Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا
: یہی
جَزٰٓؤُا
: سزا
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُحَارِبُوْنَ
: جنگ کرتے ہیں
اللّٰهَ
: اللہ
وَرَسُوْلَهٗ
: اور اس کا رسول
وَ
: اور
يَسْعَوْنَ
: سعی کرتے ہیں
فِي الْاَرْضِ
: زمین (ملک) میں
فَسَادًا
: فساد کرنے
اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا
: کہ وہ قتل کیے جائیں
اَوْ
: یا
يُصَلَّبُوْٓا
: وہ سولی دئیے جائیں
اَوْ
: یا
تُقَطَّعَ
: کاٹے جائیں
اَيْدِيْهِمْ
: ان کے ہاتھ
وَاَرْجُلُهُمْ
: اور ان کے پاؤں
مِّنْ
: سے
خِلَافٍ
: ایکدوسرے کے مخالف سے
اَوْ يُنْفَوْا
: یا، ملک بدر کردئیے جائیں
مِنَ الْاَرْضِ
: ملک سے
ذٰلِكَ
: یہ
لَهُمْ
: ان کے لیے
خِزْيٌ
: رسوائی
فِي الدُّنْيَا
: دنیا میں
وَلَهُمْ
: اور ان کے لیے
فِي الْاٰخِرَةِ
: آخرت میں
عَذَابٌ
: عذاب
عَظِيْمٌ
: بڑا
بلاشبہ ان لوگوں کی جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور ملک میں خرابی پھیلانے کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں یہی سزا ہے کہ قتل کردیئے جائیں یا سولی پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جہتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا انہیں جلا وطن کردیا جائے ، یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے عذاب عظیم ہے
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو قتل کردینا لازم و ضروری ہے : 108: پچھلی آیات میں ” قتل ناحق “ کا ذکر تھا اس کی پوری پوری وضاحت فرما دی کہ قتل ناحق کیا ہے ؟ اس کی سزا کیا ہے جو قتل ناحق کا خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ0033 (یعنی جیسی سزا ان کیلئے ضروری ہو انہیں دی جائے) یہ ان کیلئے دُنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے عذاب عظیم ہے (109) ۔ 33 مرتکب ہوا ہو ؟ اور جو کسی کو ” قتل ناحق “ سے بچالے اس کا اجر وثواب اور اس کی افادیت بیان کی تھی اب ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے ” جن کو قتل کردینا حق ہے “ بلکہ ان کا قتل کردینا اور لازم وضروری ہے اور قتل نہ کرنا حق سے انحراف کے مرادف ہے زیر نظر آیت میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ ” قتل حق “ میں کون کون لوگ آتے ہیں ۔ وہ کون ہیں جو ” قتل حق ‘ ‘ میں تو نہیں آتے لیکن انکو نہایت سخت سزائیں دینے کی ہدایت ہے پھر مختلف سزاؤں کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں اور اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ جن لوگوں کو قتل کرنا حق ہے ان کو قتل کرنے سے پہلے بھی کچھ سزائیں دی جاسکتی ہیں اور ان سزاؤں کے بعد ان کو قتل کیا جانا ضروری ہے۔ اس طرح ساری فوجداری سزاؤں کی یہ آیت اصل قرارپاتی ہے۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ یہ سزائیں انہیں لوگوں کی ہیں جو کسی اسلامی مملکت کے اندر رہ رہے ہیں ہوں بیرونی دشمنوں کے لئے اسلام کا فریضہ جہاد ہے جو میدان جنگ اور جنگ کے اعلان کے بعد ہوتا ہے گویا یہ سزائیں ملک کے اندرونی دشمنوں کے لئے بیان کی گئی ہیں اور ان کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے پھر ان لوگوں کو جن یہ سزائیں دی جاتی ہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کرنے والے بیان کیا گیا ہے اور مزید تشریح کے طور پر کہا گیا ہے کہ وہ ملک میں فساد مچانے والے ہیں اور پھر ان فسادیوں کی اقسام کی وضاحت کی گئی ہے۔ آگے چلنے سے پہلے اس جگہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ” اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ “ کا مطلب کیا ہے اس لئے یہ بات ہر انسان اگر وہ کچھ بھی شعور رکھتا ہے تو سمجھ لیتا ہے کہ محاربہ اپنے لفظی معنی میں اللہ نے تو کسی کا ممکن ہی نہیں ہاں ! رسول اللہ ﷺ سے آپ (علیہ السلام) کی زندگی میں ممکن تھا لیکن کبھی کسی مسلمان سے یہ واقع نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا تھا اس لئے کہ جو ایسا کرتا وہ اس وقت مسلم نہ رہتا بلکہ کافر ہوجاتا اسی طرح وہ محاربہ بھی مسلمان کا نہ ہوتا بلکہ کافر ہی کا ہوتا اور پھر بعد ازوفات النبی ﷺ تو اس کا بھی امکان نہ رہا۔ اس لئے اس جگہ محاربہ سے مراد معصیت ، مخالفت اور جان بوجھ کر نافرمانی یا اللہ اور اس کے رسول کے قانون کو توڑنا ہے اور اس سے مقابلہ کرنا ہے اور آج کل یہ بطور محاورہ انسانی بول چال میں عام بولا جاتا ہے کہ فلاں مجھ سے یا فلاں فلاں سے جنگ لڑرہا ہے یعنی مقابلہ کررہا ہے ” ان دونوں کی آپس میں سرد جنگ جاری ہے۔ “ ہم فحاشی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ “ ” ان دونوں بھائیوں میں مجاربہ جاری ہے۔ “ وغیرہ اہل لغت نے بھی اس جگہ یہی معنی مراد لئے ہیں یعنی : المعصیۃ ای یعصونہ (لسان ، تاج) اور اہل تفسیر نے بھی اس کا مطلب یہی بیان کیا ہے : ای الذین یخالفون احکام اللہ و احکام رسولہ (کبیر) مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی وہ بھی اسلامی حکومت کے اندر ہتے ہوئے اور اسلام کا نام لیتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف برسرپیکار جنگ ہونا ہے یا کھلے بندوں اعلان جنگ ہے۔ اس لئے ہر ایک مسلمان کا یہ اپنا فرض ہے خواہ وہ کوئی ہے کہ اپنا تجزیہ کر کے دیکھے کہ وہ کہیں ایسے جرم کا مرتکب تو نہیں ہو رہا۔ جوں جوں غور کرو گے تو بات کھلتی جائے گی اور شاید ایسے بہت ہی کم نظر آئیں جو اس جنگ سے بچے ہوں اور پھر آج کل کے مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کی زندگیوں پر نظر ڈالو گے تو شاید کوئی ڈھونڈے سے بھی نہ ملے جو اس جنگ سے بچا ہوا ہو۔ دوسری بات اس جگہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ” وہ ملک میں خرابی پھیلانے کے لئے دوڑتے پھرتے ہیں۔ “ مسلمان تو مسلمان ہی ہیں ان کے ساتھ ذمیوں کے مال اور جان بھی دونوں اللہ اور اس کے رسول کے بخشے ہوئے ہیں جو ان کی حفظ وامان میں ہوتے ہیں اس لئے اس دوسری بات میں پہلی کی مزید تشریح کردی۔ اب جو کوئی ان پر بلا عذر حملہ کرتا ہے وہ یقیناً فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ کا مرتکب ہوتا ہے اور یہی اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ بھی ہے۔ آیت کے اس حصے کو سمجھنے کیلئے اس کے شان نزول پر نظر ڈالنا بھی مفید طلب ہوگا اس لئے اس کے شان نزول میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر ایک نگاہ ڈال لیں۔ ابن جریر طبری نے ابی حبیب کی روایت سے لکھا ہے کہ عبد الملک بن مردان نے حضرت انس ؓ کی خدمت میں عریضہ بھیجا اور اس آیت کے متعلق آپ سے دریافت کیا۔ حضرت انس ؓ نے جواب دیا کہ آیت کا نزول عرینہ والوں کے متعلق ہوا تھا جنہوں نے مرتدہو کر نبی اعظم و آخر ﷺ کے چرواہوں کو قتل کردیا تھا اور اونٹوں کو ہنکا کرلے گئے تھے ۔ بغوی نے سعید بن جبیر کا قول بھی اسی طرح درج کیا ہے تفصیل اس کی اس طرح ہے کہ ” حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے لیکن مدینہ کی آب وہوا ان کو موافق نہ آئی کہ ان کے ہاتھ پاؤں سوکھنے لگے ، چہرے زرد پڑنے لگے اور پیٹ بڑے ہوگئے (اور یہ ساری علامات مرض استسقاء کی ہیں) نبی اعظم و آخر ﷺ نے ان کو صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ (جن کا باڑہ جنگل میں تھا) رہنے کا حکم دیا تاکہ اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پیا کریں۔ چناچہ وہ وہاں چلے گئے اس طرح دودھ اور پیشاب پی کر تندرست اور موٹے تازے ہوگئے پھر وہ مرتد ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹوں کو ہنکا کرلے گئے۔ نبی کریم ﷺ کو یہ اطلاع پہنچائی گئی تو آپ (علیہ السلام) نے ان کے پیچھے لوگوں کو روانہ کردیا اور آپ (علیہ السلام) بحکم الٰہی یہ دعا فرماتے رہے کہ ” اے اللہ ! بلاشبہ آسمان تیرا آسمان ہے ، زمین تیری زمین ہے ، مشرق تیرا ہے اور مغرب تیرا ہے۔ اے اللہ ! ان لوگوں پر زمین باوجود فراخ ہونے کے تنگ کر دے اور ان لوگوں کو میرے قبضہ میں دے دے۔ “ اللہ کے حکم سے آپ (علیہ السلام) کے بھیجے ہوئے لوگوں نے انکو پکڑ لیا اور گرفتار کر کے ان کو نبی اعظم و آخر ﷺ کے پاس لے آئے۔ آپ (علیہ السلام) نے ان کے ہاتھ پاؤں کٹوائے ، ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھرانے کا حکم صادر فرمایا اور انجام کار ان کو قتل کرا دیا گیا اور جس طریقے سے انہوں نے صدقہ کے اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کیا تھا وہی طریقہ ان کے قتل کا اختیار فرمایا۔ اس واقعہ سے ” فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ “ کی تشریح مکمل ہوگئی کہ وہ کیا چیز ہے ؟ اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ کی سزا جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے یہی وہ ” قتل حق “ ہے اور حکومت اسلامی کے لئے لازم وضروری ہے کہ وہ ملک کے اندر اس کو رائج کرے اور اس پر عمل درآمد کرائے تاکہ ” فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ “ کا انسداد ہو سکے۔ اس آیت کے شان نزول میں اور بھی بہت سے قصے بیان کئے گئے ہیں لیکن الحمد للہ کہ سب آپس میں ملتے جلتے ہی ہیں اس لئے سب بھی مراد لئے جاسکتے ہیں اور ان سب میں سے کوئی ایک بھی کیونکہ جو ایک بھی اس کے تحت بیان کیا جائے گا باقی سب اس کی تشریح ہوجائیں گے۔ اس میں یاد رکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ یہ مرتدین صرف مرتد ہی نہیں ہوئے تھے بلکہ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ کے بھی مرتکب ہوئے تھے اور ان کے جرم کی سنگینی اس سے بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جن لوگوں کو انہوں نے قتل کیا (یعنی چرواہوں کو) ان کے دراصل ایک طرح کے مہمان بنائے گئے تھے لیکن ان بدبختوں نے ان کے احسان کا ان کو یہ بدلہ دیا۔ یہ تو آپ (علیہ السلام) کے زمانہ اقدس کے بےوفا تھے جن کو یہ سزادی گئی لیکن آج اس ملک کے اندر ایسے بیوفاؤں کو جو ملک کے ساتھ مخلص نہیں ، قوم کے ساتھ مخلص نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام کے ساتھ مخلص نہیں۔ وہی اس ملک کے حکمران چند ہی سالوں کے بعد سے بنتے رہے ہیں ، بن رہے ہیں اور غالباً بنتے رہیں گے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ قوم کا لیڈر اور رہنما بننے کے لئے فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ کا مرتکب ہونا لازم ہوگیا ہے جو فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ نہیں کرتا وہ اس ملک کا راہنما بن ہی نہیں سکتا۔ اگر یقین نہ آئے تو اس وقت جتنے راہنما ہیں بشمول ان کے جو دونوں راہنمائیوں کے پیشوا ہیں یعنی مذہبی بھی اور سیاسی بھی۔ کسی ایک کو تجزیہ کے لئے منتخب کرلیں پھر اگر وہ صرف سیاسی ہے تو سیاست کی نظر سے اور مذہبی و سیاسی دونوں ہے تو دونوں نظروں سے یعنی سیاسی سے بھی اور مذہبی سے بھی خود ہی تجزیہ کرلیں یا کسی صاحب علم سے تجزیہ کرالیں اگر ہمارے بتائے ہوئے اصول کے مطابق نہ نکلے توہ میں بھی اطلاع کردیں تاکہ ہم اپنی بھول کا اعلان کرتے ہوئے آپ کا شکریہ بھی ادا کریں۔ ہاں ملک کے سارے بےوفا وفادار کسی کو اپنی ضرورت کے مطابق سینیٹر یا وقت پاس کرنے کے لئے کسی صوبہ کا گورنر بنالیں اور ضرورت پوری ہونے کے بعد اس کو اپنی قید سے آزاد کردیں تو یہ کوئی کسی کی لیڈر شپ نہیں ہے۔ شاید آپ برا محسوس کریں کہ یہ قرآن کریم کی تفسیر ہے ہاں ! اگر ہے تو پھر یقیناً یہ تفسیر بالرائے ہے جس کے لئے رسول اللہ ﷺ نے ” فی النار “ کی وعید سنائی ہے اور ظاہر ہے کہ جو کسی مکتبہ فکر کی تفسیر کے مطابق بھی نہ ہو وہ تفسیر بالرائے نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا ؟ اس کا جواب مختصر سن لیں کہ اگر قبیلہ عرینہ کے یہ لوگ جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ قبیلہ مکمل کے لوگ جن کا ذکر بخاری شریف میں ہے اور اس آیت کی تفسیر میں ان کو بیان کیا گیا ہے یا ہلال بن عویمر کے قبیلہ کے لوگ جن کا ذکر ” ضحاک ‘ ‘ نے کیا ہے وہ سب اس آیت کی تفسیر میں آسکتے ہیں اور یہ تفسیر ماثورہ کہلائے گی تو اس کے لئے ایک ہی صورت ہے کہ ہماری کی گئی تفسیر بالرائے ہوجائے وہ یہ کہ قرآن کریم صرف اور صرف اس وقت ہی کے لوگوں کے لئے تھا ہمارے لئے نہیں تو بلاشبہ ہم تفسیر بالرائے کے مرتکب ہوئے لیکن چونکہ ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ قرآن کریم جس طرح ان لوگوں کے لئے تھا آج ہمارے لئے بھی بالکل اسی طرح ہے اور رہتی دنیا تک اسی طرح رہے گا جس طرح قرآن کریم کی