Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 34
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ١ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ١ؕ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا
اَلرِّجَالُ : مرد قَوّٰمُوْنَ : حاکم۔ نگران عَلَي : پر النِّسَآءِ : عورتیں بِمَا : اس لیے کہ فَضَّلَ : فضیلت دی اللّٰهُ : اللہ بَعْضَھُمْ : ان میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض وَّبِمَآ : اور اس لیے کہ اَنْفَقُوْا : انہوں نے خرچ کیے مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : اپنے مال فَالصّٰلِحٰتُ : پس نیکو کار عورتیں قٰنِتٰتٌ : تابع فرمان حٰفِظٰتٌ : نگہبانی کرنے والیاں لِّلْغَيْبِ : پیٹھ پیچھے بِمَا : اس سے جو حَفِظَ : حفاطت کی اللّٰهُ : اللہ وَالّٰتِيْ : اور وہ جو تَخَافُوْنَ : تم ڈرتے ہو نُشُوْزَھُنَّ : ان کی بدخوئی فَعِظُوْھُنَّ : پس امن کو سمجھاؤ وَاهْجُرُوْھُنَّ : اور ان کو تنہا چھوڑ دو فِي الْمَضَاجِعِ : خواب گاہوں میں وَاضْرِبُوْھُنَّ : اور ان کو مارو فَاِنْ : پھر اگر اَطَعْنَكُمْ : وہ تمہارا کہا مانیں فَلَا تَبْغُوْا : تو نہ تلاش کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر سَبِيْلًا : کوئی راہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيًّا : سب سے اعلی كَبِيْرًا : سب سے بڑا
مرد عورتوں کی معیشت کا بندوبست کرنے والے ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ، نیز اس لیے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں ، پس جو عورتیں نیک ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور اللہ کی حفاظت سے جو انہیں حاصل ہے وہ پوشیدگی میں بھی اس کی حفاظت کرتی ہیں اور جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو چاہیے انہیں سمجھاؤ پھر خواب گاہ میں ان سے الگ رہنے لگو اور انہیں تادیباً مار بھی سکتے ہو پھر اگر وہ تمہارا کہنا مان لیں تو ایسا نہ کرو کہ الزام دینے کیلئے راہیں ڈھونڈنے لگو یاد رکھو کہ اللہ سب کے اوپر اور سب سے زیادہ بڑائی رکھنے والا ہے
جس معاملہ میں مردوں کو مزیت حاصل ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا : 71: اللہ نے دنیا میں ہر گروہ کو دوسرے گروہ پر خاص خاص باتوں میں مزیت دی ہے اور اسی طرح کی کچھ مزیت مردوں کو بھی عورتوں پر حاصل ہے۔ عورت صنف نازک ہونے کی وجہ سے حمل ، وضع اور رضع پر فطری طور پر پابند ہے اور یہ فوقیت فطری طور پر اس کو مرد پر حاص ہے اس طرح مردوں پر عورتوں کی ضروریات معیشت کی ذمہ داریاں رکھ دی گئی ہیں ان میں مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے جس کے نتیجہ میں فطری طور پر سربراہی و کار فرمائی کا مقام مردوں کو حاصل ہے کیونکہ وہ عورتوں کے مقابلہ میں فطری طور پر سخت جان ہیں۔ اس لئے سربراہی اور کار فرمائی کا عہدہ ان کی اس فطری حالت ہی کے مطابق دیا گیا ہے کیونکہ کنٹرول بہر حال وہی چاہتا ہے اور عورت فطری طور پر اس کی متحمل نہیں۔ اگر اس کے ہاتھ میں یہ نظام دیا جاتا تو یقینا وہ نظام معطل ہو کر رہ جاتا کلی طور پر نہیں تو جزوی طور پر کیونکہ فطرت بدل نہیں سکتی۔ چنانچہ سورة بقرہ میں ہم اس کی تفصیل بیان کرچکے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ للرجال علیھن درجۃ اور اس مضمون کو اس جگہ ان الفاظ میں ادا فرمایا گیا کہ الرجال قوامون علی النساء جو بات وہاں ارشاد فرمائی وہی اس جگہ بیان کی گئی ہے کہ اگرچہ عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم و واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ہیں اور دونوں کے حقوق باہم مماثل ہیں۔ تاہم ایک معاملہ میں مردوں کو عورتوں پر امتیاز حاصل ہے وہ بھی فطری چیز ہے کسبی نہیں وہ سخت جان ہونا ہتے کہ عورتوں کے مقابلہ میں مرد زیادہ سخت جان اور اپنی ڈیل ڈول میں اور قویٰ کی بناوٹ میں عورتوں کے لحاظ سے سخت ہیں۔ اس لئے سختی برداشت کرنا بھی ان ہی کا حق ہے۔ قرآن کریم نے اس مزیت کو بیان کرتے وقت جو الفاظ بیان فرمائے وہ بھی بہت سے قابلہ غور ہیں۔ الفاظ کیا استعمال کئے گئے ؟ فرمایا فَضَاّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ اور یہ نہیں فرمایا کہ فضلھم علیھن کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی۔ اس طرح جو الفاظ بیان کئے گئے ان کے اندر ایک خاص حکمت رکھ دی کہ عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کا بعض اور جزء قرار دے کر اسی طرف اشارہ کردیا کہ اگر ایک چیز میں مردوں کی فوقیت اور فضیلت ثابت بھی ہوتی ہے تو یہ آپس کے بعض کو بعض پر ہے کیونکہ اس طرح کی فضیلت کوئی ایسی چیز نہیں جس سے مرد کوئی اعلیٰ چیز ہوگیا اور عورت ردی کا مال نہیں بلکہ یہ فضیلت ایسی ہے جو پھر گھوم پھر کر عورت ہی کی طرف منتقل ہوتی ہے کیونکہ عورت اور مرد ایک جنس کی دو اصناف ہیں اس لئے ان دونوں کا ایک ہی خمیر ہے۔ اس کی مثال اس طرح آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ جیسے انسان کا سر اس کے ہاتھ سے افضل ہے یا انسان کا دل اس کے معدہ سے افضل ہے یا اعضائے رئسیہ کا دوسرے اعضاء کے مقابلہ میں افضل ہونا ہاتھ ، معدہ اور دوسرے اعضاء کے مقام اور اہمیت کو کم نہیں کرتا اس طرح مرد کا افضل ہونا عورت کے درجہ یا مقام کو کچھ کم نہیں کردیتا کیونکہ یہ دنوں ایک دوسرے کے لئے مثل اجزاء اعضاء ہی کے ہی۔ پھر مرد کو سر کہہ دینے اور عورت کو بدن کہہ دینے سے قیامت کیا بپا ہوگئی ؟ مر دکس بات پر پھولے نہیں سماتے ؟ اور عورت اپنے مقام سے کیسے گرا دی گئی ؟ لیکن افسوس کہ یہ فضیلتیں مسلمانوں کے پیچھے ایسی پڑین کہ انہوں نے کچھ اسلام کا چھوڑا نہ مسلمانوں کا۔ حسین ؓ افضل ہیں یا علی ؓ ؟ ابوبکر صدیق ؓ افضل ہیں یا علی ؓ ؟ فاطمہ ؓ افضل ہیں یا عائشہ ؓ ؟ حسن ؓ افضل ہیں یا حسین ؓ ؟ امام باقر (رح) افضل ہیں یا مہدی (رح) ؟ امام اعظم (رح) افضل ہیں یا امام مالک (رح) ؟ اس طرح کی فضیلتوں نے اسلام کو ایک میدان جنگ بنا دیا کتنے مرے اور کتنے مر رہے ہیں کوئی پوچھے کہ سب جن کا ذکر کیا گیا ہے یہ بعضھم من بعض نہیں ؟ یہ سب بنی نوع انسان نہیں ؟ یہ سارے کے سارے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔ کوئی کسی معاملہ میں افضل ہے اور کوئی کسی صفت اور کام میں افض تاہم یہ سب کے سب ایک جس کے اعضاء ہیں۔ کوئی فاسلام کا ہاتھ ہے تو کوئی سر کوئی اسلام کی پشت ہے تو کوئی پیٹ۔ کیوئی اسلام کا دل تو کوئی دماغ۔ آپ آخر لڑتے کسی بات پر ہیں ؟ تاریخ میں ہے کہ امام محمد بن الحنیفہ سے کسی نے پوچھا کہ حسن ؓ و حسین ؓ تم سے بڑے ہیں لیکن حضرت علی ؓ نے آپ کو اس معرکہ کے لئے کیوں انتخاب کیا ہے اور ان میں سے کسی کو کیوں روانہ نہیں کیا ؟ کہنے والے نے جس مقصد کے لئے بھی کہا اس سے کوئی بحث نہیں کی اور نہ الجھاؤ پیدا کیا فرمایا تو صرف یہ کہ بھائی بات دراصل یہ ہے کہ میں علی چاہیے تھا۔ حسنین ؓ کو نہیں یہ تو اس گھر کی بفات ہے جس گھر کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے تم ایک دو سے کا خون بہا رہے و اور تمہیں ذرا شرم نہیں آتی کہ کل اللہ کے سامنے جواب کیا دو گے ؟ مردوں کو جو مزیت حاص ہے وہ کس درجہ میں ہے : 72: قرآن کریم کہتا ہے کہ عورتیں چونکہ صنف نازک ہیں اور ان کے سارے فطری کاموں اور ذمہ داریوں کا تعلق چار دیواری کے اندر سے ہے اور ان کے مقابلہ میں مرد سخت جان اور ایک کرخت صنف ہے اس لئے ان کے فطری کاموں اور ذمہ داریوں کو تعلق بھی زیادہ تر چار دیواری سے باہر کے کاموں سے ہے۔ جو محنت و مزدوری مر دکر سکتے ہیں عورت کے لئے ممکن ہی نہیں۔ مرد صبح سے شام تک ٹوکری سر پر رکھے تیسری منزل پر اینٹ گارا پہنچانے کے لئے سو سو بار چڑھ اتر سکتا ہے لیکن اس کے مقابل میں عورت جو حاملہ بھی ہے ایک باتر بھی اتنا بوجھ اٹھا کر تیسری مزل تک پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ مرد سارا دن ہل چلا کر بیلوں کے لئے چارہ کاٹتا اور کھیت کو پانی دیتا ہے لیکن عورت اذیت کے دنوں کی تکلیف میں مبتلا گھر میں بیٹھ کر اپنی کمر میں کمر بند باندھے پڑی ہے۔ وہ خاوند کو کھانا بکا کردینے سے بھی بیزار ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟ اس لئے کہ مرد مرد ہے اور عورت عورت ہے۔ پھر مرد نے اتنی محنت کر کے جو کمایا ہے وہ کدھر گیا ؟ اس اپنی چہیتی بیوی کے ہاتھ میں دے کر خالی ہاتھ بیٹھ گا ؟۔ پھر فضیلت کیس کو ہوئی ؟ مرد کہتا ہے کہ عورت کو کیوں ؟ اس لے کہ میں نے اتنی محنت کر کے جو کچھ کمایا ہے وہ اپنی جان پر بھی خرچ نہیں کیا وہ سارے کا سارا بیگم صاحبہ کے ہاتھ پر لا کر رکھ دیا اس لئے کہ محنت کرنے والے کی حوصلہ افزائی ضروری و لازمی تھی تاکہ وہ بھی دل ہار کر بیٹھ نہ رہے۔ عورت اگر نیک شعار ہوگی تو وہ اطاعت گزار بھی ہوگی اور خاوند کا شکر یہ بھی ادا کرے گی : 73: فرمایا نیک عورتیں وہ ہیں جو اطاعت شعار ہوتی ہیں اور جن کا ظاہر و باطن ایک جیسا ہوتا ہے اور وہ ہر حال میں اپنے اپنے شوہروں کے مفاد کی حفاظت کرتی ہیں اور ان کی ہمت افزائی کے لئے ان کا دل بڑھاتی رہتی ہیں۔ ان کے کاموں میں ان کی ممدو معاون ہوتی ہیں اور ان کی کمائی کو انہیں کی مرضی کے مطابق خرچ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ خاوند جب تھک ہار کر کھر پہنچتے ہیں تو ایک نظر شفقت سے ان کا سار بوجھ ہلکا کردیتی ہے اور ان کی تھکاوٹ کی فکر ان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ان کی خوراک کا ایسا بندوبست کریں کہ صبح تک وہ پھر چاک و چوبند ہوں۔ اس طرح مرد ہی کی آمدنی مرد کے سامنے پیش کر کے دادا تحسین حاصل کرتی ہیں اور مردوں کی پیٹھ پیچھے بھی اپنے نفس اور ان کے مال کی حفاظت کرتی ہیں اور کبھی بھی وہ بندر بانٹ سے کام نہیں لیتیں۔ اس طرح وہ اپنی عصمت اور گھر کی حفاظت جو امور خانہ داری میں سب سے اہم ہیں ان کے بجا لانے میں ان کے لئے مردوں کے سامنے اور پیچھے کے حالات بالکل مساوی ہوتے ہیں ایسا نہیں ج کہ ان کے سامنے اہتمام کریں اور ان کی نظروں سے غائب ہوں تو اس میں لاپروائی برتیں۔ چناچہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ” بہترین عورت وہ ہے کہ جب تم اس کو دیکھو تو خوش ہو اور جب اس کو کوئی حکم دو تو وہ اطاعت کرے اور جب تم غائب ہو تو اپنے نفس اور مال کی حفاظت کرے۔ “ چونکہ عورتوں کی یہ ذمہ داریاں یعنی اپنی عصمت اور شوہر کے مال کی حفاظت دونوں آسان کام نہیں کیونکہ مال کمانے سے بھی خرچ کرنا زیادہ مشکل ہے اگر اس کو طریقہ سے خرچ کیا جائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا بما حفظ اللہ یعنی اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ بھی اس عورت کی مدد فرماتا ہے اور پھر اس کی مدد و توفیق سے وہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآمد ہوتی ہیں۔ اطاعت شعار اور تابعدار عورتوں کی فضیلت اس آیت میں بھی بیان فرمائی گئی اور بہت سے مقامات پر قرآن کریم نے ابن کا اس طرح تذکرہ کیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی اچھائی کا ذکر فرمایا۔ عورت اگر سرکش ہوجائے تو اس کا علاج اس کی تفہیم اور نظر خاص سے پرہیز ہے : 74: فرمایا اگر کوئی صورت ایسی پیدا ہوجائے کہ کوئی عورت شوہر کے حقوق کی رعایت نہ کرے اور اطاعت شعاری کے دائرہ سے باہر ہوجائے تو شوہر کو چاہیے کہ اسے سمجھائے اور اس حرکت کے عواقب اس کے سامنے بیان کرے اور اس سلسلہ میں نرمی و گرمی سے اس کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ ” جن عورتوں سے یعنی بیویوں سے وہ تمہیں سر کشی کا اندیشہ ہو۔ “ اس کے لئے قرآن کریم میں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں ” تخافون نشوزھن اور نشور نشز سے ہے جس کے معنی ہیں اٹھنا جیسا کسی کے مقابلہ میں کھڑے ہوجانا۔ ” نشوز بین الزوجین “ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے رفیق سے کراہت کرے۔ ” لیکن جب تم یہ جان لو کہ عورت تم سے نفرت کرتی ہے۔ “ چونکہ ایسی صورت دونوں طرف سے واقع ہو سکتی ہے اگر مرد عورت سے نفرت کرے تو اس کے لئے بی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے اور اگر عورت مرد سے نفرت کرے تو اس پر بھی یہی لفظ استعمال ہوتا۔ اس جگہ چونکہ نشوزھن ہے اس لئے مطلب یہی ہے کہ جو عورتیں اپنے مردوں سے نفرت کرنے لگیں اور چونکہ پیچھے عورتوں کی اطاعت شعاری کا ذکر ہوچکا ہے یعنی اچھی عورتیں وہ ہیں جو خاوندوں کی اطاعت شعار ہوں اس جگہ اس بات کا ذکر فرمایا کہ جو عورتیں خاوندوں کی اطاعت شعاری سے نک جائیں گویا وہ اچھی عورتیں نہ ہوئیں۔ فرمایا اگر خدا نہ کرے کوئی ایسی صورت واقع ہوجائے تو خاوند کیا کریں ؟ ارشاد الٰہی ہے کہ پہلا درجہ ان کی اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے ان کو سمجھاؤ ۔ “ اللہ تعالیٰ نے ایسی بات فرما دی کہ جس سے نفرت کا سارا راز کھل گیا۔ ظاہر ہے کسہ اگر نفرت دونوں طرف سے ہے تو مرد یہ کام کرے گا ؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ تو نفرت کو مزید بڑھائے گا۔ بات بات پر ٹوکے گا۔ ڈانٹے ڈپٹے گا اور ہر لحاظ سے دبانے کی کوشش کرے گا اور اگر مرد کی طرف سے کوئی اسی صورت واقع ہوگی تو بات واضح ہوجائے گی کہ عورت کیا نفرت کرتی ہے کہ مرد خود ہی اس کا ہل نہیں کہ اس سے محبت کی جائے اور اگر مرد کو کر ئی نفرت نہیں تو ظاہر ہے کہ وہ اس الٰہی ہدایت پر عمل کرے گا اور نرمی سے اس کو سمجھائے گا اسے پیار کی نگاہ سے دیکھے گا اور حسن سلوک سے پیش آئے گا اور اس طرح انشاء اللہ حالات درست ہوجائیں گے لیکن مرد اگر صرف ” خرمستی “ کرسکتا ہے اس کے سوا اس کو کچھ کرنا ہی نہیں آتا تو حالات کے درست ہونے کی کوئی صورت مشکل ہی سے ہوگی۔ ہاں ! خاوند نے نرمی کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی اور اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا تو روٹھے کو ماننا ہی ہوتا ہے اگر وہ نہ مانے تو ؟ فرمایا مردوں کو چاہیے کہ ” وہ خوگاہوں میں ایسی عورتوں کے فریب نہ ہوں۔ “ واھجر وھن عن لمضاجع خواب گاہوں میں تم مرد ایسی عورتوں کے قریب نہ جاؤ ۔ یعنی باقی سارے فرائض ادا کرو۔ ان کی ضروریات زندگی پوری کرو اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ صرف خواب گاہ میں الگ رہو اور یہ جدائی بستر کی حد تک ہو کمرے کی حد تک نہ ہو۔ ۔ کیونکہ لفظ ، ک ” مضاجع “ کا یہی تقاضا ہے۔ یعنی روٹھ جانے والی بو کی جس کو تم نے حسن سلوک اور پیار و محبت سے منانے کی کوشش کی اگر وہ نہیں مانی تو اس کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ تم بھی اس سے ایک حدتک روٹھ جاؤ لیکن تمہارا یہ روٹھنا اس حد تک محدود رہے اس سے آگے تجاوز نہ کرے۔ پھر سمجھ لو کہ روٹھنے کی حد کیا ہے ؟ صرف اور صرف یہ کہ ایک جگہ ایک کمرہ تنہائی میں رہتے ہوئے بیوی کے بستر سے الگ رہو اور علاوہ ازیں سارے معاملات میں اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤیہ گویا ایک ایسا راز ہے جو میاں بیوی کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا اور کسی کو جاننا بھی نہیں چاہیے۔ یہ دوسری پابندی بھی مرد پر عائد کی گئی۔ اور حسن و خوبی سے کی گئی کہ اگر کوئی مرد فی الواقع مرد کے پاؤں تلے آنکھیں بچھائے گی شرط صرف یہ ہے کہ مرد مرد ہو یعنی مردانگی دکھائے۔ آخر کب تک یہ روٹھنا ہوگا ؟ ان دونوں سزاؤں کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی کہ ایک گھنٹہ تو پیار سے سمجھاؤ اور پھر دس منٹ کے لئے بستر چھوڑ دو ۔ اور مزید دس منٹ کے بعد ڈنڈے برسانا شروع کر دو اور ایک رات میں بھانڈا پھوڑ دو ۔ غور کرو کہ حکیم کل نے کس حکمت سے کام لیا ہے۔ ان کاموں کے لئے وقت درکار ہے۔ اس انتظار میں تمہیں مہینوں لگیں یا سال بہر حال خاموشی کے ساتھ اصلاح کرتے رہو اور انشاء اللہ یقینا اصلاح ہوگی۔ یہ نسخہ اس حکیم کل کا ہے استعمال کر کے تو دیکھو۔ لیکن جن عورتوں کو اس سے بھی فائدہ نہ ہو ممکن ہے کہ ان کی فطرت ہی کچھ ایسی سخت ہو کہ سختی و گرمی کے سوا اس کی اصلاح نہ ہو سکتی ہو کیونکہ یہ مثل بھی مشہور ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ اچھا تو اس کے لئے یہ تیسرا نسخہ بھی آزما کر دیکھ لو کہ اگر کرسکتے ہو تو ایک دو تھپڑ لگا کر دیکھ لو یہ تیسی سزا بہت پابندیوں کے ساتھ اصلاح کرتے رہو اور انشاء اللہ یقینا اصلاح ہوگی۔ یہ نسخہ اس حکیم کل کا ہے استعمال کر کے تو دیکھو۔ لیکن جن عورتوں کو اس سے بھی فائدہ نہ ہو ممکن ہے کہ ان کی فطرت ہی کچھ ایسی سخت ہو کہ سختی و گرمی کے سوا اس کی اصلاح نہ ہو سکتی ہو کو ہن کہ یہ مثل بھی مشہور ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ اچھا تو اس کے لئے یہ تیسرا نسخہ بھی آزما کر دیکھ لو کہ اگر کرسکتے ہو تو ایک دو تھپڑ لگا کر دیکھ لو یہ تیسری سزا بہت پابندیوں کے ساتھ دینے کی اجازت دی گئی اور نبی اعظم و آخر ﷺ نے اس پر اتنی پابندیاں لگائیں کہ اس مانے کو سوائے اس کے کہ مارنے کے لفظ کا اس پر اطلاق کیا ہے کوئی مارنا مارنا نہیں بلکہ صرف ایک تاد یبی کاروائی ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ فرمایا کہ اگر اس کی نوبت آہی جائے اور تم ایسا اقدام کر بھی سکتے ہو تو ہاتھ چلاتے وقت اس بات کا خیال رکھو کہ کس پر ہاتھ چلا رہے ہو۔ غصہ میں آکر آ کر آپے سے باہر نہ ہوجاؤ ۔ اپنا کنٹرول درست کرو۔ تادیبی طور پر مجبوری لاحق ہو تو اس کے منہ پر مت مارو۔ ایسا مت مارو کہ اس کے جسم کے کسی حصہ کا کوئی نقصان ہو۔ دشمن کا سا مارنا مت مارو بلکہ عقل و فکر اور پیار و محبت کا مارنا مارو اور پھر اجازت الٰہی کے باوجو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو ولن یضرب حبارکم یعنی اچھے مرد یہ مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے۔ کیونکہ کسی چیز کی اجازت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا کرنا لازم و ضروری یا فرائض میں داخل ہوجاتا ہے بلکہ اگر کہیں ایسی صورت واقعہ ہوجائے تو اس کو یہ کہہ کر برداشت کرلیا جاتا ہے کہ خیر ہے اتنی اجازت بہر حال موجودف ہے۔ اس آخری بات کا کچھ لوگوں نے ایسا بتنگڑ بنایا کہ انہوں نے اسلامی قانون کو نہایت سفا کی کا قانون قرار دیا اور مسلمانوں کو ایسے ایسے کو سنے دیئے کہ مسلمان خود بھی یہ بات سمجھنے لگے کہ شاید یہ قانون کوئی ایسا ہی وحشیانہ ہے لہٰذا انہوں نے اس کی تاویلیں کرنا شروع کردیں اور پھر ضرب یضرب کی گرد ان سے ایسے ایسے منہوم نکالنے شروع کر دئے جن کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور اس طرح کے دور ازکار قصے بیان کر کے انہوں نے ثابت کرنا شروع کردیا کہ عورت بس صرف مرد کے کھیلنے کا کھلونا ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہ بےجان نہیں بلکہ جاندار ہے لہٰذا اس کو بالا ارادہ کھیلنا ہے چاہے وہ اپنے مرد سے کھیلے یا دوسرے سے اور مرد کا کام یہ ہے کہ اس کھیلتا دیکھ کر خوش ہو۔ اس طرح انہوں نے اپنی ضمیر کا جنازہ تو نکال ہی دیا تھا وہ چاہتے ہیں کہ پورے اسلام کا جنازہ اٹھ جائے اور وہ ان ساری پابندیوں سے آزاد ہوجائیں جو اسلام معاشرے کے بگاڑ پر لگاتا ہے اور ہر وہ بات اور ہر وہ کام جس سے بگاڑ پیدا ہو اس کو وہ بیخ و بن سے اکھاڑ پھکنا چاہتا ہے۔ بلکہ اکھاڑ پھینکنا ہے۔ ہمیں افسوس ہے ایسے نامردوں پر کہ دراصل وہ خود مرد نہیں رہے بلکہ پوری طرح نامرد ہوچکے ہیں۔ لیکن اپنی نامردی کا علاج بھی نہیں چاہتے بلکہ ان کے خیال میں صرف عورت کے آنچل میں چھپ جانے کا نام مرد ہے اور عورت کے آنچل اتار کر پھینک دینے کا نام عورت۔ پھر اس کا نام انہوں نے نئی تہذیب اور نئی روشنی رکھا ہے۔ کس طرح ؟ ان کا ارشاد یہ ہے کہ چونکہ اس اندھیرے کا نام روشنی رکھنے والے ہم مسلمان ہیں اس لئے یہ روشنی اسلام کی روشنی ہے کہ ہم مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ہیں یا ہم نے اس کو متبنی بنا لیا ہے۔ سن لو اور یاد رکھو کہ اسلامی نکاح پیشاب خانے کے سودے کا نام نہیں بلکہ چند ایک شرائط اور پابندیوں کے اندر رہ کر انسانیت کے شرف کی حفاظت کا نام ہے۔ اسلامی نکاح کسی چو سے کے چوس لینے کا نام نہیں بلکہ ایک مقدس فریضے کا نام ہے۔ اسلامی نکاح ایک عورت کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بازاروں اور گلیوں میں کھلے بندوں پھرنے کا نام نہیں بلکہ لباس میں ملبوس ہو کر ایک اور صرف ایک خاص راہ چلنے کا نام ہ۔ اسلامی نکاح صرف نفسانی خواہشات کے ازالہ کا نہیں بلکہ انسان کے حسب و نسب کی حفاظت کا نام ہے۔ تادیبی کاروائی سے اگر وہ سنبھل جائیں تو اب تم الزام تراشی نہ شروع کر دو : 75: اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر انسانی کمزوریوں سے کون زیادہ واقف ہو سکتا ہے ؟ یہ انسانی کمزوری ہے کہ جب کسی کو ڈانٹ ڈپٹ کر کچھ منوا لیتا ہے تو اس کے مان جانے کے بعد اد کو الزام دینے لگتا ہے اور باتوں ہی باتوں میں لگائی بجھائی کرجاتا ہے اور ایسے ایسے بول بول دیتا ہے جو دوسرے انسان کو زخمی کرتے رہتے ہیں۔ اور پھر یہ زخم بھی ایسے جو کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے پھر ان زخموں پر نمک چھڑکنے سے بھی باز نہیں آتا۔ اس طرح حالات پہلے سے بھی ابتر ہوجاتے ہیں۔ اور یہ مثل مشہور ہے کہ تلوزار کے زخم مٹ جاتے ہیں۔ یا بھر جاتے ہیں لکن زبان کے زخم کبھی بھرنے میں نہیں آتے۔ یہ زخم زخم ہی نہیں رہتے بلکہ ناسور بن جاتے ہیں۔ پھر ایسی حالت میاں بیوی میں جن کو ہر حال میں ایک جگہ رہنا ہے اور ایک ساتھ رہنا ہے۔ فرمایا دیکھو اگر اس سہ تدبیری کورس سے کسی تدبیر کے صلہ میں بھی وہ تمہاری بات ماننے لگی ہیں تو اب تم بھی زیادہ بال کی کھال نہ اتارو اور اس کمزور پہلو کی طرف دوبارہ مت آؤ اور کوئی ایسی بات مت کرو جس سے بجھی ہوئی آگ دوبارہ دھکنا شروع ہو جاے۔ کسی طرح کی الزام تراشی میں مت لگو بلکہ چشم پوشی سے کام لو اور اچھی طرح سمجھ لو کہ اگر اللہ نے عورتوں پر تم کو ایک درجہ دیا ہے تو اس سے تمہیں نرم ہونا چاہیے نہ کہ سخت کیونکہ درجات کی بلندی نرمی میں پوشیدہ کردی گئی ہے اور خادم القوم مخدومھم کے جملہ سے سبق سیکھو کہ مخدوم کہلانے کا ھق دار وہی ہے جو خود خادم ہے۔ پھر غور کرو ایسا کیوں ہے کہ پھل دار ٹہنی جھک کر رہتی ہے ؟ ایسا کیوں ہے کہ بھرا ہوا برتن کم بجتا ہے ؟ دیکھو ! عند الضرورت تادیبی کاروائی کا تم کو حق تھا۔ اپنا حق تم نے عند الضرورت استعمال کیا۔ اللہ نے فضل کیا کہ ضرورت پوری ہوگئی تو اب تم حق سے تجاوز کیوں کرو ؟ بلکہ اللہ کا شکر ادا کرو جس نے تم کو وہ حق دیا تھا جس سے تم بےآباد ہوتے ہوتے آباد ہونے لگے۔ دیکھو اپنے ہاتھوں اپنا سکون برباد مت کرو۔ یاد رکھو کہ نیکی کے بدلے نیکی کوئی کمال نہیں بلکہ برائی کے بدلے نیکی نیکی ہے۔ تمہارا درجہ بڑا ہے تمہاری برداشت بھی بڑی ہونا ضروری ہے۔ سمجھ لو ! تم کتنے بڑے ہو ؟ ایک درجہ لیکن اللہ تو سب بڑوں کا بڑا ہے اسی طرح تمہارا بھی بڑا ہے۔ تم کتنی غلطیاں کرتے ہو۔ لیکن اس بڑے کر برداشت تو دیکھو۔ اگر وہ تم کو پکڑنا چاہے کوئی صورت ہے تمہارے بچنے کی ؟ پھر غور کرو کہ بڑا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ برداشت چھوٹی ہو بلکہ بڑا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ برداشت بھی بڑی ہو۔ اللہ کرے کہ تم اپنے درجہ کہ حفاظت بھی کرسکو ۔ اللہ تم کو توفیق دے۔
Top