Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
جن بڑی بڑی برائیوں سے تمہیں روک دیا گیا ہے اگر تم ان سے بچتے رہو گے تو ہم تمہاری لغزشوں اور غلطیوں کے اثرات تم سے محو کردیں گے اور تمہیں ایک ایسے مقام پر پہنچا دیں گے جو عزت اور خوبی کا مقام ہو گا
کبائر سے بچنے والوں کے صغائر کی معافی کا اعلان عام : 67: کبائر کبیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں بڑا۔ اس جگہ کبائر سے مراد وہ گناہ ہیں جن کی عقوبت بڑی ہو۔ جس طرح نیکیاں بڑی اور چھوٹی ہوتی ہیں بالکل اسی طرح برائیاں بھی چھوٹی اور بڑی ہوتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نیکیوں اور برائیوں کی بڑائی اور چھٹائی کے ناپنے کے لئے کوئی پیمانہ ہے تو وہ صرف اور صرف ان نتائج و اثرات ہیں اس لئے ان کے سمجھنے کے لئے عقل کی راہنمائی کافی ہے۔ وہ خود فیصلہ کرتی جاتی ہے کہ یہ گناہ کتنا بڑا گناہ اور یہ نیکی کتنی بڑی نیکی ہے۔ پھر حالات اور واقعات کے مطابق نیکی اور برائی کا معیار کم اور زیادہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ لیکن اکثر اس یا بی ہتا ہے کہ اپنی ذرا سی نیکی بھی بہت بڑی لگیتی ہے اور دوسرے کی بڑی نیکی بھی معمولی نظر آتی ہے اور اس طرح اپنی بڑی سے بڑی برائی کو بھی ہلکا سمجھا جاتا ہے اور دوسرے کی معمولی برائی کو بھی بڑا خیال کیا جاتا ہے کبھی خواہشات کا ایسا غلبہ ہوتا ہے کہ پر بت رائی بن جاتا ہے اور رائی کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے متعلق التباس پیش آسکتا ہے۔ ایسی چیزوں کے متعلق تقویٰ کی راہ تو یہی ہے کہ آدمی احتیاط کے پہلو کو اختیار کرے تا ہم بشری کمزوری سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو دل کی ملامت یقینا اس کو صاف کردیتی ہے۔ تاہم احادیث میں کبائر کی نشاندہی بھی فرمائی گئی ہے تاکہ عام لوگوں پر یہ بات واضح ہوجائے مثلا صحیح بخاری اور مسلم میں حدیث سہے جس میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ سات ہلاک کرنے والی باتوں سے بچو اور پھر ان کی تفصیل بھی آپ ﷺ نے ارشاد فرمائی اور ان کے اس طرح نام لئے کہ فرمایا شرک ہے ، سحر ہے ، قتل ناحق ہے ، یتیم کا مال کھانا ہے۔ سود کھانا ہے جنگ کے دن پیٹھ دے کر بھاگنا ہے اور پاکدامن مومنہ عورتوں پر الزام لگانا ہے اور ایک حدیث میں ہجرت کے بعد یہ بادیہ نشینی کی طرف لوٹ جانا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح کسی جگہ والدین کی نافرمانی کو شمار کیا ہے اور کبھی ان کی ترتیب کو کسی طرح بیان کیا ہے کہیں کسی طرح اور اس طرح ان کی اہمیت کے پیش نظر کسی جگہ کسی بات کو اولیت دی گئی ہے اور کسی جگہ کسی بات کو۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ شراب کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اکبر الکبائر ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی کبائر میں سے ہے کہ کوئی انسان اپنی ماں کو گالی دے اور پھر اس کی کیفیت اس طرح بیان فرمائی کہ کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ اس کے ماں باپ کو گالی دے گا تو اس طرح گویا جس نے پہلے گالی دی اس نے اپنی ہی ماں کو گالی دی (صحیح بخاری) ایک حدیث میں ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور قتل کرنا کفر ہے اور یہ بھی کبائر میں داخل ہیں۔ (صحیح بخاری) ترک صلوٰۃ کو بھی کفر فرمایا گیا جو کبائر میں داخل ہے اور ایک حدیث میں رحمت سے مایوس ہونے کو اکبر الکبائر میں بیان فرمایا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ چھوٹے گناہ اور بڑے گناہ میں کوئی اصولی فرق ظاہر کیا جائے کہ وہ کیا ہے ؟ قرآن و سنت پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تین چیزیں ہیں جو کسی گناہ کو بھی بڑا گناہ بنا دیتی ہیں اگرچہ عام دیکھنے میں وہ بڑا گناہ نظر نہ آتا ہ۔ 1: اللہ تعالیٰ سے بےخوفی اور اس کے مقابلہ میں استکبار جس کی بناء پر آدمی اللہ کے امرو نہی کی پروا نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے قصداً وہ کام کرے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور جان بوجھ کر ان کاموں کو نہ کرے جن کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے۔ یہ نافرمانی جس قدر زیادہ ڈھٹائی اور جسارت اور نا خدا ترسی کی کیفیت اپنے اندر لئے ہوئے ہوگی اس قدر گناہ بھی شدید ہوگا۔ معنی کے لحاظ سے گناہ کے لئے ” فسق “ اور معصیت “ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ 2: کسی کی حق تلفی خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہو کہ اس کا حق تلف کیا جائے یا والدین ہوں یا دوسرے انسان حتیٰ کہ اپنا نفس بھی ۔ پھر جس کا حق جتنا زیادہ ہے اس قر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہوگا۔ اس بناء پر گناہ کو ” ظلم “ بھی کہا جاتا ہے۔ اور اس بناء پر شرک کو قرآن کریم نے ظلم عظیم قرار دیا ہے۔ 3: ان روابط کا توڑنا اور ان تعلقات کو بگاڑنا جن کے ملانے کا اور جن کی درستی و استحکام کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے خواہ وہ روابط بندے اور اللہ کے درمیان ہوٓں یا بندے اور بندے کے درمیان پھر جو رابطہ جتنا زیادہ اہم ہے اور جس کے کٹنے سے امن کو جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور جس کے معاملہ میں مامونیت کی جتنی زیادہ توقع کی جاتی ہے اس قدر اس کو توڑنے اور کاٹنے اور خراب کرنا ے کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ مثلاً زنا اور اس کے مختلف مدارج پر غور کیجئے یہ فعل فی نفسہ نظام تمدن کو خراب کرنے والا ہے اس لیے بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے لیکن اس کی مختلف صورتیں ایک دوسرے سے گناہ میں شدید تر ہیں۔ شادی شدہ کا زنا بن بیا ہے کی نسبت زیادہ سخت گناہ ہے۔ منکوحہ عورت سے زنا کرنا غیر منکوحہ سے کرنے کی بہ نسبت قبیح تر ہے۔ ہمسایہ کے گھر میں اس فعل کا ارتکاف غیر ہمسایہ سے زیادہ برا ہے۔ محرمات میں سے اس کا صدور غیر محرمات سے بہت ہی زیادہ قبیح و شفیع ہے۔ کسی پاکیزہ جگہ میں ایسا فعل ناپاک جگہ کی نسبت زیادہ سخت گناہ ہے۔ گویا ایک ہی گناہ اپنی نوعیت کی وجہ سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہر قسم کے رذائل اپنی نوعیت کے اعتبار سے کبائر میں داخل ہوجاتے ہیں اور اگر ان کا شمار کیا جائے تو بہت ہی زیادہ ہیں شاید ان کا شمار کرنا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے تاہم ان میں سے بعض کا ذکر کردیتا مناسب معلوم ہوتا ہے چناچہ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ جھوٹ ، جھوٹی قسمیں کھانا ، غیر اللہ کی قسمیں کھانا ، وعدہ خالفی کرنا ، فطری وعدوں کا خیال نہ رکھان ، خیانت اور بددیانتی ، غداری اور دغا بازی ، بہتان ، چغل خوری ، غیبت اور بدگوئی ، دورکاپن ، بدگمانی ، مداحی اور خوشامد ، بغل ، حرص و طمع ، بےایمانی ، چوری ، ڈاکہ زنی ، ناپ تول میں کمی بیشی یعنی دینے وقت کم دینا اور لینے وقت زیادہ لینا ، رشوت ، سود ، خورم شراب خوری ، جوا باشی ، اغلام بازی ، ناحق غیظ و غضب ، بغض و کینہ اور ہر طرح کا ظلم ، فخر و غرور اور تکبر ، ریا ، خود بینی اور خود نمائی ، بعض حالات میں فضول خرچی اور فحش گوئی ، یہ سب گناہ ایک سے ایک بڑھ کر ہیں اور بعفض شرائط کے تحت یہ سارے ہی کبائر کی فہرست میں داخل ہیں۔ قرآن کریم میں بہت سی چیزوں کو کبائر میں شمار کیا گا ہے اور پھر ان سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اور ان کے قائل کو سخت وعید سنائی گئی ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے۔ ” اور زمین کی ہرچیز کا مالک اللہ ہی ہے۔ تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور ان لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا ہے ، جو بڑے بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں۔ الا یہ کہ کوئی قصور ان سے سرزد ہوجائے بلاشبہ تیرے رب کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے۔ “ (النجم : 32:53) اور ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آجائے تو در گزر کرتے ہیں۔ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں۔ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ، ہم نے جو رزق ان کو دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ “ (الشوری :38:42)
Top