Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 35
وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَا١ۚ اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا
وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو شِقَاقَ : ضد (کشمکش بَيْنِهِمَا : ان کے درمیان فَابْعَثُوْا : تو مقرر کردو حَكَمًا : ایک منصف مِّنْ : سے اَھْلِهٖ : مرد کا خاندان وَحَكَمًا : اور ایک منصف مِّنْ : سے اَھْلِھَا : عورت کا خاندان اِنْ : اگر يُّرِيْدَآ : دونوں چاہیں گے اِصْلَاحًا : صلح کرانا يُّوَفِّقِ : موافقت کردے گا اللّٰهُ : اللہ بَيْنَهُمَا : ان دونوں میں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : بڑا جاننے والا خَبِيْرًا : بہت باخبر
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ میاں بیوی میں تفرقہ پڑجائے گا تو چاہیے کہ ایک پنچ شوہر کے کنبے میں سے مقرر کرو اور ایک بیوی کے کنبے میں سے اگر دونوں پنچ چاہیں گے تو صلح و صفائی کروا دیں گے اللہ ضرور فریقین میں باہم موافقت پیدا کر دے گا بلاشبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے
اگر پہلی تینوں تدبیریں ناکام ہوچکی ہوں تو یہ ایک چوتھی تدبیر بھی آزما دیکھو : 76: جس مسئلہ میں گفتگو ہو رہی ہے اس کا ایک حل تو وہ ہے کہ اگر مرد کی طرف سے پہل ہو تو اس کو ” طلاق “ کہتے ہیں اور اگر عورت کی طرف سے پہل ہوجائے تو اس کو ” خلع “ کا نام دیا گیا ہے۔ اور نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے کہ میاں بیوی میں جدائی ہوگئی۔ وہ بندھن جو باندھا گیا تھا کاٹ دیا گیا۔ وہ عہد و پیمان جو میاں بیوی میں قائم ہوا تھا وہ ختم ہوگیا۔ فریقین پر جو پابندی لگائی گئی تھی وہ اٹھا دی گئی۔ جو شہد کا پیالہ لبوں تک پہنچایا گیا تھا۔ اس میں کسی سبب سے زہر مل گئی تو وہ فوراً ہٹا دیا گیا۔ ” جان بچی لاکھوں پائے “ لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے کہ جو جوڑ لگایا تھا اس میں کچھ خامی رہ گئی۔ خامی کہاں ہے ؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا اب اس جوڑ کو توڑے کون ؟ فریقین کو حق تھا کہ وہ متفق ہونے یا اس جوڑ کو توڑ دیتے لیکن نہ اتفاق ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اس جوڑ کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا ؟ الٰہی قانون جس کے مطابق یہ جوڑ لگایا گیا تھا وہ خود حرکت میں آتا ہے اور مرد کو اس جوڑ کے جوڑے رکھنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ ترکیب بھی بتاتا ہے۔ یہ ترکیب مرد کو کیوں بتائی گئی ؟ اس لئے کہ اس پتنگ کی ڈور اس کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن قانون اس کو یہ نہیں کہتا کہ اس کو چھوڑ دے بلکہ یہ کہتا ہے کہ اس کو صحیح طریقہ سے اڑا اور ڈور کو تھام کر رکھ۔ اس کی حفاظ کی ترکیبیں بھی بتاتا ہے۔ اس طرح ایک ترکیب فیل ہوئی تو دوسری بتا دی پھر وہ فیل ہوئی تو تیسری بتا دی اور جب وہ فیل ہوئی تو اب چوتھی بتائی جا رہی ہے۔ ترکیبیں ناکام کیوں ہوئی یہ تو اللہ کی بتائی ہوئی تھیں ؟ بلا شبہ ترکیبیں اللہ ہی کی بتائی ہوئی تھیں لیکن ترکیب بگاڑنے والا تو اللہ نہیں تھا ؟ ترکیب لگانے والا ناسمجھ نکلا یا پتنگ کہیں ایسا پھنس گیا کہ آگے ہوتا ہے نہ پیچھے اور اس کو تقدیر یا مقدر کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جہاں حقیقت میں انسان بےبس ہوجاتا ہے۔ یہ معاملہ تو ایسا تھا کہ گھر کا جھگڑا گھر ہی میں ختم ہوجاتا۔ لیکن بعض اوقات ایسا ہوجاتا ہے کہ جھگڑا طول پکڑ لیتا ہے۔ وجہ اس کی کوئی ہو عورت کی طبیعت میں ترود و سر کشی ہو یا مرد کا کوئی قصور اور بےجا تشدد ہو بہر ھال اس صورت میں گھر کی بات کو باہر نکلنا تو لازمی امر ہے۔ لیکن عام عادت کے مطابق تو اس یا ہوتا ہے کہ طرفین خود طرفین کے حامی ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں جس کا نتیجہ جانبین سے اشتعال قور پھر دو شخصوں کی لڑائی کا نتیجہ دو خاندانوں کی بربادی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ قرآن کریم نے اس فساد عظیم کا دروازہ بند کرنے کے لئے فریقین کے اولیاء ، حامیوں کو ، مسلمانوں کی عام جماعت کو اور حکام وقت کو مخاطب کر کے ایک ایسا پاکیزہ طریقہ بتلا دیا ہے جس سے فریقین کا اشتعال بھی ختم ہوجائے اور الزام تراشی کے سارے راستے بھی بند ہوجائیں اور ان کی آپس میں مصالحت کی راہ نکل آئے خواہ وہ جوڑ جوڑے رہنے کی صورت میں ہا یا جوڑ توڑ دینے کی صورت میں۔ اس طرح اگر گھر کا جھگڑا گھر میں ختم نہیں ہوا کم ازکم خاندان ہی میں۔ مسلمانوں کی ایک جماعت ہی میں یا کمرہ عدالت ہی میں ختم ہوجائے تاکہ یہ جھگڑا بڑھتے بڑھتے وہ خاندانوں کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ لیکن ہماری جہالت اور قرآنی تعلیمات سے دوری کے باعث ہوتا اکثر یہی ہے جس سے قرآن کریم نے ہر حال میں منع فرمایا ہے۔ افسوس کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی جب عمل کا وقت آتا ہے تو ان پڑھ اور جاہل ہی ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے حالات و واقعات سے اپنی امان میں رکھے۔ اسلام کی دی ہوئی تراکیبوں میں یہ چوتھی اور آخری ترکیب ہے کہ فریقین کے اولیاء یا مسلمانوں کی ایک جماعت یا ارباب حکومت یہ کام کریں کہ فریقین کی آپس میں مصالحت کرنا ے کے لئے دو حکم مقرر کریں ایک مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے ان دونوں مقرر ہونے والے شخصوں کو قرآن کریم نے حکم کے لفظ سے تعبیر کرکے ان کے اوصاف کو بھی واضح کردیا کہ ان دونوں میں جھگڑوں کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ یہ صلاحیت اس شخص میں ہو سکتی ہے جو ذی علم بھی ہو اور صحیح معنوں میں دیانتدار بھی۔ یہ حکم کریں گے ؟ یہ دونوں فریقین یعنی میاں بیوی کو الگ الگ یا آمنے سامنے سمجھائیں گے۔ ان کی اصلاح کی ہر کوشش جو ان کے اختیار میں ہوگی وہ بروئے کار لائیں گے۔ دھونس دھاندلی سے نہیں بلکہ تفہیم کرانے سے۔ اس جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ ” اگر دونوں پنچ چاہیں گے کہ صلح صفائی کرا دیں تو اللہ تعالیٰ ضرور فریقین میں باہم موافقت پیدا کر دے گا۔ “ اس جگہ ” فریقین “ کا لفظ جو میں نے استعمال کیا ہے اس سے مراد میاں بیوی بھی ہو سکتے ہیں اور میاں بیوی کے خاندان بھی۔ مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی میں موافقت پیدا ہوجائے کہ وہ ایک ساتھ شیر و شکر ہوجانے پر رضامند ہوجائیں تو الحمدللہ ! پنج حضرات کا یہی مقصود حقیقی تھا۔ اگر کسی وجہ سے یہ بات حاصل نہیں ہو سکتی تو کم از کم یہ تو ضرور ہی ہوگا کہ اب دونوں خاندان اتفاق رائے سے اس تعلق کے توڑنے پر راضی ہوجائیں گے اور فریقین کے درمیان جو کچھ لین دین ہے اس کا تصفیہ ہو کر عمل درآمد ہوجائے گا اس طرح سے بھی وہ خطرہ ٹل جائے گا جس کے امکانات پیدا ہوگئے تھے۔ اب دونوں طریق اس کڑوے گھونٹ کو گلے سے اتارنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے نئی راہیں پیدا کر دے گا۔ ” بلاشبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے۔ “ ممکن ہے کہ جو کچھ میں نے عرض کیا یہ کچھ لوگوں پر وہ شاق گزرے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ یہ کسی نے پہلے نہیں بیان کیا۔ خصوصاً یُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنِھِمَا میں میاں بیوی سے ہٹ کر دونوں خاندانوں کو مراد لینا یا اس کا ترجمہ ” فریقین “ کے الفاظ سے ادا کرنا ساری باتیں ہی نئی ہیں۔ یہ نئی اور پرانی کی بحث چھوڑ دیں اور صرف یہ بتائیں کہ کیا الفاظ قرآنی اس کے متحمل نہیں ؟ میں زیادہ لمبی بحث نہیں کرتا کہ مجھے عادت نہیں اور چاہتا بھی نہیں۔ صرف یہ بتائیں کہ زید ؓ و زینب ؓ کو اس بندھن میں باندھ دیا گیا تھا ؟ یہ بندھن باندھنے والا کون تھا ؟ کیا نبی اعظم و آخر ﷺ سے بڑا پنج بھی کوئی ہو سکتا ہے ؟ کیا آپ ﷺ نے میاں بیوی کے درمیان موافقت کی کوشش نہیں کی تھی ؟ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجِکَ کے الفاظ نہیں فرمائے تھے ؟ کیا میاں بیوی میں صلح ہوگئی تھی ؟ کیا نتیجہ طلاق نہیں نکلا تھا ؟ کیا دونوں خاندان میں کوئی اینٹ روڑا چلا تھا حالانکہ ایسا ہونے کے امکانات موجود تھے۔ کیا ان دونوں خاندانوں میں موافقت پیدا نہیں ہوئی تھی ؟ اب بھی اگر کوئی یہ کہے اس سے خاندان مراد نہیں لیے جاسکتے تو اس کی اپنی مرضی ہے اس کو کیا کہہ سکتا ہوں۔ جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ یہی ہے کہ اس سے مراد دونوں خاندان لیے جاسکتے ہیں اور لیے گئے ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے عروۃ الوثقیٰ جلد اول تفسیر سورة بقرہ آیت 229 ، 230 کا مطالعہ کریں۔
Top