Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 40
لَا الشَّمْسُ یَنْۢبَغِیْ لَهَاۤ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّهَارِ١ؕ وَ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ
لَا : نہ الشَّمْسُ : سورج يَنْۢبَغِيْ : لائق (مجال) لَهَآ : اس کے لیے اَنْ : کہ تُدْرِكَ : جاپکڑے وہ الْقَمَرَ : چاند وَلَا : اور نہ الَّيْلُ : رات سَابِقُ : پہلے آسکے النَّهَارِ ۭ : دن وَكُلٌّ : اور سب فِيْ فَلَكٍ : دائرہ میں يَّسْبَحُوْنَ : تیرے (گردش کرتے) ہیں
(پھر دیکھو) نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے اور یہ سب (سیارے) اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں (ان سب کا آپس میں ایک بندھن باندھ دیا گیا ہے
سورج کبھی چاند کو پکڑ نہیں سکتا اور رات کبھی دن پر سبقت نہیں لے جاسکتی : 40۔ تمام اجرام فلکی میں سورج سب سے بڑا ہے اور چاند سورج کے مقابلہ میں بہت چھوٹا ، دنیا کے چھوٹے خود بخود دنیا کے بڑوں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور یہ بھی کہ دنیا کے بڑے دنیا کے چھوٹوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں بلکہ اگر ذرا غور کرو گے تو تم کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں ہر بڑی چیز چھوٹی کو ہڑپ کرنے کے لئے تیار ہے ‘ ہر منہ آلہ ذبح ہے اور ہر پیٹ مذبح خانہ اس لئے یہ محاورہ ہمارے ہاں عام ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے ، مچھلیاں تو خیر مچھلیاں ہی ہیں لیکن اگر ان مگرمچھوں کی زندگی پر کبھی غور کریں جن کو تم اپنی زبان میں جو آج کل عام طور پر بولی جاتی ہے ایم پی اے ‘ ایم این اے ‘ وزیر ‘ مشیر ‘ چیئرمین اور بی ڈی ممبر کے ناموں سے خطاب کرتے ہو اور ان کے اعوان وانصار پر نظر ڈالیں تو تم پر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے کہ یہ کیا ہیں ؟ یہ وہی بڑی مچھلیاں ہیں جو چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں ۔ دنیا کے اس نظام پر قیاس کرکے کوئی شخص یہ نہ سمجھ لے کہ سورج جو اجرام فلکی میں بادشاہ ہے اور اس کے دوسرے سارے اعوان وانصار جن کے نام تم نے چاند ‘ مشتری ‘ زہرہ ‘ اس قبیلہ کے سارے ستارے اور اسی طرح یہ ثریا اور دب اصغر واکبر ‘ جھنڈ اور کہکشاں کے بڑے بڑے سیارگان نے کبھی اپنے چھوٹے ستاروں اور سیاروں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی چھوٹے کبھی اپنے ان بڑوں کی طرف مائل ہوتے ہیں ہر ایک کا اپنا ایک مدار وفلک ہے جس میں اپنے چھوٹے یا بڑے نظام میں وہ پابندی کے ساتھ چل رہا ہے اور کسی ایک کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا نہ سورج کے اختیار میں ہے کہ وہ چاند کو اپنی طرف کھینچ لے اور نہ ہی چاند کو یہ اختیار ہے کہ وہ سورج کی طرف جھک جائے ان کی یہ ساری طبعی حالت ایک طرف شرک کا رد پیش کر رہی ہے اور دوسری طرف دنیا کی ان بڑی مچھلیوں کو سبق دے رہی ہے کہ تم کو اختیار اس لیے نہیں دیا گیا کہ تم کسی قانون وضابطہ کے پابند ہی نہ رہو بلکہ تم کو اختیار اس لیے دیا گیا ہے کہ تم پابندی کرکے رب کریم کو راضی کرلو ۔ اے مالک الملک جو اختیار تو نے ہم کو دیا ہے اس اختیار سے کوئی کام ایسا نہیں کرنا چاہتے جو تیرے حکم کے خلاف ہو بلکہ ہم اپنے اس اختیار کو اسی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں کہ تیری رضا ہم کو حاصل ہوجائے ۔ بلاشبہ یہ چیز پیدا ہوجائے تو یہی اصل انسانیت ہے لیکن ہماری اس دنیا کے و ڈیرے جو کچھ کر رہے ہیں خصوصا ہمارے اس ملک پاکستان کے ‘ وہ سراسر حیوانیت ہے انسانیت کا اس میں نام ونشان بھی نہیں پایا جاتا اگرچہ یہ لوگ اقتدار کی اعلی سے اعلی مسندوں پر بیٹھے ہوئے ہیں تاہم انسانیت سے وہ عاری ہیں ‘ ان کو انسانیت کے نام سے یاد کرنا بھی بلاشبہ انسان کی توہین ہے ، بلاشبہ ان ہی لوگوں کی تفہیم کے لئے قرآن کریم کی زیر نظر آیت اور اس جیسی دوسری آیات قرآنی بیان کیا گیا ہے تاکہ مذہبی پیشواؤں کو باور کرائیں اور ان کو انسانیت کی حقیقت سمجھائیں لیکن انہوں نے بھی ان کو سمجھانے کی بجائے ان سے سمجھوتہ کرلیا ہے اور وہ بھی وہی کچھ ہو کر رہ گئے ہیں کہ جو کچھ ” بڑی مچھلیاں “ تھے اور قوم کے ان لوگوں کو جن کو ” چھوٹی مچھلیاں “ سے موسوم کیا جاتا ہے خوب ہڑپ کر رہے ہیں ہاں ! اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ نمبر ایک بڑی مچھلیوں کو ” جزاک اللہ “ نہیں آتا تھا اور یہ لوگ ” جزاک اللہ “ کے لاحقہ کو خوب استعمال کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں اور چھوٹوں کو خوب اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور چھوٹے بھی ان کی طرف مائل ہونے ہی کو درست خیال کرتے ہیں اور بوڑھی دنیا میں یہ عمل اتنی دیر سے جاری ہے کہ اب فریقین تقریبا عادی ہوچکے ہیں اپنے اپنے فلک کی طرف کھینچنے والے بھی اور اپنے اپنے فلک سے نکلنے والے بھی ان کو بتایا جا رہا ہے کہ کبھی ایک فلک کے اجرام پر بھی نگاہ ڈال لیا کرو کہ وہ کس طرح اپنے اپنے افلاک و مدار کے پابند ہیں حالانکہ وہ بھی اتنی ہی مدت سے چلے آ رہے ہیں جتنی مدت سے تم چلے آ رہے ہو اور تم دونوں میں اگر کوئی فرق ہے تو یہ کہ تم صاحب اختیار ہو اور وہ صاحب اختیار نہیں ہیں اگرچہ صاحب اختیار نہیں تو وہ مکلف بھی نہیں ہیں ہاں ! یہ دنیا کے و ڈیرے ان مثالوں سے کم ہی سمجھا کرتے ہیں ان کے لیے اللہ کے ہاں ایک ” دھررگڑا “ کی اصطلاح چلتی ہے اور اسی رگڑے کے یہ قابو آتے ہیں اس کے یہ قابو آئیں گے اور اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے ۔
Top