Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 37
اِ۟لَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًاۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَبْخَلُوْنَ : بخل کرتے ہیں وَيَاْمُرُوْنَ : اور حکم کرتے (سکھاتے) ہیں النَّاسَ : لوگ (جمع) بِالْبُخْلِ : بخل وَيَكْتُمُوْنَ : اور چھپاتے ہیں مَآ : جو اٰتٰىھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کر رکھا ہے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب مُّهِيْنًا : ذلت والا
جو خود بھی بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کرنا سکھاتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے دے رکھا ہے اسے چھپا کر رکھتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ناشکری کرتے ہیں ہم نے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے
بخل سے کام لینے والے عذاب الٰہی کے مستحق ہیں اس لیے بخل کرنا ترک کر دو : 85: تکبر کی وہ حالت جس کو پچھلی آیت میں ” مُخْتَالٌ “ سے تعبیر کیا گیا ہے اس کی ایک پہچان بخل بھی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ باتیں تو کریں گے بہت اور لوگوں کو مشورے دے دے کر اور سکیمیں بنا بنا کر دکھائیں گے۔ لیکن جب پیسہ خرچ کرنے کا وقت آئے گا تو پھر یہ نظر ہی نہیں آئیں گے کہ کہاں چلے گئے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ پیسہ ان کی جان ہے اگر وہ خرچ ہوگیا تو گویا وہ مر گئے اور پھر کون ہے جو موت کے لیے تیار رہے ؟ یہ وہی ہیں کہ کچھ آتا دیکھیں گے تو گویا جان ان میں پڑگئی اور جاتا دیکھیں گے تو پھر وہی حالت۔ ذرا خوشحالی اور مشتخ یا کوئی عہدہ اگرچہ وہ صلوٰۃ کمیٹی ہی کا کیوں نہ ہو ان کو مل گیا تو اس پر پھولے نہیں سمائیں گے کہ کوئی پوچھنے والا تو ہو لیکن نماز پڑھنے پڑگئی تو گویا پھر موت میں مبتلا ہوگئے۔ ایمان کا دعویٰ باتوں میں کرتے رہیں گے لیکن کچھ خرچ کرنا پڑگیا تو پھر موت۔ خود تو دیں گے نہیں لیکن دوسرے دینے والے بھی ان کی نظروں میں نہیں جچیں گے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ اس طرح ان کا نام دینے والوں میں شامل ہوجائے گا اور یہ ان کو پسند نہیں۔ لہٰذا نہ کوئی دے اور نہ ان کو دینا پڑے۔ اس لیے بخل کو اساسی بداخلاقیوں میں شمار کیا گیا ہے بلکہ یہ ایسی بداخلاقی ہے جو بہت سی بداخلاقیوں کی جڑ ہے۔ خیانت ، بددیانتی ، بےمروتی ، بےرحمی و بدسلوکی ، حرص ، طمع ، لالچ ، تنگ نظری ، کم ہمتی اور پست طبعی سب اس بخل کی شاخیں ہیں۔ اسلام آیا تو اس نے جھوٹ کے بعد اس پر سب سے پہلے کلہاڑا چلایا اور اس کی جڑیں پہلے ہی وار میں کاٹ کر رکھ دیں۔ کیسے ؟ اس طرح کہ اس نے بھوکوں کو کھلانا ، ننگوں کو پہنانا ، محتاجوں کو دینا ، یتیموں کی خبرگیری کرنا ، مقروضوں کے قرض اتارنا فرض قرار دیا اور انہی فرائض کے مجموعہ کا نام اس نے زکوٰۃ رکھا اور یہ نظام ان کو ایک نظر نہ بھاتا تھا۔ وہ جو کچھ کرتے تھے مرتے کرتے تھے اس لیے کہ لینے سے تو وہ واقف تھے لیکن دینے سے انجان اور نظام زکوٰۃ میں دینا پڑتا تھا اس لیے وہ جزبز کیوں نہ ہوتے ؟ وہ کام تو وہ کرسکتے تھے جس میں کچھ دینا نہ پڑے لیکن جس میں دینا پڑے وہی تو ان کے لیے موت تھا۔ ہاں ! بخیل خرچ کرتا ہے تو صرف اس وقت جب اس کو اس کا معاوضہ اس دنیا میں ملنے کی توقع ہو اور پھر معاوضہ بھی اتنا کہ اگر اس نے روپیہ خرچ کیا ہے تو دو تو اس کو ملیں۔ اس کو اس ملنے کی خوشخبری سنائی گئی لیکن اس پر اس کا دل کب جمتا کہ وہ اس دنیا کا معاملہ تھا اور وہ چیز جس کو جزاء کہتے ہیں اس پر اس کا ایمان نہ تھا۔ وہ ثواب کمانے کی فکر کریں گے بھی تو صرف انہی کاموں میں جن پر پیسہ خرچ نہ ہو۔ ان کو کچھ ملنے کی توقع ہو تو اس مقام پر سب سے آگے آگے نظر آئیں گے لیکن اگر کچھ دینا پڑجائے تو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے بےضرورت قرض لے لیں گے کیوں ؟ اس لیے کہ کچھ لے ہی رہے ہیں اور اس میں ان کا اپنا حق ہے کہ یہ بےسود ہے ؟ اور کچھ نہیں تو اس بےسود قرض سے سود ہی کما لیں گے اور پھر یہ حرص بھی ساتھ رہے گی کہ شاید یہ قرض معاف ہی ہوجائے۔ قرآن کریم میں بخل کی سب سے بڑی مثال قارون بتایا گیا ہے جس کا بیان سورة القصص میں ہے۔ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کا اور انہی کی قوم کا ایک آدمی تھا۔ اتنا مالدار تھا کہ تمدن کے اس ابتدائی دور میں جب ایک تالے کی ایک کنجی بنتی تھی۔ خزانے تو الگ رہے ان خزانوں کی کنجیاں بھی کئی آدمی مل کر مشکل سے اٹھا سکتے تھے تو بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتا کہ اس نے اپنے فضل خاص سے اس کو اتنا مال دار بنا دیا۔ وہ کہتا کہ یہ مال و دولت تو میری محنت اور میرے ہنر کا نتیجہ ہے اس کو یہ خبر نہ تھی کہ دنیا میں اس سے پہلے اس سے بھی بڑے بڑے دولت مند گزر چکے ہیں جن کا انجام بڑا دردناک ہوا ہے۔ چناچہ اس قارون اور اس کی دولت کا انجام بھی یہ ہوا کہ وہ سب اس دنیا میں دھنس کر رہ گئی اور آج بھی بخیلوں کی دولت یقینا ان کو عذاب الٰہی سے نجات نہ دلا سکے گی۔ اس لیے فرمایا کہ ” جو خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل کرنا سکھاتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دے رکھا ہے اس کو چھپا کر رکھتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ناشکری کرتے ہیں ہم نے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “
Top