Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - At-Talaaq : 3
وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا
وَّيَرْزُقْهُ
: اور رزق دے گا اس کو
مِنْ حَيْثُ لَا
: جہاں سے، نہ
يَحْتَسِبُ
: وہ گمان کرتا ہوگا
وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ
: اور جو بھروسہ کرے گا
عَلَي اللّٰهِ
: اللہ پر
فَهُوَ حَسْبُهٗ
: تو وہ کافی ہے اس کو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ تعالیٰ
بَالِغُ اَمْرِهٖ
: پہنچنے والا ہے اپنے حکم کو
قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ
: تحقیق بنادیا اللہ نے
لِكُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز کے لیے
قَدْرًا
: ایک اندازہ
اور اس کو روزی دیتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے کافی ہے بلاشبہ اللہ اپنا کام (بہرحال) پورا کردیتا ہے بلاشبہ اللہ نے ہرچیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے
اللہ تعالیٰ ڈرنے والوں کو اس طرح رزق عطا کرتا ہے کہ ان کے وہم گمان میں بھی نہیں ہوتا 3 ؎ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور حدود اللہ کی پابندی کرتے ہیں خصوصاً جن باتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے عقل و فکر سے کام لینے کی تاکید کی ہے وہاں دیانت و امانت کے ساتھ عقل و فکر سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری اور ان کو بجا لانے کے ان کے دل میں کبھی اس بات کی سوچ ہی نہیں آتی کہ ایسا کریں گے تو ہم کو یہاں اتنی بچت آئے گی اور ہمیں یہ فائدہ پہنچے گا وہ اپنا نفع و نقصان اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ سمجھتے ہوئے پورے وثوق کے ساتھ کام کیے جاتے ہیں اور نتیجہ اس کے سپرد کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ خسیس ، شوم اور بخیل لوگ ایک ایک پیسے اور روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کی بچت کرتے ہیں اور معمولی معمولی باتوں کے لیے بڑے بڑے غلط کام کر جاتے ہیں اگر ان کو کہیں سے کوئی پائی پیسہ مل جاتا ہے تو اس کو اس طرح اپنے پلے باندھ دیتے ہیں کہ کبھی کھولنے کا نام تک نہیں لیتے۔ ان کے سامنے انسانیت بلبلا بلبلا کر مر جائے تو ان کے دل میں کبھی ترس نہیں آتا کہ یہ پیسہ خرچنے سے شاید اس کی جان بچ جائے ۔ گرمی میں جسم استعمال کرتے ہیں اور کپڑا سنبھال کر رکھ دیتے ہیں کہ کہیں میلا نہ ہوجائے۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ ایک عورت کے ساتھ آپ نے وقت گزارا ، نہ معلوم کتنا عرصہ تم یک جان دو قالب بنے رہے اگر اب کوئی اختلاف پیدا ہوگیا جس کے نتیجہ میں تم دونوں کا الگ الگ ہونا نا جاگزیر ہوگیا تو تم کو آخراتنی جلدی بھی کیوں ہے کہ یہ میرے گلے سے اترے میں اس کو کہاں تین مہینے تک کھلاتا پلاتارہوں جب کہ وہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ چلو اگر وہ تم ایک آنکھ نہیں بھاتی تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف دھیان کرو جب وہ تم کو حکم دے رہا ہے کہ اس کا کھانا پینا تمہارے ذمہ ہے اور نان و نفقہ کے تم ذمہ دار ہو تو اس کو خوشی سے قبول و منظور کرو اور اتنی کنجوی اور بخل سے کام نہ لو اگر تم اللہ پر بھروسہ رکھو گے تو تم کو وہ کسی طرح کی کمی نہیں آنے دے گا جب تمہاری روزی کا اس نے ذمہ لیا ہے تو پھر تم اس کے متعلق گھبراتے کیوں ہو اور یہ بھی کہ جن نامساعدحالات سے تم گزر رہے ہو ان حالات کو ساز گار بناتے اس کو زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔ ” جو شخص نیک دلی کے ساتھ اللہ پر بھرو وسہ کرتا ہے تو بلا شبہ اللہ تعالیٰ اسکے لیے کفایت کرتا ہے “ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اپنے کام اللہ کے سپرد کردیتا ہے بلا شبہ اللہ اس کا ذمہ دار ہوجاتا ہے پھر وہ جو کام کرتا ہے اس میں وہ کبھی رزق نہیں سمجھتا بلکہ وہ اللہ کا حکم سمجھ کر محنت کرتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی محنت کا صلہ اس کو اسی طرح پہنچاتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ کس طرح وافر روزی اس کو ملتی رہتی ہے۔ تو کل کے معنی کوڑھی اور اندھے ہو کر بیٹھنے اور ہر ایک سے سوال کرنے کے نہیں بلکہ یہ وہ مقام ہے کہ اس کی اپنی سمجھ میں کچھ نہیں ہوتا کہ یہ روزی کیسے اور کہاں سے اس کو مل گئی ۔ خیال رہے کہ یہ چیزیں تجربہ کی نہیں اور نہ ہی یہ تجربہ سے حاصل ہوتی ہیں ان کا تعلق اس ایمان و یقین سے ہے جس ایمان و یقین کا تعلق محض دل سے ہوتا ہے اور بلا شبہ یہ چیز کسبی نہیں کہ اس کو حاصل کیا جاسکے بلکہ اس کا تعلق عطاء الٰہی سے ہے اور اس کو وہبی کہتے ہیں جو رب ذوالجلال والاکرام سے ہبہ کی جات ہے اور یہ وہی جانتا ہے کہ اس نے اس کو کہاں ہبہ کرنا ہے۔ ایسا آدمی اسباب بھی لاتا ہے لیکن نتائج کے ظہور کے لیے اسباب پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ اس کی نظر مسبب پر ہوتی ہے اور یہی رب پر بھروسہ کرنا ہے۔ بےعمل اور جدوجہد سے بیزاری کا اسلام کے نظریہ توکل کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے ؎ گر توکل می کنی در کارکن کشت کن پس تکیہ بر جبار کن رمز الکاسب حبیب اللہ شنو گر تو کل در سبب کاہل مشو (رومی) اگر توکل کا دعویٰ کرتا ہے تو کام میں مشغول ہوجا ۔ پہلے تختم ریزی کر پھر اللہ پر بھروسہ کر ۔ اس حدیث میں جو رمز ہے اس کو سن ! کہ کسب کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔ توکل کی وجہ سے اسباب کے فراہم کرنے میں سستی مت کرو۔ ” بلا شبہ اللہ اپنا کام ہر حال میں پورا کردیتا ہے “ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ایسا نہیں ہے کہ پورا ہوا ہو اور نہ ہوا تو نہ ہوا ۔ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ وہ ذات تو وہ ہے کہ ادھر ارادہ ہوا اور ادھر وہ پورا ہوگیا لیکن یہ ” ادھر “ اور ” ادھر “ ہماری زبان کا نہیں ہے جو ہتھیلی پر سرسوں جمانے والے ہیں یہ اس ذات کی طرف سے ہے جس کے ہاں ایک دن پچاس ہزار سال کا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کا وہ ارادہ کرتا ہے ایسا ممکن نہیں کہ وہ ہو کر نہ رہے اگرچہ اس ہونے کا اس نے کسی کو علم نہیں دیا ۔ غور کرو کہ ذکریا (علیہ السلام) دعا کرتے ہیں اور نہ معلوم یہ دعا کا سلسلہ کب تک جاری رہا آخر کار اللہ کی رضا پر راضی ہو کر خاموش ہوگئے اور جب اس کا ” ادھر “ آیا تو اس نے زکریا (علیہ السلام) کو نماز میں کھڑے مخاطب کرلیا اور فرشتہ کو بھیج دیا کہ جائو ۔ میرے بندے ذکر یا کو خوشخبری سنائو کہ آپ کو اللہ بیٹے کی نعمت سے نوازے گا ۔ ذکریا (علیہ السلام) نے جب فرشتہ کی بشارت سنی تو متعجب ہو کر کہنے لگا کہ میرے ہاں بیٹا ! اب کیسے ؟ اب تو میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہوچکی ہے ۔ فرمایا تعجب کیوں کرتے ہو اس نے تم کو پیدا نہیں کیا حالانکہ تم اپنی پیدائش سے پہلے کچھ بھی نہیں تھے۔ زیر نظر آیت کے اس ٹکڑے میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ ( ان اللہ بالغ امرہ) ” اللہ اپنا کام ہر حال میں پورا کردیتا ہے “ کوئی چیز اس کے سامنے رکاوٹ نہیں بنتی۔ ” بلا شبہ اللہ نے ہرچیز کا ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے “ اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ باقی سارے کاموں کے لیے تو اس نے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے لیکن اپنے بندوں کی نصرت کے لیے کوئی وقت ہی اس کے ہاں مقرر نہ کیا گیا ہو ۔ نہیں اور ہرگز نہیں بلا شبہ اس کی نصرت کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور توکل یہی ہے کہ انسان اپنی طرف سے جلدی نہ کرے بلکہ اس وقت کا انتظار کرے اگر انسان نے جلدی سے کام لیا تو وہ متوکل کیونکر ہوا جب کہ توکل نام ہی اس بات کا ہے کہ جو شخص اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے وہ کبھی جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور نہ اس میں تاخیر ہونے سے مایوس ہوتا ہے بلکہ وہ مہر یہ لب رہتا ہے کہ اللہ کی مدد اس کو دستک سے چونکا دیتی ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ پورا ہوجاتا ہے اور یہ مہلت اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ اس کے امتحان کے لیے علم الٰہی میں ضروری ہوتی ہے۔ طلاق کا ذکر ہو رہا ہے تو اس جگہ اتنا مزید عرض کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی طرف سے اگر طلاق کا مطالبہ ہوجائے تو اس صورت حال کو خلع کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کے احکام وہی قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں ۔ ہم اس جگہ اس کی وضاحت درج کر رہے ہیں اور اس کے بعد طلاق کی مدت کا ذکر شروع ہوگا۔ خلع کیا ہے ؟ کیوں ہے ؟ اور اس کے احکام کی تفصیل اصطلاح شرع میں خلع اس طلاق کو کہا جاتا ہے جس کی خواہش عورت کی طرف سے ہو کہ کسی طریقہ سے اس مرد سے گلو خلاصی ہو جس کے ساتھ اس کا شرعی نکاح ہوا ۔ گویا جس طرح مرد یہ خواہش کرے تو اس کا نام طلاق ہے اور عورت کی طرف سے ابتداء ہو تو اس کا نام خلع ہے اور نتیجہ دونوں کا ایک ہے کہ دونوں میں جو عہد نکاح ہوا تھا وہ اسلامی حکم کے مطابق ممنوع ہوگیا اور وہ بندھن ٹوٹ گیا جس میں ان دونوں کو شریعت نے باندھ دیا تھا۔ اس باب میں ان احکام شریعت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک پہلو اخلاقی ہے اور دوسرا قانونی ۔ اخلاقی پہلو یہ ہے کہ خواہ مراد ہو یا عورت ہر ایک کو طلاق یا خلع کا اختیار صرف ایک آخری چارہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہئے نہ یہ کہ محض خواہشات کی تسکین کے لئے طلاق اور خلع کو کھیل بنا لیاجائے اور اس کا دوسرا پہلو جو قانونی پہلو ہے چونکہ اس کا کام اشخاص کے حقوق متعین کرنا ہے وہ اس پہلو سے بحث نہیں کرتا بلکہ وہ جس طرح مرد کو شوہر ہونے کی حیثیت سے طلاق کا حق دیتا ہے اسی طرح عورت کو بھی بیوی ہونے کی حیثیت سے خلع کا حق دیتا ہے تاکہ دونوں کے لیے بوقت ضرورت عقد نکاح سے آزادی حاصل کرنا ممکن ہو اور کوئی فریق بھی ایسی حالت میں مبتلا نہ کردیا جائے کہ دل میں نفرت ہے ، مقاصد نکاح پورے نہیں ہوتے ، رشتہ ازدواج ایک مصیبت بن گیا ہے ، مگر جبراً ایک دوسرے کے ساتھ محض اس لیے بندھے ہوئے ہیں کہ اس گرفت سے آزاد ہونے کی کوئی صورت نہیں ۔ رہا یہ سوال کہ دونوں میں سے کوئی فریق اپنے حق کو بےجا طور پر استعمال کرے گا تو اس بارے میں قانون جہاں تک ممکن اور معقول ہے پابندیاں عائد کردیتا ہے مگر حق کو بجا یا بےجا استعمال کرنے کا انحصار بڑی حد تک خود استعمال کرنے والے کے اختیار تمیزی اور اس کی دیانت اور خدا ترسی پر ہے۔ اس کے اور خدا کے سوا کوئی بھی یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ وہ محض طالب لذت ہے یا فی الواقع اس حق کے استعمال کی جائزحاجت رکھتا ہے۔ قانون اس کا فطری حق اسے دینے کے بعد اس کو بیجا استعمال سے روکنے کے لیے صرف ضروری پابندیاں اس پر عائد کرسکتا ہے۔ چناچہ طلاق کی بحث میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ مرد کو عورت سے علیحدگی اختیار کرنے کا حق دینے کے ساتھ اس پر متعدد قیود لگا دی گئی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ جو مہر اس نے عورت کو دیا تھا اس کا نقصان گوارا کرے ، زمانہ ٔ حیض میں طلاق نہ دے ، تین طہروں میں ایک ایک طلاق دے ، عورت کو زمانہ ٔ عدت میں اپنے ساتھ رکھے اور جب تین طلاق دے چکے تو پھر وہ عورت تحلیل کے بغیر دوبارہ اس کے نکاح میں نہ آسکے۔ اسی طرح عورت کو بھی خلع کا حق دینے کے ساتھ چند قیود عائد کردی گئی ہیں جن کو قرآن کریم کی ان مختصر سی آیات میں تمام و کمال بیان کردیا گیا ہے : خلع کی شرائط : وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا اِلآَّ اَنْ یَّخَافَآ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللہ ِط فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللہ ِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ (البقرۃ : 229) ” تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ تم ان کو دے چکے ہو وہ واپس لے لو ۔ الایہ کہ میاں بیوی کو یہ خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے ، تو ایسی صورت میں جب کہ تم کو خوف ہو کہ میاں بیوی اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے کچھ مضائقہ نہیں اگر عورت کچھ معاوضہ دے کر (عقد نکاح سے) آزادی حاصل کرلے “۔ اس آیت سے حسب ذیل احکام مستنبط ہوتے ہیں : (1) خلع ایسی حالت میں ہونا چاہئے جبکہ حدود اللہ کے ٹوٹ جانے کا خوف ہو۔ ( فلا جناح علیھما) کے الفاظ دلالت کرے ہیں کہ اگرچہ خلع ایک بری چیز ہے جس طرح کہ طلاق بری ہے لیکن جب یہ خوف ہو کہ حدود اللہ ٹوٹ جائیں تو خلع لینے میں کوئی برائی نہیں۔ (2) جب عورت عقدہ نکاح سے آزاد ہونا چاہے تو وہ بھی اسی طرح مال کی قربانی گوارا کرے جس طرح مرد کو اپنی خواہش سے طلاق دینے کی صورت میں گوارا کرنی پڑتی ہے۔ مرد اگر خود طلاق دے تو وہ اس مال میں سے کچھ واپس نہیں لے سکتا جو اس نے عورت کو دیا تھا اور اگر عورت جدائی کی خواہش کرے تو وہ اس مال کا ایک حصہ یا پورا مال واپس کر کے جدا ہو سکتی ہے جو اس نے شوہر سے لیا تھا۔ (3) افتراء ( یعنی معاوضہ دے کر رہائی حاصل کرنے) کیلئے محض فدیہ دینے والی کی خواہش کافی نہیں ، بلکہ اس معاملہ کا تمام اس وقت ہوتا ہے جب کہ فدیہ لینے والا بھی راضی ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ عورت محض ایک مقدار مال پیش کر کے آپ سے علیحدہ نہیں ہو سکتی بلکہ علیحدگی کے لئ ضروری ہے کہ جو مال وہ پیش کر رہی ہے اس کو شوہر قبول کرے لے۔ (4) خلع کے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ عورت اپنا پورا مہر یا اس کا ایک حصہ پیش کر کے علیحدگی کا مطالبہ کرے اور مرد اس کو قبول کر کے طلاق دے دے ( فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ) کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ خلع کا فعل تراضی طرفین سے مکمل ہوجاتا ہے ۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی تردید ہوتی ہے جو خلع کیلئے قضائے قاضی کو شرط قرار دیتے ہیں۔ (5) اگر عورت فدیہ پیش کرے اور مرد قبول نہ کرے تو اس صورت میں انکی طرف رجوع کیا جائے گا جو ( خلفھم) کے مخاطب ہیں ، یعنی مسلمانوں کے اولیٰ الامر اور چونکہ اولی الامر کا اولین فرض حدود اللہ کی حفاظت ہے اس لیے ان پر لازم ہوگا کہ جب حدود اللہ کے ٹوٹنے کا خوف متحقق ہوجائے تو عورت کو اس کا وہ حق دلوا دیں جو انہی حدود کے تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کیا ہے۔ یہ مجمل احکام ہیں جن میں اس امر کی تصریح نہیں کہ ’ ’ حدود اللہ کے ٹوٹ جانے کا خوف “ کن صورتوں میں متحقق ہوگا ۔ فدیہ کی مقدار متعین کرنے میں انصاف کیا ہے ؟ اور اگر عورت افتدلہ پر آمادہ ہو ، لیکن مرد قبول نہ کرے تو ایسی صورت میں قاضی کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ؟ ان مسائل کی تفصیلات ہم کو خلع کے ان مقدمات کی رودادوں میں ملتی ہیں جو نبی ﷺ اور خلفائے راشدین ؓ کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ ے صدر اول کے نظائر : خلع کا سب سے زیادہ مشہور مقدمہ وہ ہے جس میں ثابت بن قیس ؓ سے ان کی بیویوں نے خلع حاصل کیا ہے۔ اس مقدمہ کی رودادا کے مختلف ٹکڑے احادیث میں وارد ہوئے ہیں جن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ثابت ؓ سے ان کی دو بیویوں نے خلع حاصل کیا تھا۔ ایک بیوی جمیلہ بنت ابی سلول ( عبد اللہ بن ابی کی بہن) کا قصہ یہ ہے کہ انہیں ثابت کی صورت ناپسند تھی ۔ انہوں نے نبی ﷺ کے پاس خلع کے لیے مرافعہ کیا اور ان الفاظ میں اپنی شکایت بیان کی : ( یا رسول اللہ ﷺ یحمع راسی وراسہ شی ابدًا ۔ انی رفعت جانب الخباء فرایتہ اقبل فی عدۃ فاذا ھو اشدھم سوادًاواقصر ھم قامۃ واقبحھم وجھا) ابن جریر) ” یا رسول اللہ ﷺ میرے اور اس کے سر کو کوئی چیز کبھی جمع نہیں کرسکتی ۔ میں نے اپنا گھونگھٹ جو اٹھایا تو دیکھا کہ وہ چند آدمیوں کے ساتھ آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ وہ ان میں سب سے زیادہ کالا اور سب سے پستہ قد اور سب سے زیادہ بد شکل تھا “۔ ( واللہ ما کرھت منہ دینا ً ولا خلقا ً الانی کرھت دمامتہ ) (ابن جریر) ” اللہ کی قسم میں دین یا اخلاق کی کسی خرابی کے سبب سے اس کو ناپسند نہیں کرتی بلکہ مجھے اس کی بدصورتی ناپسند ہے “ ( واللہ لولا مخافۃ اللہ اذادخل علی لبصت فی وجھہ) ابن جریر) ” خدا کی قسم اگر خوف خدا نہ ہوتا تو جب وہ میرے پاس آیا تھا اس وقت میں اس کے منہ پر تھوک دیتی “۔ (یا رسول اللہ ﷺ بی من الجمال ما تری و ثابت رجل رمیم) عبد الرزاق بحوالہ فتح الباری) ” یا رسول اللہ ﷺ ! میں جیسی خوبصورت ہوں آپ ﷺ دیکھتے ہیں اور ثابت ایک بد صورت شخص ہے “۔ ( وما اعتب علیہ فی خلق ولا دین ولکنی اکرہ الکفر فی الاسلام) ( بخاری) ” میں اس کے دین اور اخلاق پر کوئی حرف نہیں رکھتی مگر مجھے اسلام میں کفر کا خوف ہے “۔ نبی ﷺ نے یہ شکایت سنی اور فرمایا کہ ( اتر دین علیہ حدیقتہ التی اعطاک) جو باغ تجھ کو اس نے دیا تھا وہ تو واپس کر دے گی ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں ! یا رسول اللہ ﷺ بلکہ وہ زیادہ چاہے تو زیادہ بھی دوں گی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ( ما الزیادۃ فلاولکن حدیقتہ) زیادہ تو نہیں مگر تو اس کا باغ واپس کر دے۔ پھر ثابت ؓ کو حکم دیا کہ : (اقبل الحدیقۃ وطلقھا تطلیقۃ) باغ قبول کرلے اور اس کو ایک طلاق دے دے۔ ثابت کی ایک اور بیوی حبیبہ بنت سہل الانصاریہ تھیں جن کا واقعہ امام مالک اور ابو دائود (علیہ السلام) نے اس طرح نقل کیا ہے کہ ایک روز صبح سویرے حضور ﷺ کا شانہ نبوی ﷺ سے برآمد ہوئے تو حبیبہ کو کھڑے پایا۔ دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے ؟ نہوں نے عرض کیا کہ : (لا اناولا ثابت بن قیس) میری اور ثابت کی نہیں نبھ سکتی ۔ جب ثابت ؓ حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ حبیبہ بنت سہل ہے ۔ اس نے بیان کیا جو کچھ اللہ نے چاہا کہ بیان کرے۔ حبیبہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جو کچھ مجھے ثابت نے دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے۔ حضور ﷺ نے ثابت کو حکم دیا کہ وہ لے لے اور اس کو چھوڑ دے۔ بعض روایتوں میں ( خل سبیلھا) کے الفاظ ہیں اور بعض میں ( فارقھا) دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ ابو دائود اور ابن جریر (رح) نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے اس واقعہ کو اس طرح روایت کیا ہے کہ : ثابت نے حبیبہ کو اتنا مارا تھا کہ ان کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔ حبیبہ نے آ کر حضور ﷺ سے شکایت کی کہ تو آپ ﷺ نے ثابت کو حکم دیا کہ : ( خذبعض ما لھا و فارقھا) اس کے مالک کا ایک حصہ لے لے اور جدا ہوجا ۔ مگر ابن ماجہ نے جو الفاظ نقل کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حبیبہ کو ثابت کے خلاف جو شکایت تھی وہ مار پیٹ کی نہ تھی بلکہ بدصورتی کی تھی ۔ چناچہ انہوں نے وہی الفاظ کہے جو دوسری احادیث میں جمیلہ سے منقول ہیں ۔ یعنی اگر مجھے خدا کا خوف نہ ہوتا تو میں ثابت کے منہ پر تھوک دیتی۔ حضرت عمر ؓ کے سامنے ایک عورت اور مرد کا مقدمہ پیش ہوا ۔ آپ ؓ نے عورت کو نصیحت کی اور شوہر کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا ۔ عورت نے قبول نہ کیا ۔ اس پر آپ ؓ نے اسے ایک کو ٹھڑی میں بند کردیا جس میں کوڑا کرکٹ بھرا ہوا تھا۔ تین دن قید رکھنے کے بعد آپ ؓ نے اسے نکالا اور پوچھا کہ تیرا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا خدا کی قسم مجھ کو انہی تین راتوں میں راحت نصیب ہوئی ۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے اس کے شوہر کو حکم دیا کہ : اخعلھا ویحک ولو من قرطھا “ اس کو خلع دے دے خواہ وہ اس کے کان کی بالیوں کے عوض ہی میں ہو “۔ ( کشف الغمہ ج 2) ربیع بنت معوذ بن عفراء نے اپنے شوہر سے اپنی تمام املاک کے معاوضہ میں خلع حاصل کیا ۔ شوہر نے نہ مانا ۔ حضرت عثمان ؓ کے پاس مقدمہ پیش ہوا ۔ حضرت عثمان ؓ نے اس کو حکم دیا کہ اس کی موباف تک لے لے اور اس کو خلع دے دے۔ فاجازہ وامرہ باخذ عقاص راسھا۔ (عبد الرزاق) احکام خلع ان روایات سے حسب ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے : (1) (فان جعفتم الا یقیما حدود اللہ) کی تفسیر وہ شکایات ہیں جو ثابت بن قیس ؓ کی بیویوں سے منقول ہیں ۔ نبی ﷺ نے ان عورتوں کی اس شکایت کو خلع کیلئے کافی سمجھا کہ وہ بد صورت ہے اور وہ ان کو پسند نہیں ۔ آپ ﷺ نے ان کو خوبصورتی اور بد صورتی کے فلسفہ پر کوئی لیکچر (Lecture) نہیں دیا کیونکہ آپ ﷺ کی نظر شریعت کے مقاصد پر تھی ۔ جب یہ امر متحقق ہوگیا کہ ان عورتوں کے دل میں شوہر کی طرف سے نفرت و کر اہٹ بیٹھ چکی ہے تو آپ ﷺ نے ان کی درخواست کو قبول فرما لیا کیونکہ نفرت و کراہت کے ساتھ ایک عورت اور مرد کو جبراً ایک دوسرے سے باندھ رکھنے کے نتائج دین ، اخلاق اور تمدن کیلئے طلاق و خلع سے زیادہ خراب ہیں اور ان سے مقاصد شریعت فوت ہونے کا خوف ہے۔ پس نبی کریم ﷺ کے عمل سے یہ قاعدبہ نکلتا ہے کہ خلع کا حکم نافذ کرنے کے لئے محض اس بات کا محق ہوجانا کافی ہے کہ عورت اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہے اور اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ۔ (2) ۔ حضرت عمر ؓ کے فعل سے معلوم ہوتا ہے کہ نفرت و کراہت کی تحقیق کیلئے قاضی شرع کوئی مناسب تدبیر اختیار کرسکتا ہے تاکہ کسی شبہ کی گنجائش نہ رہے اور بالیقین معلوم ہوجائے کہ ان زن و شو میں اب نباہ ہونا متوقع نہیں ہے۔ (3) حضرت عمر ؓ کے فعل سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نفرت و کراہت کے اسباب کا کھوج لگانا ضروری نہیں اور یہ ایک معقول بات ہے۔ عورت کو اپنے شوہر سے بہت سے ایسے اسباب کی بناء پر نفرت ہو سکتی ہے جن کو کسی کے سامنے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ ایسے اسباب بھی نفرت کے ہو سکتے ہیں جن کو اگر بیان کیا جائے تو سننے والا نفرت کیلئے کافی نہ سمجھے لیکن جس کو ان اسباب سے دن رات سابقہ پیش آتا ہے اس کے دل میں نفرت پیدا کرنے کے لیے وہ کافی ہوتے ہوں ۔ لہٰذا قاضی کا کام صرف اس واقعہ کی تحقیق کرنا ہے کہ عورت کے دل میں شوہر سے نفرت پیدا ہوچکی ہے۔ قاضی عورت کو وعظ و پند کر کے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے راضی کرنے کے لیے کوشش ضرور کرسکتا ہے مگر اس کی خواہش کے خلاف اسے مجبور نہیں کرسکتا ، کیونکہ خلع اس کا حق ہے جو خدا نے اس کو دیا ہے اگر وہ اس امر کا اندیشہ ظاہر کرتی ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے میں وہ حدود اللہ پر قائم نہ رہ سکے گی تو کسی کو اس سے یہ کہنے کا حق نہیں کہ تو چاہے حدود اللہ کو توڑ دے مگر اس خاص مرد کے ساتھ بہر حال مجھ کو رہنا پڑے گا ۔ (5) خلع کے مسئلہ میں دراصل یہ سوال قاضی شروع کیلئے تنقیح طلب ہی نہیں ہے کہ عورت جائز ضرورت کی بناء پر طالب خلع ہے یا محض نفسانی خواہشات کیلئے علیحدگی چاہتی ہے ۔ اس لیے نبی ﷺ اور خلفاء راشدین ؓ نے قاضی کی حیثیت سے جب مقدمات خلع کی سماعت کی تو سوال کو بالکل نظر انداز کردیا کیونکہ اول تو اس سوال کی کما حقہ تحقیق کرنا قاضی کے بس کی بات نہیں ، دوسرے خلع کا حق عورت کے لئے اس حق کے مقابلہ میں ہے جو مرد کو طلاق کی صورت میں دیا گیا ہے اور اس کا احتمال دونوں صورتوں میں یکساں ہے مگر مرد کے حق طلاق کو قانون میں اس قید کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا کہ وہ ذواقیت کیلئے استعمال نہ کیا جائے ۔ پس جہاں تک قانونی حق کا تعلق ہے عورت کے حق خلع کو بھی کسی اخلاقی قید سے مقید نہ ہونا چاہئے۔ تیسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی عورت دو حال سے خالی نہ ہوگی یا وہ فی الحقیقت خلع کی جائز ضرور رکھتی ہوگی یا محض ذواقہ ہوگی ۔ اگر پہلی صورت ہے تو اس کے مطالبہ کو رد کرنا ظلم ہوگا اور اگر دوسری صورت ہے تو اس کو خلع کے بازرکھنے سے شریعت کے اہم مقاصد فوت ہوجائیں گے۔ اس لیے کہ جو عورت طبعا ً ذواقہ ہے تو وہ تسکین کے لیے کوئی نہ کوئی تدبیر کر کے رہے گی ۔ اگر آپ اس کو جائز طریقے سے ایسا نہ کرنے دیں گے تو ناجائز طریقوں سے اپنی فطرت کے داعیات کو پورا کرے گی اور یہ زیادہ برا ہوگا ۔ ایک عورت کا پچاس شوہروں کو یکے بعد دیگر بدلنا اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ وہ کسی شخص کے قید نکاح میں رہتے ہوئے ایک مرتبہ بھی زنا کاری کا اتکارب کرے۔ (6) اگر عورت خلع مانگ اور شوہراس پر راضی نہ ہو تو قاضی اس کو حکم دے گا کہ اسے چھوڑ دے ۔ روایات میں یہی آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین ؓ نے ایسی صورتوں میں مہر قبول کر کے عورت کو چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے اور قاضی کا حکم بہر حال یہی مصلحت رکھتا ہے کہ محکوم علیہ جو امتشال کا پابند ہے حتیٰ کہ اگر وہ امتشال نہ کرے تو قاضی اس کو مجبور کرسکتا ہے ۔ شریعت کی حیثیت صرف ایک مشیر (Consultant) کی نہیں ہے کہ اس کا حکم محض مشورہ کے درجہ میں ہو اور محکوم علیہ کو اس کے ماننے یا نہ ماننے کا اختیار ہو۔ (7) خلع کا حکم نبی ﷺ کی تصریح کے مطابق ایک طلاق بائن کا ہے یعنی اس کے بعد زمانہ ٔ عدت میں شوہر کو رجوع کا حق نہ ہوگا کیونکہ حق رجوع باقی رہنے سے خلع کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ نیز چونکہ عورت نے جو مال اس کو دیا ہے وہ عقد نکاح سے رہائی کے معاوضہ میں دیا ہے اس لیے اگر شوہر معاوضہ لے لے اور اس کو رہائی نہ دے تو یہ فریب اور دغا بازی ہوگی جس کو شریعت جائز نہیں رکھ سکتی ۔ ہاں ! اگر عورت دوبارہ اس کے ساتھ نکاح چاہے تو کرسکتی ہے کیونکہ یہ اس قسم کی طلاق ہے جس کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کے لیے تحلیل شرط نہیں ہے۔ (8) خلع کے معاوضہ کے تعیین میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی ہے ۔ جتنے معاوضہ پر بھی زوجین راضی ہوجائیں اس پر خلع ہو سکتا ہے لیکن نبی ﷺ نے اس کو پسندنہ فرمایا کہ شوہر خلع کے معاوضہ میں اپنے دیئے ہوئے مہر سے زیادہ مال لے ۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ( لا یاخذالرجل من المختلفعۃ اکثر ھما اعطاھا) حضرت علی ؓ نے بھی بالفاظ صریح اس کو مکروہ فرمایا ہے۔ ایمہ مجتہدین کا بھی اس پر اتفاق ہے بلکہ اگر عورت اپنے شوہر کے ظلم کیوجہ سے خلع کا مطالبہ کرے تو شوہر کے لیے سرے سے مال لیتا ہی مکروہ ہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے : وان کان انلشوز من قبلہ بکرہ لہ ان یاخذ منھا عوضا ً اس باب میں اصول شرع کے ماتحت یہ ضابطہ بنایا جاسکتا ہے کہ اگر خلع مانگنے والی عورت اپنے شوہر کا نشوز ثابت کر دے یا خلع کیلئے ایسے وجود ظاہر کرے جو قاضی کے نزدیک معقول ہوں تو اس کو مہر کے ایک قلیل جز یا نصف کی واپسی پر خلع دلایا جائے اور اگر وہ نہ شوہر کو نشوز ثابت کرے ، نہ کوئی معقول وجہ ظاہر کرے تو اس کیلئے پورا مہر یا اس کا ایک بڑا حصہ واپس کرنا ضروری قرار دیا جائے ۔ اگر اس کے رویئے میں قاضی کو ذواقیت کے آثار نظر آئیں تو قاضی سزا کے طور پر اس کو مہر سے بھی کچھ زیادہ دینے پر مجبور کرسکتا ہے۔ مسئلہ خلع میں ایک بنیادی غلطی خلع کی اس بحث سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ قانون اسلامی میں عورت اور مرد کے حقوق کے درمیان کس قدر صحیح توازن قائم کیا گیا تھا۔ اب یہ ہماری اپنی غلطی ہے کہ ہم نے اپنی عورتوں سے خلع کے حق کو عملاً سلب کرلیا اور اصول شرعی کے خلاف عقدہ نکاح کو کلیتاً مرد کی خواہش پر منحصر ٹھہرا دیا اس سے عورتوں کی جو حق تلفیاں ہوئیں اور ہو رہی ہیں ان کی ذمہ داری خدا اور رسول ﷺ کے قانون پر قطعاً نہیں ہے بلکہ ان لوگوں پر ہے جنہوں نے اس قانون کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ اگر اب بھی عورتوں کے اس حق کا استقرار ہوجائے تو بہت سی گتھیاں سلجھ جائیں گی جو ہمارے ازدواجی معاملات میں پیدا ہوگئی ہیں بلکہ گتھیوں کا پیدا ہونا بند ہوجائے گا ۔ عورت سے خلع کے حق کو جس چیز نے عملاً بالکل سلب کرلیا ہے وہ یہ غلط خیال ہے کہ شایدخلع کا معاملہ کلیتاً زن و شوہر کے درمیان رکھا ہے اور اس میں مداخلت کرنا قاضی کے حدود اختیارات سے باہر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خلع دینا یا نہ دینا بالکل مرد کی مرضی پر موقوف ہوگیا ہے۔ اگر عورت خلع حاصل کرنا چاہے اور مرد اپنی شرارت یا خود غرضی سے نہ دینا چاہئے تو عورت کیلئے کوئی چارہ کار نہیں لیکن یہ بات شارع کے منشاء کے بالکل خلاف ہے۔ شارع کا یہ منشاء ہرگز نہ تھا کہ معاملہ انکار سے ایک فریق کو بالکل بےبس کر کے دوسرے فریق کے ہاتھ میں دے دے ۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ بلند اخلاق مقاصد فوت ہوجاتے جو اس نے مناکحت کے ساتھ وابستہ کیے ہیں ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا کہ اسلامی شریعت میں قانون ازدواج کی بنا ہی اس اصل پر رکھی گئی ہے کہ عورت مرد کا ازدواجی تعلق پاکیزگی ، اخلاق اور مؤدت و رحمت کے ساتھ قائم رہ سکتا ہو۔ اس کا استحکام مستحسن اور ضروری ہے ، اس کو توڑنا تڑوانے کی کوشش کرنا سخت نا محمود ہے اور جب یہ تعلق دونوں کیلئے یا دونوں میں سے ایک کیلئے اخلاق کی خرابی کا سبب بن جائے یا اس میں مؤدت و رحمت کی جگہ نفرت و کراہت داخل ہوجائے تو پھر اس کا توڑ دینا ضروری ہے اور اس کا باقی رہنا اغراض شریعت کے خلاف ہے۔ اس اصل کے ماتحت شریعت نے معاملہ نکاح کے دونوں فریقوں کو ایک قانونی آلہ ایسا دیا ہے جس سے وہ عقائد نکاح کے ناقابل برداشت ہوجانے کی صورت میں حل عقد کا کام لے سکتے ہیں ۔ مرد کے قانونی آلہ کا نام طلاق ہے جس کے استعمال میں اسے آزادانہ اختیار دیا گیا ہے اور اس کے بالمقابل عورت کے قانونی آلہ کا نام خلع ہے جس کے استعمال کی صورت یہ رکھی گئی ہے کہ جب وہ عقد نکاح کو توڑنا چاہے تو پہلے مرد سے اس کا مطالبہ کرے اور اگر مرد اس کی خواہش پور کرنے سے انکار کر دے تو پھر قاضی سے مدد لے۔ زوجین کے حقوق میں توازن اسی طرح قائم رہ سکتا تھا اور خدا اور رسول ﷺ نے در حقیقت یہی توازن قائم کیا تھا مگر قاضی کے اختیار سماعت کو درمیان سے خارج کر کے یہ توازن بگاڑ دیا گیا کیونکہ اس طرح وہ قانونی آلہ جو عورت و دیا گیا تھا قطعاً بیکار ہوگیا اور عملاً قانون کی صورت بگڑکر یہ ہوگئی کہ اگر مرد کو ازدواجی تعلق میں حدود اللہ کے ٹوٹنے کا خوف ہو یا یہ تعلق اس کیلئے ناقابل برداشت ہوجائے تو وہ اسے قطع کرسکتا ہے لیکن اگر یہی خوف عورت کو ہو یا ازدواجی تعلق اس کیلئے ناقابل برداشت ہوجائے تو اس کے پاس اس تعلق کو قطع کرانے کا کوئی ذریعہ نہیں ۔ تاوقتیکہ مرد ہی اس کو آ زاد نہ کر دے ، وہ مجبور ہے کہ ہر حال میں اس تعلق میں بندھی رہے خواہ حدود اللہ پر قائم رہنا اس کیلئے محال ہی کیوں نہ ہوجائے اور مناکحت کے شرعی مقاصد بالکل ہی کیوں نہ فوت ہوجائیں ۔ کیا کسی میں اتنی جسارت ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی شریعت پر اتنی کھلی ہوئی بےانصافی کا الزام عائد کرسکے ؟ مسئلہ خلع میں قاضی کے اختیارات قرآن مجید کی جس آیت میں خلع کا قانون بیان کیا گیا ہے ، اس کو پھر پڑھیئے۔ ( فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھا فیما افتدت بہ) ” اگر تم کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ عورت کچھ فدیہ دے کر علیحدگی حاصل کرے “۔ اس آیت میں زوجین کا ذکر تو غائب کے صیغوں سے کیا گیا ہے ، لہٰذا وہ لفظ ( خفتم) کے مخاطب نہیں ہو سکتے۔ اب لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اس کے مخاطب مسلمانوں کے اولی الامر ہیں اور حکم الٰہی کا منشاء یہ ہے کہ اگر خلع زوجین میں تراضی حاصل نہ ہو تو اولی الامر کی طرف رجوع کیا جائے پھر اس کی تصدیق ان احادیث سے ہوتی ہے جو ہم اوپر نقل کرچکے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے پاس خلع کے دعوے لے کر عورتوں کا آنا اور آپ ﷺ کا ان کی سماعت کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ جب زوجین میں تراضی حاصل نہ ہو تو عورت کو قاضی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ فی الواقع قاضی کا فیصلہ اس معاملہ میں بےاثر ہو اور مرد کے راضی نہ ہونے کی صورت میں قاضی سے اپنا فیصلہ منوانے کا اقتدار نہ رکھتا ہو تو قاضی کو مرجع قرار دینا سرے سے فضول ہے۔ اس کے پاس جانے کا نتیجہ بھی وہی ہے جو نہ جانے کا ہے۔ لیکن کیا احادیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاضی اس معاملہ میں بےاختیار ہے ؟ نبی ﷺ اور خلفائے راشدین ؓ کے جتنے فیصلے اوپر بیان ہوئے ہیں ان سب میں یا تو صیغہ امر آیا ہے جیسے ( طلقھا) اور ( فارقھا) اور ( خل سبیلھا) یا یہ بیان کہ آپ ﷺ نے مرد کو حکم دیا کہ ایسے کرے۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے جو روایت نقل کی ہے اس میں تو الفاظ یہ ہیں کہ ( ففرق بینھما) پھر آپ ﷺ نے ان کو جدا کردیا اور یہی الفاظ اس روایت میں بھی ہیں جو جمیلہ بنت ابی سلول سے منقول ہے۔ اس کے بعد یہ شبہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ قاضی خلع کے معاملہ میں حکم دینے کا مجاز نہیں ۔ رہا یہ سوال کہ اگر شوہر اس حکم کو محض مشورہ سمجھ کر ماننے سے انکار کر دے تو کیا قاضی اس سے جبراً اپنا حکم منوا سکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی ﷺ اور خلفائے راشدین ؓ کے عہد میں ایسی تو کوئی مثال ہم کو نہیں ملتی کہ آپ ﷺ نے کوئی فیصلہ صادر فرمادیا ہو اور کسی نے اس سے سرتابی کی جرأت کی ہو لیکن سیدنا علی ؓ کے اس فیصلہ پر ہم قیاس کرسکتے ہیں جس میں آپ ؓ نے ایک ہیکڑ شوہر سے فرمایا تھا کہ : لست ببارح حتی ترضی بمثل ما رضیت بہ یعنی تجھے نہ چھوڑا جائے گا جب تک تو بھی اسی طرح حکمین کا فیصلہ قبول کرنے پر راضی نہ ہو ۔ جس طرح عورت راضی ہوئی ہے۔ اگر قاضی ایک شوہر کو حکمین کے فیصلہ پر سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرنے سے حراست میں رکھتا ہے تو وہ خود اپنا فیصلہ منوانے کیلئے بدرجہ اولیٰ قوت استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کے تمام معاملات میں سے صرف خلع ہی کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہو جسے قاضی کے اس حق سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ فقہ کی کتابوں میں متعدد جزئیات ایسے ملتے ہیں جن میں قاضی کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر شوہر اس کے حکم سے طلاق نہ دے تو قاضی خود تفریق کرا دے۔ پھر کیوں نہ خلع کے مسئلہ میں بھی قاضی کو یہ اختیار حاصل ہو ؟
Top