Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 4
اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا١ؕ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ
اَمْ حَسِبَ : کیا گمان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَعْمَلُوْنَ : کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : برے کام اَنْ : کہ يَّسْبِقُوْنَا : وہ ہم سے باہر بچ نکلیں گے سَآءَ : برا ہے مَا يَحْكُمُوْنَ : جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں
کیا جو لوگ برائیاں کرتے رہتے ہیں انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ ہم سے (بچ کر) نکل جائیں گے (اگر ایسی بات ہے) تو کیا ہی غلط فیصلہ کر رکھا ہے ؟
برائیاں کرتے رہنے والوں کا کیا خیال ہے کہ ان کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ : 4۔ نزول قرآن کریم کے وقت ایمان والوں کو اذیتیں کون دے رہا تھا ؟ ظاہر ہے کہ وہ قریش کے سردار ہی تھے قرآن کریم ان کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے کہ کیا ان قریش کے سرداروں کو یہ گمان ہے کہ اسلام کی مخالفت میں ایمان لانے والوں کو اذیتیں دے کر اور ان پر ظلم کر کے ہم سے بازی لے جائیں گے کہ ہم انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں گے ۔ اگر ان کا یہ فیصلہ ہے تو کیسا برا فیصلہ ہے تو وہ کرتے ہیں بھلا اللہ تعالیٰ کی دسترس سے کوئی بچ کر نکل کہاں سکتا ہے اگر وہ پکڑنا چاہے ، پہلے مخاطب بلاشبہ پہلے ہی مخالف ہوسکتے تھے لیکن حکم عام ہے جو قیامت تک جاری وساری ہے اس لئے سب کو مخاطب کرکے کہا جا رہا ہے جن کی سرشت میں ظلم کرنا ہے کہ جب ہمارا عذاب انہیں گھیر لے گا تو وہ مارے دہشت کے اپنی جگہ سے ہل ہی نہ سکیں گے چہ جائیکہ وہ بھاگ کر ہم سے روپوش ہوجائیں ، بلاشبہ ہر ایک انسان کی پیشانی ہمارے ہاتھ میں ہے اور اگر ہم نے ان کو مہلت دے رکھی ہے تو یہ ہمارے قانون امہال میں طے شدہ ہے کہ ہم کسی ظالم کو بھی ظلم کرتے ہوئے فورا ہی نہیں پکڑ لیا کرتے بلکہ ایک خاص مدت تک ڈھیل دے دیتے ہیں اور یہی ڈھیل قریش مکہ کو بھی دی گئی ہے ۔
Top