Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 15
وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَیْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ١ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰى یَتَوَفّٰهُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِیْلًا
وَالّٰتِيْ : اور جو عورتیں يَاْتِيْنَ : مرتکب ہوں الْفَاحِشَةَ : بدکاری مِنْ : سے نِّسَآئِكُمْ : تمہاری عورتیں فَاسْتَشْهِدُوْا : تو گواہ لاؤ عَلَيْهِنَّ : ان پر اَرْبَعَةً : چار مِّنْكُمْ : اپنوں میں سے فَاِنْ : پھر اگر شَهِدُوْا : وہ گواہی دیں فَاَمْسِكُوْھُنَّ : انہیں بند رکھو فِي الْبُيُوْتِ : گھروں میں حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَوَفّٰىھُنَّ : انہیں اٹھا لے الْمَوْتُ : موت اَوْ يَجْعَلَ : یا کردے اللّٰهُ : اللہ لَھُنَّ : ان کے لیے سَبِيْلًا : کوئی سبیل
اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدچلنی کی مرتکب ہوں تو چاہیے کہ اپنے لوگوں میں سے چار آدمیوں کی اس پر گواہی لو ، اگر چار گواہ گواہی دے دیں تو پھر ایسی عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کی عمر پوری کر دے یا اللہ ان کیلئے کوئی دوسری راہ پیدا کر دے
جو عورتیں بد چلنی کی مرتکب ہوں ان کی سزا کا حکم اور بد چلنی سے مراد کیا ہے ؟ 42: مفسرین کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ ان آیت میں جس برائی کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مقصود زنا ہے اور جس سزا کا حکم دیا گیا ہے وہ اوائل اسلام میں دی جاتی تھی بعد میں جب سورة نور نازل ہوئی تو زنا کی حد مقرر ہوگئی اور یہ سزا باقی نہ رہی۔ لیکن دوسری جماعت اس طرف گئی ہے کہ ان آیات میں اور سورة نور کی آیت میں ایک طرح کے جرم کی سزائیں نہیں بیان کی گئی ہیں بلکہ دو مختلف قسم کے جرائم کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس جگہ بد چلنی کا ذکر ہے اس سے مقصود وہ بد چلنی ہے جو دعورتیں آپس میں اور دو مرد آپس میں کریں اور سورة نور میں زنا کا ذکر ہے پس دونوں کے احکام اپنی اپنی جگہ باقی اور قائم ہیں اور علاوہ ازیں بھی ان آیات کا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ پیچھے آپ پڑھتے چلے آ رہے ہیں کہ پہلے دو رکوعوں میں عورتوں کے حقوق کا بیان ہے اور اس رکوع می کچھ ان کی ذمہ داریوں کا ذکر ہے جس طرح اسلام نے سارے مذاہب سے بڑھ کر عورت کو اس کا مقام دلوایا ہے اور عورتوں کے ساتھ حقوق معاشرت کو تعلیم الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے اس طرح ان کی کچھ ذمہ داریاں بھی بتائی ہیں اور اس طرح ان کو یہ تعلیم دی ہے کہ جس طرح وہ حقوق کو حاصل کرنے میں تمام دنیا کی عورتوں سے فائق ہیں سی طرح اپنے چال چلن میں اعلیٰ درجہ کی پاکبازی اور راستبازی اختیار کرنے میں فوقیت لے جائیں۔ چونکہ اسلام کی اصل غرض یہ ہے کہ عورت کی ذلت کے جس قدر اسباب ہیں ان سب کا قلع قمع ہوجائے اس لئے جس طرح اس کے حقوق کو ایک طرف محفوظ کیا تاکہ اس کی عزت اور مرتبہ معاشرہ میں بڑھ جائے تو دوسری طرف اس کی عصمت کو محفوظ کرنے کے سارے طریقوں کو بھی ساتھ ذکر کردیا تاکہ عصمت کی ذلت و رسوائی سے بھی اس کو بالکل محفوظ کردیا جائے جو ساری زلتوں اور رسوائیوں سے بڑھ کر ہے۔ پھر مفسرین نے جو اس کی مختلف طریقوں سے تفسیر کی ہے تو اس کا بھی صحیح جواب یہی ہے کہ وہ اس لئے کہ ان کو جو جو راستہ ان کی رسوائی کا نظر آیا اس کو انہوں نے ذکر کر دیا جس کی نظر میں ججو راستہ زیادہ ذلت و رسوائی کا تھا اس نے اس کو ترجیح دے دے اور اس طرح ان مختلف تفاسیر ہونے کی وجہ سے ان سارے راستوں کو بند کرنے کی صورتیں سامنے آگئیں بلکہ ان کے ہر جز پر بحث کر کے ان کے کانوں تک پہنچا دیا کہ دیکھو جس طرح اسلام نے تمہیں عزت کا مقام دیا ہے تم خود بھی اس کی اسی طرح ہر برے طریقے سے بچ کر دنیا والوں پر ثابت کر دو کہ جو عزت کا مقام اسلام نے ہم کو دلایا ہے اس کو ہر لحاظ سے محفوظ رکھ کر ہم ذلت کا کوئی مقام اختیار نہیں کریں گی تاکہ ہماری عزت و احترام معاشرہ میں مزید بڑھ جائے۔ اس طرح جن لوگوں نے جو تفسیریں اختیار کی ہیں ہم ان سب کی ممنون احسان ہیں کہ انہوں نے ہم کو ہر راہ کی نشاندہی کردی جس جس راستے سے ہو کر شیطان ہم کو بہکا سکتا تھا۔ اس لئے اگر ابو مسلم اصفہانی نے پہلی آیت سے دو عورتیں مراد لی ہیں جو آپس میں بدکاری کی مرتکب ہوں تو ہم ان کی ممنون ہیں کہ انہوں نے ہم کو اس کمزور راستے کی بھی نشاندی کردی جو ایک گھٹیا سے کھٹیا ذہن کرسکتا ہے۔ ہم ان کی ممنون ہیں جنہوں نے اس سے مراد مبادی زنا لئے ہیں اس لئے کہ ہماری نظر میں رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد پر بھی پڑتی ہے کہ زنا کی ایک قسم ہی نہیں بلکہ زنا کی بہت سی قسمیں ہیں جیسے انسان کی آنکھ بھی زنا کرتی ہے اور کان بھی اس برے فعل کا مرتکب ہوتا ہے اور ہاتھ اور پاؤں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے پھر ایک صورت وہ بھی ہے جس کے واقعہ ہونے سے زنا کی وہ سزا دے دی جاتی ہے جو مشہور و معروف ہے یعنی گن گن کر سو درے لگانا اور پھر ان میں سے ہر ایک راستہ ذلت و رسوائی کا راستہ ہے اس لئے ہم اسلام کی بیٹیاں کسی ایک پگڈنڈی کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گی جس کا دوسرا سرا برائی کے ساتھ جڑا ہوا ہوگا۔ فرمایا کہ اس طرح کی اگر کسی سے کوئی بھول چوک ہو بھی گئی جس کا صدور انسان سے ناممکن الوقوع نہیں ہو سکتا تو مردوں کو بھی عقل کے ناخن لے کر بات کرنا ہوگی کیونکہ کسی کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ ایسے ہی زبان کھول دے اور جس پر چاہے الزام رکھ دے کہ فلاں ایسی ہے اور فلاں ویسی ہے۔ بلکہ اس طرف نظر کرنے کے لئے اتنی احتیاط کی ضضرورت ہے کہ جب تک چار گواہ یہ بات آنکھوں سے دیکھ کر نہ کہیں گے ہم ان کو سزا دلوائیں گے کہ انہوں نے ایسی نازک بات پر زبان کیوں کھولی جس کے کھولنے کی اجازت ان کو نہ تھی۔ کیوں ؟ اس لئے کہ برائی بلاشبہ برائی ہے لیکن برائی کی تشہیر اس برائی سے بھی بڑھ کر برائی ہے اب انہوں نے کیا دیکھا ؟ عورت عورت کو برائی میں دیکھا۔ مبادی زنا دیکھا یا زنا کی مرتکب پایا پھر تفصیل اس کی سورة نور میں آئے گی۔ ہاں ! اگر گواہی مکمل ہوجائے یعنی چار گواہ ان کی بدکاری کی گواہی دے دیں تو ” پھر ایسی عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کی عمر پوری کر دے یا اللہ ان کے لئے کوئی دوسرا راستہ پیدا کر دے۔ “ اگر معاملہ عورت عورت کا ہے تو زنا کی حد تو جاری نہیں ہوگی لیکن اس بدکاری کے لئے ان کو آئندہ آزاد بھی نہیں تھوڑا جاسکتا۔ اس لئے فرمایا کہ سب سے پہلے ان کو قید میں ڈال دو یعنی پابند کر دو ۔ اگر معاملہ حکومت کی سطح پر ہے تو قید خانہ میں اور اگر گھریلو صورت کوئی ایس واقع ہوئی ہے تو گھر میں پابند کر دو اور دیکھو کہ ایسی صورت کیوں واقع ہوئی اگر یہ ناکتحذا ہیں تو اللہ اس کی سبیل پیدا کر دے گا کہ ان کا نکاح ہوجائے گا جس سے ان کی خواہش اور ہوس کا ازالہ ہوجائے گا اور پھر پابندی کے ناطے ان کی اصلاح ممکن ہوجائے گی۔ اگر بات کتحذا کے درمیان ہے تو پابندی سے معاملہ درست ہوجائے گا اور متاہل زندگی کی پابندیاں ان کو خودبخود درست کردیں گی اور اللہ ان کو توبہ کی توفیق عطا فرما دے گا۔ اگر وہ بات ہے جس کو زنا سے موسوم کیا جاتا ہے تو اس کا حکم سزا تم پر واضح کردیا جائے گا چناچہ وہ بھی بعد ازیں واضح فرما دیا گیا کہ ان کو سو درے لگاؤ اور ایک سا قید میں بھی ان کو رکھو۔
Top