Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 3
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ
وَ : اور لَقَدْ فَتَنَّا : البتہ ہم نے آزمایا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَلَيَعْلَمَنَّ : تو ضرور معلوم کرلے گا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے ہیں وَ : اور لَيَعْلَمَنَّ : وہ ضرور معلوم کرلے گا الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اور ہم نے ان کی بھی آزمائش کی ہے جو ان سے قبل گزرے ہیں تو اللہ ان لوگوں کو ظاہر فرما دے گا جو سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں
آزمائش پہلے لوگوں کی بھی کی گئی ہے اور اب بھی یقینا کی جائے گی : 3۔ چونکہ آزمائش ہی ایک ایسی شے ہے جس سے حق اور ناحق واضح ہوتا ہے کہ حق پر کون ہے اور کون نہیں ؟ اس لئے ہر زمانہ میں لوگوں کی آزمائش کی گئی اللہ تعالیٰ پر تو کھرا اور کھوٹا پہلے ہی واضح ہے پھر اس آزمائش کی آخر ضرورت ؟ ضرورت یہ ہوئی کہ دنیا کے دوسرے لوگوں پر بھی تو یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ حق پر کون تھا اور کون نہیں تھا پھر اس کے اظہار کے لئے ضروری تھا کہ ان کی آزمائش کرکے لوگوں پر بھی ان کی حیثیت واضح کر جائے اور یہی کچھ کیا گیا ۔ (فلیعلمن اللہ) کے لفظی معنی تو یہی ہوتے ہیں کہ ” پس ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ معلوم کرے “ حالانکہ اللہ تعالیٰ پر تو پہلے ہی سب کچھ واضح ہے اس لئے اس کا مفہوم وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ ظاہر کردینا چاہتا ہے کہ لوگوں پر بھی کھرا اور کھوٹا مبہم نہ رہے اور بلاشبہ اس آزمائش نے ہمیشہ کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر دکھایا اور سب پر روشن ہوگیا کہ چوریاں کھانے والے کبھی خون نہیں دے سکتے خون دینا انہی لوگوں کو آتا ہے جن کے اندر ایمان وعشق موجود ہوتا ہے اور سچی محبت اپنے دل میں رکھتے ہیں ، علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) اس کی تحقیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” اللہ تعالیٰ اپنے علم ازل سے ہر شخص کے جملہ احوال کو ازاول تا آخر جانتا ہے کہ فلاں نیک کام کرے گا ‘ فلاں بدکاریوں میں مشغول رہے گا ‘ فلاں اس سن میں جہاد کرے گا فلاں اس سال میں قتل کرے گا وغیرہ لیکن اس علم قدیم پر جزا وسزا مرتب نہیں ہوتی مثلا جس کا قاتل ہونا اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے اسے ارتکاب قتل سے پہلے سولی نہیں دے دیا جائے گا ، اسی طرح مجاہد کو اس کا اجر میدان جہاد میں داد شجاعت دینے کے بعد ملے گا ۔ اس لئے یہاں علم سے مراد وہ علم ہے جس کے بعد کوئی شخص اپنے نیک وبد اعمال کے لئے جزا وسزا کا حق دار ہوتا ہے ۔ مولانا ثناء اللہ یہاں موجود نہیں ورنہ ہم ضرور پوچھ لیتے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے صاحب نے جس معصوم بچہ کو تمہارے خیال میں قتل کیا تھا اس کو اگر فی الواقع وہ معصوم تھا تو کیوں قتل کیا گیا جب کہ معصوم کو علم الہی پر سزا نہیں دی جاسکتی تو معلوم نہیں کہ وہ کا جواب دیتے لیکن آج ہم ان کے ترجمانوں سے یہ بات پوچھنے کے حق دار ہیں اس لئے اپنے معاصرین سے ہمارا آج بھی یہ سوال ہے دیکھتے ہیں کہ وہاں سے کیا جواب آتا ہے ؟ ہم نے تو اپنی تفہیم اس مقام پر بیان کردی ہے جہاں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔
Top