Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا : اور تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَلَا تُشْرِكُوْا : اور نہ شریک کرو بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کسی کو وَّ : اور بِالْوَالِدَيْنِ : ماں باپ سے اِحْسَانًا : اچھا سلوک وَّ : اور بِذِي الْقُرْبٰى : قرابت داروں سے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : اور محتاج (جمع) وَالْجَارِ : ہمسایہ ذِي الْقُرْبٰى : قرابت والے وَالْجَارِ : اور ہمسایہ الْجُنُبِ : اجنبی وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ : اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس) وَ : اور ابْنِ السَّبِيْلِ : مسافر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہاری ملک (کنیز۔ غلام اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ : جو كَانَ : ہو مُخْتَالًا : اترانے والا فَخُوْرَۨا : بڑ مارنے والا
اور دیکھو اللہ کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ اور چاہیے کہ ماں باپ کے ساتھ ، قرابت داروں کے ساتھ ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ ، پڑوسیوں کے ساتھ ، خواہ قرابت والے پڑوسی ہوں خواہ اجنبی ہوں نیز پاس کے بیٹھنے اٹھنے والوں کے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو مسافر ہوں یا تمہارے قبضے میں ہوں احسان اور سلوک کے ساتھ پیش آؤ ، اللہ ان لوگوں کو دوست نہیں رکھتا جو اترانے والے اور ڈینگیں مارنے والے ہیں
اللہ کی بندگی کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ : 77: قرآن کریم میں جگہ جگہ یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراؤ اور بندگی کرو تو صرف اس کی بندگی کرو اور اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ بلکہ یہ کہ غیر اللہ کی بندگی سے انکار کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کا اقرار کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اللہ کی بندگی بھی کرتے رہو اور غیر اللہ کی بھی۔ اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ کی بندگی کا کوئی تصور ہی باقی نہ رہا۔ اس لیے کہ اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش اور پوجا نہ کرو بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بےچون و چرا اطاعت بھی صرف اس کی کرو اور اس کے حکم کو حکم اور اس کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدار اعلیٰ تسلیم نہ کرو۔ یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ اور صرف انفرادی طرز عمل ایک ہدایت ہی نہیں ہے بلکہ اس پورے نظام اخلاق اور تمدن و سیاست کا سنگ بنیاد بھی ہے جو مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی کریم ﷺ نے عملاً قائم کیا۔ اس کی عمارت اس نظریے پر اٹھائی گئی تھی کہ اللہ جل شانہ ہی ملک کا مالک اور بادشاہ ہے اور اس کی شریعت ملک کا قانون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر عہدہ نبوت کے ختم کرنے تک ہر ایک نبی کی دعوت کا پہلا سبق یہی تھا۔ چناچہ قرآن میں ارشاد الٰہی اس طرح ہے : ” کسی انسان کو یہ سزاوار نہیں کہ اللہ اسے کتاب ، حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور پھر اس کا شیوہ یہ ہو کہ وہ لوگوں سے سے کہے اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ ؟ بلکہ چاہئے کہ ربانی انسان بنو۔ اس لیے کہ تم کتاب اللہ کی تعلیم دیتے ہو اور اس لیے بھی کہ اس کے پڑھنے پڑھانے میں مشغول رہتے ہو۔ ایک ربانی انسان کبھی تمہیں اس بات کا حکم نہیں دے گا کہ فرشتوں یا نبیوں کو اپنا پروردگار بنا لو۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ تمہیں کفر کرنے کا حکم دے حالانکہ تم مسلم ہوچکے ہو ؟ “ (آل عمران : 80 ۔ 79:3) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء و مشائخ کو پروردگار بنا لیا اور مریم کے بیٹے مسیح کو بھی۔ حالانکہ انہیں جو حکم دیا گیا تھا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک اللہ کی بندگی کرو۔ کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی ، وہ پاک ہے اس شرکت سے جو یہ اس کی ذات میں ٹھہرا رہے ہیں۔ “ (التوبہ : 31:9) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے دنیا کی ہر امت میں کوئی نہ کوئی رسول ضرور پیدا کیا جو کہتا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو ، اور سرکش قوتوں سے بچو ، پھر ان امتوں میں سے بعض ایسی تھیں جن پر اللہ نے کامیابی کی راہ کھول دی اور بعض ایسی تھیں جن پر گمراہی ثابت ہوگئی۔ پس ملکوں کی سیر کرو اور دیکھو جو قومیں سچائی کی باتوں کو جھٹلانے والی تھیں انہیں بالآخر کیسا انجام پیش آیا ؟ “ (النحل : 63:16) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور پھر دیکھو یہ واقعہ ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا اس نے کہا تھا : ” بھائیو ! اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم ڈرتے نہیں ؟ “ (المومنون : 23:23) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا اس نے کہا : لوگو ! میں تم کو واضح طور پر خبردار کرنے والا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ، میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایک دردناک دن نہ آجائے۔ “ (ہود : 26 ۔ 25:11) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور ہم نے قوم عاد کی طرف اس کے بھائی بندوں میں ہود کو بھیجا ، ہود (علیہ السلام) نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، یقین کرو ، تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ افتراء پردازیاں کر رہے ہوں۔ “ (ہود : 50:11) ایک جگہ ارشاد ہوا : ” اور ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے صالح (علیہ السلام) کو بھیجا ، اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، وہی ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور پھر اس میں تمہیں بسا دیا۔ پھر چاہئے کہ اس سے بخشش مانگو اور اس کی طرف رجوع ہو کر رہو ، یقین کرو میرا پروردگار ہر ایک کے پاس ہے اور ہر ایک کی دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے۔ “ (ہود : 61:11) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور ہم نے قبیلہ مدین کی طرف اس کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا۔ اس نے کہا : ” اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ اور تول میں کوئی کمی نہ کیا کرو ، میں دیکھ رہا ہوں کہ تم خوشحال ہو ، میں ڈرتا ہوں کہ تم پر عذاب کا ایسا دن نہ آجائے جو سب پر چھا جائے گا۔ “ (ھود : 83:11) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہراؤ ورنہ ایسے ہو رہو گے کہ ہر طرف سے نفرین کے مستحق اور ہر طرف سے درماندگی میں پڑے ہوئے اور تمہارے پروردگار نے یہ بات ٹھہرا دی کہ اس کے سوا اور کسی کی بندگی نہ کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ “ (بنی اسرائیل : 24 ۔ 23:17) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے موسیٰ ! میں نے تجھے چن لیا ہے ، پس جو کچھ وحی کی جاتی ہے اسے کان لگا کر سن ، میں ہی اللہ ہوں اور میرے سوا کوئی معبود نہیں ، پس میری بندگی کر ، اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ “ (طٰہٰ : 14 ۔ 13:20) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو رکوع میں جھکو ، سجدے میں گرو ، اپنے پروردگار کی بندگی کرو ، جو کچھ کرو نیکی کی بات کرو ، عجب نہیں کہ اس طرح بامراد ہو۔ “ (الحج : 77:22) مزید تفصیل کے لیے نیچے اشارات دیے جا رہے ہیں قرآن کریم کے ان مقامات کا مطالعہ کریں : (البقرہ : 21:2) ، (البقرہ : 123:2) ، (الاعراف : 73:7) ، (مریم : 44:19) ، (الزمر : 17:39) ، (الاعراف : 85:7) ، (الانبیاء : 92:21) ، (الزمر : 2:39) ، (الزمر : 11:39) ، (الزمر : 64:39) ، (یونس : 2:10) ، (الزمر : 15 ۔ 14:39) ، (الحجر : 99:15) ، (الکافرون : 6 ۔ 1:109) ، لقمان : 15 ۔ 14:31) ۔ والدین کے ساتھ نیکی سے پیش آؤ اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو : 78: والدین کی عزت و احترام ، خدمت اور مصاحبت موسیٰ (علیہ السلام) ، عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی اعظم و آخر ﷺ کی تعلیمات میں یکساں ضروری قرار دی گئی ہیں۔ بلکہ ان تینوں مذاہب میں ان کا درجہ اللہ تعالیٰ کی ذات رسول اللہ ﷺ کے بعد انسانی رشتوں میں سب سے بڑا بنایا گیا ہے اور اللہ کی فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ ان کی فرمانبرداری کی تاکید بھی کی گئی ہے چناچہ تورات میں توحید کی تعلیم کے بعد ہے۔ ” تو اپنے ماں باپ کو عزت دے ، تاکہ تیری عمر اس زمین پر جو خداوند خدا تجھے دیتا ہے دراز ہو۔ “ (خروج : 21:20) پھر ایک اور حکم دیا : ” تم میں سے ہر ایک اپنی ماں اور اپنے باپ سے ڈرتا ہے۔ “ (احبار : 3:19) پھر انتہا یہ ہے کہ تورات میں قانوناً یہ حکم نافذ کیا کہ : ” اور جو کوئی اپنے باپ یا اپنی ماں پر لعن کرے ، مار ڈالا جائے گا ، اس نے اپنے باپ یا اپنی ماں پر لعنت کی ہے اس کا خون اسی پر ہے۔ “ (احبار : 9:20) ” اور وہ جو اپنی ماں پر لعنت کرے ، مار ڈالا جائے۔ “ (خروج : 17:21) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انجیل میں انہی احکام کو دہرایا اور اس بات پر زور دیا کہ ان احکام کی صرف لفظی تعمیل نہ کی جائے بلکہ ان کی روح و معانی کا خیال کیا جائے ، فرمایا : ” کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ اپنے ماں باپ کی عزت کرو اور جو ماں باپ پر لعنت کرے ، جان سے مارا جائے ، یہ تم کہتے ہو کہ جو کوئی اپنے باپ یا ماں کو کہے کہ جو کچھ تجھ کو دینا واجب تھا سو خدا کی نزر ہوا اور اپنے باپ یا ماں کی عزت نہ کرے تو کچھ مضائقہ نہیں ، پس تم نے اپنی روایت سے خدا کے حکم کو باطل کیا۔ “ (متی : 4:15) علاوہ ازیں انجیل کے دوسرے ابواب اور صحیفوں میں تورات کے الفاظ کا بعینہٖ اعادہ ہے مثلاً (متی : 19:19) ، (مرقس : 19:7) ، (لوقا : 20:18) ۔ نبوت محمدی ﷺ جس کی بعثت ہی اخلاق کی تکمیل کے لیے ہوئی ہے اس نے تورات و انجیل کی طرح نہ صرف والدین کی عزت اور ان سے ڈرتے رہنے کی تاکید کی بلکہ اس مسئلہ کے ہر گوشہ کی پوری تفصیل بیان کردی اور ہر ممکن سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔ اس نے سب سے پہلے ماں باپ کی مشترکہ حیثیت کی بھی تفصیل کی اور بتایا کہ ماں اور باپ میں بھی سب سے بڑا درجہ ماں کا ہے۔ عورت کی فطری کمزوری ، بےچارگی اور حمل ، وضع حمل اور تربیت اولاد کی تکلیفوں کو ہنسی خوشی برداشت کرنا ، ماں کی بڑائی ، اس کی سب سے پہلے دلدہی کرنے اور اس کی فرمانبرداری کرنے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ “ چناچہ ارشاد ہوا : ” اور ہم نے انسان کو ، اس کے ماں باپ کے واسطے تاکید کی ، دیکھو اس کی ماں نے اس کو تھک تھک کر اپنے پیٹ میں رکھا اور پھر دو برس تک دودھ پلایا۔ “ (لقمان : 14:31) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور ہم نے انسان کو تاکید کی کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرے ، اس کی ماں نے اس کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ جنا ، پیٹ میں رکھنے اور دودھ کے پلانے کی مدت تیس مہینے ٹھہرائی گئی۔ “ (الاحقاف : 15:46) نبی اعظم و آخر ﷺ نے اپنے ارشادات میں اس کی مزید تاکید کی۔ ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا کون مستحق ہے ؟ فرمایا : تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون ؟ فرمایا : تیری ماں۔ اس نے عرض کی : پھر کون ؟ فرمایا : ترمی ماں۔ اس نے عرض کی : پھر کون ؟ آپ نے فرمایا : تیری ماں ! تین دفعہ آپ ﷺ نے یہی جواب دیا اور چوتھی دفعہ پوچھنے پر ارشاد ہوا : تیرا باپ۔ (صحیح بخاری ج : 2 ، کتاب الاداب) ایک دن رسول اللہ ﷺ نے چار بڑے بڑے گناہوں کا ذکر کیا اور سرفہرست ماں کی نافرمانی کو رکھا اور فرمایا : ” تمہارے اللہ نے ماؤں کی نافرمانی تم پر حرام کی ہے۔ “ (صحیح بخاری ج : 2 ، کتاب الاداب) ایک دفعہ ایک شخص نے آ کر عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے ؟ کیا میرے لیے کوئی توبہ ہے ؟ فرمایا : کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ جواب دیا : نہیں ! دریافت کیا خالہ ہے ؟ گزارش کی : ہے ! فرمایا : تو اس کے ساتھ نیکی کر۔ “ یہی اس کی توبہ ہے۔ (جامع ترمذی کتاب البر والصۃ ) ایک صحابی ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! میں نے جہاد میں شرکت کا ارادہ کیا ہے اور آپ ﷺ سے مشورہ چاہتا ہوں۔ فرمایا : کیا تمہاری ماں ہے ؟ جواب دیا کہ ہاں ! ہے۔ فرمایا : تو اس کی خدمت کرو کہ جنت اس کے پاس ہے۔ “ (ترغیب و ترہیب منذری ج : 2 ، ص : 124 بحوالہ ابن ماجہ ، نسائی و حاکم) ان تعلیمات سے اندازہ ہوگا کہ محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کی تعلیم میں مخلوقاتِ انسانی میں اس صنف نازک ہی کو سب سے بڑی برتری حاصل ہے اور یہ برتری بالکل فطری ہے۔ انسان سب سے زیادہ اپنے وجود میں جن کا ممنون ہے اور جو اس کی تخلیق کی مادی علت ہیں وہ خالق اکبر کی علت فاعلہ ذات کے بعد ماں اور باپ ہیں لیکن باپ کی مادی علت چند لمحوں اور چند قطروں سے زیادہ نہیں مگر ماں وہ ہستی ہے جس نے اس کی ہستی کو اپنا خون جلا جلا کر بڑھایا ہے اور نو مہینے تک اس کی مشکل سہہ کر اور سختی اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا ہے پھر اس کے جننے کی ناقابل برداشت تکلیف کو ہنسی خوشی برداشت کیا ہے ، پھر اس نوپیدا مضغہ گوشت کو اپنی چھاتیوں سے لگا کر اپنا خون پانی کر کے پلایا اور اس کی پرورش اور غور و پرداخت میں اپنی ہر راحت قربان ، اپنا ہر آرام ترک اور اپنی ہر خوشی نثار کردی۔ ایسی حالت میں کیا ماں سے بڑھ کر انسان اپنے وجود میں مخلوق میں سے کسی اور کا محتاج ہے ؟ اس لیے شریعت اسلامیہ نے اپنی تعلیم میں جو بلند سے بلند مرتبہ اس کو عنایت کیا ہے وہ اس کے سزاوار ہے۔ ماں کے بعد جو دوسری ہستی بچہ کی تولید وتکوین میں شریک ہے۔ وہ باپ ہے اور کوئی شک نہیں کہ اس کی نشو ونما اور تربیت میں ماں کے بعد باپ ہی کی جسمانی اور مالی کوشش شامل ہیں اس لیے جب بچہ ان کی محنتوں اور کوششوں سے قوت کو پہنچے تو اس پر فرض ہے کہ اپنی اس ماں باپ کی کوششوں سے حاصل کی ہوئی قوت کا شکرانہ ماں باپ کی خدمت کی صورت میں ادا کرے۔ چناچہ اسلام نے یہ صرف پہلے صحیفوں کی طرح ان کی عزت کرنے اور ان سے ڈرتے رہنے کے وعظ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی خدمت ، ان کی اطاعت ، ان کی امداد ، ان کی دلدہی فرض قرار دے دی اور یہاں تک تاکید کی کہ ان کی کسی بات پر اُف تک نہ کرو ، ان کے سامنے ادب سے جھکے رہو ، ان کی دعاؤں کو اپنے حق میں قبول سمجھو۔ انہی کی خدمت سب سے بڑا جہاد ہے۔ یہاں تک کہ انہی کی خوشنودی میں خدا کی خوشنودی ہے۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی اور خدمت کی تاکید آئی اور یہ 12 مقامات ہیں جن میں اکثر مقامات پر یہ تعلیم ، توحید اور خدا پرستی کی تعلیم کے بعد ہی آتی ہے کیونکہ پہلی تخلیق انسان کی علت فاعلی ہے اور دوسری علت مادی اس لیے اس کو عبادت الٰہی کے ساتھ ہی بیان کیا گیا۔ مجھے معلوم ہے کہ میں دو مقامت پر اس سے پہلے ذکر کر آیا۔ اس جگہ صرف اشارہ بھی دیا جاسکتا تھا لیکن ضمیر نے یہ اجازت نہ دی کہ والدین کا ذکر بار بار اور پھر ہر بار مختلف طریقے سے کیا جانا چاہئے کہ آج بدقسمتی سے ہمارے معاشرہ میں والدہ کو عام انسانوں کے برابر بھی درجہ نہیں دیا جا رہا ہے اولاد بیزار ہے تو ماں باپ سے۔ حالانکہ جو آج اولاد ہیں کل وہ بھی ماں باپ ہوں گے تو ان کا حال اس سے بھی بدتر ہوگا۔ اپنی جانوں پر رحم کرو جو بیج رہے ہو کل ضرور کاٹو گے۔ قریبی رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو کہ ان کے متعلق سوال کیے جاؤ گے : 79: ماں ، باپ ، اولاد اور زن و شو کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے اہل قرابت کا حق ہے۔ عربوں کے محاورہ میں اس کا نام ” صلہ رحم “ ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی اخلاقی تعلیم میں صلہ رحم اور حقوق قرابت کی اہمیت دنیا کے تمام مذاہب سے زیادہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ آپ ﷺ نے اس کی طرف بار بار توجہ دلائی اور قرآن کریم میں بھی کم از کم 12 آیتوں میں اس کی تصریح کی گئی ہے اور اس کو انسان کا احسان نہیں بلکہ اس کا فرض اور حق بتا دیا گیا۔ چناچہ ارشاد ہوا کہ فَاتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ (الروم : 38:30) ” تو قرابت دار کو اس کا حق ادا کر دے۔ “ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ (بنی اسرائیل : 26:17) ” اور قرابت والے کو اس کا حق ادا کر۔ “ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ مال و دولت کی محبت اور ذاتی ضرورت اور خواہش کے باوجود صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے خود تکلیف اٹھا کر اپنے قرابت داروں کی امداد اور ان کے ساتھ تعاون اصل نیکی ہے۔ فرمایا : وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی۔ (البقرہ : 177:2) ” اور اصل نیکی اس کی وجہ ہے جس نے اپنا مال اس کی محبت پر قرابت داروں کو دیا۔ “ فرمایا : والدین کے بعد اہل قرابت ہی ہماری مالی امداد کے مستحق ہیں۔ ارشاد ہوا : ” فائدہ کی جو چیز تم خرچ کرو تو وہ ماں ، باپ اور رشتہ داروں کے لیے کرو۔ “ (البقرہ) ماں باپ کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اللہ تعالیٰ کے ان خاص احکام میں سے ہے جن کا انسان سے عہد لیا گیا ہے چناچہ سورة النمل میں اہل قرابت کی امداد کو عدل اور احسان کے بعد اپنا تیسرا خاص حکم بتایا گیا۔ ” بلاشبہ اللہ انصاف ، حسن سلوک اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔ “ (النمل) مسلمان کی دولت کے بہترین مستحق والدین کے بعد اس کے قرابت والے ہی ہیں۔ فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ! کہہ دیجئے کہ فائدہ کی جو چیز تم خرچ کرو تو وہ اپنے ماں باپ ، قرابت داروں ، یتیموں اور غریبوں کے لیے خرچ کرو۔ “ (البقرہ) اگر کسی قرابت در سے کوئی قصور ہوجائے تو اہل ثروت کو زیبا نہیں کہ وہ اس کی سزا میں اپنی امداد کا ہاتھ اس سے روک لیں چناچہ فرمایا : ” اور جو لوگ تم میں سے مالی برتری رکھتے ہیں وہ محتاجوں اور قرابت داروں کو نہ دینے کی قسم نہ کھا لیں۔ “ (النور) یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کو بھی ادا کرو کہ تمہارے مال میں وہ حصہ دار ہیں : 80: یتیم کون ہیں ؟ وہی بےباپ بچے جو اس سہارا سے محروم ہوچکے ہیں۔ مسکین کون ہیں ؟ لوگ جن کی آمدنی اتنی کم ہے کہ وہ اس آدمی سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔ یتیم اس وقت یتیم ہے جب تک وہ کھانے اور خرچ کرنے کے قابل نہ ہوجائے۔ اکثر یہ حد بلوغت پر ختم ہوجاتی ہے لیکن بعض اوقات جسمانی بلوغت تو ہوجاتی ہے اور ذہنی و دماغی بلوغت نہیں ہوتی ایسے حالات میں اسلام نے دوسری حالت کو ترجیح دی ہے اور مسکین اس وقت تک مسکین ہے جب تک اس کے حالات معاش درست نہ ہوجائیں اور کم از کم اس کی آمدنی اس کے اخراجات کے برابر ہوجائے تاکہ آسانی سے گزر بسر کرسکے۔ اس لیے ان لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کے جائز حقوق کی ذمہ داری معاشرے کے ان افراد پر عائد ہوتی ہے جو صاحب جائیداد ہیں اور سب سے زیادہ اسلامی حکومت کو حق ہے کہ ان سارے لوگوں کا بندوبست خود کرے۔ عوام حکومت سے تعاون کریں یا حکومت عوام سے ان سارے لوگوں کا حق وصول کر کے ان کی باقاعدہ حساب کتاب کے ساتھ کفالت اپنے ذمہ لے لے۔ اموال سرکاری خزانہ میں جمع ہوں اور وہاں سے ایسے سارے لوگوں میں ایک قاعدہ و قانون کے مطابق تقسیم ہوں۔ اسلام سے پہلے کے مذاہب میں اس واجب الرحم گروہ کے ساتھ رحم و شفقت اور ان کی امداد و پرورش کا ذکر بہت کم ملتا ہے لیکن نبی اعظم و آخر ﷺ کے سینہ اقدس پر نازل ہونے والے قانون میں ان کا بار بار ذکر کیا گیا ہے اور نہایت حد تک تاکید فرمائی گئی ہے اور خصوصاً یتیموں کی طرف توجہ نہ دینے والوں کو سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ سورة الفجر میں ارشاد فرمایا گیا کہ : ” تم وہ لوگ ہو کہ یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو رغبت ہی نہیں دلاتے اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو اور ماں کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔ “ (الفجر : 20 ۔ 17:89) مطلب یہ کہ تم عجیب انسان ہو کہ جب تک بچوں کا باپ زندہ رہتا ہے ان کے ساتھ تمہارا برتاؤ کچھ ہوتا ہے اور جب ان ہی بچوں کا باپ وفات پا جاتا ہے تو ہمسائے اور دور کے رشتہ دار تو درکنار چچا ، ماموں اور بڑے بھائی تک ان سے آنکھیں پھیر جاتے ہو۔ تم اپنے محلے ، شہر اور ملک کے بڑے لوگ ہو لیکن تمہاری مجلسوں میں غریبوں کا کبھی چرچا نہیں ہوا نہ تم خود بھوکوں کو کھلانے پر آمادہ ہوتے ہو اور نہ ہی لوگوں میں یہ جذبہ پیدا کرنے کے لیے تیار ہو۔ ہاں ! غریبوں میں تقسیم کرنے کا مال تم کو مل جائے تو تم اس کو ہڑپ کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہو اور اس کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تراش سکتے ہو۔ قانون کا پیٹ بھرنے کے لیے کچھ دیتے ہو تو وہ بھی ان لوگوں کو جو تمہارے کام آسکیں اور تمہارے نام کے گیت گائیں۔ تمہاری پارٹی میں داخل ہوں وقت آئے تو تم کو ووٹ دیں۔ بتاؤ تو سہی کہ آخر تم کس ناطے سے انسان ہو ؟ کیا انسانوں کے یہی اوصاف ہیں جو تمہارے ہیں۔ ہاں ! تم درندہ نہیں تو درندہ صفت ضرور ہو۔ یاد رکھو ! درندہ ہزار بار اچھا ایسے درندہ صفت انسانوں سے کیوں ؟ اس لیے کہ درندہ کو دیکھ کر اور کچھ نہیں تو بھاگ کر ہی جان بچائی جاسکتی ہے لیکن تم نوچ نوچ کر کھاتے ہو اور پھر ” سی “ بھی نہیں کرنے دیتے۔ پڑوسیوں کا خیال رکھو وہ تمہارے دکھ سکھ میں آسانی سے شریک ہو سکتے ہیں : 81: ہمسایہ اور پڑوسی وہ دو آدمی ہیں جو ایک جگہ رہتے اور بستے ہیں۔ انسانیت اور اس کے تمدن کی بنیاد باہمی اشتراک عمل ، تعاون اور موالات پر قائم ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان دوسرے انسان کے تعاون کا محتاج ہے۔ اگر ایک بھوکا ہے تو دوسرے پر حق ہے کہ اپنے کھانے میں سے اس کو بھی کھلائے۔ اگر ایک بیمار ہے تو جو تندرست ہے اس کی تیمارداری کرے۔ ایک پر اگر کوئی مصیبت آئے تو دوسرا اس کا شریک اور ہمدرد بنے اور اس اخلاقی نظام کے ساتھ انسانوں کی مجموعی آبادی باہمی محبت اور حقوق کی ذمہ داریوں کی گرہ میں بندھ کر ایک ہوجائے۔ ہر انسان بظاہر جسمانی اور مادی حیثیت سے جتنا ایک دوسرے سے علیحدہ اور بجائے خود مستقل ہے اخلاقی اور روحانی حیثیت سے فرض ہے کہ وہ اتنا ہی زیادہ ایک دوسرے سے ملا ہوا ہو اور ایک دوسرے کے وجود سے اتنا ہی پیوستہ ہو۔ اس لیے ہر مذہب نے ان دو انسانوں پر جو ایک دوسرے کے قریب آیا ہوں آپس کی محبت اور امداد کی ذمہ داری رکھی ہے کہ وہ وقت پر دوسروں سے پہلے ایک دوسرے کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔ ایک اور نکتہ بھی اس میں مضمر ہے کہ انسان کو اس سے تکلیف اور دکھ پہنچنے کا اندیشہ بھی زیادہ ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے باہمی تعلقات خوش گوار اور ایک دوسرے سے ملائے رکھنا ایک سچے مذہب کا سب سے بڑا فرض ہے تاکہ برائیوں کا سدباب ہو کر یہ پڑوسی دوزخ کی بجائے بہشت کا نمونہ ہو اور دوسرے کی محبت اور تعاون پر بھروسہ کر کے گھر سے باہر نکلے اور گھر میں قدم رکھے۔ زیرنظر آیت میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ” خواہ قرابت والے پڑوسی ہوں ، خواہ اجنبی ہوں۔ “ اس کے پیش نظر ہمسایوں میں تقدم اس کو حاصل ہے جس کو ہمسایہ ہونے کے علاوہ قرابت نسبی یا مذہبی حاصل ہو یا اس طرح کا کوئی دوسرا تعلق ہو اور اجنبی وہ ہوگا جس سے صرف ہمسائینس کا تعلق ہوگا دوسرے تعلقوں میں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اس ” قریب “ اور ” بیگانہ “ کے معنوں میں اہل تفسیر نے اختلاف کیا ہے۔ لیکن ہم کسی اختلاف میں پڑے بغیر الفاظ کی روانی پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرح کے پڑوسیوں سے تعلق جو غیر مذہب وملت کے ہوں زیادہ دلچسپی لینی چاہئے اور ان کے کام آنے کی زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔ ان سے تعاون نہ لیا جائے یا کم لیا جائے لیکن خود ان کے ساتھ زیادہ تعاون کیا جائے تاکہ وہ اسلام کی شیرینی سے متاثر ہوں اور غیر مسلم ہونے کے باوجود اسلام سے نفرت نہ کریں۔ شریعت کی پابندیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمسایوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا۔ ضرورت کے وقت ان کے کام آنا۔ غریب ہوں تو ان کی مدد کرنا۔ ہدیہ و تحفہ وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہنا۔ روزمرہ اشیاء کا تبادلہ کرنا۔ وہ کوئی چیز پیش کریں اگر شریعت مانع نہ ہو تو اس کو قبول کرنا۔ اپنے ہاں سے کچھ نہ کچھ ان کو بھجواتے رہنا۔ ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھنا۔ کسی نے کوئی زیادتی کی ہو تو برداشت کرنا اور اس اسے انتقام لینے کی کوشش نہ کرنا۔ ان کی برائی کے نتیجہ میں ہو سکے تو نیکی کرنا ورنہ برائی کا جواب برئی سے ہرگز نہ دینا۔ یہ ساری باتیں رسول اللہ ﷺ نے امت کو سمجھا دی ہیں اور مسلمان ہونے کے باعث ان کی پابندی نہایت ضروری ہے۔ اٹھنے بٹھنے والوں سے بھی تعلق پیدا ہوجاتا ہے اس کی پاسداری بھی ضروری ہے : 82: انسان کی زندگی میں کتنے مراحل آتے ہیں جو آپس میں بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ کسی وقت وہ سفر میں ہوتا ہے کبھ حضر میں۔ کبھی درسگاہ میں ہوتا ہے کبھی ملازمت کے دفتر میں۔ یہ مختلف سورتیں تقریباً ہر انسان کو پیش آتی ہیں۔ پھر وہ جہاں جاتا ہے اس کو دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے سفر کے ساتھیوں کے اپنے حقوق ہیں ایک درس گاہ کے طالب علموں کے اپنے حقوق ہیں۔ ایک استاد کے شاگردوں کے اپنے حقوق ہیں اور ان سب حقوق کی ادائیگی بھی ضروری ہے اور ہر جگہ پر اپنی اپنی نوعیت کی رفاقت اور محبت ہے اور ان سب قسموں کا لحاظ رکھتے ہوئے ہر قسم کے حقوق کو پورا کرنا لازم و ضروری ہے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ انسان جہاں بھی جائے اچھی یاد چھوڑ کر آئے کہ یاد کرنے والے اس کو نیکی سے یاد کریں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (بقرہ) ” لوگوں سے اچھی بات کہو۔ “ اس طرح لوگوں سے اچھی بات کہنا اور اچھائی سے پیش آنا انسانیت کا فرض ہے جس میں کسی دین و مذہب کی تخصیص نہیں۔ دین و مذہب اور نسل و قومیت کا اختلاف اس منصفانہ برتاؤ سے باز نہ رکھے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ : 8:5) ” اور یاد رکھو کہ ایسا کبھی نہ ہو کہ کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اس بات کے لیے ابھار دے کہ اس کے ساتھ انصاف نہ کرو ، ہر حال میں انصاف کرو یہی تقویٰ سے لگتی ہوئی بات ہے۔ “ ہر قسم کا برا سلوک اور بےرحمانہ برتاؤ جو ایک انسان دوسرے انسان سے اور ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ کرتی ہے اس کا اصل سبب یہی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے حق میں عدل سے کام نہیں لیتا بلکہ اس پر ظلم اور بےانصافی کے لیے آمادہ رہتا ہے یہ آیت انسان کے اس مادہ فاسد کے سرچشمہ کو بند کرتی ہے اور مسلمانوں کو باور کراتی ہے کہ یہ بودار مادہ ایک سچے مسلمان میں بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ ابوہریرہ ؓ اور انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا تباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدا بروا وکونو عباد اللہ اخواناً ۔ (بخاری ، ج : 2) ” آپس میں ایک دوسرے سے کہنہ نہ رکھو ، ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو اور سب مل کر اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی ہوجاؤ ۔ “ اسلام نے ہم کو کیا درس دیا تھا اور ہم نے کیا یاد کیا ؟ آخر یہ مارو ، مارو کس اسلام کا سبق ہے ؟ ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے ؟ آج ہم میں کس کو کس سے بغض نہیں ؟ کس کو کس سے حسد نہیں ؟ آج ہم میں سے کس کا کس سے منہ پھرا ہوا ہے ؟ کیا آج ہم اللہ کے بندے اور بھائی بھائی ہیں ؟ اس وقت ہمارے چاروں طرف ایک شور بپا ہے اور مارو مارو کی صدائیں بلند ہیں۔ کیوں مارو ؟ اگر جنت چاہتے ہو تو مارو ! کس کس کو مارو ؟ صدا بلند ہوتی ہے وہابیوں کو مارو ، دیوبندیوں کو مارو ، بریلیوں کو مارو ، شیعوں کو مارو ، مرزائیوں کو مارو ، مودویوں کو مارو ، تبلیغیوں کو مارو ، اسماعیلیوں کو مارو ، پنجابیوں کو مارو ، ہندوؤں کو مارو۔ اسلام کہتا ہے کہ تم سارے انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا ہے اور تم سب میں انسانیت کا ایک اصولی رشتہ قائم ہے اس کا پاس کرو اور یاد رکھو کہ کسی کو بھی نہ مارو اور جب تک میدان کارزار گرم نہ ہوجائے اور کفر و اسلام کی جنگ کا اعلان نہ ہوجائے۔ تم نظریاتی طور پر اگر دو ہو بھی تو صرف اور صرف کفر و اسلام کی تقسیم اور یہ کفر اور اسلام کی تقسیم پر بھی مرنا اور مارنا اس صورت میں ہے جب کفر و اسلام کی جنگ ہو یا کفر اسلام پر چڑھائی کر دے اور پھر یہ جتنے گروہ تم نے گنائے ہیں ان میں سے ایک دو کو چھوڑ کر باقی تم سب تو ایک دین و ملت کے ساتھ وابستہ ہو تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو۔ تم کیوں کہتے ہو کہ مارو مارو ؟ تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ مت مارو ، مت مارو ؟ اس لیے کہ ان سب کی ” مت “ ماری گئی ہے اس لیے باقی مارو ، مارو ہی رہ گیا۔ ورنہ اس طرح مرنے اور مارنے کا کوئی جواز اسلام میں نہیں ہیْ دیکھو ! بخاری شریف کی ایک حدیث کا چھوٹا سا ٹکرا سن لو رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو یہ شر اور فساد سے بھری ہوئی دنیا دفعتہ جنت کا ایک حصہ بن جائے چلو آسمانی جنت نہ سہی دنیوی جنت سہی۔ فرمایا گیا : من لا یرحم لا یرحم ” جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ “ جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اس پر اللہ رحم نہیں کرتا۔ جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا دوسرے بھی اس پر رحم نہیں کرتے۔ آپ جو ترجمہ چاہیں کریں بات اسی طرح رہے گی جس طرح حقیقت حال ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ “ (مستدرک حاکم کتاب البر والصلۃ ، ج : 4 ، ص : 159) اٹھو ! ان مارو مارو کی صدائیں بلند کرنے والوں کو کہہ دو کہ خدا را ! تم بھی اس دنیا میں رہنے والوں پر رحم کرو تاکہ آسمان والا بھی تم پر رحم کرے۔ تم سب ایک دوسرے کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے ہو اس لیے پاس بیٹھنے اٹھنے والوں کے ساتھ احسان اور سلوک کے ساتھ پیش آؤ ۔ مسافروں اور قبضے میں آنے والوں کے ساتھ حسن سلوک سے کام لو : 83: ہر انسان خواہ وہ کس قدر صاحب دولت اور بےنیاز ہو کسی نہ کسی وقت اس پر ایسی افتاد پڑتی ہے کہ اس کو دوسروں کا دست نگر بننا پڑتا ہے اور اس کو دوسرے سے تعاون حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اسلامی جماعت کے ہر رکن کا فرض ہے کہ وہ اپنے ایسے مصیبت زدہ بھائی کی ہر طرح مدد کرے اور اپنی موجودہ بہتر حالت سے مغرور ہو کر کبھی کسی حاجت مند کی حاجت روائی سے بےپروائی نہ برتے اور نہ یہ سمجھے کہ اس کو کبھی کسی دوسرے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ سفر ایک ایسی چیز ہے جس سے ہر انسان کو سابقہ پڑ سکتا ہے بلکہ پڑتا ہے۔ پھر سفر دور دراز کا بھی ہو سکتا ہے اور اپنے وطن سے باہر کا بھی اور یہ بھی صحیح ہے کہ حالت سفر میں ایسی صورت پیش آسکتی ہے کہ ایک لاکھوں اور کروڑوں پتی آدمی بےبس اور مجبور ہوجائے۔ اس لیے اس وقت یہ خیال نہیں کیا جاسکتا ورا نہ ہی کیا جانا چاہئے کہ ایسے وقت کسی سے مدد حاصل کرنا کوئی جرم ہے یا مدد کرانا کوئی برائی ہے نہیں بلکہ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ ایسے لوگوں کا تم پر حق ہے اور ایسے وقت تم کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا نہایت ضروری ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : فِیْ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (المعارج) ” ان کے مالوں میں مانگنے والوں کا بھی حق ہے اور محروم لوگوں کا بھی۔ “ یاد رہے کہ ہر سائل سے مراد بھیک مانگنے والا ہی نہیں ہوتا اگرچہ اس کو بھی سائل ہی کہتے ہیں ر۔ اس سے ہر وہ ضرورت مند مراد ہے جو کسی وجہ سے بھی مالی تعاون کا خواستگار ہو۔ ایسے حالات میں زکوٰۃ سے بھی ان کی مدد کی جاسکتی ہے اور عام صدقہ و خیرات سے بھی۔ وقت و حالات کے مطابق عمل کرنا جائز و درست ہے۔ ہاں ! خیال رہے کہ ایسے پیشہ ور جو مانگنا ایک پیشہ بنا لیتے ہیں اگر ان کے پیشہ کا یقین ہو تو چاہو مدد نہ کرو لیکن لعن طعن درست نہیں کیونکہ وہ عنداللہ مجرم ہیں اور یقینا اپنے جرم کی سزا پائیں گے اور یقین جاننے کہ مانگنا ایک بذاتہ مانگنے والے کے لیے سزا ہے۔ زیرنظر آیت میں مسافروں کے ساتھ ان حاجت مندوں کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے جن ناتواں طبقہ کو ” غلام “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہم کو دنیا کی تاریخ جب سے معلوم ہے یہ طبقہ موجود ہے قوی اور فاتح قوموں نے ہمیشہ مفتوح قوم کے افراد کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ آج تھوڑی سی حالت پہلے سے مختلف ضرور ہوچکی ہے تاہم دنیا کی ترقی یافتہ قومیں آج بھی غیر ترقی یافتہ قوموں کو غلام ہی بنائے ہوئے ہیں۔ بہرحال ایسے لوگ بھی مستحق اعانت ہیں تاکہ وہ آزادی حاصل کرسکیں۔ اسلام زیر دستوں کی مدد کرنے اور کمزورو کی حمایت کے لیے اٹھا تھا لیکن افسوس کہ آج اپنی ناعاقبت اندیشیوں سے مسلمان خود زیردست اور کمزور ہو کر رہ گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے نبوت سے پہلے ہی ایک معاہدہ میں شرکت فرمائی تھی جو تاریخ میں آج بھی ” حلف الفضول “ کے نام سے موسوم ہے وہ اسی غرض سے منعقد ہوا تھا کہ ان زیردستوں کی حفاظت اور حمایت کی جائے۔ اس لیے اسلام کی آواز پر قریش کے رئیسوں سے پہلے قریش کے غلاموں اور کنیزوں نے لبیک کہا چناچہ زید ؓ بن حارثہ ، خباب ؓ بن ارت ، بلال ؓ بن رباح ، یاسر ؓ یمنی ، عمار ؓ ، صہیب ؓ رومی ، ابوفکیہ ؓ ، عامر ؓ بن فہیرہ اور سالم ؓ غلاموں میں لبیبہ ؓ ، زنیرہ ؓ ، نہدیہ ؓ ، ام عبس ؓ اور سمیہ ؓ کنیزوں میں سب سے پہلے اسلام کی آغوش میں آئیں۔ اسلام نے غلاموں کی آزادی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی تحریک کا لازمی جزء بنا لیا تھا۔ غلاموں کی آزادی کو بڑے ثواب کا کام قرار دیا۔ سورة طٰہٰ میں جو مکہ میں نازل ہوئی تھی جن کاموں کو ” گھاٹی “ بتایا گیا ہے ان میں ایک ” فَکُّ رَقَبَۃٍ “ گردن سے غلامی کی رسوی کو کھولنا “ بھی ہے۔ چناچہ مکہ کی پرخطر زندگی میں بھی سیدہ خدیجہ ؓ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور دوسرے اہل ثروت صحابہ نے بہت سے غلاموں کو کافروں سے خرید خرید کر آزاد کیا تھا اور مدینہ آ کر اس تحریک نے اور بھی فروغ پایا اور انجام کار اس غلامی کی جڑیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کاٹ دیں۔ اللہ مسلمان حکمرانوں کو مل بیٹھنے کی توفیق دے اور سب مل کر اس نئی غلامی کی جڑیں بھی کاٹ دکھائیں۔ اے اللہ ! مسلمانوں کو صحیح سمت سوچنے کی توفیق عطا فرما۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ڈینگیں مارنے والوں کو دوست نہیں رکھتا : 84: یہ ڈینگیں مارنا کیا ہے ؟ تکبر و غرور کرنا کیا ہے اور اس کا شمار رذائل میں ہے بلکہ یہ سارے رذائل کا سردار ہے۔ انسان میں جب کوئی وصف یا کمال پایا جاتا ہے تو قدرتی طور پر اس کے دل میں اس کا خیال پیدا ہوتا ہے اور یہ کوئی اخلاقی عیب نہیں لیکن جب یہ خیال اس قدر ترقی کرجاتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کو جن میں یہ وصف نہیں پایا جاتا یا کم پایا جاتا ہے اپنے سے حقیر سمجھنے لگتا ہے تو اس کو کبر اور اس کے اظہار کو تکبر کہتے ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلے اس بداخلاقی کا ظہور شیطان سے ہوا۔ اس نے آدم (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بالاتر سمجھا اور پکار کر کہنے لگا انا خیر منہ (الاعراف) ” میں اس سے بہتر ہوں۔ “ کیوں ؟ کہنے لگا کہ ” وہ مٹی سے بنا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں۔ “ اللہ تعالیٰ نے اس کی اس شیخی پر اس کو مدود قرار دیا اور فرمایا : ” یہاں سے نکل جا ! اس جگہ تجھے غرور کرنا زیبا نہیں تھا۔ دفعہ ہوجا تجھے اس بڑائی کے بدلہ یہاں ذلت کی مار پڑے گی۔ “ (الاعراف) اس طرح انسان کو سمجھا دیا گیا کہ دیکھو تیرے جسم میں بھی ایک عنصر ایسا ہے اس لیے چوکنا رہنا کہ ہمارے ہاں ڈینگیں مارنے اور شیخی بگھارنے والوں کے ساتھ یہی کچھ کیا جاتا ہے جو اس ملعون سے کیا گیا اور یہی بات زیرنظر آیت میں ارشاد فرمائی کہ : ” اللہ ان لوگوں کو دوست نہیں رکھتا جو اترانے والے اور ڈینگیں مارنے والے ہیں۔ “ ” مختال “ خیال سے ہے جس میں یہ رمز سمجھا دی کہ انسان اپنے خیال ہی خیال سے اس ذلیل حرکت میں مبتلا ہوجاتا ہے کہیں باہر سے کوئی آ کر اس کو اس پر آمادہ نہیں کرتا۔ تکبر و غرور ایک اضافی چیز ہے جس کے لیے محض اپنی عظمت کا تخیل کافی نہیں بلکہ اس تخیل کے ساتھ دوسرے لوگوں کی تحقیر بھی ضروری ہے اس لیے یہ خیال ہی خیال سے پیدا ہونے والی چیز جب دوسروں کے مقابلہ میں ” ہم چوما دیگرے نیست “ کے مقام پر پہنچ جائے سمجھ لو کہ اب کام خراب ہے۔ اس میں مبتلا کوئی ہو میں ہوں یا آپ۔ تکبر کی اس اضافی حیثیت نے اس کو مذہبی ، اخلاقی ، معاشرتی بداخلاقیوں کو سرچشمہ بنا دیا۔ آپ ذرا غور کریں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ انبیاء کرام کی مزاحمت صرف وہی لوگ کرتے رہے جو اپنے آپ کو اور لوگوں سے بڑا سمجھتے تھے۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو انبیاء کرام کی کوئی بھی مخالفت نہ کرتا۔ اب بھی چونکہ ہر بستی ، قصبہ اور شہر میں یہ لوگ موجود ہیں اس لیے دین کی مخالفت جاری ہے اور رسم و رواج کی اہمیت قائم ہے کیونکہ ساری رسومات ایسے ہی لوگوں کی تشکیل دادہ ہیں اور ان کا ٹوٹنا ان کی موت ہے۔ حالانکہ یہ لوگ اس بات کو بھی سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود کرنا وہی چاہتے ہیں جو ان کے باپ دادا کرتے آئے تھے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ یہ فطری تقاضا ہے کہ جو شخص کوئی پودہ لگاتا ہے اس کی آبیاری کرتا ہے۔ چونکہ یہ پودا انہی کا لگایا ہوا ہے لہٰذا وہ اس کو پانی دیں گے اور اس کو اکھاڑ پھینکنے والوں کو دشمن سمجھیں گے۔ چناچہ قرآن کریم نے اس کی وضاحت جگہ جگہ کی ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا : ” اور دیکھو قیامت کے روز سب لوگ اللہ کے روبرو ہوں گے ، اس وقت یہ ناتواں اور کمزور لوگ تکبر کرنے والے اور بڑے لوگوں سے کہیں گے کہ ہم دنیا میں تمہارے پیچھے چلنے والے تھے ، پھر کیا آج تم ایسا کرسکتے ہو اللہ کیع ذاب سے کچھ ہمارا بچاؤ کرا دو وہ کہیں گے کہ اللہ ہم پر بچاؤ کی کوئی راہ کھولتا تو ہم بھی تمہیں کوئی راہ دکھاتے ، اب تو ہم خود بھی عذاب میں مبتلا ہیں۔ اب اس کو جھیل لیں یا روئیں پیٹیں ہمارے لیے دونوں حالتیں برابر ہیں اس لیے کہ ہمارے لیے آج کسی طرح چھٹکارا نہیں۔ “ (براہیم : 21:14) یہی وہ تکبر ہے جس کی بناء پر انبیاء کرام کے زمانہ کے لوگ اپنے ہی جیسے آدمی کو جو عام انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں سودا سلف خریدنے کے لیے چلتا پھرتا اطاعت کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کو اس سے ننگ و عار تھا کہ جس حلقے میں عام لوگ شامل ہوگئے ہیں اس میں وہ بھی شامل ہوجائیں۔ آخر کیوں ؟ ان کا طبقہ اونچا ہے اس لیے وہ نیچے طبقہ کے لوگوں میں نہیں بیٹھ سکتے۔ اس جگہ لفظ مُخْتَالٌ استعمال ہوا ہے اور قرآن کریم میں یہ لفظ دو مقامات پر آیا ہے ایک اس جگہ اور ایک سورة بنی اسرائیل میں۔ یہ لفظ اس شخص پر بولا جاتا ہے جو مغرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہو۔ فخر اور غرور اس میں گویا کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہو یہی وجہ ہے کہ اس کو تکبر کی آخری کڑی بتایا گیا ہے یعنی ” بہت ہی تکبر کرنے والا۔ “ اور اس جگہ ارشاد فرمایا گیا کہ ” اللہ ان کو دوست نہیں رکھتا جو بہت ہی تکبر کرنے والے اور اترانے والے ہوں۔ “ اس تکبر کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بڑے بڑے آداب و القاب کا اپنے ناموں کے ساتھ اضافہ کیا جائے۔ پھر اگر وہ خلاف واقعہ ہوں گے تو جھوٹ ہوں گے اور اگر واقعہ کے مطابق ہیں تو فخر و غرور کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے اسلام کی نظر میں یہ سب پسندیدہ نہیں ہیں۔ صحابہ کرام ؓ کے سوانح کو دیکھو ان کے تذکار پڑھو آپ کسی کے نام کے آگے پیچھے کچھ نہیں دیکھیں گے بلکہ بعض اوقات نام کی جگہ ان کی کنیت یا لقب ہی مشہور و معروف ہوگا اور نام کا کسی کو پتہ ہی نہیں ہوگا کہ اصل نام ان کا کیا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ” لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے جاہلیت کے غرور اور باپ دادا پر فخر کرنے کے طریقہ کو مٹا دیا ہے۔ اب صرف دو قسم کے آدمی ہیں ایک مومن و پرہیزگار اور دوسرا بدبخت و بدکار۔ دیکھو ! تم لوگ آدم زادے ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لوگ ایسے لوگوں پر فخر کرنا چھوڑ دیں جو جہنم کا کوئلہ ہیں یا اللہ کے نزدیک اس گبریلے سے بھی زیادہ ذلیل ہیں جو اپنے منہ سے نجاست کو گھسیٹتا پھرتا ہے۔ (ابوداؤد کتاب الادب ، باب فی التفاخر بالاحساب)
Top