Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 62
اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُ لَهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
اَللّٰهُ : اللہ يَبْسُطُ : فراخ کرتا ہے الرِّزْقَ : روزی لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کے لیے وہ چاہتا ہے مِنْ عِبَادِهٖ : اپنے بندوں میں سے وَيَقْدِرُ : اور تنگ کردیتا ہے لَهٗ ۭ : اس کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اللہ ہی اپنے بندوں میں سے (وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم) جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کردیتا ہے اور تنگ کردیتا ہے بلاشبہ اللہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے
رزق کا کشادہ کرنے والا اور تنگ کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے جو علم رکھنے والا ہے : 62۔ نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی بعثت کا اعلان کیا تو گزشتہ قوموں کے لوگوں کی طرح جن لوگوں نے آپ کی نبوت و رسالت کو تسلیم کیا وہ غریب لوگ ہی تھے اور ظاہر ہے کہ ایمان لانے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ اس کو راتوں رات امیر بنا دیا جائے ، ان غریب مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لئے کفار مکہ ان کو کہتے تھے کہ تم خدائے حق کے پرستار ہو اور وہ ہرچیز کا مالک ہے اگر اس بات میں ذرا بھی صداقت ہوتی تو تمہاری خستہ حالی کا یہ عالم نہ ہوتا تم اپنی حالت پر غور کرو کہ کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑا تم کو میسر نہیں اور جن لوگوں سے کچھ ملنے کی تم کو توقع تھی وہ تم نے خواہ مخواہ ختم کرلی اس طرح تم لوگ اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار رہے ہو اور یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ ضرورت مند کو اس کی ضرورت کا احساس دلوایا جائے اور وہ پوری بھی نہ کی جائے تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہے کفار مکہ نے تو اپنا کام کیا اور بلاشبہ ان کا مقصد نیک نہیں تھا بلکہ ان غریب مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنا تھا ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے ان غریب مسلمانوں کی ہمت بندھائی اور ان کو سمجھایا کہ رزق کا معاملہ ایمان کے ساتھ وابستہ نہیں کیا گیا اس کے لئے تمہارے اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے جو قانون بنایا ہے اس قانون میں رزق کا تعلق کفر و ایمان کے متعلق نہیں ‘ کفر و ایمان کا تعلق صرف آخرت کے ساتھ ہے یہ بات اللہ کے علم میں ہے کہ کس کو کتنا رزق بہم پہنچانا ہے اس میں کتنی کشادگی ہے اور کتنی تنگی اس لئے وہ بلاشبہ اپنے قانون کے مطابق جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے کشادہ کردیتا ہے جس کو زیادہ ملتا ہے اس کو کیوں ملتا ہے اور جس کو کم ملتا ہے اس کو کم کیوں ملتا ہے ؟ اس میں اس کی حکمت کام کر رہی ہے اور وہ کسی کو کم دے کر آزماتا ہے اور کسی کو زیادہ دے کر ‘ آزمائش میں دونوں ہیں اگر انسان کے لئے یہ آزمائش نہ ہوتی تو انسان کبھی مکلف نہ ہوتا انسان کے مکلف ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کی آزمائش کی جانا لازم وضروری ہے اور وہ سب کی ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی ۔ ہم نے اس کی تفصیل عروۃ الوثقی جلد چہارم میں سورة الرعد کی آیت 26 میں کردی ہے جلد پنجم میں سورة بنی اسرائیل کی آیت 30 میں بھی اس کا بیان ہوچکا ہے اسی طرح جلد ششم میں سورة القصص کی آیت 82 میں بھی ہوچکا ہے اس لئے محولہ آیات کی تفسیر دیکھ لیں ۔
Top