Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 18
وَ لَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ١ۚ حَتّٰۤى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ وَ لَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ هُمْ كُفَّارٌ١ؕ اُولٰٓئِكَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا
وَلَيْسَتِ : اور نہیں التَّوْبَةُ : توبہ لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے (انکی) يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں السَّيِّاٰتِ : برائیاں حَتّٰى : یہاں تک اِذَا : جب حَضَرَ : سامنے آجائے اَحَدَھُمُ : ان میں سے کسی کو الْمَوْتُ : موت قَالَ : کہے اِنِّىْ : کہ میں تُبْتُ : توبہ کرتا ہوں الْئٰنَ : اب وَلَا : اور نہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَمُوْتُوْنَ : مرجاتے ہیں وَھُمْ : اور وہ كُفَّارٌ : کافر اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک
لیکن ان لوگوں کی توبہ توبہ نہیں ہے ، جو برائیاں کرتے رہے لیکن جب ان میں سے کسی کے آگے موت آ کھڑی ہوئی تو کہنے لگا اب تو میں توبہ کرتا ہوں ، اسی طرح ان لوگوں کی توبہ بھی توبہ نہیں ہے جو دنیا سے کفر کی حالت میں جاتے ہیں ، ان تمام لوگوں کیلئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے
موت کو سامنے کھڑا دیکھ کر توبہ توبہ کرنے والوں کی کوئی توبہ نہیں ہے : 46: یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل جہنم ہونے تک بلکہ اس کے بعد بھی بار بار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیا جائے۔ اب ہماری توبہ ہے۔ اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے۔ اب ہم سیدھی راہ چلیں گے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہوتا ہے کہ : ” کاش ! تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔ درحقیقت یہ بات وہ محض اس لیے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اس وقت بےنقاب ہو کر ان کے سامنے آ چکی ہوگی۔ ورنہ ان کو سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا بھی جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے وہ تو ہیں ہی جھوٹے اس لیے اپنی اس خواہش کے اظہار میں بھی جھوٹ ہی سے کام لے رہے ہیں۔ “ (الانعام : 28 ۔ 27:6) ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : ” جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا میں نے مان لیا کہ خداوند حقیقی اس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ اس کو جواب دیا گیا کہ اب تو ایمان لاتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فساد بپا کرنے والوں میں سے تھا۔ “ (یونس : 91 ۔ 90:10) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” جو رزق ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے رضائے الٰہی کے لیے بھی خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اس وقت وہ کہے گا کہ اے میرے رب ! کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا۔ حالانکہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اس کو ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔ “ (المنافقون : 11:63) پھر ارشاد الٰہی ہوا کہ ” اس طرح ان لوگوں کی توبہ بھی قبول نہیں ہے جو دنیا سے کفر کی حالت میں جاتے ہیں ، ان تمام لوگوں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “ آیت کے اس حصہ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ توبہ اور ایمان اس وقت تک نافع اور فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں جب تک آدمی اللہ کے عذاب یا موت کی گرفت میں نہ آجائے۔ عذاب الٰہی کی پکڑ شروع ہوجائے یا موت کے آثار شروع ہوجانے کے بعد ایمان لانا یا توبہ کرنا اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان لانا ان کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو سکتا تھا کیونکہ یہی اللہ کا مقرر کردہ ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہا ہے اور اس وقت کافر لوگ خسارے میں پڑگئے۔ “ (ال مومن : 85:40) ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : ” کاش ! تم انہیں اس وقت دیکھو جب یہ لوگ گھبرائے پھر رہے ہوں گے اور کہیں بچ کر نہ جاسکیں گے بلکہ قریب ہی سے پکڑ لیے جائیں گے۔ اس وقت یہ کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لے آئے حالانکہ اب دور نکلی ہوئی چیز کہاں ہاتھ آسکتی ہے۔ اس سے پہلے یہ کفر کرچکے تھے اور بلاتحقیق دور دور کی کوڑیاں لایا کرتے تھے۔ “ (سباء : 53:34) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز ہر مجرم اس طرح پکڑا جائے گا کہ گویا پکڑنے والا قریب ہی کہیں چھپا کھڑا تھا ، ذرا اس نے بھاگنے کی کوشش کی تو بس فوراً ہی دھر لیا گیا۔ ایسا کیوں ہوگا ؟ فرمایا : اس لیے کہ ایمان لانے کی جگہ تو دنیا تھی اور وہاں سے اب یہ بہت دور نکل آئے ہیں۔ عالم آخرت میں پہنچ جانے کے بعد اب توبہ کا یا ایمان لانے کا مقام کہاں مل سکتا ہے۔ حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جو رسول اور تعلیمات رسول ﷺ کی طرف بلائے جاتے تھے تو ان کے چہرے بل کھا جاتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول اور قرآن کریم کی تعلیمات پر طرح طرح کے الزامات لگاتے تھے ، آوازے کستے تھے اور فقرے چست کرتے تھے۔ کبھی کہتے یہ شخص ساحر ہے ، کبھی کہتے مجنون ہے ، کبھی توحید کا مذاق اڑاتے اور کبھی آخرت کے تخیل پر باتیں چھانٹتے۔ کبھی یہ افسانہ تراشتے کہ رسول کو کوئی اور سکھاتا پڑھاتا ہے اور کبھی ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے کہ یہ محض اپنی نادانی کی وجہ سے رسول کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : ” جس روز تمہارے رب کی بعض نشانیاں نمودار ہوجائیں گی پھر کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان کچھ فائدہ نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی ہو۔ اے پیغمبر اسلام ! ان سے کہہ دو کہ اچھا تم انتظار کرو ، ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ “ (الانعام : 158:6) یعنی آثار قیامت صغریٰ جس کو موت کہتے ہیں یا عذاب کی کوئی اور ایسی نشانی جو حقیقت کی بالکل پردہ کشائی کردینے والی ہو اور جس کے ظاہر ہوجانے کے بعد امتحان اور آزمائش کا کوئی سوال ہی باقی نہ رہے اس وقت اگر کوئی کافر اپنے کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آئے تو اس کا ایمان لانا بےمعنی ہے اور اگر کوئی نافرمان مومن اپنی نافرمانی کی روش چھوڑ کر اطاعت کیش بن جائے تو اس کی اطاعت بھی ویسے ہی بےمعنی ہے اور اگر کوئی نافرمان مومن اپنی نافرمانی کی روش چھوڑ کر اطاعت کیش بن جائے تو اس کی اطاعت بھی ویسے ہی بےمعنی ہے اس لے کہ ایمان اور اطاعت کی قدر تو اس وقت تک ہے جب تک حقیقت پردے میں ہے مہلت کی رسی دراز نظر آرہی ہے اور دنیا اپنی ساری متاع غرور کے ساتھ یہ دھوکا دینے کے لیے موجود ہے کہ کیسا خدا اور کہاں کی آخرت ، بس کھاؤ پیو اور مزے لوٹو۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھو عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ آیت 162 ، 217 ۔ جلد دوم تفسیر سورة آل عمران آیت 191 ۔
Top