Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 32
وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْا١ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ١ؕ وَ سْئَلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا
وَلَا : اور نہ تَتَمَنَّوْا : آرزو کرو مَا فَضَّلَ : جو بڑائی دی اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو اكْتَسَبُوْا : انہوں نے کمایا (اعمال) وَلِلنِّسَآءِ : اور عورتوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو اكْتَسَبْنَ : انہوں نے کمایا (ان کے عمل) وَسْئَلُوا : اور سوال کرو (مانگو) اللّٰهَ : اللہ مِنْ فَضْلِهٖ : اس کے فضل سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز عَلِيْمًا : جاننے والا
اور اللہ نے تم میں سے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے مقابلہ میں جو کچھ دے رکھا ہے اس کی تمنا نہ کرو ، مردوں نے اپنے عمل میں سے جو کچھ حاصل کیا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور عورتوں نے اپنے عمل سے جو کچھ حاصل کیا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور اللہ سے اس کی بخشش کے طلبگار رہو یقینا وہ ہر بات کا علم رکھنے والا ہے
اللہ تعالیٰ نے تم کو جو فضیلت ایک دوسرے پر دی ہے اس کا خیال رکھو اور تجاویز نہ کرو : 68: قرآن کریم کے نزول سے پہلے دنیا کا عالمگیر اعتقاد یہ تھا کہ وجود اندانی کا کامل ظہور صرف مردوں ہی کی جنس میں ہوا ہے۔ عورتوں کی ہستی کوئی مستقل ہستی نہیں رکھتی بلکہ مردوں کا ایک کھلونا ہے۔ وہ صرف اس لئے بنائی گئی ہیں۔ کہ مردوں کی خرمستیوں کا ازالہ کریں اور ان کی کام جو ئیوں کا ذریعہ ہوں بلکہ ان کی چاکری اور پرستای میں فنا ہوجائیں۔ قرآن کریم تاریخ عالم کی سب سے پرانی آواز ہے جو اس اعتقاد کے خلاف بلند ہوئی۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ نے نوع انسانی کو مرد اور عورت کی ایک جنس کو دو صنفوں میں تقسیم کردیا ہے اور ان دونوں صنفوں کا مل کر ایک جنس ہوجانا شیرو شکر کی طرح اپنے اندر ایک تکیمل حیات رکھتا ہے۔ تاہم دونوں صنفیں یکساں طور پر اپنی اپنی ہستی اپنے اپنے فرائض اور اپنے اپنے اعمال رکھتی ہیں۔ کارخانہ معیشت کے لئے جس طرح ایک صنف کی ضرورت تھی ٹھیک اسی طرح دوسری صنف کی بھی ضرورت تھی۔ انسان کی معاشرتی زندگی کے لئے یہ دو مساوی عنصر ہیں جو اس لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک مکمل زندگی پیدا کردیں۔ دیکھو تم دونوں صنفیں ذرا غور کرو کہ تم دونوں مل کر ایک جنس ہو اس لئے جنس کے لحاظ سے تم کو ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ ہاں ! اصناف کے لحاظ سے تم دو اصناف میں منقسم ہو۔ ایک مرد ہے تو دوسری عورت تمہاری ڈیل ڈول اور جسمانی ساخت اور اعضاء و بند میں ایک خاص طرح کا فرق رکھ دیا گیا ہ۔ اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تمہارے بعض کو بعض پر فضیلت ہے۔ کسی فضیلت میں مرد زیادہ ہے اور کسی میں عورت زیادہ ہے۔ کوئی کمی مرد کے اندر ہے اور اس طرح کوئی کمی عورت کے اندر۔ لہٰذا تم فریقین کو یہ احتیاط لازم ہے کہ جو فضیلت عورت میں ہے اس کو حاصل کرنے کی مرد کوشش نہ کرے اور اس طرح جو کمزوری مرد میں ہے اس کمزوری کو مرد تسلیم کرے اور جو کمزوری عورت میں ہے اس کو عورت تسلیم کرے یہی راہ اعتدال کی راہ ہے اور پھر تم دونوں مل کر ایک ہوجاؤ اور اس طرح ایک ہو کر مرد کی کمزوری کا ازالہ عورت کرے اور عورت کی کمزوری کا ازالہ مرد کرے۔ مرد کی فضیلت کو عورت تسلیم کرے اور عورت کی فضیلت کو مرد تسلیم کرے اور اس طرح تم دونوں مثلثیں منطبق ہوجاؤ کہ تمہارا ہر زاویہ ایک دوسرے کے برابر ہو اور کوئی دیکھ نہ سکے کہ تمدو ہو اس طرح تم دونوں ایک ہوجاؤ ۔ اجسام دونوں کے دو ہوں لیکن انطباق دونوں کا ایک اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مرد مرد رہے گا اور عورت عورت ، پھر مرد کبھی عورت ہونے کی خواہش نہ کرے گا اور عورت کبھی مرد ہونے کی خواہش نہ کرے گی۔ مرد جتنی ترقی کرے گا صرف مرد ہونے ہی میں کرے گا عورت جس بلندی پر بھی پہنچے گی عورت رہتے ہوئے پہنچے گی۔ اس طرح ترقی میں کوئی چیز مانع نہ ہو گای بلکہ فریقین آزادی کے ساتھ ترقی کرسکیں گے لیکن اپنے اپنے دائرہ فطری میں رہتے ہوئے۔ آج فی زماننا جس ترقی کو لوگ ترقی کے نام سے پکارتے ہیں حاشا للہ وہ ترقی نہیں بلکہ فطرت سے انکار ہے اور پھر چونکہ فطرت سے انکار ممکن نہیں اس لئے اس بات سے انکار کرنا جس انکار کرنے کی کوئی صورت بھی موجود نہ ہو ایک طرح کی ضد ہے عناد ہے اور پھر ضد وعناد کا جو نتیجہ نکلنا لازمی و ضروری ہے آج ہم اس سے دو چاقر ہیں اور صرف آزادی آزادی کے بل بوتے جئے جا رہے ہیں اور آزادی کا جتنا شور کرتے ہیں اتنے ہی گلامی میں پھنستے جا رہے ہیں۔ عورت کیا ہے ؟ مزروعہ ، زمین اس کا کام کیا ہے ؟ بیج اگانا۔ مرد کیا ہے ؟ ایک دہقان۔ اس کا کام کیا ہے ؟ ہل چلانا اور بیج ڈالنا۔ واہ رے عورت ! اور واہ رے مرد ! تم دونوں تو نئی ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے تھے۔ تم نے تو کہا تھا کہ یہ ملا دقیانوسی پرانے خیالات کے ہیں جو مرد و عورت کو مساوی مساوی چلنے سے روکتے ہیں۔ یہ عورتوں کے حقوق نہیں دیتے۔ تم نے تو بڑے الزام لگائے تھے لیکن نتیجہ کیا رہا کہ تم نے سفر بھی بہت کیا ؟ جو چلنے لگے بس چلتے ہی گئے تم دونوں نے ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھا ، بانہوں میں بانہیں ڈالیں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دھکے کھائے ملازمیتیں کیں۔ اب ہی سوچ لو کہ تم نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟ آج تک تم دونوں نے ایک دوسرے کا کیا ہاتھ بٹایا کہ مرد کا کام چار گنا بڑھا تو عورت کا دس گناہ بڑھ گیا اور دونوں اصناف کو اپنے اپنے فطری کام بھی ویسے ہی کرنے پڑے۔ کتنی خواری ہوئی اور کتنا بوجھ بڑھا ؟ اللہ کا ارشاد ایک بار پھر نظروں میں رکھو فرمایا ” اور دیکھو اللہ نے تم میں سے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے مقابلہ میں جو کچھ دے رکھا ہے اس کی تمنا نہ کرو۔ “ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کرو ، خیر اس میں ہے۔ مینڈکی کو کھریاں لگوانے کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ “ مردوں کی کمائی مردوں کیلئے اور عورتوں کی عورتوں کیلئے یہ ایک اصولی بات ہے : 69: مردوں کی کمائی کا ایک دائرہ کار ہے اور اس طرح عورتوں کی کمائی کا بھی ایک دائرہ کار ہے۔ اپنے اپنے دائرہ فطری کے اندر رہ کر کسب عمل نہ برا ہے اور نہ ہی اس کی ممانعت ہے۔ ممانعت جو ہے وہ صرف اس کی ہے کہ عورتیں مردوں کے دائرہ کار میں رہ کر عمل کرنا چاہیں اور مرد عورتوں کے دائرہ کار کے اندر دخل اندازی سے باز نہ آئیں اور ظاہر ہے کہ اس طرح حدود سے تجاوز ہوگا اور حدود سے جب بھی تجاوز ہوگا سر کشی و طغیانی آئے گی جس کے نتائج بڑے ہی خطرناک ہوتے ہیں اور پھر اس طرح کا جب سیلاب آتا ہے تو اس میں سب کے سب برابر کے شریک سمجھے جاتے ہیں کیونکہ سیلاب کے سامنے جو بھی آیا وہ تباہ و برباد ہوا۔ اگر جان بچ بھی گئی تو نقصان کی کوئی کمی نہ رہی۔ عورتیں اس خیال سے دل گیر نہ ہوں کہ وہ مرد کیوں نہ ہوئیں ؟ اور مردوں کے کام ان کے حصے میں کیوں نہ آئے ؟ اور مرد بھی یہ خیال نہ کریں وہ مرد ہو کر عورتوں کے مالک ہوگئے اور عورتوں کو ان کی ملکیت سے اب کون نکال سکتا ہے۔ نہیں ایسی بات نہیں ہے بالکل دونوں فریقین کے لئیے اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے دائرہ فطری میں رہتے ہوئے عمل و فضیلت کی ساری راہیں کھلی ہیں۔ کسب و کمائی کا اطلاق دینا کے دھندوں پر بھی ہوتا ہے اور اخروری بھلائیوں اور نیکیوں پر بھی اور اس جگہ دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ جس طرح مردوں کو کمانے کا حق ہے عورتوں کو بھی ہے خواہ وہ کمائی دنیوی ہو یا اخروی لیکن دونوں کے دائرے اور حدود الگ الگ ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ کچھ عورتوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مرد تو ہم پر بہت سبق لے گئے کہ ان کو جہاد کا موقعہ ہے اور وہ بہت ثواب حاصل کرسکتے ہیں اور راہ الٰہی میں بڑے بڑے کام سر انجام سے سکتے ہیں تو نبی رحمت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر حاملہ عورت کو اتنا اجر ملتا ہے جتنا اس شخص کا اجر ہے جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو ذکر الٰہی میں کھڑا رہتا ہے۔ پھر جب وہ بچہ جتنی ہے یعنی حمل وضع کرتی ہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لئے کس قدر اجر وثواب ہے۔ پھر اگر وہ اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو ہر ایک مرتبہ جو بچہ اس کا دودھ چوستا ہے اس کو ایک نفس کے احیاء کا اجر ملتا ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ مرد عورت کی جو تقسیم فطری ہے اس سے فریقین کو تجاوز نہ کرنا چاہیے۔ مرد الگ حالات میں رکھا گیا ہے اور عورت الگ حالات میں رکھی گئی ہے۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کمالات کو حاصل کریں اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کمالات حاصل کریں۔ اس بات کو قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَ الْاُنْثیٰ اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشِتَّی (اللیل : 4 , 3:92) ” وہ ذات جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا ، درحقیقت تم لوگوں کی کوشش مختلف قسم کی ہیں۔ “ غور کرو اور سوچ سمجھ کر جواب دو کہ کیا رات اور دن ایک جیسے ہیں ؟ رات چھپا لینے والی ہے اور دن سب کچھ روشن کردینے والا۔ پھر کیا رات بغیر دن کے کوئی شے ہے ؟ کیا دن کی حقیقت بغیر رات کے کچھ رہ جاگتی ہے ؟ حاشا اللہ رات دن کے بغیر عذاب الٰہی ہے اور اسی طرے دن رات کے بغیر عزاب الٰہی ہے۔ لیکن دونوں کے جوڑنے کیا سہانا نظام قائم کردیا ہے۔ پھر اس طرح رات کے اثار و نتائج کو حاص کرلیں۔ پھر یہ فطری تقسیم تر و مادہ میں بھی قائم ہے اور انہی نر و مادہ میں سے ایک جنس انسان بھی ہے اور پھر انسان کا نر و مادہ کو شس کیوں کرے کہ وہ ایک دو سے کے دائرہ کار میں داخل ہو ؟ بس یہی وہ تجاوز ہے جس سے روکا گیا ہے باقی معاملات میں اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر ترقی سے جو رکوکتا ہے وہ خود انسانیت سے عاری اور پر لے درجے کا جاہل ہے۔ ہا ! یاد رکھو کہ تم لوگ جن راہوں اور مقاصد میں اپنی کوشش صرف کر رہے ہو وہ بھی اپنی نوعیت کے لحاط سے مختلف اور نتائج کے لحاط سے اپنی پنی حدود کے اندر ہیں اور انہی حدود کے اندر رہنا چاہیے باقہ سب خیر ہے۔
Top