Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 4
عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍؕ
عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
(آپ ! ﷺ سیدھے راستے پر (گامزن ہیں)
اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ ﷺ کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے : 4۔ نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے آپ ﷺ کی رسالت کو جب قسمیہ بیان کیا گیا تو ظاہر ہے کہ یہ اس لیے تھا کہ قوم کا اور رسول اللہ ﷺ کا راستہ الگ الگ ہوچکا تھا ۔ قوم شرک میں لت پت تھی اور ایک دو کو کیا سینکڑوں اور ہزاروں کو اپنے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتی تھی ‘ کوئی بارش برسانے والا بزرگ تھا تو کوئی اولاد دینے والا کوئی مردے زندہ کرنے والا تھا تو کوئی دھوپ روشن کرنے والا ۔ گویا بالکل ان کی یہی صورت تھی جو اس وقت ہماری قوم کی اکثریت یا سواد اعظم کی ہے اگر فرق ہے تو صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بزرگوں کی یاد تازہ کرنے کے لئے اور ان کی خدمت میں حاضری دینے کے لیے ان کے مخصوص تھانوں پر حاضری دینے کے لئے بت تراشے ہوئے تھے اور ہمارے ہاں یہ فرق رکھا گیا ہے کہ بتوں کی بجائے انہی قبروں کے ساتھ یہ عقیدت رکھتے ہیں جن میں سمجھتے ہیں کہ ہمارے بزرگ یہاں دفن کیے گئے ہیں ۔ یہی سب سے بڑا اختلاف تھا جو مکہ والوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی راہوں کو الگ الگ کردیتا تھا کہ آپ ﷺ کی تعلیم میں سرفہرست چیز ہی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا اور کوئی نہیں جو حاجت روا اور مشکل کشا ہونے کے قابل ہو بلکہ یہ کہ تمہارا حاجت روا اور مشکل کشا اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ۔ اسی طرح قرآن کریم کو آپ ﷺ کی رسالت پر بطور گواہ پیش کیا گیا اور یہی وہ سب معجزات سے بڑا معجزہ ہے جو اس وقت سے لے کر اس وقت تک زندہ وجاوید اور اپنی جگہ پر بدستور اسی حالت میں قائم ہے اور رہتی دنیا تک زندہ وجاوید اور اپنی جگہ پر بدستور قائم رہے گا اور بلاشبہ یہ نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کی دوسرے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر فضیلت کا بھی باعث ہے جو فضیلت ابدالاباد قائم ودائم رہے گی ۔ آپ اچھی طرح غور کریں اور یہود ونصاری دونوں قومیں موجود ہیں ان کے مذہبی احبارو رہبان ‘ پوپ وپادری موجود ہیں ‘ ان دونوں قوموں کا مذہبی لٹریچر موجود ہے اور ان دونوں کا نام محض ان کی تعداد کے پیش نظر لیا جا رہا ہے ورنہ حقیقت میں سارے مذاہب کو چیلنج ہے کہ کسی رسول کی کتاب ‘ کسی رسول پر اس طرح کی گواہ نہیں بنائی گئی جس طرح قرآن کریم کو نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی پر شاہد قرار دیا گیا اور جس طرح اس کتاب الہی کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ رب العزت نے اٹھائی اس طرح کسی کتاب الہی کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ دی گئی اور یہی وہ معجزہ ہے جس نے سابق انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے سارے معجزات کو اس طرح ڈھانپ کر رکھ دیا ہے جس طرح سورج کے طلوع ہونے سے آسمان کے سارے ستارے اور چاند وغیرہ ڈھانپے جاتے ہیں کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ : ع : آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری : کیوں نہ ایسا ہوتا جب کہ نبی اعظم وآخر محمد رسول اللہ ﷺ پر نبوت و رسالت کے عہدہ خداوندی کو ختم کردیا گیا تھا تو ضرور ایسا معجزہ بھی دیا جانا لازم تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ وجاوید رہے اور جس کو دنیا کے آنے والے لوگ بھی دیکھتے رہیں اور جدید سے جدید دور آتے رہیں لیکن اس کی آب وتاب بدستور سب کے سامنے اسی طرح قائم ودائم رہے ۔ سائنس کتنی ترقی کرتی جائے علوم قرآنی سے آگے نہیں بڑھ سکتی قرآن کریم کی وضاحت ہی پیش کرسکتی ہے اور یہ قانون قدرت ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور وہ تھیوری (Theory) ہے جس کی وضاحت اللہ تعالیٰ کی یہ کائنات ہے اور سائنس کیا ہے ؟ اس کائنات کی ان اشیاء کو جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں معلوم کرنا اور ان کو ایک دوسرے سے جوڑ کر ان سے فوائد حاصل کرنا اس لئے یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ دراصل تھیوری (Theory) پہلے ہوتی ہے اور تشریح اس کی بعد میں کی جاتی ہے اور یہ بھی کہ لوگوں کی تخلیق کی گئی تھیوریاں ایک بار نہیں بلکہ کئی کئی بار بدلی جا چکی ہیں لیکن قرآن کریم کی تھیوری بدستور اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ آج تک جب بھی کہیں سائنس اور قرآن کریم کی تھیوری کا آپس میں ٹکراؤ ہوگیا تو قرآن کریم ہی کی تھیوری نے فتح پائی اور قیامت تک یہی ہوتا رہے گا ۔ تفصیل کا یہ موقع ومحل نہیں انشاء اللہ اس کی وضاحت اپنے مقام پر ہوگی ۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ اس کا چیلنج کرتے ہیں کہ جیسے جیسے علم ترقی کرے گا قرآن کریم کی صداقت نکھرتی چلی جائے گی ۔ بلاشبہ یہ حق ان سچے مسلمانوں کا تھا کہ وہ علم میں ترقی کرکے اور اپنی منزل کو آسمانوں سے بھی اوپر تک لے جا کر یہ بات ثابت کرتے لیکن مسلمانوں نے جب اس سے منہ پھیرلیا تو اس نے اپنی دوسری مخلوق کو جو غیر مسلم تھی اس کام پر لگا دیا کوئی مانے نہ مانے ‘ تسلیم کرے یا نہ کرے خالق ہرچیز کا وہی ہے اور مالک بھی ہرچیز کا وہی ہے اور اس کی مثالیں پہلے موجود ہیں کہ جب کوئی انسان بھی ایک کام کو سرانجام دینے کے لئے تیار نہ ہو تو وہ قادر وقدیر اور مالک وملیک اپنی کسی بھی مخلوق سے جو کام لینا چاہئے وہ لے سکتا ہے اور اس کے لئے اس کے بنائے قانون میں پوری پوری گنجائش موجود ہے بشرطیکہ کوئی سمجھنے والا بھی ہو ۔ تعجب ہے کہ ہمارے مفسرین اور مذہبی ٹھیکہ دار جہاں گنجائش نہیں رکھی گئی اور نہ ہی اس گنجائش کی کوئی ضرورت ہے وہاں تو گنجائش نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں اللہ تعالیٰ نے خود گنجائش رکھی ہے وہاں اس گنجائش کو ماننے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔
Top