Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 24
اِنِّیْۤ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اِنِّىْٓ : بیشک میں اِذًا : اس وقت لَّفِيْ ضَلٰلٍ : البتہ گمراہی میں مُّبِيْنٍ : کھلی
بلاشبہ (اس وقت تو) میں صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا
تم جو ہو وہ ہو کیا میں بھی کھلی گمراہی اختیار کرلوں ؟ 24۔ وہ کہنے لگا کہ میری قوم کے لوگو ! تمہاری تو جو مت ماری گئی کیا میں بھی تمہارا عقیدہ اختیار کرکے کھلی گمراہی میں مبتلا ہوجاؤں اگر میں ایسا کروں تو کیا میرا گمراہ ہونا ثابت نہیں ہوگا کیونکہ گمراہی بہرحال گمراہی ہے وہ میں اختیار کروں یا تم اختیار کرو۔ آج بدقسمتی سے ہم اس اصل کو بھی بھول گئے اور ہم نے اس طرح سمجھ لیا کہ ایک کام میں کروں تو وہ گناہ ہے اور اگر وہی کام کوئی بڑا مذہبی پیشوا یا سیاسی لیڈر یا کوئی قوم کا پیروبزرگ کرے تو وہ عین ثواب ہوجائے ، خدا نہ کرے اگر کوئی عام آدمی آپ کے گھر سے کوئی چیز بغیر بتائے اٹھا لے اور آپ کو پتہ نہ لگنے دے اور پھر آپ کو چیز مل جائے اور یہ معلوم بھی ہوجائے کہ فلاں آدمی نے اٹھائی تھی تو اس کو چور کہیں اور اس کو سخت سے سخت سزا ملے اگرچہ اس ملک میں سزا کا ملنا محال ہوگیا ہے بہرحال اگر وہی چیز آپ کے گھر سے کوئی پیروبزرگ اور سادات کے نام سے معروف اٹھا کرلے جائے تو وہ اس کی کرامت سمجھ لی جائے اور پھر مزید اگر وہ یہ بھی ارشاد فرما دے اگر یہ چیز آپ کے ہاں پڑی رہتی تو آپ کے لئے نہایت ہی منحوس ثابت ہوتی اور صدقہ و خیرات کے نام سے ہم لوگ آپ کو معلوم ہے کہ حاصل ہی نہیں کرسکتے آل رسول ہیں اور اگر یہی چوری کسی نبی ورسول کے ذمہ لگا دیں تو وہ معجزہ قرار دے دی جس میں اللہ میاں کو بھی شریک کردیں تو پھر سبحان اللہ ! کیا ہی معجزہ ہے اور کیا کرامت ہے لیکن ہمارے مفسرین کی اس تفہیم کو فی نفسہ قرآن کریم کی آیات قبول نہیں کرتیں اور یہی بات وہ اللہ کا بندہ جو دور سے بھاگ کر آیا تھا وہ کہہ رہا ہے کہ اگر میں بھی ایسا کروں یا ایسا کہوں پھر تو میں بھی گمراہ ہوگیا اور میں تو خود بھی گمراہی سے نکلا ہوں اور تم لوگوں کو بھی نکالنا چاہتا ہوں اگر تم نکلنا چاہو لیکن اگر نہ نکلنا چاہو تو کھلے دل سے تم گاتے رہو اور زور سے آواز بلند کر کے اور جھوم جھوم کر پڑھتے رہو کہ ۔ پکڑے خدا تو چھڑاے محمد ﷺ محمد ﷺ کے پکڑے چھڑا کوئی نہیں سکدا : اور قرآن کریم اعلان کرتا ہے کہ (ان یردن الرحمن بضر لا تغن عن شفاعتھم) ” اگر اللہ مجھے تکلیف میں مبتلا کرنا چاہے تو ان کی سفارش میرے کچھ کام نہ آئے “۔ اور محمد رسول اللہ ﷺ جو نبیوں اور رسولوں کے سردار ہیں وہ بھی اس وقت سفارش کرسکیں جب اللہ سفارش کرنے کی اجازت دے اور صرف اسی کی سفارش کرسکیں جس کی سفارش کا آپ ﷺ کو اللہ کی طرف سے حکم ملے اور اجازت فراہم ہو ۔
Top