Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 33
وَ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١ؕ وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُكُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدًا۠   ۧ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیے مَوَالِيَ : وارث مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑ مریں الْوَالِدٰنِ : والدین وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ عَقَدَتْ : بندھ چکا اَيْمَانُكُمْ : تمہار عہد فَاٰتُوْھُمْ : تو ان کو دے دو نَصِيْبَھُمْ : ان کا حصہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : اوپر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز شَهِيْدًا : گواہ (مطلع)
اور جو کچھ ترکہ ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ جائیں تو ان میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے حق دار ٹھہرا دیئے ہیں نیز جن سے تمہارا عہد و پیمان بندھ چکا ہے پس چاہیے کہ جو کچھ جس کا حصہ ہو وہ اس کے حوالے کر دو اللہ حاضر و ناظر ہے ، اس سے کوئی چیز چھپی نہیں ہے
میراث میں بھی ایک خاص طریقہ ہے اس کا لحاط رکھو اور عہدو پیمان کو پورا کرو : 70: عربوں میں عام رواج تھا کہ ایک دوسرے سے انفرادی قومی عہدو پیمان باندھتے رہتے تھے۔ جن کے فوائد سے بھی کل طور پر انکار نہیں کیا جاتا بلکہ اسلام نے ان میں سے بہت سے عہدو پیمان جاری رکھے ہیں اور ان حفاظت کا بھی حکم دیا ہے ہاں ! جو غلط قسم کے رواج تھے ان کی بیخ کنی کردی گئی ہے۔ اور آئندہ ان سے روک دیا گیا ہ۔ ان ہی عہدو پیمان میں ایک یہ بھی تھا کہ کوئی شخص کسی دوسرے سے کہہ دیتا کہ میرے مرنے کے بعد میری میراث کا تو وارث ہے خواہ کسی خاص حصہ میں یا ساری میراث کا اور یہ بھی کہ تیرا خون میرا خون ہے اور تیرا عہدچ مررا عہد ہے۔ تیری جنگ میری جنگ ہے۔ اس کو دو ایک دوسرے کا حلیف کہتے تھے۔ ان میں بہت سے رواج غلط بی تھے۔ کہ مثلاً یہ کہہ دینا کہ میرے بعد تم میری بیوی کے وارث ہو اور وہ میرے بعد گایا تمہاری بیوی ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام نے بہت سے غلط رواجات کو مٹایا لیکن جو ان میں ایسے تھے۔ کہ ان میں کوئی قباحت نہ تھی بلکہ کچھ اچھائی اور بھلائی ہی کے آثار پائے جاتے تھے۔ ان کو نہیں چھیڑا اور اگر کہیں چھیڑا ہے تو صرف اصلاحی رنگ میں اس کی اصلاح فرمائی ہے۔ زیر نظر آیت میں حکم دیا جا رہا ہے کہ دیکھو ” جو کچھ ترکہ ماح باپ اور رشتہ دار چھوڑ جائیں تو ان میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے حق دار ٹھہرا دیئے ہیں۔ اور پھر ان حصہ داروں کی پوری تفصیل بھی پیچھے قانون میراث میں سمجھا دی گئی ہے۔ چناچہ اس جگہ اس بات کی کچھ مزید وضاحت فرما دی کہ ” جن لوگوں سے تمہارا عہد و پیمان بندھ چکا ہے۔ پس چاہیے کہ اس کو بھی اس کے حصہ کے مطابق پورا کرو اور اس کے حوالے کر دو ۔ “ یعنی زندگی ہی میں اس کو ادا کر دو وہ اس طرح کہ دیکھو تم کو زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ میں وصیت کا حق ہے اور پھر تم اس حق کے اندر رہتے ہوئے چاہو تو وصیت کرسکتے ہو اور اس طرح جس عزیزو اقارب کی مدد کرنا چاہتے ہو تو چاہو اپنے ہاتھوں دے جاؤ چاہو تو اس کی وصیت کر دو ہاں ! اپنے حصہ سے تجاوز نہ کرو کہ اس طرح ورثاء کا نقصان ہوگا اور وہ بھی کسی مال میں جائز نہیں اور آخر میں فرمایا کہ ” اللہ حاضر و ناظر ہے اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ “ یعنی جو کچھ تم کر رہے ہو اس حقیقت حال سے بھی اللہ واقف ہے اور جانتا ہے کہ تم کس کس کی مدد کر رہے ہو یا ورثاء کا نقصان چاہتے ہو۔
Top