Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 41
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا٢ؕؐ
فَكَيْفَ : پھر کیسا۔ کیا اِذَا : جب جِئْنَا : ہم بلائیں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت بِشَهِيْدٍ : ایک گواہ وَّجِئْنَا : اور بلائیں گے بِكَ : آپ کو عَلٰي : پر هٰٓؤُلَآءِ : ان کے شَهِيْدًا : گواہ
اور پھر کیا حال ہوگا اس دن ، جب ہم ہر ایک امت سے ایک گواہ طلب کریں گے اور ہم تجھے بھی ان سب لوگوں پر گواہی دینے کیلئے طلب کریں گے
ہر امت سے گواہ طلب کرنے کے بعد ان گواہوں پر نبی اعظم و آخر ﷺ کی گواہی کا مطلب : 89: اعمال کے بدلہ سے آخرت کی طرف مضمون کو منتقل کیا تھا لیکن یہ اس طرف گویا ایک طرح کا اشارہ تھا۔ اب آخرت کی طرف مستقل طور پر مضمون کو لایا جا رہا ہے۔ زیرنظر آیت میں جو مضمون بیان کیا گیا اس کو تین طرح بیان کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ قیامت کے روز تمام انبیاء کرام کو ان کی اپنی اپنی امتوں پر شہادت کے لیے بلایا جائے گا اور رسول اللہ ﷺ کو دوسرے تمام انبیاء کرام کی شہادت کے درست ہونے کی گواہی کے لیے تشریف لانا ہوگا اور ظاہر ہے کہ یہ گواہی قرآن کریم کی شہادت کی بناء پر ہوگی جو کلام الٰہی کی وجہ سے حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی کی گواہی ہوگی۔ دوسر یہ کہ ھٰؤُلَآء کا مشار الیہ امت احمدیہ ﷺ ہوئی کہ احمد مجتبیٰ ﷺ اپنی امت کے احوال و اعمال پر گواہی دیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ اس پہچان کی بناء پر ہوگی جس کا ذکر خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اپنی امت کی پہچان کے متعلق پہلے ہی بیان فرما دیے ہوئے ہیں اور انہی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ اپنی امت پر گواہی دیں گے۔ تیسرے یہ کہ سارے انبیاء کرام اپنی اپنی امتوں پر گواہی دیں گے اور احمد رسول اللہ ﷺ کی امت اجابت کو بھی بطور گواہ ان امتوں پر حاضر کیا جائے گا کیونکہ ان ساری امتوں کے احوال قرآن کریم میں بیان فرما دیے گئے ہیں اور ان سارے گواہوں کے بعد آخری گواہ خود احمد مجتبیٰ ﷺ ہوں گے۔ بخاری شریف میں یہ روایت ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے عبداللہ بن مسعود سے فرمایا کہ مجھے قرآن کریم سناؤ ۔ حضرت عبداللہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ مجھ سے قرآن سننا چاہتے ہیں حالانکہ قرآن کریم تو آپ ﷺ کے سینہ اقدس پر نازل ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! پڑھو ! حضرت عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے سورة النساء کی تلاوت شروع کی اور جب فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدًا پر پہنچا تو آپ ﷺ اشارہ فرمایا کہ بس کرو اور جب میں نے آپ ﷺ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ مختصر یہ کہ اس سے معلوم ہوا کہ گزشتہ امتوں کے انبیاء کرام اپنی اپنی امت پر بطور گواہ پیش ہوں گے اور آپ ﷺ بھی اپنی امت پر یا ساری امتوں پر یا ساری امتوں کی انبیاء پر گواہی دیں گے اور قرآن کریم کے اس اسلوب بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے جو اپنی کسی امت کے متعلق گواہی دے ورنہ قرآن کریم میں اس کا اور اس کی شہادت کا بھی یقینا ذکر ہوتا۔ اس اعتبار سے یہ آیت ختم نبوت کے مضمون کی ایک دلیل ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتی ہے احمد مجتبیٰ محمد ﷺ کی نبوت کے بعد ہر شخص جو نبوت کا دعویٰ کرے وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کو قرآن کریم میں ” شاہداً “ بھی کہا گیا ہے اور ” شہیداً “ بھی ” شاھداً “ کا لفظ آپ ﷺ کے لیے سورة الاحزاب آیت 45 ، سورة الفتح آیت 8 اور سورة المزمل آیت 15 میں بیان ہوا اور شہیداً کا لفظ آپ ﷺ کے لیے سورة البقرہ آیت 143 ، سورة النساء آیت 41 ، سورة النحل آیت 89 ، سورة الحج آیت 78 اور سورة الاحزاب آیت 55 میں بیان ہوا۔ شہادت کیا ہے ؟ شہادت امر واقع کو بیان کرنا اور دوسرے شخص کو اپنے بیان کے ذریعے سے اس امر کا باور کرانا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی شہادت جسے آپ ﷺ نے ادا کیا اور جسے ادا فرما کر لوگوں کو یقین کے درجہ تک پہنچایا عموماً امور ذیل کے متعلق تھی۔ ذاتِ باری جل مجدہ ، تقدیس ذات و تنزیہہ صفات ، سلسلہ وحی الٰہی ، وجود نبوت ، عالم اروح ، علوم ما بعد الطبیعہ اور ان سارے امور کو جس وضاحت اور کمال علم اور روشن دلائل اور براہین قاطعہ سے نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا اور پھر اپنے گفتار و کردار سے اس صداقت کے یقین کو ملحدوں اور منکروں کے قلوب میں مستحکم فرمایا یہ آپ ﷺ ہی کا حصہ تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت الٰہیہ اور حکمت ربانیہ نے نبی کریم ﷺ کو دنیا کے سامنے بطور اپنی گواہی کے پیش کیا ہے اور یہ ایک قانونی حقیقت ہے کہ گواہوں کی قلت یا کثرت کسی معاملہ کے ثبوت و نفی پر ذرا مؤثر نہیں اور جہاں تعداد گواہ متعین کی ہے وہاں دراصل اس کی گہرائی میں کوئی خاص ضرورت مخفی ضرور ہے۔ بلکہ شہادت کو قوت دینے اور صداقت کے روح تک پہنچانے والی جو شے ہے وہ شاہد کی ثقاہت اعتبار اور راست بازی ہے اور نبی کریم ﷺ کی راست بازی اور اعتبار کی یہ حد تھی کہ جب کفار نے ابوبکر صدیق ؓ سے دریافت کیا کہ تم نے کیونکر محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا سچا رسول تسلیم کرلیا تو انہوں نے جواب دیا کہ لوگو ! یہ ہونٹ کبھی جھوٹ بولنے والے کے نہیں۔ ہرقل نے ابوسفیان کے جواب میں کہا تھا کہ جس شخص نے کبھی کسی مخلوق پر جھوٹ نہیں بولا ناممکن ہے کہ وہ اللہ رپ جھوٹ باندھنے لگے۔ ابوجہل جیسے جھگڑالو شخص نے کہا تھا کہ محمد (e) میں تجھے جھوٹا نہیں سمجھتا مگر تیری تعلیم پر میرا دل نہیں جمتا۔ صداقت اور اعتبار ہو تو ایسا کہ خواہ کوئی شہادت کو قبول کرتا ہے یا نہیں لیکن شہادت دہندہ کی ثقافت کے خلاف ایک حرف بھی زبان سے نہیں نکالتا۔ یا بقول ابوسفیان نہیں نکال سکتا۔ بلکہ ہر شخص دل میں سمجھ گیا ہے کہ اس کے خلاف لب کشائی کرنا اپنی ہنسی کرانا اور خود کو ذلیل کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شہادت کو دشت و جبل میں آشکارا کیا۔ بیابان اور شہروں کے سمع و قلب تک اس کو پہنچایا اور اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے نعرہ سے فضائے ارض و سماء کو بھر دیا اور سننے والوں کے دل و دماغ کو شک انکار اور تذبذب و گمان کی ہوائے فاسد سے خالی کردیا۔ سبحان اللہ ! یہ شاہد کی زبردست شہادت سے اٹھا ہے جس کے منہ سے نکلتے ہی وہی کلمہ شہدت ہر ایک زبان پر رواں ہے۔ کیا عجمی ، کیا عربی ، کیا شرقی ، کیا غربی ہر ایک اس شہادت کا کلمہ خوان ہے۔ یہ شاہد کیسا ہے ؟ خاموش نہیں ہوجاتا جب تک ہزاروں اور لاکھوں بندوں کو ” وَتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ “ کے فرض پر آمادہ نہیں کرلیتا اور اسود و احمر اور عبید و ملوک کر ” کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ “ کے وجوب امری کا پابند نہیں ٹھہرا دیتا۔ یہ کیسا شاہد ہے ؟ جس کی صداقت پر لاکھوں شاہد عینی موجود ہیں۔ ملکوں ، قوموں ، جزیروں اور وادیوں نے اس کی شہادت سے ایقان حاصل کرلیا ہے تب شاہد اس وادی گاہ سے عزم رحلت فرماتا ہے اور چلتے وقت بھی ان سب کو یہ سنا دیتا ہے کہ : انتم تساء لون عنی فما انتم قائلون قالوا بلغت وادیت ونصحت فقال باصبعہ یرفعھا الی السمآء وینک تھا الی الناس اللھم اشھد۔ اللھم الشھد۔ اللھم اشہد۔ ” وہ پوچھتا ہے کہ لوگو ! وہ قاضی جہاں رب زمین و زمان جب دریافت فرمائے گا کہ میں نے اپنی شہادت کو کیونکہ ادا کیا ، تو آپ کیا بتائیں گے ؟ سب کے سب متفق آواز بول اٹھتے ہیں ، اجی آپ ﷺ نے تو جتنا کچھ فرمانا تھا خوب فرمایا۔ آپ ﷺ نے تبلیغ و تفہیم کا حق ادا کردیا۔ حضور ﷺ نے تو اپنی شہادت سے معاملہ کا کھوٹا کھرا الگ الگ کر کے دکھا دیا۔ شاہد ﷺ آسمان کی جانب انگشت شہادت اٹھاتا ہے ، پھر لوگوں کی طرف جھکاتا ہے اور اپنے بھیجنے والے سے مخاطب ہو کر عرض کرتا ہے۔ الٰہی ! میری شہادت کی شہادت کو سن لے میری گواہی کا تو گواہ رہنا اور ان لوگوں کے بیان کو محفوظ فرما لینا۔ “ ایسے شاہد پر دل وجان خودبخود قربان ہوتے ہیں جو وادی گاہ عالم میں شہادت کے لیے اکیلا آیا اور لاکھوں لوگوں کو گواہ بنا گیا۔ فی الحقیقت اللہ تعالیٰ نے نبی اعظم و آخر ﷺ کو ” شاہد “ اور ” شہید “ فرما کر آپ ﷺ کی بہترین خوبی سے دنیا کو آگاہ فرما دیا۔ لوگوں نے اس شہادت کو کیا سمجھا کہ ایک اکھاڑا بنا کر رکھ دیا۔ اس کو بنیاد بنا کر اپنے شرک کی عمارت تعمیر کرنا شروع کردی اور وہی چیز جس کو مٹانے کے لیے شاہد آیا تھا اس کے وجود پر اپنی سحرکاری سے کھڑی کردی۔ اللہ ایسے شاطروں سے بچائے اور حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جی چاہتا ہے کہ اس شاہد کی بتائی ہوئی تعلیمات کی روشنی میں کچھ مزید عرض کردیا جائے تاکہ ایک ہی مقام پر اس کی پوری حیثیت واضح ہوجائے۔ کان لگا کر سنو اور آنکھوں سے پڑھ کر دیکھو اور سمجھنے کی توفیق اس احکم الحاکمین سے طلب کرو جس نے ایسا کمال اور ایسا بےمثال شاہد تم کو عطا کیا۔ اللھم صلی علی محمد وعلیٰ آل محمد۔ بلاشبہ نبی کو ” گواہ “ بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں۔ ایک قولی شہادت یعنی کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اصولوں پر مبنی ہے ، نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی اصول حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے وہ باطل ہے۔ اللہ کی ہستی اور اس کی توحید ، ملائکہ کا وجود ، وحی کا نزول ، حیات بعد الموت کا وقع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دنیا ان باتوں کے پیش کرنے کا مذاق اُڑائے یا اسے دیوانہ کہے ، مگر نبی کسی کی پرواہ کیے بیرن اٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہے ہیں وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات ، اقدار ، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں ، انہیں اگر ساری دنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تو تب بھی اس نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور ان تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دنیا میں رائج ہوں۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ وہ ساری دنیا اسے سمجھتی ہو اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو۔ دوسرے عملی شہادت ، یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اس مسلک کا عملاً مظاہرہ کرے جسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اٹھا ہے جس چیز کو وہ برائی کہتا ہے اس کے ہر شالبے سے اس کی زندگی پاک ہو۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابری نہ کرسکے۔ جس قانون حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ اس اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایک ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کرلے جس دین کی طرف وہ دنیا کو بلا رہا ہے وہ کس معیار کا انسان چاہتا ہے ، کیا کردار اس میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور کیا نظام زندگی اس سے برپا کرانا چاہتا ہے۔ تیسرے اخروی شہادت یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بےکم وکاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول و عمل سے حق واضح کردینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزاء کے اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ ﷺ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہئے جو اس مقام بلند پر کھڑی ہو سکے۔ ظاہر بات ہے کہ نبی ﷺ سے دین حق کو قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے ، تبھی تو آخرت میں آپ ﷺ یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کردیا تھا اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہوگی۔ ورنہ اگر معاذ اللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ ﷺ آخرت میں ان پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرین حق کے خلاف مقدمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنانے کی کوشش کی ہے کہ نبی ﷺ آخرت میں لوگوں کے اعمال پر شہادت دیں گے اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضور ﷺ تمام لوگوں کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں ، ورنہ بےدیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے ؟ لیکن قرآن کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ لوگوں کے اعمال پر شبہات قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا ہی انتظام فرمایا ہے۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامہ اعمال تیار کر رہے ہیں۔ (ملاحظہ ہو ق : 18 ۔ 17 اور الکہف : 149) اور اس کے لیے وہ لوگوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے گا۔ (یاسین : 65 ، حم السجدہ : 21 ۔ 20) رہے انبیاء تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا تھا۔ قرآن صاف فرماتا ہے : یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ (المائدہ : 109:5) ” جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا ، پھر پوچھے گا کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا ، تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں ، تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔ “ اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہوگا تو وہ عرض کریں گے : وَ کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًامَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ (المائدہ : 117:5) ” میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے۔ “ یہ آیات اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیاء اعمال خلق کے گواہ نہیں ہوں گے۔ پھر وہ گواہ کس چیز کے ہوں گے ؟ اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ یہ دیتا ہے : وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ (البقرہ : 143:2) ” اور اے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تم کو ایک امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔ “ وَ یَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْدًا عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَ جِئْنَا بِکَ شَھِیْدًا عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ (النحل : 89:16) ” اور جس روز ہم ہر امت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو ان پر گواہی دے گا اور (اے محمد ﷺ ! ) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی ﷺ کی شہادت اپنی نوعیت میں اس شہادت سے مختلف نہ ہوگی جسے ادا کرنے کے لیے حضور ﷺ کی امت کو اور ہر امت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضور ﷺ بھی اسی غرض کے لیے پش ہوں گے۔ اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جس کو بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ اور امام احمد وغیرہم نے عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، ابودرداء ، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ ؓ سے نقل کیا ہے ، جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ نبی ﷺ قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں ، مگر وہ آپ ﷺ کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے۔ حضور ﷺ ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا ! یہ تو میرے امتی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے ایک ایک شخص اور اس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں رہیں ہیں۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے آپ ﷺ کی امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں تو وہ کسی طرح بھی اس مضمون سے متعارض نہیں ہے اس لیے کہ اس کا ماحصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو امت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس کے یہ معنی کیسے ہو سکتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہر شخص کے اعمال نامہ کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں ؟ اور کسی کو کسی بات سے باخبر رکھنا اور کسی انسان کا کسی چیز کو مشاہدہ کرنے میں جو فرق ہے وہ محتاج نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ” ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔ “
Top