Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُبَيِّنَ : تاکہ بیان کردے لَكُمْ : تمہارے لیے وَيَهْدِيَكُمْ : اور تمہیں ہدایت دے سُنَنَ : طریقے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَيَتُوْبَ : اور توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان لوگوں کی راہ کھول دے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور انہیں کے طریقہ پر تمہیں بھی چلائے نیز تم پر لوٹ آئے اور اللہ جاننے والا اور حکمت رکھنے والا ہے
اللہ کا چاہنا وہی ہے جو اس نے قانون بنا کر اس کا اعلان کردیا ہے : 63: اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا اور اپنی پوری مخلوق سے ان کو اشرف و اعلیٰ بنایا۔ چونکہ تخلیق انسانی میں شر اور خیر دونوں چیزوں کو اکٹھا کردیا اور اس شاہکار کا یہی کمال ہے کہ یہ مجموعہ اضداد ہے اور اس وجہ سے یہ کمالف بھی ہے کہ جب متضاد قوتوں کا مجموعہ ہے تو ان قوتوں پر اس نے اس کو اختیار بھی مرحمت فرمایا ہے اس اختیار کی وجہ سے وہ ثواب و عذاب کا مستحق ہے۔ پھر اللہ نے اس کو دونوں طاقتوں اور قوتوں سے کام لینے کی مجھے بھی عطا فرمائی۔ اس کی راہنمائی کے لئے انسانوں کو رسول بنا کر بھیجا فرمایا یہ سب کچھ کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ اللہ کا ارادہ یہ ہوا کہ انسان راہ راست پر چل کر دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرے اور انہی کامیابیوں کی وجہ سے اس کو نیابت الٰہی نصیب ہو۔ لیکن قانون الٰہی یہ ہے کہ جو شخص جیسا عمل کرے ویسے ہی اس کا نتیجہ بھی اس کو ملے۔ اللہ کا ارادہ تو یہی ہے کہ انسان سیدھی راہ اختیار کرے اور اس نے سیدھی رالہ چلنے والوں کے لئے اپنا قانون بھی نافذ کر رکھا ہے لیکن اگر انسان اپنے اس ارادہ سے جو اللہ نے اس کو اختیار کی صورت میں دے دیا ہے اللہ کے ارادہ یعنی چاہت کے خلاف چل نکلے تو پھر وہ اس کے قانون کی خلافت کے باعث اس نتیجہ سے یقینا دو چار ہوگا۔ گویا اس طرح اللہ کے چاہنے کے خلاف جو اس نے کیا تو اس لئے نہیں کہ وہ اس کے قانون کی گرفت سے بچ گیا ہرگز نہیں بلکہ اس طرح وہ اس کے قانون کی گرفت میں آگیا کہ اس نے رضائے الٰہی کے خلاف عمل کیا اور رضائے الٰہی کے خلاف عمل کرنے والوں کے لئے جو قانون الٰہی میں سزا ہے وہ اس کا مستحق قرار پایا اور اس طرح وہ اس شکنجے میں خود پھنس گیا اور یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آئی کہ رضائے الٰہی کے خلاف کر کے میں نے نقصان کس کا کیا ؟ فرمایا حقیقت حال اس طرح ہے کہ کچھ لوگ نرے اپنی خواہشات کے بندے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح ہوجاؤ ۔ یہ لوگ کون ہیں ؟ وہی اتنے جھوٹے کہ ہر بد اعتدالی کی راہ کے متلاشی ہیں اور حدود اللہ کی مطلق پرواہ نہیں کرتے۔ اس لئے نہیں کہ وہ اللہ سے زیادہ زور آور ہوگئے ہیں بلکہ اس لئے کہ اللہ نے ان کو اختیار دے کر اس کے استعمال کرنے کا ایک وقت بھی متعین فرما دیا ہے وہ ان سے چھیننا نہیں چاہتا کیونکہ ان کو یہ اختیار دے کر اس کے استعمال کرنے کا ایک وقت بھی متعین فرما دیا ہے لہٰذا اس وقت معین تک ان کا پہنچنا قانون الٰہی میں طے ہے اور جب وہ وقت آجائے گا اس سے آگے وہ ایک پل بھی نکل نہیں سکیں گے اور اس طرح وہ اپنے کئے کی جو ابد ہی کے لئے حاضر کر لئے جائیں گے۔ اس طرح تم کو سمجھایا جا رہا ہے۔ کہ تم خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کرلو کہ راہ اعتدال سے ہٹ جانا مفید مقصد ہے یا راہ اعتدال پر قائم رہنا۔ ہاں ! یہ بات مزید سمجھ لینی چاہیے کہ ” ارادہ “ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ایک قطعی فیصلہ کے معنی میں اور ایک ” چاہنے “ کے معنی میں۔ اللہ تعالیٰ کے جو قطعی فیصلے ہیں ان پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور مججرد چاہنے کے معنوں پر اس کا اطلاق موجود ہے۔ قطعی فیصلے تو ان ٹل اور ان مٹ ہوتے ہیں جیسے ہماری زبان میں کہتے ہیں پتھر پر لکیر اور مجرد چاہنے کی تشریح میں فرمایا گیا کہ اللہ نے اپنے علم و حکمت سے تمہیں اس مقصد کے لئے منتخب کیا ہے کہ تمہارے لئے اپنی آیتیں اورا پنے احکام و ہدایات واضح فرمائے اور انباکء و صلحا امت کے ذریعے سے ایمان و عمل صالح کو جو راہیں دنیا کے لئے کھولی گئی تھی۔ اور جو اب تم کردی گئی ہیں ان کی تمہیں از سر نو ہدایت بخشے تاکہ اللہ کی طرف رجوع کرو اور اللہ تم پر رحمت کی نظر فرمائے۔ اس بات کو بھی ایک فیصلہ الٰہی کی حیثیت سے ظاہر فرمایا۔ اس طرح اس کو بیان کرنے کا مقصد ایک تو مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہے اور دوسرے اسلام کے معاندین و مخالفین کی ہمت شکنی جو ان معاشرتی اصلاحات کی وجہ سے جو اس سورة مبارکہ میں مذکورہ ہوئی ہیں جھاڑ کے کانٹوں کی طرح مسلمانوں کے پیچھے پڑگئے تے۔ اور ان معاشرتی اصلاحات کو عام طور پر مفاد پرست طبقہ ٹھنڈے پیٹ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ اس وجہ سے سارے یہود و عیسائی اور مشرکین سب مل کر ان اصلاحات سے آگ بگولا ہوگئے کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ اس طرح ان کی زد ان کی بےلگام آزادیوں اور بےقید شہوت پرستیوں پر پڑ رہی تھی۔ وہ اس ارادے کے ساتھ کھڑے ہوئے کہ ان تمام اصلاحات کا ناکام کر کے خلق خدا کو پھر اس تاریکی کے گڑھے میں دھکیل دیں جس سے نجات دینے کے لئے اسلام نے یہ روشنی دکھائی تھی۔ اس طرح جن لوگوں نے اپنے اوپر اپنی خود ساختہ شریعتوں اور خانہ ساز رسموں اور رواجوں کے بوجھ لاد رکھے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ یہ بوجھ لوگوں کے سر سے اتر رہا ہے اور اصرار و اغلال کی غیر فطری بیڑیاں کٹ رہی ہیں تو چیخنے لگے کہ دیکھو اسلاف کا سارا سرمایہ معرض خطر میں ہے اور چاروں طرف سے ماو مارو کی صدائیں بلند ہونی شروع ہوگئیں اور قرآن کریم نے ان سب کا جواب دو ٹوک الفاظ میں دے دیا اور مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔
Top