ہدایت کا خلاف کر کے وہ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ کے مرتکب ہوئے آج بھی جو لوگ قرآن کریم کی ہدایت کے خلاف فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ کے مرتکب ہوں گے وہ اس تفسیر میں آئیں گے اور آج سے ہزاروں سال بعد آنے والے بھی اس ہدایت قرآنی کے خلاف کریں گے تو وہ بھی اس تفسیر کے تحت آئیں گے جو تفسیر ماثورہ ہے اور اس کے خلاف جو کچھ ہوگا وہی تفسیر بالرائے ہوگی۔ آپ اپنی لیڈر شپ کی حفاظت کریں۔ قرآن کریم پر آپ کی نہیں بلکہ کسی کی بھی اجارہ داری ہم تسلیم نہیں کرتے۔ یہ اللہ کی کتاب ہے اور جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلوں کے لئے تھی بالکل اسی طرح ہمارے لئے بھی ہے اور رہتی دنیا تک سب ہی کے لئے رہے گی۔ ہاں ! یہ بات ہم کو تسلیم ہے کہ اس وقت ” فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ “ کے مرتکب مرتد ہوں یا بغیر مرتد ہوئے ہوں ان کو سزا دی اور دی جاتی رہی اور آج ” فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ “ کے مرتکب نہ صرف اس سزا سے مستثنیٰ کردیئے گئے بلکہ ان کو قوم کے سیاسی لیڈر اور مذہبی رہنما ہونے کا طرہ امتیاز مل گیا ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ وہ ڈرادھمکا کر۔ لالچ دے کر ، مال خرچ کر کے ، دھونس ووھاندلی سے عوام کو اپنے ساتھ لگا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس کے ساتھ کچھ عوام لگ گئے لیڈر وہ ہوگیا ۔ جس نے حلال و حرام ، جائز و ناجائز مال اکٹھا کرلیا وہ لیڈر ہوگیا اور جب لیڈر وہ ہوگیا اس کو گویا مال اکٹھے کرنے کے بہت مواقع میسر آگئے اور جوں جوں دولت بڑھی اس کی لیڈری بھی بڑھتی گئی اور اس طرح ہوتے ہوتے وہ حسب و نسب کے لحاظ سے لیڈر ہوگیا یعنی اب لیڈری اس کا حق بن گیا اور ہمارے رواج کے مطابق جس طرح حجام کا باٹ حجام ، موچی کا بیٹا موچی اور چوہدری کا بیٹا چوہدری ہی ہوتا ہے اسی اصول کے مطابق اب لیڈر کا بیٹا لیڈر نہیں ہوگا تو آخر اور کیا ہوگا ؟ اب مضمون سے شاید ہم دور نکل گئے ؟ نہیں نہیں بالکل نہیں مضمون سے ہم قطعا دور نہیں نکلے ہاں ! کلام ذرا لمبا ہوگیا ہم بیان کر رہے تھے کہ : ” فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ “ کرنے والوں کی سزا کیا تھی جو نبی کریم ﷺ کے وقت مبارکہ میں دی جاتی تھی اور یہ کہ وہ ” فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ “ کرنے والے لوگ کون ہیں۔ اس سلسلہ میں قبیلہ عرینہ کے لوگوں کی بات جاری تھی جو مدینہ آکر اسلام لائے تھے پھر بیمار ہونے کے باعث اونٹوں کے باڑے میں لائے گیے تھے جنہوں نے صحت یاب ہو کر نبی کریم ﷺ کے قائم کردہ نظام صدقات کے محافظوں کو بڑی بےدردی سے قتل کر کے اونٹ لے نکلنے کا فعل کیا تھا اور آپ (علیہ السلام) کے حکم سے ان کا پیچھا کیا گیا اور اللہ کے فضل سے پیچھا کرنے والے ان کو پکڑ لائے اور آپ (علیہ السلام) نے انکو اس طریقہ پر قتل کروادیا جس طریقہ پر انہوں نے باڑہ کے محافظوں کو قتل کیا تھا اور محافظ باڑہ کا ذکر ایک آدمی سے بھی کیا گیا ہے اور ایک سے زیادہ آدمیوں سے بھی اور ان کا ذکر