Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 46
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِیْمًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَغْفِرُ : نہیں بخشتا اَنْ : کہ يُّشْرَكَ بِهٖ : شریک ٹھہرائے اس کا وَيَغْفِرُ : اور بخشتا ہے مَا : جو دُوْنَ ذٰلِكَ : اس کے سوا لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَمَنْ : ور جو۔ جس يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرایا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدِ افْتَرٰٓى : پس اس نے باندھا اِثْمًا : گناہ عَظِيْمًا : بڑا
اللہ یہ بات کبھی بخشنے والا نہیں کہ اس کے ساتھ کسی دوسری ہستی کو شریک ٹھہرایا جائے ، ہاں ! اس کے سوا جتنے گناہ ہیں وہ چاہے تو بخش دے اور دیکھو جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو یقینا وہ بڑا گناہ کرتا ہے ، افتراء پردازی کرتا ہے
شرک سے بڑا کوئی گناہ اور مشرک سے بڑا کوئی گنہگار نہیں ہوتا : 100: یہود و نصاریٰ بلاشبہ اہل کتاب ہیں اور اس رشتہ کی بناء پر اسلام نے ان کا اتنا احترام کیا کہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور ان کی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنا جائز قرار دیا گیا لیکن یہ اس وقت ہے جب کہ وہ مشرک نہ ہوں۔ جب وہ مشرک ہوئے یا جو جو ان میں شرک کا مرتکب ہوا وہ اس بنیادی قاعدہ سے بھی خود بخود نکلتا چلا گیا زیر نظر آیت اس بات پر مکمل اور واضح دلیل ہے کہ اہل کتاب کا بہت گروہ بڑا مشرک ہوگیا تھا۔ اور اس لحاظ سے وہ عرفاً اہل کتاب نہیں رہے تھے بلکہ مشرک ہو کر اہل کتاب سے خود بخود خارج ہوگئے تھے رہی یہ بات کہ یہود کا شرک کیا تھا ؟ ان کے اس شرک کی نشاندہی آنے والی آیات میں کرا دی گئی ہے اس زیر نظر آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو لو کہ شرک ساری برئیوں کی گویا جڑ ہے اور ساری برائیاں اس سے معرض وجود میں آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے گویا یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ شرک کرنے والوں کو کبھیمعاف نہیں کرے گا جبکہ و اس شرک کی حالت میں مر گئے اور توبہ ان کو نصیب نہ ہوئی ۔ ہاں ! کوئی شخص گناہوں میں کتنا ہی لت پت کیوں نہ ہو جب اس نے شرک سے توبہ کرلی یا شرک کا مرتکب نہ ہوا تو اس کی نجات یقینی ہے چاہے سزا پانے کے بعد یا سزا بھی اس کی معاف کردی جائے ہر حال میں وہ اس سزا میں نہیں آتا جس کی عدم معافی کا اعلان کردیا گیا ہے اور وہ شرک ہی ہے۔ شرک پر کوئی مرنے والا ہو یعنی وہ یہودی ہو عیسائی ہو یا کوئی مسلمان کہلانے والا ہو اگر اس پر شرک کی سزا لازم ہوگئی تو سمجھ لو کہ وہ ابدی دوزخ کے عذاب میں مبتلا کردیا گیا جس سے خلاصی و نجات کی اب کوئی سبیل باقی نہ رہی۔ افسوس کہ آج مسلمانوں کو اس آیت کا حکم بہت کم ہی یاد رہا اور وہ اہل کتاب کو اہل کتاب ہی سمجھتے ہیں جبکہ وہ کھلے شرک کے مرتکب ہونے لگے اور یہ کہا گیا کہ کیا اللہ میاں اتنی بات بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ اہل کتاب اہل کتاب نہیں رہے بلکہ مشرک ہوگئے اور اس شرک کے سبب ان کے ساتھ کھانا پینا اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا ناجائز نہ رہا۔ ہاں ! یہ بات اب بھی اپنی جگہ قائم اور اس کا حکم باقی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اہل کتاب اہل کتاب رہیں مشرک نہ ہوجائیں کیونکہ شرک سے بڑا نہ کوئی اور ظلم ہے اور نہ اس سے بڑا کوئی گناہ ہے۔ اس آیت نے مسلمانوں کو سمجھا دیا کہ وہ اچھی طرح یہ اصول یاد کرلیں کہ شرک سب برائیوں کی جڑ ہے اور توحید سب نیکیوں کی جڑ ہے لہٰذا شرک سے پرہیز کریں۔ شرک کیا ہے ؟ یاد رہے کہ صرف بتوں ، چاند ، سورج ، ستاروں اور ہواؤں وغیرہ کو پوجنا ہی شرک نہیں بلکہ یہ شرک کی وہ موٹی قسم ہے جس میں بت پرست اور عناصر پرست قومیں گرفتار ہیں اور نہ صرف یہی شرک ہے کہ انسان کو فی الواقع خدا سمجھا جائے جیسے ہندو ، کرشن یا رام چندر کو سمجھتے ہیں یا عیسائی سیدنا (علیہ السلام) کو بلکہ ان سارے شرکوں سے بڑا وہ شرک ہتے جو احبارو راہبان پرستی سکھاتا ہے اور آج کی زبان میں پیر پرستی اور علماء پرستی سے اس کو موسوم کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ لوگ جس کو حلال کہہ دیتے ہیں لوگ اس کو حلال اور جس کو وہ حرام کہہ دیتے ہیں لوگ اس کو حرام کہتے ہیں اور ان کا اس طرح کہنا ان کی خواہشات اہوا کی وجہ سے ہے نہ کہ کسی دلیل کی بناء پر۔ کیونکہ دلیل تو کتاب وسنت ہے لوگوں کے قصے کہانیوں کا نام دلیل نہیں رکھا جاسکتا اور اس وقت سارے شرکوں سے بڑا شرک جو دنیا میں اور خصوصاً خود مسلمان کہلانے والوں میں پایا جاتا ہے وہ وہ ہے جس کو قرآن کریم کی زبان میں اَرَ اَیْتَ مَنِ اتَّخَذ اِلٰھَہ ھَوَاہُ سے موسوم کیا گیا ہے۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی اس طرح سے ہے کہ : ” کبھی تم نے اس سخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو ؟ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اس سے بھی گئے گزرے ہیں۔ “ (الفرقان : 44:43:25) خواہش نفس کو خدا بنا لینے سے مراد اس کی بندگی کرنا ہے اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بت کو پوجنا یا کسی مخلوق کو معبود بنانا۔ حضرت ابو امامہ کی روایت ہے کہ نبی اعطم و آخر ﷺ نے فرمایا ماتحت ظل السما من الہ یعبد من دون اللہ تعالیٰ اعظم عند اللہ عزوجل من ھوی یتبع ” اس آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سوا جتنے مع بعد بھی پوجے جا رہے ہیں ان میں اللہ کے نزدیک بد ترین وہ خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جا رہی ہو۔ “ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جو شخص اپنی خواہش کو عقل کے تابع رکھتا ہے اور عقل سے کام لے کر فیصلہ کرتا ہے کہ اس کے لئے صحیح راہ کونسی ہے اور غلط کونسی وہ اگر کسی قسم کے شرک یا کفر میں مبتلا ہو تو اس کو سمجھا کر سیدھی راہ پر لایا جاسکتا ہے اور یہ اعتماد بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب وہ راہ راست اختیار کرنے کا فیصلہ کرلے گا تو اس پر ثابت قدم رہے گا لیکن نفس کا بندہ اور خواہشات کا غلام ایک شتر بےمہار ہے اسے اس تو اسکی خواہشات جدھر لے جائیں گی وہ ان کے ساتھ ساتھ بھٹکتا پھرے گا اس کو سرے سے یہ فکر ہی نہیں ہے کہ صحیح اور غلط اور حق و باطل میں تمیز کرے اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرے اور ایسا مشرک قبر پرست اور پیر پرست یا بت پرست نہیں سکتا اس لئے اس کی سمجھ میں یہ بات بھی مشکل ہی سے آتی ہے کہ وہ بھی مشرک ہے وہ شرک کے خلاف و عظ کرے گا اور مشرک کو برا جانے گا اور شرک کی ساری اقسام سے بچے گا الا یہ کہ اس کی خواہش کی بات ہوگی تو پھر اس کی ساری مت ماری جائے گی اور وہ کچھ سمجھنے والا نہیں ہوگا اور بالفرض اگر وہ بات مان بھی جائے تو اسے کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنا دینا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ یہ شرک ایک طرح کے خاص مشرکین کا شرک تھا لیکن عوام کا شرک بھی بڑا عجیب شرک ہے۔ قرآن کریم نے ان کی مثال اس طرح بیان کی ہے کہ جس طرح بھیڑ بکریوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ ہانکنے والا انہیں چراگاہ کی طرف لے جا رہا ہے یا کمیلہ کی طرف بس وہ آنکھیں بند کر کے ہانکنے والے کے اشارے پر چلتی رہتی ہیں اس طرح یہ عوام الناس بھی اپنے مذہبی بےراہ روئوں اور اپنے گمراہ کن لیڈروں کے اشاروں پر آنکھیں بند کئے ہوئے چلے جا رہے ہیں کچھ نہیں جانتے کہ وہ انہیں فلاح کی طرف ہانک رہے ہیں یا تباہی و بربادی کی طرف۔ اس حد تک تو ان کی حالت بھیڑ بکریوں کے مشابہ ہے لیکن بھیڑ بکریوں کو اللہ نے عقل و شعور سے نہیں نوازا ہے وہ اگر چرواہا اور قصائی میں امتیاز نہیں کرتیں تو کچھ عیب نہیں البتہ حیف ہے ان انسانوں پر جو اللہ سے عقل و شعور کی نعمتیں پا کر بھی اپنے آپ کو بھیڑ بکریوں کی سی غفلت اور بےشعوری میں مبتلا کرلیں۔
Top