Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 164
وَ رُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰهُمْ عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَیْكَ١ؕ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ
وَرُسُلًا : اور ایسے رسول (جمع) قَدْ قَصَصْنٰهُمْ : ہم نے ان کا احوال سنایا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ سے) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَرُسُلًا : اور ایسے رسول لَّمْ : نہیں نَقْصُصْهُمْ : ہم نے حال بیان کیا عَلَيْكَ : آپ پر ( آپ کو) وَكَلَّمَ : اور کلام کیا اللّٰهُ : اللہ مُوْسٰى : موسیٰ تَكْلِيْمًا : کلام کرنا (خوب)
اور اللہ کے وہ رسول جن کا حال ہم پہلے سنا چکے ہیں اور وہ جن کا حال ہم نے تمہیں نہیں سنایا اور اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا جیسا کہ واقعہ میں کلام کرنا ہوتا ہے
قرآن کریم میں بعض انبیاء کرام کا ذکر نام بنام آیا ہے اور بعض کا نہیں آیا : 255: وحدت دین کی اصل عظیم کا اعلان کرکے یہ بات واضح کی تھی کہ نوع انسانی کے لئے خدا کی سچائی ایک ہی ہے اور تمام راہنمایان اسلام نے اس کی تعلیم دی تھی ۔ یہ پیروان مذاہب کی گمراہی ہے کہ انہوں نے گروہ بندیاں تشکیل دی ہیں اور اس طرح الگ الگ دین بنا لئے ہیں اور ایک دوسرے کی جھٹلانے لگے ہیں اب بتایا کہ قرآن کریم نے بعض کا ذکر کیا ہے اور بعض ک ذکر نہیں کیا لیکن وہ سب کی تصدیق کرتا ہے اور سب پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے جن کے نام احادیث و روایات میں آتے ہیں جیسے یوشع بن نون (علیہ السلام) اور حزیل (علیہ السلام) اور شموئیل عیہم السلام وغیرو اور جن کے نام قرآن و حدیث میں نہیں قرآن کریم کہتا ہے کہ جب تک ختم نبوت کا اعلام کر کے نبوت کا دروازہ بند نہیں کردیا گیا اس سے پہلے کوئی عہد اور کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اللہ نے نبی و رسول نہ بھیجے ہوں لیکن ان گنت رسولوں اور نبیوں کی تعلیم ایک ہی طرح کی تھی اور ان سب کے ہاں اصول کبھی مختلف نہیں تھے اور مزید وضاحت فرما کر صاف صاف کہہ دیا کہ ان سب کی تعلیم وہی تھی ایک امت میں کوئی نہ کوئی نبی و رسول ضرور بھیجا ہے چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ! آپ تو بس ایک خبردار کرنے والے ہیں ہم نے آپ ﷺ کو حق دے کر بھیجا ہے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ “ (وان من امۃٍ الا خلا فیھا نذیر (فاطر 35:24) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ ایک خبردار کرنے والے راہنما ہیں اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہوا ہے۔ “ (الرعد 13:7) ولکل قوم ھاد اور ایک جگہ فرمایا : ” اور اے پیغمبر السلام ! یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تم سے پہلے بھی پچھلے گروہوں میں پیغمبر بھیجے ہیں۔ “ ولقد ارسلنا من قلبلک فی شیع الا ولین (الحجر 15:10) ایک جگہ ارشاد فرمایا : صرف یہ کہ پیغام پہنچا دینا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا سفیر ہوتا ہے اگر کوئی اس کی بات کو نہیں مانتا تو گویا اس نے احکم الحاکمین کی بات کو نہیں مانا اور جو وحی الٰہی کے باغی ہیں اللہ کے پاس ایسے باغیوں کا علاج موجود ہے۔ پیغام پہنچاے والے کا کام صرف یہ ہے وہ صاف صاف اور روشن طریقہ پر پیغام پہنچا دے اب اسے ماننا یا نہ ماننایہ سننے والوں کا کام ہے پیام پہنچانے والے اس کے لئے زمہ دار نہیں اور یہی مضمون سورة الشعراء کی آیت 208 میں بیان ہوا۔ زیر نظر آیت کے آخر میں فرمایا ” اور اس طرح اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا جیسا کہ واقعی طوپر کلام کرنا ہوتا ہے۔ “ کلام تو سارے انبیاء کرام سے ہوا اس جگہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت باتیں کرنے کا ذکر مخصوص اس لئے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کو ” مثیل موسیٰ “ بتایا گیا جیسا کہ سورة المزمل میں ارشاد فرمایا اور صحیح بخاری میں ہے کہ ھذا الناس موسیٰ الذی نزل اللہ موسیٰ اس لئے چونکہ رسول اللہ ﷺ کو موسیٰ (علیہ السلام) سے خا ص مماثلث ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) پر سب سے زیادہ پیش گوئیاں نبی اعظم و آخر ﷺ کے بارے میں کی گئیں اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر مخصوص طور پر کردیا گیا۔
Top