ وہ سمجھ سوچ کر کرتے ہیں اگرچہ آج بھی ان لوگوں کی قلت ہے لیکن اگر کہیں یہ قلت کثرت کے مقابلہ میں آجائے تو بلاشبہ میدان آج بھی اسی قلت ہی کے ہاتھ رہے گا ۔
Top