Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 74
وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لَّعَلَّهُمْ یُنْصَرُوْنَؕ
وَاتَّخَذُوْا : اور انہوں نے بنا لیے مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اٰلِهَةً : اور معبود لَّعَلَّهُمْ : شاید وہ يُنْصَرُوْنَ : مدد کیے جائیں
اور ان لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود قرار دے رکھے ہیں کہ شاید وہ ان کی مدد کریں
اللہ کے ساتھ دوسروں کو معبود بنانے لگا کہ شاید وہ اس کے مددگار ہیں : 74۔ ان ناشکرے اور ناقدر شناس انسانوں نے اللہ رب ذوالجلال والاکرام کو چھوڑ کر غیر اللہ کو اپنے حاجت روا اور مشکل کشا تصور کیا اور اس طرح انہوں نے گویا ظلم کی حد کردی کہ جو اپنی مدد آپ نہیں کرسکتے ان کو اپنے مددگار ٹھہرایا اور انسانوں کو ان کے درجہ سے اٹھا کر خدائی کے درجہ پر لا بٹھایا اور ایک دروازہ سے اٹھ کر در در کی ٹھوکریں کھائیں اور ہر ایک کو اپنی مدد کے لیے بلایا اور زور زور سے آوازیں دیں اور غیر اللہ کے نعرے بلند کیے لیکن جب ان کی پکڑ کر وقت آیا انمیں سے ایک بھی ایسا نہ اٹھا جو ان کی مدد کے لیے تیار ہوجاتا ، غور کرو کہ قرآن کریم کیا کہہ رہا ہے اور یہ سبز پگڑی والا کیا راگ الاپتا ہے ۔ ” رنجیت سنگھ کے دور حکومت کی بات ہے کہ ایک نام نہاد مسلمان جو کرامات اولیاء کا منکر تھا شو مئی قسمت سے ایک شادی شدہ ہندوانی کو دل دے بیٹھا ۔ وہ ہندو اپنی بیوی کو میکے پہنچانے کے لیے گھر سے نکلا ادھر اس بدبخت عاشق پر شہوت نے غلبہ کیا چناچہ اس نے ان کا پیچھا کیا اور ایک سنسان مقام پر اس نے دونوں کو گھیر لیا وہ دونوں پیدل تھے اور یہ گھوڑے پر سوار تھا ، اس نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے سواری کی پیش کش کی مگر ہندو نے انکار کردیا اس نے اصرار کیا کہ اچھا عورت ہی کو پیچھے بیٹھنے کی اجازت دے دو یہ بیچاری تھک جائے گی ، ہندو کو اس کی نیت پر شبہ ہوا اس لیے اس نے کہا کہ تم ضمانت دو کہ کسی قسم کی خیانت کے بغیر میری بیوی کو منزل مقصود پر اتار دو گے اس نے کہا اس جنگل میں ضامن کہاں سے لاؤ عورت فورا بولی کہ تم گیارہویں والے بڑے پیر صاحب کو مانتے ہو ‘ ان کو ضمانت دے دو وہ غوث پاک کے تصرفات کا تو قائل ہی نہ تھا مگر یہ سوچ کر کہ ہاں کہہ دینے میں کیا جاتا ہے اس نے ہاں کہہ دیا جونہی عورت گھوڑے پر سوار ہوئی اس ظالم نے تلوار سے ہندو کی گردن اڑا دی اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر عورت کو لے کر ہوا ہوگیا ۔ عورت سہم گئی اور بار بار پیچھے دیکھتی جا رہی تھی ‘ اس نے کہا کہ پیچھے دیکھنے سے کیا فائدہ تمہارا شوہر تو اب واپس آ نہیں سکتا ‘ اس نے کہا میں تو بڑے پیر صاحب کو دیکھ رہی ہوں۔ اس پر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور کہنے لگا بڑے پیر صاحب کو فوت ہوئے سو سال گزر گئے اب بھلا وہ کہاں سے آئیں گے ؟ اتنا کہنا تھا کہ اچانک دو بزرگ نمودار ہوئے ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر تلوار سے اس بدعقیدہ عاشق کا سر اڑا دیا اور پھر عورت کو مع گھوڑے کے وہاں لائے جہاں وہ ہندو کٹا پڑا تھا ، دونوں میں سے ایک بزرگ نے کٹا ہوا سردھڑ سے ملا کر کہا ” قم باذن اللہ “ اٹھ اللہ کے حکم سے ، وہ ہندو اسی وقت زندہ ہوگیا اور وہ دونوں بزرگ غائب ہوگئے اور یہ دونوں میاں بیوی اس گھوڑ پر سوار ہو کر اپنی منزل کی طرف چلے گئے ۔ الامان قہر ہے یا غوث ! وہ تیکھا تیرا مر کر بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا : (الحقائق فی الحدائق) لاریب مشرکوں نے کہانیاں اس طرح ترتیب دی ہیں اور اس شرک کو عام کرنے کے لیے ایسی مکاریوں سے کام لیا ہے کہ بڑے بڑے فراڈئیے بھی ان کے سمانے گٹھنے ٹیک گئے ہیں ، قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ کسی کی مدد کی طاقت نہیں رکھتے سبز پگڑی والا کہتا ہے کہ بلاشبہ کسی کی مدد کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ اس نے ساری طاقت وقوت ہمارے زندہ و مردہ پیروں میں تقسیم کردی ہے اور بلاشبہ اب اس کے ہاتھ خالی ہیں اور مدد کرسکتے ہیں تو یہی پیر و بزرگ کرسکتے ہیں ۔
Top