Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 171
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ١ؕ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ١ۚ اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ١٘ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ١۫ۚ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ١ؕ اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْ١ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ؕ سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ١ۘ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا۠ ۧ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ
: اے اہل کتاب
لَا تَغْلُوْا
: غلو نہ کرو
فِيْ دِيْنِكُمْ
: اپنے دین میں
وَ
: اور
لَا تَقُوْلُوْا
: نہ کہو
عَلَي اللّٰهِ
: پر (بارہ میں) اللہ
اِلَّا
: سوائے
الْحَقَّ
: حق
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
الْمَسِيْحُ
: مسیح
عِيْسَى
: عیسیٰ
ابْنُ مَرْيَمَ
: ابن مریم
رَسُوْلُ
: رسول
اللّٰهِ
: اللہ
وَكَلِمَتُهٗ
: اور اس کا کلمہ
اَلْقٰىهَآ
: اس کو ڈالا
اِلٰي
: طرف
مَرْيَمَ
: مریم
وَ
: اور
رُوْحٌ
: روح
مِّنْهُ
: اس سے
فَاٰمِنُوْا
: سو ایمان لاؤ
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَرُسُلِهٖ
: اور اس کے رسول
وَلَا
: اور نہ
تَقُوْلُوْا
: کہو
ثَلٰثَةٌ
: تین
اِنْتَھُوْا
: باز رہو
خَيْرًا
: بہتر
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں
اللّٰهُ
: اللہ
اِلٰهٌ وَّاحِدٌ
: معبودِ واحد
سُبْحٰنَهٗٓ
: وہ پاک ہے
اَنْ
: کہ
يَّكُوْنَ
: ہو
لَهٗ
: اس کا
وَلَدٌ
: اولاد
لَهٗ
: اس کا
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
وَكَفٰي
: اور کافی ہے
بِاللّٰهِ
: اللہ
وَكِيْلًا
: کارساز
اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا اور کچھ نہ کہو ، مریم کا بیٹا عیسیٰ مسیح اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کا رسول ہے اور اس کے کلمہ بشارت کا ظہور ہے جو مریم پر القا کیا گیا تھا نیز ایک روح اللہ کی جانب سے بھیجی گئی ، پس چاہیے کہ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ بات نہ کہو کہ اللہ تین ہیں ایسی بات کہنے سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہے ، حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ ہی اکیلا معبود ہے وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے لیے کوئی بیٹا ہو ، آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اس کے لیے ہے ، کارسازی کے لیے اللہ کا کارساز ہونا بس ہے
اے اہل کتاب اپنے دین کے معاملہ میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ 262: تغلوا کی اصل غ ل و ہے اور ” غلو “ حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں خواہ وہ افراط ہو یا تفریط اور یہ لفظ تغلو دو بار قرآن کریم میں اوستعمال ہوا ہے اور دونوں بار اہل کتاب ہی مخاطب ہوئے ہیں ایک بارا س جگہ اور دوسری بار سورة المائدہ کی آیت 77 میں۔ اہل کتاب سے قرآن کیرم میں دو گروہ ہی مراد لیے گئے ہیں ایک یہود اور دوسرے نصاریٰ ۔ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے متعلق یہود نے تفریط سے کام لیا ہے اور نصاریٰ نے افراط سے ۔ یہودنا مسعود نے سیدہ مریم ؓ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ سیدہ مریم ہیکل کی نذر مانی گئی تھیں اس لحاط سے ہو منذورہ ہوئی یہود کی نظر میں منذور ہو یا منذورہ ان کے لئے تجرد لازم و ضروری قرار نہیں دیا تھا یہ گویا ان کی قومی رسم تھی اور اس طرح کی رسوم تقریباً اس وقت ہر قوم میں پائی جاتی تھیں اور آج بھی پائی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کے ذریعہ کسی قوم کو ابی اس کا حکم نہیں دیا تھا تاہم جو قوم بھی کوئی رسم اختیار کرلیتی ہے اس کا خلاف اس کو برداشت نہ ہوتا۔ اس کی مثالیں آج بھی سینکڑوں خود ہم مسلمانوں میں موجود ہیں مثلاً آج قوم کی اکثریت رسم قل ‘ تیجہ ‘ دسواں ‘ چالیسواں ‘ کرتی ہے۔ ان چیزوں کا آخر دین اسلام کے ساتھ کوئی واسطہ وتعلق بھی ہے ؟ ہرگز نہیں لیکن یہ دین اسلام کے نام پر کی جاتی ہیں اور جو لوگ نہیں کرتے وہ آج بھی نہایت اقلیت میں ہیں اور اس اقلیت میں ہونے کے باعث ان کو کوئی اچھی نظر نہیں دیکھتا۔ سیدہ مریم نے منذورہ ہونے کے باوجود احکام الٰہی کی پابندی کرتے ہوئے نکاح کیا حالانکہ نکاح کرنا کسی شریعت میں بھی جرم نہیں تھا لیکن چونکہ یہود کی رسم کے خلاف تھا س لئے وہ من حیث القوم اس کو برداشت نہ کرسکے اور اس طرح وہ بگڑتے بگڑتے اتنے بگڑ گئے کہ انہوں نے سیدہ مریم ؓ پر اخلاقی کمزوری کا الزام لگایا جس کو قرآن کریم نے ” بہتان “ کے لفظ سے تعبیر کیا اور جب وہ مریم ؓ کو اچھی نظر سے نہ دیکھتے تھے تو ظاہر ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کو تو وہ کسی حال میں ایک اچھا اور بہتر انسان سمجھنے کے لئے تیا رنہ تھے۔ قوموں کی زندگی میں یہ بات آج بھی پائی جاتی ہے جس کو وہ من حیث القوم اچھی نظر سے نہ دیکھتے تھے تو ظاہر ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو تو وہ کسی حال میں ایک اچھا اور بہتر انسان سمجھنے کے لئے یتار نہ تھے۔ قوموں کی زندگی میں یہ بات آج بھی پائی جاتی ہے جو کو وہ من حیث القوم اچھی نظر سے نہ دیکھتے ہوں اس کی کسی چیز کو بھی وہ اچھی نگاہ سے دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے انسان تو انسان لوگ اس کے جانوروں تک سے عداوت رکھتے ہیں۔ آخر حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کیا تھی ؟ ایک چار پایہ ہی تو تھی لیکن ان مخالفین کی نگاہ میں وہ کسی طرح کھٹکتی تھی پھر انہوں نے اس اونٹنی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ مختصر یہ کہ سدہ مریم ؓ کا بیٹا ہونے کی نسبت سے انہوں نے خصوصاً اس وقت جب انہوں نے حکم الٰہی سے نبوت کا دعویٰ بھی کردیا تو وہ ان کو ایک آنکھ نہ بھائے اور مخالفت میں اس حد تک بڑھے کہ طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کردیا حتیٰ کہ اپنی مذہبی عدالت میں ان کو پھانسی دینے کا حکم صادر کردیا چونکہ صلیب پر چڑھانا حکومتی عالت کا کام تھا لہذا نہوں نے حکومت کو مجبور کیا لیکن جب حکومت نے مداخلت کرنے سے انکار کیا تو وہ حکومت سے بگڑگئے اور اس کے ساتھ ہی سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر مزیدبپھرے تا آنکہ سنت اللہ کے مطابق ان کے اٹھائے جانے کا وقت آگیا۔ اس کے مقابلہ میں اہل کتاب کی دوسری جماعت یعنی نصاری ٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو انسانوں کی صف سے اٹھایا اور انسانوں سے ماورا کوئی مخلوق قرار دے کر اللہ ‘ اللہ کا بیٹا اور اللہ کا تیسرا جزو بنا کر رکھ دیا اور سیدہ مریم ؓ کو بھی ( نعوذ باللہ) اللہ میاں کی والدہ ماجدہ قرار دے دیا اور اس قدر بڑھایا کہ ان کو انسانوں میں نہ رہنے دیا۔ اس طرح گویا یہود تفریط کے مرتکب ہوئے تو نصا ریٰ نے افراط کی حد کردی۔ ضد دراصل دونوں فریقوں کی اپنی تھی لیکن سیدہ مریم اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیتیں متاثر ہوئیں۔ ایک فریق نے صحیح النسب انسان ماننے سے بھی گریز کیا اور دوسرے فریق نے اللہ یا اللہ کا بیٹا قرار دیا ‘ خود مانا اور دوسروں کو ماننے پر مجبور کیا۔ زیر نظر آیت کے اسی ٹکڑے میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ” اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ “ یعنی حقیقت و اعتدال سے گزر نہ جائو اور دین کا اس طرح ستیاناس نہ کرو کہ اپنی خواہشات کا نام دین رکھ رہے ہو باز آجائو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ اللہ کا رسول ہے 624: دراصل اہل کتاب کی اس گمراہی کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ دین میں ” غلو “ کے مرتکب ہوئے ہیں یعنی حقیقت و اعتدال سے متجاوز ہو کر بہت دور تک چلے گئے ہیں۔ اگر کسی کی محبت و تعظیم پر آئے تو اتنی تعظیم کی کہ اسے خدا کے درجہ تک کیا بلکہ خدا ہی بنا دیا اور مخالفت پر اتر آئے تو اس کی صداقت تو صداقت اس کو ” صحیح معنوں میں انسان “ بھی تسلیم نہ کیا ۔ اگر زہدوعبادت کی راہ اختیار کی تو اتنی دور تک چلے گئے کہ رہبانیت تک پہنچ گئے اگر دنیا کے پیچھے پڑے تو اتنے چھوٹ ہوگئے کہ نیک و بد کی تمیز ہی اٹھادی۔ چونکہ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کو شخصیت میں بھی ان کا یہی رویہ تھا اس لئے دونوں گروہوں کی ایک طرح کی تعلیم دی کہ راہ حق سے تجاوز نہ کرو ، حق تو یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) اللہ کے نزدیک بندہ اور اللہ کی نیک بندی کا بیٹا ہے حسب و نسب کے لحاظ سے صحیح النسب ہے۔ ذریت ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی اور ذریت دائود (علیہ السلام) سے بھی اس کا تعلق ہے اور اسی طرح اس کا شمار انبیاء کرام میں ہے جس طرح یحییٰ (علیہ السلام) زکریا (علیہ السلام) اور ایوب (علیہ السلام) و یونس (علیہ السلام) کا ہے اور جس طرح کے اسماعیل (علیہ السلام) و اسحاق (علیہ السلام) اور ابراہیم علہل السلام نبی تھے۔ ہم نے اسی طرح اس کو نبی ور رسول بنایا جس طرح دوسرے انبیاء و رسول منتخب کئے تھے وہ اللہ کے برگزیدہ انسانوں میں سے ایک انسان تھا تم نے اس کو ” صحیح النسب “ ماننے سے بھی جو انکار کیا تو تفریط کی حد کردی اور اس طرح تم ” دین میں غلو “ کے مرتکب ہوئے اور جو دین میں بےجا مداخلت کرنے والوں کا انجام ہوتا ہے وہی تمہارا بھی ہوگا۔ اہل کتاب کے دوسرے فریق یعنی نصاریٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مانا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو والدہ کو بھی لیکن ایسامانا کہ ان کو انسانوں سے اٹھا کر اللہ کا خانوادہ بنا دیا اور ایسی ایسی توجیہات کیں کہ آج ان کو ایک صحیح العقل انسان پڑھے تو ہنس کر رہ جاتا ہے کہ یہ کیا کہا جارہا ہے ؟ حقیقت یہی ہے کہ جب بھی کسی شخص نے حق سے منہ پھیرا تو اس نے اس طرح کی رقیق توجیہات کیں اور اب بھی بالکل وہی صورتحال ہے جو اس وقت تھی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو پتہ نہیں کیا سوجھا کہ اس نے مسیح موعود کا دعویٰ کردیا پھر معلوم نہیں کہ وہ کیا کیا دعویٰ کرتا رہا اور کیا کیا کچھ وہ بنا کیسے اور کیوں ؟ اس لئے اس طرح کے اتار چڑھائو قوموں میں ہوتے آئے تھے اور اسی ” غلو کا بڑے بڑے شکار ہوتے رہے اس نے بھی موقع کو غنیمت جانا اور بیک وقت کئی طرح کے دعوے شروع کردیئے اور ایسے ایسے چور دروازے رکھے کہ اندر ہی اندر نہ معلوم کہاں سے کہاں نکلتا چلا گیا۔ آپ کو اندازہ کرنا وہ تو اس کی خود نوشت ” کشتی نوح “ پڑھیں۔ آپ دم بخود رہ جائیں گے۔ چناچہ ایک جگہ وہ رقم طراز ہے۔ ” اس نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے ) براہین احمدیہ کے تیسرے حصے میں میرا نام مریم رکھا پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی پھر مریم کی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارے کی رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے کے بعد ‘ جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم میں درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔ “ (کشتی نوح ص 87 ‘ 88 ‘ 89) حقیقت یہ ہے کہ مرزا نے اس طرح کی رموز اس لئے اختیار کیں کہ سلوک کی کچھ منزلوں مین ولیوں اور بزرگوں کا حاملہ ہوتا پھر حمل کا وضع ہوتا اور حیض و نفاس کا آنا ساری چیزیں موجود تھیں اس نے ان سے فائدہ اٹھایا اور یکے بعد دیگرے دعوے کرتا رہا۔ انگریز کی شہ پر مسلمانوں کی سادگی سے خوب فائدہ اٹھایا اور خصوصاً ” وفات مسیح “ کے موضوع کو اس قدر بلند کیا کہ دوسرے مسلمان چڑگئے اور وہ ” حیات مسیح “ کے ثابت کرنے میں لگ گئے اور مرزاکو اس طرح اتنا وقت مل گیا جو نہ اس کے لئے مفید رہا اور نہ ہی اس کی روحانی ذریت کے لئے۔ مسیح (علیہ السلام) کی کنیت ” ابن مریم “ رکھی گئی ؟ اس لئے مریم کے نام سے یہودیوں کو چڑ تھی اس لئے نصاریٰ نے ان کو اس کنیت سے پکارا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مریم عمران کی بیٹی تھی اور عمران کی نرینہ اولاد نہ تھی اور عمران کا گھرانا اس وقت کے لوگوں میں مذہبی گھرانا تھا جو سارے لوگوں کے ہاں برگزیدہ سمجھا جاتا تھا پھر مریم منذورہ ہوئیں حالانکہ یہود میں اس سے پہلے کوئی عورت کم ہی منذورہ ہوا کرتی تھی پھر اللہ نے مریم کا نام خود تجویز فرمایا تھا اور مریم کی ماں کو یہ کہا تھا کہ تیرا موعود لڑکا بھی اتنا باعث برکت نہ ہوتا جتنی باعث برکت تیری یہ لڑکی ہوگی ؟ کیونکہ اس کے ذریعہ سے کئی بد رسمیں مٹائی جائیں گی اور پھر وہ سلسلہ بنی اسرائیل کے ختم کردینے والے نبی کی ماں بننے والی تھیں اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی انسان کا جو لقب مشہور عام ہوتا ہے اس کو اس سے بلایا اور پکارا جاتا ہے اگرچہ اصلی نام کچھ اع ہو بلکہ بعض اوقات اصلی نام اس قدر پوشیدہ ہوجاتا ہے کہ کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ یہ ان کا نام ہے یا کنیت و لقب ہے۔ مثلاً ابوطالب ‘ عبدالمطلب ‘ ہاشم اور عبدمناف کی شخصیتوں سے کون وقف نہیں ہے ابوہریرہ اور ابوبکر کو کون نہیں جانتا ؟ لیکن یہ شاید ہی کسی کو معلوم ہوگا کہ یہ سارے نام نہیں بلکہ کنیتیں یا القاب ہی ہیں۔ یہ تسلیم کہ زیادہ تر کنیت باپ کے نام پر ہوتی ہے لیکن ماں کی طرف بھی کنیت رہی ہے اور اب بھی ہے نہ معلوم ایسی باتوں کو بحث موضوع کیوں بنالیا جاتا ہے جن کا کوئی سر اور پیر نہ ہو وہ لوگ جو کچھ احادیث سے واقفیت رکھتے ہیں ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ابن ام مکتوم ؓ ، ابن الحنظلیہ ؓ ، ابن الکواء ؓ ، ابن بیضاء ؓ ، ابن مرجانہ ؓ ، ابن سمیہ ؓ ، ابن بجینہ ؓ ، ابن ام ایمن ؓ ، ابن عفراء ؓ ، ابن الحنیفہ ؓ اور ابن ماجہ (رح) وغیرہ صحابہ ؓ ، تابعین (رح) اور تبع تابعین رحمتہ اللہ تعالیٰ عنہ میں شمار ہیں۔ کیا ان سب کے باپ نہیں تھے ؟ مسیح کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے کلمہ بشارت کا ظہور ہے 265: سورة آل عمران میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے سیدہ مریم ؓ کو مخاطب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ ” اے مریم ! اللہ تجھے ” اپنے ایک فرمان “ کی خوشخبری دیتا ہے اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا ۔ “ قرآن کریم کے الفاظ اسی طرح ہیں ” ان اللہ یبشرک بکلمۃٍ منہ “ ابھی عیسیٰ (علیہ السلام) کا دور دور تک کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم کی خو شخبری دی جس طرح اس سے قبل زکریا (علیہ السلام) کو دی گئی ۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی بیوی کو اور موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کو دی گئی تھی۔ پھر جہاں جہاں خو شخبری دی گئی بالکل اسی طرح من و عن وہ حالات پیش آئے جن کا ظہور بعد ہوا لیکن ہوا بالکل اسی طرح جس طرح پیش گوئی میں بیان کیا گیا تھا۔ یہاں بھی سیدہ مریم کو جس ” کلمہ “ کی بشارت دی گئی تھی وہ اپنے وقت پر پوری ہوئی اور اللہ نے وہ مبارک لڑکا سد ہ مریم کو عطا کردیا بیٹا کیا تھا ؟ ” اللہ کا ایک فرمان “ ہی تو تھا کہ ناسازگار حالات میں خوشخبری دی لیکن ناساز گاریاں دور کرنے والے اللہ نے ان کی ناسازگاری دور فرمادی اور جس بات کا فرمان جاری کیا تھا وہ بات معرض وجود میں آگئی۔ کتنی مبارک ہے وہ ماں جس کے مبارک بیٹے کی خوشخبری بیٹے کے تولد ہونے کے حالات سے بھی پہلے دی تھی اور پھر اپنے وقت پر اس مالک الملک نے وہ مبارک بیٹا عطا بھی فرما دیا کیا مبارک بیٹا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) جس کے پیدا ہونے سے بھی پہلے اس کی نبوت کا اعلان کردیا گیا۔ علم میں تو ہر ہونے والی بات موجود ہے لیکن جو بات ہونے سے پہلے کہی گئی ہو کہ اس طرح ہوگا اور پھر وہ اسی طرح ہوجائے تو گویا اس طرح ایک خوشی نہ ہوئی بلکہ دوہری خوشی نصیب ہوگئی آدم کے علاوہ سارے آدم زادے جو نبی ہونے والے تھے اپنی اپنی مائوں کے پیٹوں سے پیدا ہوئے لیکن کتنی مائیں تھیں جن کو ان کے بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی معلوم تھا کا ہمارا بیٹا اللہ کا نبی ہوگا ؟ ہاں ! معلوم تھا اسحاق (علیہ السلام) کی ماں کو ، اسماعیل (علیہ السلام) کی ماں کو ، یحییٰ (علیہ السلام) کو ، موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو۔ نبی اعظم و آخر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے پانے متعلق ارشاد فرمایا۔ ” انا دعوۃ ابی ابراہیم “ یعنی میں اپنے پدر بزرگوار ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہوں ، کیا مطلب ؟ یعنی دعا کا نتیجہ یا جواب ہوں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا آپ ﷺ کی تشریف آوری کا سبب بنی تھی اس لئے آپ ﷺ نے اپنی ذاب پر دعا کا اطلاق فرما دیا۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا کا ذکر سورة بقرہ میں گزر چکا ہمارا یمان ہے کہ آپ ﷺ بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا جواب ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا کہ آپ ﷺ کے ماں باپ نہیں تھے اور اگر ماں باپ کو مان لیا تو دعا یا دنتیجہ دعائے ابراہیمی کا انکار ہوگیا۔ حاشاء للہ اس کا یہ مطلب ہو۔ یہاں بھی یہیں مطلب ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) وہ بشارت میں جو سیدہ مریم کو دی گئی یہی آیت ہے یہی وہ کلمہ بشارت ہے۔ یہ ” کلمہ “ وہی تو ہے جو سیدہ مریم پر ” القا “ کیا گیا تھا۔ 266: یہ ” کلمہ “ وہی ہے جس کی بشارت سیدہ مریم کو سنائی گئی تھی بشارت کیا تھی وہ الہام الٰہی جو دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے القاء ہوا تھا بالکل اسی طرح جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کے دل میں اللہ نے ایک بات ڈال دی تھی چونکہ وحی الہام پر القاء کا لفظ بولا جانا معروف ہے قرآن و حدیث میں بھی عام طور پر بولا گیا ہے گویا جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کے لئے ” وحی “ کا لفظ استعمال فرمایا مریم یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کے لئے ” القاء “ کا فرمایا تھا ” واوحینا الی ام موسیٰ “ ہم نے موسیٰ کی ماں کو یہ اشارہ کردیا تھا “ یہاں فرمایا ” القھا الی مریم “ اللہ نے مریم پر القاء کیا تھا “ یہاں وضاحت کیا مطلوب ہے ؟ واضح رہے کہ ایک گروہ یعنی یہود سیدنا مسیح کی شخصیت کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور قومی نظریات میں کسی کو اچھی نگاہ سے دیکھنا اور کسی کو اچھی نگاہ نہ دیکھنا اس کے کئی وجوہ ہیں جن میں اسلام نے صرف ایک کو پسند کیا ہے اور باقی سب کا رد کردیا اچھی نگاہ صرف اس کے لئے نہیں ہوگی جو اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہوگا باقی لوگوں کے لئے بری نگاہ سے دیکھنا کسی حال میں بھی اسلام کی نظر میں جائز نہیں تاہم مسلمان کہلانے والے فرقوں میں بھی اچھی اور بری نگاہ کا معاملہ موجود ہے ۔ کوئی پوچھے جو گروہ ابوبکر صدیق ؓ ، عمر فاروق ؓ ، عثمان غنی ؓ ، نے ان کا کیا بگاڑا ؟ اچھا ان کے بزرگوں کا ؟ حاشا للہ نہ ان کا کچھ بگاڑا اور ان کے تسلیم شدہ بزرگوں کا لیکن ان بیریوں کو جو بیر ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں حالانکہ وہ مسلمان بھی کہلواتے ہیں۔ بہر حال جو لوگ سیدہ مریم اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ان کو ان کے مبارک ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی فرمایا یہ تو وہ مبارک بیٹا ہے جس کی بشارت سیدہ مریم پر القاء کی گئی تھی اور دوسری طرف نصاریٰ کو جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ یا اللہ کا بیٹا تسلیم کرچکے تھے ان کو یقین دہانی کرانا مقصود ہے کہ یہ تو فانی مخلوق اللہ کا حکم یعنی طے شدہ فرمان ہے اس مخلوق کو تم نے خالق کے ساتھ کہاں ملادیا اور اللہ کی اولاد تم کس بل بوتے پر قرار دیتے ہو حالانکہ اللہ تو اولاد سے پاک ہے اور جس کی اولاد ہو یا جو کسی کی اولاد کو لے کر اپنا متبنی بنا لے وہ تو اللہ ہو ہی نہیں سکتا۔ عقل کی گولی کھائو کہاں اندھے ہوئے جاتے ہیں پیار و محبت کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ بیوی کو ماں ، بہن یا بیٹی بنا لیا جائے یا ماں ، بہن اور بیٹی کو بیوی۔ تم نے کیا نشہ پی لیا ؟ ہوش کہاں گم ہوگئی ؟ وہ جو اللہ کا رسول ہے مان کے بطن میں ڈالا گیا تھا جس طرح بچے مائوں کے بطن میں ڈالے جاتے ہیں۔ ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہے جس طرح مائوں کے بطن سے بچے پیدا ہوتے ہیں تم نے اس مخلوق کو خالق کیسے مان لیا ؟ یہ عیسیٰ مریم کا بیٹا جو مریم پر القا کیا گیا تھا سچی بات اس طرح ہے تم نہ معلوم کیوں شک کرتے ہو۔ وہ ایک ” روح “ ہے جو اس کی جانب بھیجی گئی ہے۔ 267: روح اور ریح ایک ہی مادہ ہیں روح کے معنی ہیں مابہ الحیاۃ جس کے ساتھ زندگی قائم ہو اور زندگی دو قسم کی ہوتی ہے حسی اور معنوی حسی زندگی وہ ہے جس کے ذریعے چلنا ، پھرنا ، بولنا ، سننا ، اور سمجھنا اور یاد کرنا وغیرہ قسم کے صادر ہوتے ہیں اور معنوی ہو ہے جس سے مکارم اخلاق ، رحم ، سخاوت ، محبت وغیرہ کا ظہور ہوتا ہے اسی لئے قرآن کریم کو بھی کئی بار روح کہا گیا ہے کیونکہ وہ حیاۃ معنوی کا سبب ہے جیسے ارشاد فرمایا وکذالک اوحینا الیک روحنا من امرنا “ (الشوریٰ 42:52) ” اور اس طرح اے پیغمبر اسلام ! ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی۔ “ یعنی آپ ﷺ پر قرآن کریم نازل کیا اور حضرت مسیح چونکہ دوسرے انبیاء کی طرح حیات حسی اور معنوی دونوں کے مظہراتم تھے اس لئے آپ کو بطور مبالغہ روح یعنی سراپا روح کہہ دیا جیسے ہم کسی بہت خوبصورت انسان کو ” حسن مجسم “ کہہ دیتے ہیں اور ” روح “ چونکہ مخلوق ہے اسی طرح نصاریٰ کے مسیح (علیہ السلام) کو اللہ ، اللہ کا بیٹا اور اللہ کا تیسرا حصہ کہنے کا مکمل طور پر رد کردیا اور دوسری طرف مخالفین یعنی یہود کا رد ہوگیا جو مسیح (علیہ السلام) کی شخصیت کو ” صحیح النسب “ انسان بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھے اس ایک ہی لفظ سے ان کو بھی بتا دیا کہ مسیح (علیہ السلام) تو وہ شخصیت ہیں جو حیات معنوی کا مظہر اتم ہیں۔ ” روح منہ “ سے جزئیت ثابت نہیں ہوتی غور کریں۔ اور پھر صرف ” روح “ بھی نہ فرمایا بلکہ ” روح منہ “ فرمایا اور اس طرح سے روح کی اضافت قرآن کریم اور کلام عرب میں عام ہے مثلاً اللہ تعالیٰ شیطان کو فرماتا ہے ” ان عبادی لیس لک علیھم سلطان “ (الحجر 15:42) ” بلاشبہ جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا۔ “ غور کرو کہ بندے تو سب اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں مومن ہوں یا کافر۔ نیک ہوں یا بد۔ لیکن اطاعت اشعاربندوں کی اضافت اپنی طرف کی اور ان کو اپنا مخصوص اور مخلص بندہ ہونے کا شرف و عزت بخشی۔ یہاں بھی ” روح منہ “ یا ” روح اللہ “ کہنے سے اس خصوصی شرف ومقبولیت کا اظہار مقصود ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بارگاہ الٰہی میں حاصل ہے ” منہ “ کے لفظ سے یہ استددلال کرنا کہ قرآن کریم سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح اللہ کا جزء ہیں بالکل ناحق ہے کیونکہ آپ اس طرح پر جزیئت ثابت کرنے پر بضد ہوں تو پھر اس میں حضرت مسیح اللہ کا جزء ہیں بالکل ناحق ہے کیونکہ آپ اس طرح پر جزئیت ثابت کرنے پر بضد ہوں تو پھر اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیت باقی نہیں رہتی کیونکہ قرآن کریم میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے متعلق صاف موجود ہے کہ وہ ” ونفخت فیہ من روحی “ کہ میں نے اپنی روح آدم (علیہ السلام) میں پھونک دی۔ “ (الحجر 15:29) اور پھر یہ آدم (علیہ السلام) کی بھی کوئی خصوصیت نہیں کہ بےباپ اور بلا باپ قرار دینے والے آدم (علیہ السلام) کے ذکر سے کوئی نئی بات یا نئی بحث نہ شروع کردیں بلکہ تمام اولاد آدم کے متعلق ارشاد الٰہی ہے ” ثم جعل نسلہ من سلالۃ من مائٍ مھین ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ “ ( الم السجدہ 32:8 ، 9) اس نے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر بچہ آدم کو مادہ منویہ سے تخلیق کر کے اور اس کے اعضاء کو درست کر کے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ “ پھر دیکھو صرف آدم و بنی آدم ہی نہیں بلکہ کائنات کی ہرچیز کو اللہ تعالیٰ کا جزو ماننا پڑے گا چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : وسخرلکم ما فی اسموات وما فی الا رض جمیعا منہ (الجاثیہ 45:13) اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کردیا اور یہ سب کچھ اس سے ہے۔ “ اس لئے ” من روحی “ اور ” من روحہ “ اور ” منہ “ کے الفاظ سے کسی چیز کی جزئیت ثابت نہیں ہوتی تو پھر اگر وہی لفظ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے لئے استعمال ہوں تو ان سے جزئیت کیسے ہو سکتی ہے ؟ ” احصنت فرجھا “ قرآن کریم کے الفاظ ہیں اور انجیل میں اس طرح بیان ہے حقیقت تو یہ ہے کہ انجیل میں آج باوجود تحریف ہونے کے تحریف بھی ایسی کہ اس سے خود نصاریٰ انکار نہیں کرسکتے ایسی عبارات موجود ہیں جن سے قرآن کریم کے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ مریم ” محصنہ تھیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی “ احصنت فرجھا چناچہ انجیل میں ہے کہ ” اس کے ماب باپ ہر برس عید فسخ پر یروشلم کو جایا کرتے تھے اور جب وہ بارہ برس کا ہوا تو وہ عید کے دستور کے موافق یروشلم کو گئے “ اور ” جتنے اس کی سن رہے تھے اسکی سمجھ اور اس کے جوابوں سے دنگ تھے وہ اسے دیکھ کر حر ان ہوئے اور اس کی ماں نے اس سے کہا بیٹا تو نے کیوں ہم سے ایسا کہا ؟ دیکھو تیرا باپ اور میں کڑھتے ہوئے تجھے ڈھونڈتے تھے۔ “ (لوقا 3:41 ، 49) ” دیکھو تیرا باپ اور میں کڑھتے ہوئے تجھے دھونڈتے تھے۔ “ کے الفاظ پر غور کرو کہ اس لفظ ” باپ “ سے مراد اللہ تو نہیں ہو سکتا اگرچہ انجیل میں استعارۃً اللہ تعالیٰ کو ” باپ “ کے لفظ سے پکارا گیا ہے لیکن اس جگہ ” باپ “ سے مراد اللہ تو نہیں بلکہ وہی ہے جو مریم کا جائز اور شرعی خاوند تھا۔ چونکہ عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق ایسا ہوا تھا کہ ” اب یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ ہوگئی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہپائی گئیں۔ “ (انجیل متی 1:18) اس لئے عیسائی یوسف (علیہ السلام) کو مریم کا جائز خاوند اور مسیح (علیہ السلام) کا باپ بھی تسلیم کرتے اور کہتے ہیں اور چونکہ عقیدہ یہ ہے کہ ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی “ اس لئے وہ مسیح (علیہ السلام) کو ” بلاباپ “ بھی مانتے ہیں اور اس سے ہم مسلمانوں کے ہاں یہ نظریہ لے لیا گیا ہے ہمارے علمائے کرام ، مفسرین اور مورخین اپنے عوام کو یہی لفظ تعلیم کرتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) ” بلا پاب “ پیدا ہوئے تھے ہاں وہ ” روح القدس کی قدرت “ کی بجائے ” اللہ کی قدرت “ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں لکن جب عواف سے ہٹ کر اپنی خاص مجسلوں میں بیٹھتے ہیں اور اس واقعہ کو تحقیق کی سان پر چڑھاتے ہیں تو اس طرح کہتے ہیں۔ مشاہیر علمائے اسلام کے ارشادت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش میں ” وکانت النفخۃ التی نفخھا فی جیب درعھا فنزلت حتی ولجت فرجھا بمنزلۃ لقاح الاب الام “ (حافظ عمادالدین ، ابن کثیر) ” وکان روح عیسیٰ من تلک الارواح التی اخذ عھدھا و میثاقھا فی زمن ادم فارسلۃ اللہ تعالیٰ مریم فی صورۃ بشر فتمثل بشرا سویا قال ابی فدخل من فیھا “ (در منثورج 3 ص 142) فنفخ فی جیب درعھا وکان مشقوقا من قدامھا فدخلت النفخۃ صدرھا فحملت (صفات البیہقی ص 262) اتاھا جبرئیل فی صورۃ ادمی شاب امرد رحمھا فحملت بعیسی “ (المنار سید رضا ” فکان نصفہ بشرا ونصف الا خرروحا مطھر املکا لان جبرئیل وھبہ لمریم “ ( فتوحات مکیہ ص 575) فان نفختہ لمادخلت فی فرجھا کان ذلک بمنزلۃ لقاح الذکر لا نثی من غیر ان یکون ھنالک وطی (لوامع التنزیل علی حائری) (اتا ھا الماک (علیہ السلام) فی صورۃ شبات امرد وضیئی الوجعد الشعر فکان لمریم بمنزلۃ لہ الاب لسائر النوع فان نفختۃ لما دخلت فی فرجھا کان ذلک بمنزلۃ لقاح الذکر الانثی من غیر ان یکون وطئی ۔۔۔ وذکر غیر واحد من السلف ان نفخ فی جیب درعھا فنزلت النفخۃ الی فرجھا من فورھاکماتحھل المراۃ بعد جماع زوجھا “ (الجواب الفسیح ج ا ص 157) ایک حوالہ فارسی زبان میں بھی ملاحظہ فرمالیں۔ ” شبہ نیست درایں کہ از قدیم عادت اللہ جاری برایں منوال است کہ اولاد از نطفتین منعقد می شود و متوالد می گیر وو بدوں آب منی تولو ولد حسب عادت جاریہ ممکن نیست۔ ماقبل آیت زیر بحث ” فتمثل لھا بشر سویا “ نیز مئوید ہمیں مراہم است کہ تا متمثل بشر نزد مریم نباید حاملہ نشد۔۔۔ بر فرض تسلیم تاہم تواندگفت کہ عیسیٰ ولد جبرئیل است و اوقدس می باشدپس بالیقین عیسیٰ غیر جنس است زیرا کہ ازوجہ ولادت جز جبرئیل است و اعتبار ابوت دارونہ اموت و اگر نہ ذو اعتبارین بشری من جہتہ الام و زواعتبار قدسی بجہت فرشتہ بودن اب اومی باشد تازہم بنص قرآن وزعم مسلماناں ثبات گردید کہ عیسیٰ فی الواقع بشر نیست “ (القرآن سید علی حائری) جو عبارات اوپر درج کی گئی ہیں ان کا اردو ترجمہ ہم چھوڑ رہے ہیں ، کیوں ؟ اس لئے کہ ہم اپنی زبان سے کچھ کہنا نہیں چاہتے اگرچہ جملہ معروف ہے کہ ” نقل کفر کفر نباشد “ بطور ایک چیز پیش خدمت ہے لیکن تاہم وہ زبان عربی تھی اور زبان والوں نے جو کچھ سمجھا ہے اس میں سے انہی کی زبان میں کچھ تحریر ہے اور یہ مشتے از خردارے ملاحظہ فرمالیں۔ اردو خواں حضرات کے لئے مشاہیر علمائے السلام کے ارشادات ” دنیا میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آدھے بشر اور آدھے روح تھے کیونکہ حضرت مریم کے پاس اپنی روح یعنی جبرئیل کو بھیجا اور آپ کی پیدائش حضرت جبرئیل کی پھونک سے ہوئی اس لئے دونوں امور آپ میں موجود تھے۔ “ (جاء الحق مفت احمد یار رضائی ص 90) ” یعنی وہ مولود آدھا اسرائیلی اور آدھا غیر اسرائیل ہوگا۔ “ ( تفسیر کیبر میاں محمود احمد قادیانی) یہ صریحاً جھوٹ اور بہتان ہے۔ پہلے جو شخص بی بی کے حمل سے واقف ہوا وہ یوسف نجار تھا اور بی بی کا خلیرا بھائی تھا اس لئے مریم سے کہا کہ اے مریم تیری پارسائی اور زہد میں مجھے شبہ ہے یہ حمل تو کہاں سے لائی ہے تب حضرت مریم صادقہ نے اس سے ساری حقیقت اپنے حمل کی بیان کی اور جب وقت ولادت کا قریب ہوا حسب الہام الٰہی مریم نے یوسف کو لے کر بیت المقدس سے نکل کر وہاں سے چھ کوس کے فاصلہ پر ایک قریہ بیت الحم کے نام سے مشہور ہے وہاں جاتے ہی دردزہ سے بیقراری ہوئی۔ “ قصص الانبیاء مولوی غلام رسول راجن پوری ص 379) ” پھر مریم میں شہوت سرایت کی اور مریم کے اصل پانی اور جبرئیل کے وہمی پانی سے جو اس نفخ کی رطوبت میں آیا تھا عیسیٰ (علیہ السلام) کا جسم بنا کر کیونکہ جسم حیوانی کے نفخ میں رطوبت ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ارکان اربعہ سے پانی کا رکن ہوتا ہے کہ اس طرح سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا جسم جبرئیل کے وہمی پانی سے اور مریم (علیہا السلام) کے اصلیپانی سے بنا اور عیسیٰ (علیہ السلام) دوجہت سے بشر کی صورت ہوئے ایک جہت ان کی ماں کی طرف سے تھی اور دوسری جہت جبرئیل سے تھی کیونکہ وہ بشر کی صورت پر ظاہر ہوئی تھی اور یہ دوجہتیں اس واسطے ہوئیں کہ اس نوع انسانی میں تکوین خلاف عادت نہ واقع ہو۔ “ (فصوص الحکم) پھر حضرت مریم کو اس جگہ روحانی قوتوں کے ساری جاری ہونے کے زمانہ میں ماہواری کے دن آئے جب ان سے پاک ہوئیں تو لوگوں سے ایک الگ مکان میں غسل کرنے کے لیے گئیں اور پردہ ڈال کر کپڑے اتار دیئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایک کامل خلقت جوان کی صورت میں جبرئیل کو بھاجپ جو جوانی اور خوبصورتی سے بھرا ہوا تھا اور حضرت مریم نے ان کو دیکھا اور خودبھی جوان اور قوی مزاج والی تھیں ان کو اپنے نفس پر فساد کا ڈر لاحق ہوا اور دل سے اللہ کے حضور میں دعا کی کہ ان کی عصمت پر کوئی حرف نہ آئے پھر اس کو ایک عجیب حالت پیش آئی طبیعت کبھی کسی کی نظر کرنے سے انزال ہوجاتا ہے اور نفس کو اللہ تعالیٰ سے التجا تھی اور اس کے ساتھ تمسک تھا یہاں تک کہ وہ غائب سے فائض ہونے والی پاک دامنی کی حالت میں مالا مال ہوگئیں۔ صورت انسانیہ کی یہ حالت تھی کہ جبریل کے اختلاط سے عنقریب ظاہر ہونے والی تھی۔ جب جبرئیل (علیہ السلام) نے ان سے یہ کہا میں تو تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ دے جائوں تجھ کو لڑکاستھرا تو مریم خوش و خرم اور مانوس ہوگئیں اور حضرت جبرئیل نے جب ان کے حال کو دیکھا تو ان کے ستر میں پھونک لگا دی اس پھونک سے اس میں تاثر ہوا اور وہ منزل ہوگئیں۔ حضرت مریم کے نطفے میں مرد کے نطفے جیسی قوت تھی اس لئے وہ حاملہ ہوگئیں اور جو بات سیدہ مریم میں تھی وہ سگ اس بچہ میں آگئی۔ مثلاً اللہ سے تمسک کرنا۔ اس کی طرف التجا کرنا اور ملکی ہیبت سے خوش و خرم ہونا۔ کیونکہ حضرت مریم کی حالت اس کے نفس کی ہر قوت مصورہ اور مولود تک اس میں سرایت کرگئی تھی اور بات وہی ہے جو اطباء کہتے ہیں کہ جو شخص چاہے کہ اس کے لڑکا پیدا ہو تو وہ جماع کے وقت لڑکے تصور پیدا کرے۔ حضرت جبرئیل کی پھونک سے اس لڑکے میں علم مثال کا حکم اور روح کے خواص آگئے تھے کیونکہ صورت بننے کا سبب وہی تھا اس سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی جبلت میں مشابہ ایک راسخ ملہ پیدا ہوا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی روح القدس کے ساتھ تائید کا یہ مقصد ہے۔ (مامہنامہ الرحیم ماہ دسمبر 1987 ادراریہ) علامہ مشرقی (رح) کا نظریہ پیدائش عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق علامہ عنایت اللہ المشرقی (رح) کے نام سے کون واقف نہیں وہ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ : ” عیسیٰ (علیہ السلام) بےپدر پیدا ہوئے تھے “ تکملہ ص 190 اول ، تکملہ جلد 2 ص 405 پھر وضاحت اس طرح فرمائی کہ ” اس نے اگر بن باپ اولاد پیدا کر کے انسان کو اپنے لائحہ عمل کے متعلق اشارہ کرنے کی غرض سے کسی نئے قانون فطرت کے رائج کرنے کا فیصلہ کرلیا ( امر کا ترجمہ) تو اس قانون کو کہتا ہے کہ ناموفق حالات میں بھی ہوجا اور وہ ہوجاتا ہے۔ “ ص 190 اور پھر فرمایا : ” میرے چھوٹے سے دماغ میں تو کم از کم نہیں آسکتا کہ خدا کیونکر ایسے انسان سے ماقات کو گوارا کرے گا جس کو اس نے خود ناپاک نظفہ منی سے پیدا کیا جس کی پیدائش کی جگہ عورت کی پیشاب کی جگہ کو قرار دیا۔ “ ( ص 385 ج ا) پھر فرمایا : ” جس طرح اس روح ربی کو حضرت مریم کے جسم میں پھونک دینے سے وہ مرد کی ہمبستری سے بےنیاز ہوگئی اس طرح انسان بھی اپنے ارتقاء کی آخری مرحلوں میں جب خدا کا مماثل بنتا جائے گا کسی ایسے اعضائی انقلاب کا حامل ہو کر رہے گا جس اعضائی انقلاب کے باعث اس کو حاجت ہی نہ رہے گی کہ وہ اپنی پیدائش مرد عورت کی مجامعت سے کرے اور یہ مرحلہ وہ ہوگا کہ نطفہ ” منی “ کے سوا ” کن “ کے طریق پیدائش سے نکل کر ایسے باعزت طریق پیدائش کی طرف آئے گا جو مریم (علیہا السلام) کو خدا کے حضور سے ارزاں ہوا تھا۔ “ (حدیث القرآن ص 272) قرآن کریم کا بیان موجودہ انسانوں کی پیدائش کے متعلق موجودہ طریق پیدائش کو اللہ پاک نے ” احسن تقویم “ سے تعبیر فرمایا ہے دوسرے تو کیا سارے انبیاء کرام کو بھی اسی طریقہ سے پیدا کیا اور یہ طریقہ پیدائش اگر خدا سے ملاقات میں حائل ہے سارے نبیوں اور رسولوں کا قصہ بھی پاک ہوگیا۔ پھر لے دے کر رہ جائیں گے تو وہعیسیٰ (علیہ السلام) ہی ہوں گے لیکن ” آدھے ناپاک “ تو وہ بھی ہوگئے کہ وہ بھی اس پیشاب گاہ سے پیدا ہوئے جو طریقہ ” ناپاک “ ہے اور اس ناپاکی سے بچایا تو شیعوں نے اپنے اماموں کو بچایا کیونکہ انہوں نے اماموں کی پیدائش کا مقام ماں کی ران کو دیا ہے ، پیشاب کی جگہ کو نہیں۔ مشرقی صاحب نے نہ معلوم ان کا ذکر کیوں نہیں کیا اور سارے نبیوں اور رسولوں کا معاملہ بھی اپنے ہی ساتھ صاف کردیا اور ایک نظریہ کی حمایت میں اصل عقیدہ اسلام پر پانی پھیر دیا۔ حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی (رح) کے ارشادات پیدائش عیسیٰ (علیہ السلام) میں حضرت العلام حافظ محمد صاحب گوندلوی (رح) سابق شیخ الحدیث و رئیس المدرسین مدینہ یونیورسٹی امیر مرکزی جمیعت اہلحدیث رقم طراز ہیں کہ : ” سنئے ولد بلا والدہ نہیں ہوسکتا اور ولد بلا اصلین متصورہ نہیں اور ولد کے لئے اصلین کے ساتھ انفکاک مادہ کی بھی ضرورت ہے گویا ولد کا لفظ بلحاظ استعمال یہ معنی دیتا ہے کہ دو اصلین کے توسط سے بانفکاک مادہ پیدا ہونے والا۔ جہاں کہیں لفظ ولد کلام عرب میں استعمال کیا گیا ہے وہاں اصلین اور انفکاک مادہ ضروری ہے۔ ایک اسل گار ولاد ہے تو دوسری اصل جو ولد ہونے کے لئے ضروری ہے وہ عرف میں اس کی والدہ ہوگی جو اس کے باپ کی جو رد ہوگی پس مسیح پر چونکہ لفظ ولد مریم ؓ کا اطلاق کرتے ہیں اس لئے ضروری ہے ک اس کی والدہ ہو اور وہ مریم ہے اور دوسرا اصل جس کے اتصال کے علاوہمسیح نہ پیدا ہوا ہم اہل اسلام کے نزدیک جبرئیل ہے جسے دوسری جگہ قرآن مجید میں ” روح القدس “ سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ بمنزلہ والد کے ہے کیونکہ نفخ جبرئیل کے قبل اور روح القدس کی قوت کے ظہور سے پہلے مریم (علیہا السلام) ظاہر اور متولد نہ ہوئے ۔ “ ( اثبات التوحید ص 40) ” عربی زبان میں لفظ ولد کا حقیقی اطلاق جہاں کہیں بھی ہوتا ہے اس کے لئے اصلین کا ہونا ضروری ہے اور ولد کے لئے اگر اس کی ماں کی طرف نسبت ہو تو دوسرا اس کا پاب ہونا چاہئے۔ پس ولد کی ماں ولد کے باپ کے لئے صاحبہ (بیوی ) ہوگی نیز ولد کے لئے ضروری ہے کہ اصلین کے مادہ سے متفک ہو کر تیار ہور یعنی ولد کے لئے اصلین کی ضرورت ہے اور مادہ متفک بھی لازم ہے۔۔ پس لفظ ولد کے معنی ہیں جزء خاص جس کی جزئیت میں دو شخصوں کو دخل ہو اس طرح لفظ ابن مریم سے قرآن کریم میں تعبیر کیا گیا ہے اس کے لئے بھی اصلین کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ان کی ماں مریم دوم جبرئیل (علیہ السلام) جن کو دوسرے لفظوں میں روح القدس سے تعبیر کرتے ہیں جو حمل مسیح کا باعث ہوئے۔ “ (اثبات التوحیدص 19) سید مودودی (رح) کی تشریح میں ولد کیا ہے ؟ قرآن کریم سے یہ بات واضح ہے کہ مسیح (علیہ السلام) ولد تھے اور ” اولاد کا کوئی تصور اس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا کہ نر و مادہ میں اتصال ہو اور کوئی مادہ باپ اور ماں کے جسم سے نکل کر بچے کی شکل اختیار کرے۔ “ ( سید مودودی (رح)) اوپر جو کچھ بیان ہوا اس میں ہماری طرف سے کچھ نہیں کہا گیا ہم نے تو مشاہر علمائے اسلام کے ارشادات کو صرف جمع کردینے کی سعی کی ہے تاکہ قارئین کی سمجھ میں بات آجائے اور وہ اپنے نظریہ کی حفاظت کرسکیں۔ حاش اللہ کہ ہم نے کسی کو کوئی بری بات کہیں چھوٹا منہ بڑی بات۔ کسی پر کوئی فتویٰ کسی کی کوئی تنقیص ؟ ہمارے پیش نظر ان باتوں میں سے ایک بھی نہیں ہم تو یہ سوچ پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے متعلق یہود نے تفریط کی اور نصاریٰ نے افراط سے کام لیا ؟ بالکل صحیح لیکن ہم مسلمانوں نے کیا کیا ؟ یہ افراط ہے تفریط ہے یا اعتدال ہے کیا ہے ؟ اگر میرا موقف ہی معلوم کرنا چاہتے ہو تو میں یہ کہہ سکتا ہو کہ۔ من ازبیگان گا ں ہرگز نہ نالم کہ بامن ہرچہ کرد آں آشنا کرد اس طرح میں جبرئیل (علیہ السلام) سیدہ مریم ؓ اور سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی پوزیشنکو گڈمڈ کر دوں ؟ نہی کرسکتا اور ہرگز نہیں کرسکتا یہ میرے ایمان و ایقان کا معاملہ ہے اس کے لئے مجھے تختہ دار پر چڑھنا پڑے تو واللہ میں لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہوا چڑھنے کو تیار ہوں۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں تفصیل دیکھنا ہو تو ” عیون زمزم فی میلاد عیسیٰ بن مریم “ کا مطالعہ کریں اور ” ذلک عیسیٰ ابن مریم “ کا انتظار کریں جو انشاء اللہ عن قریب طبع ہوگی۔ مزید تفصیل کے لئے سورة ال عمران کی آیت 42 سے 54 تک پر ایک نظر ڈال لیں۔ نیچے دو تین مزید اقتباس پیش خدمت ہیں ان کو ملاحظہ فرمالیں۔ سید مودودی (رح) کی تفہیمات برائے تفہیم حقیقت ” دنیا کے پیشوائے دین کی زندگی کو لے لو ، تم دیکھو گے کہ اس کی ذات پر سب سے زیادہ ظلم اس کے معتقدین ہی نے کیا ہے انہوں نے اس پر اپنے تخیلات و اوہام کے اتنے پردے ڈال دیئے ہیں کہ اس کی شکل و صورت دیکھنا ہی محال ہوگیا ہے ۔ صرف یہی نہیں کہ ان کی محرف کتابوں سے معلوم کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ اس کی اصل تعلیم کیا تھی ؟ بلکہ ہم ان سے یہ بھی معلوم نہیں کرسکتے کہ وہ خود اصل میں کیا ہے ؟ اس کی پیدائش میں اعجو بگی اس کی طفولیت میں اعجوبگی ، اس کی جوانی اور بڑھانے میں اعجوبگی ، اس کی زندگی کی ہر بات میں اعجوبگی اور اس کی موت تک میں اعجوبگی غرض ابتداء سے لیکر انتہاء تک وہ ایک افسانہ نظر آتا ہے اور اس کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ یا تو وہ خدا کا بیٹا تھا یا خدا اس میں حلول کر گیا تھا یا کم ازکم یہ کہ وہ خدائی میں کسی حد تک شریک وسہیم تھا۔ “ (تفہیمات سید مودودی صاحب (رح)) جن بزرگوں کی نبوت معلوم و مسلم ہے ان میں سب سے بڑھ کر ظلم سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر کیا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ویسے ہی ایک انسان تھے جیسے سب انسان ہوا کرتے ہیں۔ بشریت کی تمام خصوصیات ان میں بھی اسی طرح موجود تھیں جس طرح ہر انسان میں ہوتی ہیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت و حکمت اور اعجاز کی قوتیں عطا فرما کر ایک بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کے لئے معمور فرمایا تھا لیکن اول تو ان کی قوم نے ان کو جھٹلایا اور پورے تین سال بھی ان کے وجود مسعود کو برداشت نہ کرسکی یہاں تک کہ عین عالم شباب میں ان کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پھر جب وہ ان کے بعد ان کی عظمت کی قائل ہوئی تو اس قدر حد سے تجاوز کرگئی کہ ان کو خدا کا بیٹا بلکہ عین خدا بنا دیا اور یہ عقیدہ ان کی طرف سے منسوب کیا کہ خدا مسیح کی شکل میں اس لئے نمودار ہوا تھا کہ صلیب پر چڑھ کر انسان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرے کیونکہ انسان فطرۃً گنہگار تھا اور خود اپنے عمل سے اپنے لیے نجات حاصل نہ کرسکتا تھا۔ “ (معاذاللہ) (تفہیمات سید مودودی (رح)) ” دنیا میں صرف قرآن کریم ہی ایک کتاب ہے جس نے ان انبیاء کرام میں سے ایک ایک کی پوزیشن صاف کی اور ان کے اصل مرتبہ و مقام سے دنیا کو روشناس کیا۔ اگر قرآن نہ آتا تو آج کوئی شخص ان بزرگوں کو نبی ماننا تو درکنار عزت سے ان کا نام لینا بھی گوارا نہ کرتا بنی اسرائیل چاہے اس احسان کو نہ مانیں مگر احسان کا احسان ہونا اس کا محتاج نہیں ہے کہ اس کا اعتراف بھی ہو۔ “ (تفہیمات سید مودودی (رح)) ” جب قرآن کریم نے اس قوم کے انبیاء کرام کی صفائی پیش کی اور اس کا لگایا ہوا ایک ایک داغ ان کے دامنوں سے دھویا تو یہ خوش ہونے کی بجائے مقابلے پر اترآئے اور انہوں نے ان سب داغوں کو جنہیں قرآن کریم نے دھویا تھا پھر سے داغدار کرنے کی کوشش کی ۔ قرآن جب نازل ہوا تو مدینہ میں یہودی موجود تھے اور نزول قرآن سے چند سال بعد جب ملسمان ایشیا اور افریقہ کے وسیع علاقوں میں پھیلتے پھیلتے چلے گئے تو یہودیوں کی ایک کثیر تعداد کو ان سے میل جول کا موقع ملا ان لوگوں نے ہر نبی کے متعلق وہی تما م پرانے قصے جو ان کے اپنے ہاں موجود تھے مسلمانوں میں پھیلا دیئے نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن مجید کی بہت سی تفسیریں جو مسلمانوں نے لکھیں ان کے اثر سے مسموم ہو کر رہ گئیں۔ یہ معاملہ متداول تفاسیر کا مطالعہ کرنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ “ (تفہیمات سید مودودی (رح)) دو تحریکوں کا مقابلہ جو باقی تحریکوں پر روشنی ڈالتا ہے یہ عبارات تفہیمات کی ہیں لیکن جب ” تفہیم “ کا وقت آیا تو مولانانے وہی کچھ فرمایا جو متداول تفاسیر میں فرمایا گیا تھا۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اگر کسی نے پوچھا ہے تو وہ بتا دے ہم تو چلیں گے تو پوچھیں گے ۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرازجی کو کچھ دعویٰ کرنا تھا انہوں نے ” وفات مسیح “ کا چکر چلایا باقی باتیں گول کرگئے اور مولانا کو حکومت کا خیال تھا اس لئے وہ ” دین “ ” الہ “ اور ” رب “ کی تشریحات میں مصروف رہے اور باقی معاملہ پردے میں رکھا اگر کہیں بات کرنی چاہی تو رمز ، اشارہ اور تلمیح سے کام لیا اور اس وقت ماشاء اللہ آپ کی تفسیر بھی متداول تفاسیر میں سے ایک ہے۔ رہی مرزا جی کی ” نبوت “ اور سید صاحب کی ” حکومت “ کہ وہ کہاں تک چلی تو اس کا حال سب کو معلوم ہے۔ پس چاہئے کہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو جیسا کہ ایمان لانے کا کہا گیا ہے 268: اہل کتاب سے کہا جارہا ہے کہ اے اہل کتاب ! ایسا طریقہ مت اختیار کرو کہ کسی نبی کو مانو اور کسی کا انکار کرو یاد رکھو کہ کسی ایک نبی کا انکار بھی ایسا ہے جیسے سارے انبیاء کرام کا انکار۔ ایک کے جھٹلانے سے سب کا جھٹلانا سمجھا جائے گا۔ یہ بات تعصب اور حمیت جاہلیہ کی ہے حالانکہ تم کو ان دونوں باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا تھا۔ دنیا میں جہاں ، جو اللہ کی بندہ بھی اللہ کی طرف سے حق لے کر آیا ہے اس کے برحق ہونے کی شہادت دو اگر تم نے ایسا کیا تو یہی ایمان باللہ ہے اور یہی عہد رسالت ہے اگر تم نے اس سے روگردانی کی تو پھر تم نے گویا اللہ اور اس کے سارے رسولوں کا انکار کردیا۔ یہود کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کا انکار کر کے صرف مسیح ہی کا انکار نہیں کیا بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بنوت کے بھی منکر ہوگئے ، کیسے ؟ ایسے کہ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ان پشگودئیوں کو جھٹلا دیا جن میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت تھی اور پھر ان پیش گوئیوں کی بھی تکذیب کی جو محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق بیان کی گئی تھیں اور ان کا یہ انکار اللہ کی کتاب کا انکار ہوا اور اللہ کے رسول اور اللہ کی کتاب کو جھٹلانا گویا اللہ تعالیٰ ہی کو جھٹلانا ہے۔ چناچہ خود نبی اعظم و آخر ﷺ کے متعلق اہل مکہ سے بھی اس طرح کہا گیا کہ ” کیا یہ اپنے رسول سے کبھی واقف نہ تھے کہ ان جانے آدمی ہونے کے باعث اسے مان لینے کے لئے تیار نہیں۔ “ (المومنون 23:69) مطلب یہ ہے کہ کیا ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ایک بالکل اجنبی آدمی جس سے کہ کبھی واقف نہ تھے اچانک ان کے درمیان آکھڑا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے نبی مان لو۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بھی نہیں۔ جو شخص یہ دعویٰ پیش کر رہا ہے وہ اس وقت کا ہے جب ابھی نبوت کے بندے ہونے کا اعلان نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے برعکس اس کے آنے کی خبریں یہود و نصاریٰ دونوں دے رہے تھے۔ وہ ان کی اپنی برادری کا آدمی ہے۔ اس کی نسبی شرافت و وجاہت ان سے مخفی نہیں۔ اس کی ذاتی زندگی ان سے چھپی ہوئی نہیں ۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی سرحد تک وہ ان کے سامنے پہنچا ہے۔ اس کی صداقت سے ، اس کی راست بازی سے۔ اس کی امانت و دیانت سے۔ اس کی بےداغ سیرت سے یہ خوب واقف ہیں۔ اس کو خود امین کہتے رہے ہیں۔ اس کی دیانت پر ان کی ساری برادری بھروسہ کرتی رہی ہے ۔ اس کے بدترین دشمن تک یہ مانتے ہیں کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس کی پوری جوانی عفت و پاکدامنی کے ساتھ گزری ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ نہایت شریف اور نہایت نیک آدمی ہے۔ حلیم ہے۔ حق پسند ہے ، امن پسند ہے ، جھگڑوں سے کنارہ کش ہے ؟ معاملے میں کھرا ہے ، قول وقرار کا پکا ہے ، ظلم نہ خود کرتا ہے نہ ظالموں کا ساتھ دیتا ہے ، کسی حق دار کا حق ادا کرنے میں اس نے کوتاہی نہیں کی ہے ، ہر مصیبت زدہ ، ہر بےکس اور ہر حاجت مند کے لئے اس کا دروازہ ایک رحیم و شفیق و ہمدرد کا دروازہ ہے۔ پھر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اس کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جس سے یہ شبہ کیا جاسکتا ہو کہ کسی دعویٰ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور جس روز اس نے یہ دعویٰ کیا اس کے بعد سے آج تک وہ ایک ہی بات کہتا رہا ہے۔ کوئی تبدیلی اس نے نہیں کی ہے۔ کوئی ردوبدل اپنے دعویٰ اور دعوت میں اس نے نہیں کیا ہے ، کوئی تدریجی ارتقاء اس کے دعوئوں مین نظر نہیں آتا کہ کوئی یہ گمان کرسکے کہ آہستہ آہستہ قدم جما جما کر دعوئوں کی وادی میں پیش قدمی کی جارہی ہے پھر اس کی زندگی اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جو کچھ اس نے دوسروں سے کہا ہے وہ پہلے خود کر کے دکھایا ہے۔ اس کے قول وعمل میں تضاد نہیں ہے۔ اس کے پاس ہاتھی کے دانت نہیں ہیں کہ دکھانے کے اور ہوں اور کھانے کے اور ہوں اور چبانے کے اور۔ وہ دینے کے باٹ الگ اور لینے کے الگ نہیں رکھتا۔ ایسے جانے بوجھے اور جانچے پرکھے آدمی کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صاحب دودھ کا جلا چھا چھ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ بڑے بڑے قریبی آتے ہیں اور دل موہ لینے والی باتیں کرتے ہیں اول اول اعتبار جمالیتے ہیں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ سب محض چکمہ ہی چکمہ تھا یہ صاحب بھی کیا خبر اصل میں کیا ہوں اور بناوٹ کا ملمع اترنے کے بعد کیا کچھ ان کے اندر سے نکل آئے اس لئے ان کو مانتے ہوئے ہمارا تو ماتھا ٹھنکتا ہے۔ “ یہ ساری باتیں جو بیان کیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی زبان سے نکلنے والے جو اہرپاروں کا ترجمہ و مفہوم ہیں جو انبیاء کرام کے متعلق اور خصوصاً سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمائے گئے ہیں اور آپ میں بدرجہ اتم یہ سب کے سب موجود تھے اور ان کی حقیقت و اصلیت بیان کرنے کی ہمارے قلم میں طاقت نہیں۔ غور کیجئے کہ ہر قل عیسائی قیصر روم ابو سفیان سے رسول اللہ صلی اللہ وسلم ے متعلق دریافت کرتا ہے کہ ” کیف نسبہ فیکم “ وہ حسب و نسب کے لحاظ سے کیسا ہے ؟ تو ابو سفادن نے جواباً کہا کہ ” ھوفینا ذونسب “ وہ بہت شریف النسب ہے “ تو ہر قل نے کہا کہ ” وکذالک الرسل تبعث فی نسب قومھا “ اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ انبیاء کرام شریف النسب ہی ہوتے ہیں ۔ گویا آپ ﷺ کی ایک دلیل ہے اور یہی دلیل سارے انبیاء کرام کی سچائی کی ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم عن عبداللہ بن عباس ؓ فتح الباری پارہ 18 ص 141 میں ہے کہ : نسب کبیر و حسب رفیع ۔۔۔ نسب الوجہ الذی یحصل لہ الاولا دمن جھۃ الاباء) اور اس طرح سیرت ابن ہشام س 181 ج اور دلائل النبوۃ ص 82 ، ابو نعیم میں کہ بعث اللہ الینا رسولاً منا تعرف نسبہ اصدقہ واعانتہ وعفافہ اور خصائص لکبریٰ ج اول ص 29 بحوالہ بیہقی اور البدایہ والنہایہ میں بحوالہ ابن اسحاق اس طرح مروی ہے کہ ” قد عرفنا روجہ ونسبہ قد بعث اللہ الینا کما بعث الرسل الی من قلبنا “ یہ صحابہ کرام کا بیان ہے کہ اللہ نے ہماری طرف ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جس کے حسب و نسب سے ہم خوب واقف ہیں۔ جیسا کہ ہم سے پہلے انبیاء کرام کے حسب ونسب معروف ہوا کرتے تھے۔ “ باز آجائو ایسی بات نہ کہو کہ اللہ تین ہیں ، یاد رکھو کہ اللہ ایک ہی ہے 269: قرآن کریم نے سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی ہستی کے متعلق جو صدیوں سے ایک معمہ بن کر رہ گئی تھی صاف صاف الفاظ میں صراحت فرمادی کہ وہ مریم کے بیٹے اور اللہ کے رسول ہیں ، اللہ کی طرف سے کلمہ بشارت ہیں جو سیدہ مریم کی طرف القاء کی گئی تیر ، ان کی پیدائش ایسے ہوئی تھی جیسے عام انسانوں کی پیدائش ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی مقرب روحوں میں سے ایک مقدس روح ہیں۔ اب ان الفاظ سے جو زیر بحث ہیں۔ ” یعنی ولاتقولوا ثلثۃ “ عیسایئوں کو ان کے غلط عقیدہ سے باز رہنے کا حکم دیا رہا ہے اور یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے کی ایک اور روشن دلیل ہے کہ ” ثلثۃ “ جو خبر ہے اس کا ذکر کیا اور اس کے مبتداء کو محذوف کردیا کیونکہ تثلیثیں تو عیسائیوں کے تقریباً تمام فرقے متحد ہیں لیکن ان کی تفصیل میں ان کا باہمی اتنا اختلاف اور تضاد ہے کہ مسئلہ ان کے نزدیک بھی ایک چیستان بن کر رہ گیا ہے ۔ اگر کوئی ایک مبتداء بیان کردی جاتی تو تثلیث کی ایک صورت تو ممنوع ہوجاتی اور دوسری اقسام کا حکم معلوم نہ ہو سکتا اس لئے خبر کے ذکر پر اکتفا کیا تاکہ موقع اور محل مطابق مبتداء مقدر مان لی جائے۔ یہاں یہ تو ممکن نہیں کہ عیسائیوں کے تمام فرقوں کا تثلیث کے بارے میں جو جو عقیدہ ہے ان سب کو بیان کیا جائے لیکن ان کے چند اہم فرقوں کے نظریات بیان کرنے کی ضرور جسارت کی جاتی ہے۔ اس بات پر تو تقریباً سب عیسائی فرقے متفق الرائے کہ اللہ تعالیٰ بحیثیت جو ہر ہونے کے واحد ہے اور بحیثیت اقانیم تین ہیں۔ وجود علم اور حیات کو روح القدس کہتے ہیں۔ ان کا اختلاف اس میں ہے کہ ان تین اقانیم کا تعلق جوہر یعنی اللہ سے کہا ہے۔ جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ 1 ۔ ایک فرقہ کا مذہب یہ ہے کہ یہ تین اقانیم اور جوہر قدیم الگ الگ ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا ہے اور اقنوم ثانی یعنی علم حضرت مسیح کے جسم سے متحد ہوگیا ہے جیسے شراب اور پانی ملنے کے بعد یک جان ہوجاتے ہیں اور مسیح بھی ازل قدیم ہے اور مریم نے ازل قدیم کو جنا ہے۔ 2 ۔ اور ایک فرقہ یہ کہتا ہے کی بیٹا یعنی مسیح کی دو حیثیتیں ہیں ایک لاہوتی اور ایک ناسوتی اس حیثیت سے کہ وہ کدا کا بیٹا ہے وہ خدائے کامل ہے اور اس حیثیت سے کہ اس کا ظہور اس جسد عنصری میں ہوا انسان کامل ہے اس لئے یہ قدیم بھی ہے اور حادث بھی اور قدیم و حادث کا یہ اتحاد قدیم کی قدامت کو متاثر کرتا ہے اور نہ حادث کے حدوث کو۔ 3 ۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ کلمہ یعنی اقنوم ثانی گوشت اور خون میں بدل گیا اور کدا مسیح کی شکل میں بدل گیا یا رونما ہوا۔ 4 ۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ الہ قدیم کے جوہر انسان حادث کے جوہر میں یوں امتزاج ہوا جیسے نفس ناطقہ کا جسم کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ دونوں ایک چیزبن جاتے ہیں۔ اس طرح جوہر قدیم اور جوہر حادث کے مجموعہ کا نام مسیح ہے اور وہی خدا ہے اور کہتے ہیں کہ اگرچہ خدا انسان نہ بن سکا لیکن انسان خدا بن گیا جیسے اگر آگ کوئلہ نہیں بن سکتی تو کوئلہ تو آگ بن جاتا ہے۔ اس سلسلہ کو اتنا طول دیا گیا ہے کہ اس کا بیان اتنا جلدی ختم ہونے والا نہیں ہے یہ مشتے نمونہ از خروارے بس است۔ ان میں سے کوئی بات ایسی نہیں جسے عقل سمجھ سکے یا صحیح معنوں میں کسی دوسرے کو سمجھا سکے اس لئے مذہب کا پلہ بھاری بنانے کے لئے اتنی بات کہہ دینا کافی ہے کہ عقل کو مذہب میں دخل نہیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ بہر حال ایک چیز واضح ہوگئی کہ ان تمام اختلافات کے باوجود تثلیث کے عقیدہ پر سب متفق ہیں گو عنوان جدا جدا ہیں لیکن معنوں میں ایک ہی ہیں اور یہ ایک ایسا معمہ ہے جس کو حل کرنے کے لئے عیسائیت کے بڑے بڑے مدبروں اور دانشوروں نے سر توڑ کوشش کی لیکن نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔ آخر ایک ہی چیز کو قدیم اور حادث ، خدا اور بندہ اور لاہوت و ناسوت کا مجموعہ کیسے تصور کرلیا جائے۔ اگر تاریخ مذاہب عالم کو مطالعہ کی جائے تو تثلیث کا عقیدہ تمام مشرکانہ مذاہب میں مشترک نظرآتا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں ” تری مورتی “ یعنی برہما “ وشنو اور شیو کی عبادت کی جاتی ہے جن کے لئے وہ ان تین حروف (ا۔ و۔ م کو بطور رمز استعمال کرتے ہیں چین میں ” تادو “ ایک ایسا خدا ہے جس کی تین اقانیم ہیں۔ مصر قدیم میں معبد منفیس کے قسیس ثالوث مقدس کی تعلیم دیتے تھے اور یہ بتاتے تھے کہ پہلے نے دوسرے کو اور دونوں نے مل کر تیسرے کو پیدا کیا ہے۔ ان کے اعتقاد میں اقنوم ثانی کو کلمہ نیز دوسرا خدا اور اللہ کا پلوٹھی کا بیٹا کہا جاتا بالکل ویسے ہی جیسے اب عیسائی کلمہ کو ابن اللہ اور الہٰ مانتے ہیں اور فارس میں بھی ایک ایسے الہٰ کی پرستش کی جاتی تھی جو مثلث الاقانیم تھا جن کے نام یہ تھے ازمرد ، مترات ، اور اہرمن۔ مترات کو وہ بھی ابن اللہ کہا کرتے تھے اور خود یورپ میں مسیحیت سے پہلے تثلیث کا عقیدہ رائج تھا۔ چناچہ یونانی ایک خدا کے قائل تھے جس کی تین اقانیم تھیں اور روم کے قدیم بت پرست بین تثلیث کے قائل تھے اور اللہ ، کلمہ اور روح پر ایمان رکھتے تھے اس مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ نکالنا کچھ مشکل نہیں کہ جب عیسائیت مشرق اوسط سے یورپ میں پہنچی اور قسطنطین شاہ روم نے اسے قبول کیا تو وہی تثلیث جو اہل یورپ کے عقیدہ میں غیر زمانہ سے چلی آرہی تھی منتقل ہو کر ایک ایسے دین میں آگئی جو سراسر توحید کا علم بردار تھا۔ انجیل مقدس کی یہ آیت اب بھی اعلان کر رہی ہے کہ اس دین حق کا اور اس کے پیغمبر کا دامن شرک کی ان آلودگیوں سے پاک ہے چناچہ حضرت مسیح (علیہ السلام) فرماتے ہیں ” ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کی اور یسوع مسیح جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔ “ (انجیل یوحنا 17:3) اللہ ہی اکیلا معبود ہے ، وہ اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا بیٹاہو ؎270: عیسائیوں نے ابتداء مسیح کی شخصیت کو انسانیت اور الوہیت کا مرکب قرارد یا اور اس طرح جو غلطی کی تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے لئے یہ مسیح کی حقیقت ایک معمہ بن کر رہ گئی جسے ان کے علماء نے لفاظی اور قیاس آرائی کی مدد سے حل کرنے کی جتنی کوششیں کیں اتنے ہی زیادہ الجھتے چلے گئے۔ ان میں سے جس کے ذہن پر اس مرکبشخصیت کے جزو انسانی نے غلبہ کیا اس نے مسیح کے ابن اللہ ہونے اور تین مختلف خدائوں میں سے ایک ہونے پر زور دیا اور جس کے ذہن پر جزو الوہیت کا اثر زیادہ غالب ہوا اس نے مسیح کو اللہ تعالیٰ کا جسمانی ظہور قرار دے کر عین اللہ بنا دیا اور اللہ ہونے ہی کی حیثیت سے مسیح کی عبادت کی ۔ ان کے درمیان بیچ کی راہ جنہوں نے نکالنی چاہی انہوں نے سارا زور ایسی لفظی تعبیریں فراہم کرنے پر صرف کردیا جن سے مسیح کو انسان بھی کہا جاتا رہے اور اس کے ساتھ خدا بھی سمجھا جاسکے ، یہ کیوں ؟ اس لئے کہ کوئی قوم جب من حیث القوم ایک عقیدہ اختیار کرلیتی ہے پھر اس کے خلاف کرنے والے اس قوم میں شمار نہیں کیے جاسکتے اور قوم سے اخراج آخر کون پسند کرسکتا ہے ؟ اس لئے انہوں نے ساری کوشش اس میں صرف کردی کہ خدا اور مسیح الگ الگ بھی ہوں اور پھر ایک بھی رہیں۔ اس طرح آج ہم بھی کہیں ۔ پنج تن کو کہیں بارہ کو کہیں چارکو ، جو جس کو مان لیتا ہے او اس کی کوشش میں مصروف ہے کہ ان کی شخصیتیں الگ الگ بھی رہیں اور نام بھی الگ الگ ہی چلتے رہیں اور پھر یہ سب ایک بھی ہوں خواہ ” مع اللہ “ ہو کر رہیں یا کوئی دوسرا طریقہ ہو جس کی کوئی تعبیر نکل آئے اور کہیں ” علی “ کو ” اللہ “ کہہ کر بھی تسکین حاصل کرتے ہیں اور ” احد “ کو ” احمد “ مان کر بھی دل کے ارمان نکالتے ہیں البتہ وہ عیسائی اور ہم مسلمان ہیں۔ پھر عیسائیوں کے متعلق قرآن کریم میں موجود ہے کہ : ” یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہے ۔ اے پیغمبر اسلام ! ان سے کہو کہ اگر اللہ مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں کو اور تمام زمین والوں کو ہلاک کردینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اس کو اس کے ارادے سے باز رکھ سکے ؟ اللہ زمین اور آسمانوں کا اور ان سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمانوں کے درمیان پائی جاتی ہیں۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت ہرچیز پر حاوی ہے۔ “ (المائدہ 5:17) اور ہم مسلمان اب اس بات سے بےنیاز ہیں کہ کہیں ہمیں مخاطب کر کے اللہ ایسی بات نہ کہہ دے جیسی اس نے عیسایئوں کو کہی اس لئے کہ اب نہ بانس موجود ہے نہ بانسری بجے گی ۔ اس لئے ہماری راہیں کشادہ ہیں کہ جس جس کو چاہیں خدا بنائیں۔ دین و اسلام میں کوئی خلل نہیں آسکتا۔ یہ پیچھے بڑی وضاحت سے بیان کیا جاچکا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کی لڑکیاں بنائیں ان کے وہم نے ان کو ایسا کیوں مجبور کیا ؟ اور وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے انہوں نے ایسا کیا اور وہی صورت جو ان کو درپیش تھی آج ہم کو بھی درپیش ہے تھ پھر آخر ہم ایسا کیوں نہ کریں جو وہ کرچکے ؟ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اللہ کی اولاد قرار دینے والوں سے یہ استفسار بھی کیا ہے تم نے جو اللہ کی اولاد ٹھہرائی ہے تو اس کے لئے آخر تمہارے پاس دلیل کیا ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : بدیع السموات اوالا رض انی یکون لہ ولد ولم تکن لہ صاحبہ و خلق کل شیء وھو بکل شی علیم۔ (الانعام 6:101) ” وہ تو آسمانوں اور زمین کی موجد ہے۔ اس کی کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جب کہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں اس نے ہرچیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔ اور اس سے کون پوچھے کہ اللہ میاں تو نے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا کیا تھا اور اس طرح اگر تو نے بغیر بیوی کے اولاد پیدا کرلی ہے تو آخر اس پر تعجب کی بات کیا ہے ؟ لیکن اس نے بغیر پوچھے ہی جواب دے دیا کہ میں نے تو مخلوق کے لئے ایک ضابطہ مقرر کردیا ہے اور ہرچیز اس میرے ضابطے کے مطابق بیان ہوتی چلی جارہی ہے اور میں جانتا ہوں کہ میں نے تو اپنے ضابطہ کے خلاف نہ کرنے کا عہد باندھا ہوا ہے اور وہ بھی اپنی ذاتی مرضی سے اس لئے میں نے تو اس کا خلاف نہیں کیا آخر انہوں نے اولاد کہاں سے نکال لی ؟ اور کیسے نکال لی ؟ اس لئے علمائے اسلام نے سارا زور لگایا کہ جبرئیل کو درمیان میں رکھ کر ضابطہ کی خانہ پری کی اور اس کی بمنزلہ والد ٹھہرایا اور چونکہ وہ انسان نہیں تھا اس لئے مسیح (علیہ السلام) کو ” بےپدر “ بھی تسلیم کیا اور یہ ہمارا من حیث القوم ایک مقبولہ عقیدہ ہے اس لئے اس کا خلاف کہہ کر آخر قوم سے نکلنا کون برداشت کرسکتا ہے۔ اور من حیث القوم عیسائیوں کی مذہبی تہذیب پرانی تھی اور ہماری نئی ہے۔ نئی تہذیب سے دقت زیادہ تو نہیں ہوتی مذاہب رہتے ہیں قائم ” لفظ “ ایمان جاتا ہے ہاں ! قوم کے سامنے ہاتھ جو ڑکر یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ حاش اللہ ! قرآن کے نزول کے وقت دین داری اور خدا پرستی کے جس قدر عام تصورات موجود تھے وہ نہ صرف عقل کی آمیزش سے خالی تھے بلکہ اس کی تمام تر بنیاد غیر عقلی عقائد پر آکر ٹھہر گئی تھی لیکن قرآن کریم نے اس گمراہی کو مٹایا اور اس نے خدا پرستی کے لئے عقلی تصور پیدا کیا۔ اس کی تما م تر بنیاد تعقل و تفکر پر ہے او وہ خصوصیات کے ساتھ کائنات خلقت کا مطالعہ و تفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات خلقت کے مطالعہ و تفکر سے انسان پر تخلیق بالحق کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے یعنی وہ دیکھتا ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی کوئی چیز نہیں جو کسی ٹھہرائے ہوئے مقصد اور مصلحت سے خالی ہو اور کسی بالاتر قانون خلقت کے ماتحت ظہور میں نہ آئی ہو یہاں جو چیز بھی اپنا وجود رکھتی ہے ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ حکمتوں اور مصلحتون کے عالمگیر سلسلہ میں بندھی ہوئی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب انسان ان مقاصد و مصالح پر غور کرے گا تو عرفان حقیقت کی راہ خودبخود اس پر کھل جائے گی اور جہل و کو ری کی گمراہی سے نجات پاجائے گا ۔ آئیے اس سلسلہ میں قرآن کریم ہی سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا ارشاد فرماتا ہے۔ ” اللہ نے آسمانوں اور زمین کو ایک خاص حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا اور بلا شبہ اس بات میں ارباب ایمان کے لئے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے محض کھیل اور تماشا کرتے ہوئے نہیں پیدا کیا ہے ہم نے انہیں پیدا کیا مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو اس حقیقت کا علم نہیں رکھتے۔ “ ( الدخان 44:38 ، 39) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے محض بیکار و عبث نہیں بنایا ہے ضروری ہے کہ حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہوا اور اس کے لئے ایک مقرر وقت ٹھہرا دیا ہو۔ اصل یہ ہے کہ انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے رب کی ملاقات سے یک قلم منکر ہیں۔ (الروم 30:8) فرمایا کہ وہ پاک ہے اس سے کہ اس کی کوئی اولاد ہو ، اس لئے کہ اولاد کا کوئی تصور اس کے بغیر نہیں کی جاسکتا کہ نر و مادہ میں اتصال ہو اور کوئی مادہ باپ اور ماں کے جسم نکل کر بچے کی شکل اختیار کرلے ۔ پس اللہ کے لئے اولاد فرض کرنے سے لازم آتا ہے کہ معاذاللہ وہ ایک مادی اور جسمانی وجود ہو اس کی ہم جنس کوئی اس کی بیوی ہو اور اس کے جسم سے کوئی مادہ بھی خار ج ہو۔ توالدو تناسل کا سلسلہ جہاں بھی ہے اس کی علت یہ ہے کہ افراد فانی ہوتے ہیں اور ان کی جنس کے باقی رہنے کے لئے ناگزیر ہوتا ہے کہ ان سے اولاد پیدا ہو جس سے ان کی نسل آگے چلے۔ پس اللہ کیلئے اولاد فرض کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ بذات خود معاذاللہ فانی ہو اور باقی رہنے والی چیز خدائوں کی نسل ہو نہ کہ ذات خدا نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ تمام فانی افراد کی طرح نعوذباللہ خدا کی بھی کوئی ابتداء اور انتہاء ہو کیونکہ توالد و تناسل پر جن اجناس کی بقاء کا انحصار ہوتا ہے ان کے افراد نہ ازلی ہوتے ہیں نہ ابدی۔ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اس اللہ ہی کا ہے ، اس کا کار ساز ہونابس کرتا ہے۔ 271: ایک سادہ سی بات ہے جس کو ایک بدوی ، ایک دیہاتی اور میرے جیسا ایک موٹی سمجھ کا آدمی بھی با آسانی سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ معمولی گھر کا نظام بھی چار دن بخیریت نہیں چل سکتا اگر اس کے دو صاحب خانہ ہوں اور گہری بات یہ ہے کہ کائنات کا پورنظام زمین کی تہوں سے لے کر بعید ترین سیاروں تک ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے۔ یہ ایک لمحہ کیلئے بھی قائم نہیں رہ سکتا اگر اس کی بیشمار مختلف قوتوں اور بیحد و حساب چیزوں کے درمیان تناسب اور توازن اور ہم آہنگی اور تعاون نہ ہو اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ کوئی اٹل اور غالب و قاہر ضابطہ ان بیشمار اشیاء اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرنے رہنے پر مجبور کررہا ہے ۔ اب یہ کس طرح تصور کیا جاسکتا ہے کہ بہت سے مطلق العنان فرمانبروائوں کی حکومت میں ایک ضابطہ اس باقاعدگی کے ساتھ چل سکے ؟ نظم کا وجود خود ہی ناظم کی وحدت کو مستلزم ہے۔ قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری آپ ہی اس بات کی شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے اور یہ استدلال عقلی ہے۔ جو شخص خدا کا منکر نہ ہو اور حماقت کی اس حد تک نہ پہنچ گیا ہو کہ اس منظم کائنات اور اس کے اندر انسان کی پیدائش کو محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دینے لگے اس کے لئے یہ مانے بغیر چارہ نہیں ہے کہ خدا نے ہمیں اور اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اب یہ امر واقعہ ہے کہ ہم اس دنیا میں زندہ موجود ہیں اور زمین و آسمان کا یہ سارا کارخانہ ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے آپ ہی اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ خدا ہمیں اور اس کائنات کو پیدا کرنے سے عاجز نہ تھا اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے یہ سب کچھ بنا کر ٹھیکہ پر دے دیا ہے تو وہ سمجھتا رہے کیا اس کے سمجھنے سے حقیقت بدل جائے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اکیلا ہی اس سارے نظام کا محافظ و نگہبان ہے اور اس کی کارسازی سے یہ سب کچھ چل رہا ہے اس کے سوا کوئی نہیں جو اس نظام کا چلانے والا ہو ہاں ! چلانے والا ہی یہ بھی جانتا ہے کہ اس کو کب تک چلائے رکھنا منظور ہے وہ خود دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے کہ ” کیا ہم اس کی پہلی تخلیق سے تھک چکے ہیں یا عاجز آگئے ہیں “ نہیں نہیں جب تک اس کا چلانا چاہیں گے چلائیں گے اور جب چاہیں گے اس کو توڑ پھوڑ کر نیا نظام قائم کردیں گے۔
Top