Tafheem-ul-Quran (En) - Al-Baqara : 45
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا١ۚ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
اور اللہ کی اطاعت کرو ، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور (برائیوں سے) بچتے رہو پھر اگر تم نے روگردانی کی تو جان رکھو ہمارے پیغمبر ﷺ پر تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا حکم اور شیطانی وساوس سے بچنے کی تاکید : 218: ہر انسان کسی چیز کے نفع اور مضرت کا احاطہ نہیں کرسکتا اسی لئے یہ بات اگر ذہن نشین ہوجائے کہ جس چیز سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے اس میں ہمارے لئے کبھی نفع نہیں ہوسکتا اور اس طرح وہ بات کبھی مضرت سے خالی نہیں ہو سکتی اور جس چیز کا حکم دیا ہے وہ کبھی ہمارے لئے نفع سے خالی اور دکھ دینے والی بھی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری یہی ہے کہ جس چیز کر کرنے کا وہ حکم دیں اس کو کیا جائے اور جس سے وہ منع کریں اس کے قریب بھی نہ جاہا جائے۔ یہی اصل قانون ہے اس لئے قانون کی خلاف ورزی سے بچتے رہو اگر نہیں بچو گے تو نبی کریم ﷺ تم کو قانون اور احکام الٰہی کھول کر پہنچا چکے نتیجہ خلاف ورزی کا خود سوچ لو کہ کیا ہوگا ؟ اطاعت رسول ﷺ کی پوری تفصیل عروۃ الوثقیٰ جلددوم تفسیر سورة النساء کی آیت 59 ، 65 ملاحظہ کرلیں۔ اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جس روز سے امت مسلمہ وجود میں آئی ہے اس وقت سے آج تک یہ بات اہل اسلام میں کبھی مختلف فیہ نہیں رہی ہے اور تمام امت نے ہمیشہ اسی بات کو تسلیم کیا ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ مؤمنوں کے لئے اللہ کی طرف مطاع اور متبوع ہیں ان کے احکام کی اطاعت اور ان کے امرونہی کا اتباع ہر مسلمان پر واجب ہے جس طریقے پر چلنے کی انہوں نے اپنے قول و عمل اور تقریر سے تعلیم دی ہے اس کی پیروی پر ہم مامور ہیں اور زندگی کے جس معاملے کا بھی انہوں نے فیصلہ کردیا ہے اس میں کوئی دوسرا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں اور اگر کوئی اس کے خلاف فیصلہ دے یا اس کے خلاف فیصلہ قبول کرے تو وہ دائرہ اسلام میں داخل نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس جگہ تقریر سے ہماری مراد یہ ہے کہ کسی رائج الوقت طریقے کو آپ (علیہ السلام) نے برقرار رکھا ہو یا کسی شخص کا کوئی عمل کرتے آپ (علیہ السلام) نے دیکھا ہو لیکن اس سے منع نہ فرمایا ہوتوایسا عمل بھی بلاشبہ سنت ہی سمجھا جائے گا اور اس کی اتباع بھی کرنا ہوگی۔ اس لئے ایک چیز کے سنت ثابت ہوجانے کے بعد اس میں اختلاف کسی مؤمن کا حق نہیں ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ سنت سے اختلاف کا وسوسہ شیطانی عمل ہے جس سے تم کو روک دیا گیا ہے۔ صحیح سنت روگردانی کرنے والے اپنا انجام خود سوچ لیں : 219: سنت اللہ یہی ہے کہ ہر رسول کے ذمہ صرف بات کا پہنچانا تھا اور اسی طرح یہی ذمہ داری نبی اعظم وآخر ﷺ کے ذمہ تھی جس کو ہر رسول نے پورا کیا اور اسی طرح آپ (علیہ السلام) نے بھی اس ذمہ داری کو بدرجہ احسن پورا فرمایا۔ اب اگر کوئی شخص روگردانی کرتا ہے تو اس کا اپنا انجام خود سوچ لینا چاہئے کہ کیا ہوگا ؟ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کا انجام وہی ہوگا جو منافق کا ہوتا ہے اس لئے کہ رسول کی نافرمانی منافق ہی کا شیوہ ہو سکتا ہے کسی مؤمن کی یہ شان نہیں۔ نافرمانی کرنے والا کوئی امیر ہو یا غریب اسی طرح نافرمانی کرنے والا کوئی حاکم ہو یا محکوم۔
Top