کتب احادیث میں موجود ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے کہ ” فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ “ کرنے والے جو دراصل اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے برسر پیکار جنگ بھی قرار دیئے گئے ہیں ان کے لیے چار قسم کی سزائیں موجود ہیں جیسا کہ زیر نظر آیت میں اسکی تشریح اللہ تعالیٰ نے فرما دی ہے : 1 : یُّقَتَّلُوْۤا : وہ قتل کردیئے جائیں۔ 2 : یُصَلَّبُوْۤا : وہ سولی پر لٹکا دیئے جائیں ۔ 3 : تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ : ان کے ہاتھ پاؤں مخالف جہتوں سے کاٹ دیئے جائیں۔ 4 : اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ 1ؕ: انہیں جلا وطن کردیا جائے۔ ان چاروں سزاؤں کی تشریحات بہت لمبی ہیں تاہم یہاں مختصر تعارف کرادینا مناسب معلوم ہوتا ہے اور تفصیلات کا یہ موقع نہیں۔ 1۔ یہ سزا اس موقع کے لئے ہے جب رہزنوں نے کسی کو صرف قتل کیا ہو اور مال لینے کی نوبت نہ آئی ہو۔ تقتیل باب تفعیل سے ہے اور اس کے معنی قتل یا قصاص پر زیادتی کے ہیں اور اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ قتل محض ولی کے معاف کردینے سے معاف نہیں ہوتا کہ یہ حق شریعت ہے اور یہ بھی کہ رہزنی کا جرم تنہا فرد یا افراد کے خلاف نہیں بلکہ پورے معاشرے کے خلاف ہے اس لئے مستغیث افراد کی دستبرداری ایسے مقدمات کو ختم کردینے کے لئے کافی ہے۔ 2۔ سولی پر چڑھایا جانا اس صورت میں ہے جب رہزنی اور قتل و غارت دونوں کا ارتکاب ہوا ہو چونکہ عام قتل کردینے سے اس طرح سولی پر لٹکانا زیادہ عبرتناک سزا ہے گویا جس قدر جرم بڑھا اس قدر سزا بھی بڑھا دی گئی اور وہ سولی پر لٹکائے گئے کی رسوائی ہے جو عوام کے لئے زیادہ عبرتناک ہے ۔ تاہم اس میں صورت اول سے زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے جس سے تشریحات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ 3۔ ” ہاتھ پاؤں کو مخالف جہتوں سے کاٹ ڈالنے کی سزا “ اس وقت ہے جب راہزنوں نے صرف لوٹا ہو لیکن قتل کا صدور نہ ہوا ہو۔ مزاحمت نہ ہونے کے باعث یا کسی اور سبب سے۔ یعنی اس صورت میں رہزنوں کا واہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا۔ 4۔ جلا وطن کردینے کی سزا۔ یہ اس صورت میں ہے کہ ابھی نوبت نہ جان لینے کی آئی اور نہ ہی مال لوٹنے کی محض قصدو اقدام ہی کے بعد گرفتاری ہوگئی۔ ملک سے نکال دیئے جانے سے مراد جلاوطنی بھی ہے اور مجرم کو آزادنہ ملک کے اندر پھرنے نہ دیا جائے جیسے اس کو قید کردیا جائے اور اس کی حد حکومت کی صوابدید پر چھوڑدی جائے۔ لیکن اگر صورت ایسی ہوئی کہ رہزنوں نے صرف کسی کو زخمی کردیا ہو لیکن نہ تو کوئی قتل ہوا اور نہ ہی انہوں نے مال لوٹا ہو جس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں تو ایسی صورت میں والجروح قصاص کے مطابق عمل درآمد ہوگا ایسے معاملات میں ” حق العبد “ ہونے کے باعث مضروب کو معاف کرنے کا حق بھی ہوگا۔ کتب تفاسیر اور کتب فقہ میں اس جگہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ ان چاروں سزاؤں میں حکومت کسی مجرم کو ایک سزا دلائے یا ساری سزائیں دلائے اور ان سزاؤں کے اندر نرمی یا سختی کہاں تک جائز و درست ہے اور اس طرح کی اور بہت سی باتیں ہیں جن پر سوال اٹھائے گئے ہیں اور قانوں کا نفاذ کرنے والے اداروں کو اس میں کیا کیا حق دیئے گئے ہیں ان سب کا جواب وہیں سے تلاش کرنا چاہئے اسلامی قانون میں جتنی وسعت پائی جاتی ہے کسی دوسری جگہ کم ہی پائی جاتی ہے۔ اس جگہ ایک بات کا مزید سمجھ لینا ضروری ہے وہ یہ کہ جس طرح شروع میں لکھا گیا تھا کہ شرعی سزاؤں کی تین اقسام ہیں لیکن ان تین اقسام کی وضاحت نہ کی گئی تھی اس جگہ وضاحت نہ سہی تاہم مختصر ذکر ضرور ہونا چاہئے۔ قانون سے متعلق لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کے عام قوانین میں جرائم کی تمام سزاؤں کو مطلقاً تعزیرات کا نام دیا جاتا ہے خواہ کسی جرم کے متعلق ہوں جیسے تعزیرات ہند ، تعزیرات پاکستان وغیرہ ناموں سے جو کتابیں شائع ہیں وہ ہر قسم کے جرائم اور ہر طرح کی سزاؤں پر مشتمل ہیں لیکن اسلامی شریعت میں معاملہ اس طرح نہیں بلکہ جرائم کی سزاؤں کی تین قسمیں قرار دی گئی ہیں حدود ، قصاص اور تعزیرات۔ ان تینوں قسموں کی تعریف اور مفہوم جاننے سے پہلے یہ بات جان لینا بھی ضروری ہے کہ جن جرائم سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف یا نقصان پہنچتا ہو اس میں مخلوق پر بھی ظلم ہے اور خالق کی نافرمانی بھی ہوئی ہے ۔ اس لئے ایسا مجرم دونوں کا مجرم بنتا ہے لیکن بعض جرائم میں حق العبد کی حیثیت کو زیادہ اہمیت حاصل ہے اور بعض میں حق اللہ کی حیثیت زیادہ نمایاں ہوتی ہے اور احکام میں مدار اس غالب حیثیت پر رکھا گیا ہے۔ اور یہ بات جاننا بھی ضروری ہے کہ اسلامی شریعت نے خاص خاص جرائم کے علاوہ باقی جرائم کی سزاؤں کے لئے کوئی پیمانہ متعین نہیں کیا بلکہ صاحب فیصلہ کے اختیار میں دیا ہے کہ ہر زمانہ ، ہر مکان اور ہر ماحول کے لحاظ سے جیسی اور جتنی سزا انسداد جرم کے لئے ضروری خیال کرے وہ جاری کر دے اور یہ بھی جائز ہے کہ ہر جگہ اور ہر زمانہ کی اسلامی حکومت شرعی قوائد کا لحاظ رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے والوں کے اختیار پر کسی طرح کی کوئی پابندی لگا دے۔ اب یوں سمجھئے کہ جن جرائم کی کوئی سزا قرآن و سنت نے متعین نہیں کی بلکہ حکام کی صوابدید پر رکھا ہے ان سزاؤں کو شرعی اصطلاح میں ” تعزیرات “ کا نام دیا گیا ہے۔ جن جرائم کی سزائیں قرآن و سنت نے متعین کردی ہیں وہ دو قسم پر رکھی گئی ہیں ۔ ایک وہ جن میں حق اللہ غالب ہے اور ان سزاؤں کو ” حد “ کہا جاتا ہے جس کی جمع ” حدود “ ہیں۔ اور جن میں حق العبد کو ازروئے شریعت غالب مانا گیا ہے اس کی سزا کو ” قصاص “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے قرآن کریم نے حدود وقصاص کا بیان پوری تفصیل وتشریح کے ساتھ خود کردیا ہے اور تعزیری جرائم کی تفصیلات کو حکام وقت کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تعزیری سزا کہیں حالات کے مطابق ہلکی بھی کی جاسکتی ہیں اور سخت بھی اور ضرورت کے مطابق دیانت و امانت کے ساتھ معاف بھی کا جاسکتی ہیں اس لئے ان میں احکام کے اختیارات کو بہت بڑی وسعت حاصل ہے ۔ حدود میں کسی حکومت یا کسی حاکم و امیر کو معمولی تغیر و تبدل کا حق بھی نہیں اور نہ ہی زمین و مکان بدلنے کا ان پر کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ ہی ان کو معاف کیا جاسکتا ہے۔ شریعت اسلامی میں ” حدود “ صرف پانچ ہیں۔ ڈاکہ ، چوری ، زنا تہمت زنا ، یہ چاروں حدود قرآن کریم میں موجود ہیں اور پانچویں حد شراب خوری کی ہے جو صحابہ ؓ کے دور اول ہی سے متفق علیہ چلی آرہی ہے یہ پانچوں حدود کہلاتی ہیں اور ان کو کوئی حاکم و امیر کم یا معاف نہیں کرسکتا اور اس طرح توبہ کرلینے سے بھی دینوی سزا کے حق میں معافی تصور نہیں ہوتی ہاں ! آخرت کا گناہ معاف ہوجائے یہ دوسری بات ہے۔ اس کے باوجود ان کی تفصیلات بھی بہت لمبی ہیں اور ہر دور میں کچھ اوپر نیچے بھی ہوتا رہا ہے۔ صدر اول کو چھوڑ کر حکام وقت اور علماء زمانہ کی ریشہ دوانیوں سے کام لیا جاتا رہا ہے ۔ لیکن جو صورت حال اس وقت اس ملک میں حدود وقصاص اور تعزیرات اسلامی کی ہو رہی ہے اور جس طرح ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے وہ سب پر روشن ہے اور اسلامی قانون کی آڑ میں انتظامیہ اور عدلیہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اسکی مثال اس سے پہلے کسی دور سے بھی نہیں دی جاسکتی اور یہی صورت حال جاری رہی تو آنے والی نسلیں اسلام کے نام سے بیزار ہوجائیں گی اور یہی ہمارے حکماء اور سیاسی راہنماؤں کی دیرنہ خواہش ہے ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں اسلام کے نام پر جو کچھ ہوا وہ سب کا سب جذبات میں ہوا اور جذبات میں ہونے والے کام کم ہی درست ہوتے ہیں کیونکہ جذبات کے وقت عقل و فکر سے کبھی کام نہیں لیا جاسکتا۔ بس جیسے ہی جذبات ٹھنڈے پڑے سماں اور کا اور ہوگیا۔ اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ کرنے والوں کی اخروی سزا کا ذکر : 109: فرمایا جا رہا ہے کہ ” یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے عذاب عظیم ہے ۔ “ یعنی یہ سزائے شرعی جو دنیا میں ان پر جاری کی گئی ہے یہ تو دنیا کی رسوائی ہے اور یہ سزا کیا ہے بس سزا کا ایک نمونہ ہے اور آخرت کی سزا اس سے بھی سخت اور دیرپا ہے جس سے معلوم ہوا کہ دنیاوی سزاؤں حدود و قصاص میں یا تعزیرات سے بغیر توبہ کے سزا معاف نہیں ہوتی ہاں سزا یافتہ آدمی دل سے توبہ کرلے تو یقیناً آخرت کی سزا بھی معاف ہوجائے گی۔ اس میں یہ حکمت بھی پنہاں ہے کہ اسلامی حکومت میں جو دوسرے مذاہب رہتے ہیں قانون کے مطابق سزا تو ان کو بھی وہی ملے گی جو مسلمان مجرم کو اگر ان کی سزا صرف دنیوی سزا سے پاک ہوجاتی تو ان کو بھی اصولی طور پر اس سزا سے پاک ہوجانا چاہئے تھا اور غیر مسلموں کا اسلام لائے بغیر اس کا تصور ہی غلط ہے اس اصول کے مطابق عدل اس طرح قائم ہو سکتا تھا کہ مسلمانوں کی دینوی سز اسے بھی صرف دنیوی سزاہی مکمل ہوتی اور آخرت کی سزا سچے دل کی توبہ سے محو ہوتی اور اس جگہ اس بات اور اس اصول کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح اس حکیم کل نے باریک سے باریک باتوں کا لحاظ رکھتے ہوتے قانون کا اعلان کیا ہے۔
Top