Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - At-Tahrim : 3
وَ اِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ حَدِیْثًا١ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِهٖ وَ اَظْهَرَهُ اللّٰهُ عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَهٗ وَ اَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ١ۚ فَلَمَّا نَبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ هٰذَا١ؕ قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ
وَ
: اور
اِذْ
: جب
اَسَرَّ النَّبِيُّ
: چھپایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِهٖ
: طرف اپنی بعض بیویوں کے
حَدِيْثًا
: ایک بات کو
فَلَمَّا
: تو جب
نَبَّاَتْ بِهٖ
: اس نے خبر دی اس کی
وَاَظْهَرَهُ اللّٰهُ
: اور ظاہر کردیا اس کو اللہ نے
عَلَيْهِ
: اس پر
عَرَّفَ
: اس نے بتادیا۔ جتلا دیا
بَعْضَهٗ
: اس کا بعض حصہ
وَاَعْرَضَ
: اور اعراض برتا
عَنْۢ بَعْضٍ
: بعض سے
فَلَمَّا نَبَّاَهَا
: تو جب آپ نے خبر دی اس (بیوی) کو
بِهٖ
: ساتھ اس بات کے
قَالَتْ
: بولی
مَنْ اَنْۢبَاَكَ
: آپ کو کس نے بتایا ہے۔ آپ کو کس نے خبر دی ہے
هٰذَا
: اس کی
قَالَ نَبَّاَنِيَ
: فرمایا خبر دی مجھ کو
الْعَلِيْمُ
: علم والے
الْخَبِيْرُ
: خبر والے نے
اور جب پیغمبر اسلام نے اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی سے کوئی راز کی بات کہی پھر اس بیوی نے (کسی دوسری بی بی کو) اطلاع کردی اور اللہ نے یہ بات پیغمبر اسلام پر بھی ظاہر کردی تو آپ نے وہ بات کچھ تو اس کو جتائی اور کچھ سے گریز کیا (ظاہر نہ کی) پھر جب آپ نے اپنی بیوی کو وہ (مکمل) بات بتائی تو وہ بولیں کہ آپ کو کس نے بتایا ؟ آپ نے فرمایا مجھے علم رکھنے والے خبر رکھنے والے نے بتایا
رسول اللہ ﷺ نے ایک راز کی بات اپنی ایک زوجہ محترمہ سے کی 3 ؎ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی ( اذ) یا ( واذ) وارد ہوا ہے وہاں لفظ (اذکر) محذوف مانا گیا ہے یعنی آپ ﷺ ان سے ذکر کیجئے ، اس وقت کو یاد کیجئے ، آپ خود یاد کیجئے ۔ مختصر یہ یہ کہ سیاق وسباق کے اعتبار سے جیسا موقع ہوگا ویسے معنی مراد لے لیے جائیں گے۔ اس سے یہ بات خود بخود نکل آتی ہے کہ جہاں یہ استعمال ہوا وہاں ایک نئی بات شروع ہوئی اور گزشتہ بات کو اس نے آنے والی بات سے الگ کردیا یوں سمجھیں کہ کوئی بات پہلے بیان کی جا چکی ہو تو اس کی دوبارہ یاد دہانی کرانا مقصود ہو تو اس کا استعمال کرلیا تاکہ اس واقعہ کی ایک الگ حیثیت قائم ہوجائے اور اس بات کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اور آیت کے شروع ہوتے ہی اس نے ہماری تفہیم کی تصدیق کردی ہے اور آپ بھی اس پر غور کریں گے ان شاء اللہ العزیز آپ کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا ۔ ( اذ) جب ، جبکہ ، جس وقت ، چونکہ وغیرہ یہ حرف زمان ہے یا ظرف مکان یاحرف مناجات ہے یا حرف مؤکد۔ ( اذ) کا استعمال فرمان ماضی کے لیے ہوتا ہے یا کم از کم اذ سے زیادہ اس کا استعمال ماضی کے لیے ہوتا ہے یعنی کسی گزشتہ واقعہ کی طرف توجہ دلانے کے لیے اور ( اذا) کا بیان بھی اس کے قریب قریب ہی ہے ، فرق ہے تو یہی کہ (اذا) کا استعمال زیادہ تر مستقبل کے لیے ہوتا ہے اور ماضی کے لیے بہت کم ۔ اور اس کا استعمال عام ہے آپ کہیں سے بھی قرآن کریم کھول لیں اور کسی رکوع کا مطالعہ کریں ( اذ) اور ( اذا) بہر حال مل جائے گا ۔ سورة البقرہ کی آیات میں ( اذ نجینکم) (2 : 49) ( واذا قرقنا) (2 : 50) ( واذوعدنا) (2 : 51) (واذاتینا موسیٰ الکتب) (2 : 53) (واذ قال موی) (2 : 54) (واذ قلتم) (2 : 55) (واذ قلنا ادخلوا) (2 : 58) (واذاستسقی) (2 : 60) (واذ قلتم) (2 : 62) (واذا خذنا) (2 : 63) (واذقال موسی) (2 : 67) (واذقتلتم نفسا) (2 : 72) غور کرو ( واذ) کس طرح ان سارے واقعات کو ایک دوسرے سے الگ الگ بیان کرتا جاتا ہے حالانکہ یہ آیات کریمات برابر برار جارہی ہیں ۔ بہر حال تسلیم کرو یا نہ کرو ان واقعات پر ایک نگاہ ڈال لو اور ہم کو کہہ لینے دو کہ یہ واقعہ گزشتہ واقعہ سے بالکل الگ ہے اگرچہ پہلی بات بھی آپ ﷺ کے متعلق ہے اور یہ بات بھی جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے ۔ ” اور اس وقت کو یاد کرو جب پیغمبر اسلام نے اپنی بعض بیویوں سے ایک راز کی بات کہی “ ( اسر) کا معنی ہم نے ” راز “ کیا ہے ۔ وہ راز کی بات اللہ نے بیان نہیں فرمائی اور ہمارے مفسرین نے اسی پر سارا زور بیان صرف کیا ہے اور کسی نے کوئی راز اور کسی نے کوئی راز نکال کر باہر رکھ دیا ہے کہ اللہ میاں نہ بتانا چاہے تو کیا ہم اس کو چھپا رہنے دیں گے ؟ ہم گزارش کرتے ہیں کہ جس بات کو اللہ تعالیٰ نے ظاہر کرنا نہیں چاہا ہم اس کے کھوج میں بہر حال نہیں نکلیں گے ہم کو چاہے جو کچھ بھی کوئی کہے وہ کہتا رہے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ کے درمیان وہ راز کی بات ہے جو بھی ہے اس لیے ہم کو ہرگز ہرگز اس کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کی ٹوہ کریں اور ٹوہ کرنے والوں کو بھی ہم اچھا نہیں کہیں گے ۔ مراد ہماری یہ ہے کہ ان کے اس فعل کو اچھا نہیں سمجھتے کیونکہ ٹوہ کسی عام آدمی کی بھی صحیح نہیں ہے ۔ چہ جائیکہ ہم پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کی زوجہ محترمہ ؓ کے مابین کسی راز کی ٹوہ میں لگ جائیں ۔ خام بد ہن کہ میں کوئی ایسی بات کہوں ۔ ( نبات) واحد مؤنث غائب ماضی (تنبیہ) مصدر۔ اس عورت نے اطلاح دی ۔ اس عورت نے خبر دی ۔ قرآن کریم نے پھر اس کی وضاحت نہیں فرمائی کہ وہ خبر کس کو دی لیکن عقل و فکر خود کہتی ہے کہ وہ راز کی بات جس کے متعلق تھی اس کو بتا دی اور ظاہر ہے کہ اس میں بھی ہمارے لیے وہی حکم ہے کہ جس بات کو اللہ نے مخفی رکھا ہمیں اس کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کے پیچھے پڑنے سے ہمارا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی اس وقت غیر متعلقین کا کوئی فائدہ تھا۔ پھر یہ فطری بات ہے کہ کوئی بھی راز کی بات جو کسی سے مخفی رکھی جائے جب اس کو پتہ چل جائے تو اس کے اندر کچھ خیال ضرور پیدا ہوتا ہے چاہے وہ احتراماً کوئی بات نہ کرے اور اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی بی بی سے جو بات کی تھی وہ اپنی ہی کسی دوسری بی بی کے بارے میں تھی اور اپنے گھر کی باتیں اپنے ہی گھر کے بعض لوگوں سے کی جائیں اور بعض سے پوشیدہ رکھی جائیں تو اس میں نہ کوئی گناہ کی بات ہے اور نہ ہی اس بات کو برا کہا جاسکتا ہے کیونکہ گھریلو مصلحتوں کو گھر والے ہی سمجھتے ہیں پھر اس کے اندر جو حکمت پوشیدہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا ؟ تو حقیقت خود بخود واضح ہوجائے گی کہ اس طرح سے بات کر کے بھول بھیلوں میں ڈالنا مقصود نہیں بلکہ سبق سکھانا اصل مطلوب ہے اور وہ بھی اپنی پوری امت کو جن میں اربوں ، کھربوں انسان آتے ہیں اور اگر وہ اس کی بات عملی طور پر کر کے نہ دکھاتے تو سبق حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ بہر حال آپ کی ان بی بی نے جن سے آپ ﷺ نے راز کی بات کی تھی اس بات کو آگے پہنچا دیا جس کے متعلق راز تھا اس کو اس کے سامنے بیان کردیا ایک طرف تو یہ ہوا اور دوسری طرف یہ ہوا کہ اس بی بی کا بات کو ظاہر کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع کردی کہ جو بات آپ ﷺ نے اپنی ایک بی بی سے کسی کے راز کی کہی تھی اس نے وہ راز رازدار تک پہنچا دیا ہے ۔ قرآن کریم کے الفاظ ہیں ( واظھرہ اللہ علیہ) جب رسول اللہ ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو ظاہر ہے کہ فطرتاً آپ ﷺ کو ان کی اس حرکت سے ناگواری ہوئی ہوگی ۔ لیکن آپ ﷺ میں جو برداشت تھی وہ سبحان اللہ ! کہ کیا ہی برداشت تھی ۔ آپ ﷺ نے جو بھی محسوس کیا اس کو ظاہر نہیں ہونے دیا بلکہ باتوں ہی باتوں میں اس بی بی کو جتلا دیا کہ تم نے یہ بات جو راز کی تھی آگے پہنچا دی ہے اگرچہ آپ ﷺ نے اشارتا ً فرمایا تھا اور وہ مکمل بات آپ ﷺ نے اس سے نہ کی کہ تم فلاں جگہ اس اس طرح ملیں اور تو نے اس طرح یہ یہ بات اس اس طرح آگے پہنچا دی اور اس کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔ یہ ظاہر ہے کہ جب بھی کوئی اس طرح کی بات آگے پہنچاتا ہے تو اس میں کچھ اتار چڑھائو وہ کرجاتا ہے اور پھر خصوصاً گھریلو باتوں میں جن کا تعلق ہی فقط عورتوں سے ہو اور پھر عورتیں بھی وہ جن پر کبھی خفگی کا اظہار نہ ہوا ہو اور وہ ہتھیلی پر پانی کی طرح رکھی گئی ہوں ۔ لاریب ! ان کے درجات بہت بلند ہیں ، ان کا مقام بہت اونچا ہے لیکن آخر وہ نبی کریم ﷺ کی بیویاں ہیں اور آپ ﷺ ان کے خاوند ہیں اور زن و شو کا خاص تعلق ان میں موجود ہے ۔ میاں بیوی کے تعلقات ادب و احترام میں مزاحم نہیں ہوتے اور دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں ۔ آپ ﷺ نے جب اس راز کھول دینے والی بی بی کو اس بات کی خبر دی تو وہ حیران و پریشان ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ کو یہ بات کس نے بتا دی کہ میں نے آپ ﷺ کا راز جس کے متعلق تھا اس کو پہنچا دیا ہے ۔ تو آپ ﷺ نے صاف صاف ارشاد فرما دیا کہ مجھے اس نے بتایا جس کو ہر بات کا علم ہے اور کوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ہمارے مفسرین میں سے بڑے بڑے لوگوں نے اس آیت کے مفہوم انکشاف کیے ہیں ۔ آپ ﷺ کی بیبیوں کے نام نہایت عرق ریزی سے نکالے ہیں کہ آپ ﷺ نے جو راز کی بات کہی تھی وہ فلاں سے کہی تھی اور وہ راز جو تھا وہ فلاں بی بی کے متعلق تھا اور بعض نے اس کے انکشاف میں ابوبکر صدیق و عمر فاروق ؓ کی خلافت کا نام بھی لیا اور پھر ان کے مقابلہ میں مقابلہ کرنے والوں نے حضرت علی ؓ کی خلافت کا ذکر بھی فرمایا ہے اور بعض نے بلا فصل ہونے کا نعرہ بلند کیا ہے اور بعض نے آپ ﷺ کی پرائیویٹ زندگی کے راز اور عورتوں کی باریاں مقرر کرنے اور کسی ایک سے التفات یا ملاقات نہ کرنے کا ذکر بھی کیا ہے اور علاوہ لمبے لمبے قصے اور کہانیاں بھی بیان کی ہیں اور ہم نے اوپر بھی ذکر کیا ہے اور ایک بار پھر بھی عرض کرتے ہیں کہ ہمیں ان باتوں کا کھوج لگانے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی اپنی اپنی ماں کے بارے میں اس طرح کے انکشافات کسی کو کرتے دیکھا ہے ۔ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ ہماری مائیں ہیں اور وہ ماریہ قبطیہ ہوں یا صفیہ بنت حیی ، وہ ریحانہ ہوں یا جو یریہ ؓ ۔ کوئی کسی کو لونڈی کہے یا باندی لیکن ہماری بہر حال وہ مائیں ہیں اس لیے ہمیں نہ ان واقعات کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی امہات المؤمنین کے ناموں کی اور نہ راز کی بات کی کہ کیا تھی ؟ اس کے پیچھے لگنے کی کوئی ضرورت ہے ۔ ہاں ! ہم کو اس آیت سے جو کچھ سبق حاصل ہوتا ہے اس کا ذکر ضرور کریں گے اور وہ اس طرح ہے کہ : (1) عورت ، عورت ہے خواہ وہ ماں ہو ، بیٹی ہو ، بہن ہو یا بیوی ہو ۔ عورت اور مرد میں جو فطری فرق ہے اس نے یہ بات واضح کردی ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلہ میں راز کی باتیں باتوں ہی باتوں میں کھول دیتی ہیں اور ان کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ میں نے کوئی بات کہہ دی ہے جو مجھے نہیں کہنا چاہئے تھے۔ (2) مرد کے مقابلہ میں عورت جلد مان جانے والی ہے بشرطکیہ اس کو ضدی اور چڑچڑی نہ بنا دیا گیا ہو۔ (3) ایک معمولی بات کو بڑا کرنے میں اور چھوٹی بات کو لمبا کرنے میں مرد کے مقابلہ میں زیادہ حساس ہوتی ہے ۔ (4) عورت مرد کی کمزوری کا ازالہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مرد کے مقابلہ میں زیادہ کمزور ہے۔ (5) مرد سے وہ اپنی بات منوانے میں مرد کے مقابلہ میں زیادہ مضبوط ہے۔ (6) ناگواری کی باتوں میں اپنی بات کو کم کرنا اور دوسرے کی بات کو بڑھانا اس کے ڈھانچے میں داخل ہے۔ (7) میاں بیوی کے درمیان ایسی باتیں ہوتی ہیں جو دوسروں سے نہیں کہی جا سکتیں پھر دوسروں کو بھی کرید نے کی ضرورت نہیں ہوے۔ (8) اپنی بی بی سے اگر کوئی بات ناگواری کی ہوجائے تو اس کو خاموشی سے برداشت کرنے میں برکت ہے۔ (9) اپنی بی بی سے درشتی کے ساتھ پیش آنا اپنا نقصان آپ کرنا ہے۔ (10) مسلمانوں کو اپنی بیبیوں سے حسن سلوک کرنے کے لیے آپ ﷺ کے حسن سلوک کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اگر تم دونوں نے توبہ کرلی تو فبہا اگر تم نے جتھا بندی کی تو اللہ اس کا کار ساز ہے 4 ؎ زیر نظر آیت میں اس بیان کی مکمل تفصیل آگئی ۔ اگر کوئی اس کو سمجھنے کی کوشش کرے گا تو بات روز روشن سے بھی زیادہ واضح ہوجائے گی ۔ ( ان تتوبا الی اللہ) اگر تم دونوں توبہ کرلو تو مناسب ہے ۔ یہ دونوں کون ہیں ؟ ہماری مراد اس کھوج سے نہیں کہ ان کے ناموں کا پتہ چلے اور سارا راز طشت ازبام ہو ۔ ہماری مراد یہ ہے کہ جو بات ابھی تک واضح نہ تھی کہ بعض ازواجہ ۔ عرف بعضہ واعرض عن بعض ، فلما نباھابہ الفاظ سے جو عقدہ حل نہیں ہوا تھا وہ اس لفظ ( تقوبا) نے حل کردیا کہ ان میں سے ایک وہ ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے ایک راز کی بات کی اور دوسری وہ ہے جس کے متعلق بات کی اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ جس سے آپ ﷺ نے راز کی بات کی اور جس کے متعلق کی دونوں کی کوئی قدر مشترک موجود ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اصل بات جو بھی تھی وہ اسی کے متعلق تھی جس کے بارے میں آپ ﷺ نے دوسری سے بات کی اور اس دوسری سے بات کرنے میں یہی حکمت پنہاں تھی کہ یہ بات واضح ہوجائے کہ اس کے ساتھ دوسری کون ہے اور آپ ﷺ نے جس کو مخاطب کر کے بات فرمائی وہ وہی تھی جو پہلی کے ساتھ بات چیت میں شریک تھی۔ اب جب یہ ساری باتواضح ہوگئی اور اس حکمت عملی کے تحت ہوگئی جو آپ ﷺ نے اختیار فرمائی تو اب دونوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع پہنچانا مقصود ہے کہ اگر تم دونوں توبہ کرلو اور جو مطالبہ تم دونوں رسول اللہ ﷺ سے کر رہی ہو اس کو چھوڑ کر سیدھی ہو جائو تو تم دونوں کے دل آپ ﷺ کی طرف مائل ہوجائیں تو فبہا اور اگر تم دونوں نے آپس میں اتحاد کر کے رسول اللہ ﷺ پر چڑھائی کردی یعنی اپنا مطالبہ منوانے کی مزید کوشش شروع کردی تو اچھی طرح سن لو کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ جبریل (علیہ السلام) اور سارے صالح ایمان والے اور ان کے بعد سارے فرشتے اگر تم سمجھتی ہو کہ ان سب کے مقابلہ میں تم اپنے مطالبہ میں کامیاب ہو سکتی ہو تو دوبارہ مطالبہ دہرا کر دیکھ لو کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اٹھو اور جلدی کرو تاکہ یہ روز روز کے مطالبات کا معاملہ آج حل ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بعد انہوں نے اپنے مطالبات کو ایسا ترک کیا کہ پھر کبھی اس طرح کی بات زندگی میں نہیں کی۔ زیر نظر آیت میں ایک لفظ آیا ہے ( صغت ) اور اس کی اصل ص غ ر ہے اور بعض نے اس کا مادہ ص غ ا تحریر کیا ہے جس کے معنی جھکجانے اور مائل ہوجانے کے ہیں ۔ اس طرح ( صغت) کے معنی ہیں وہ جھک پڑی اور مائل ہوگئی ۔ ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب لیکن یہاں (قلوب) کے فاعل ہونے کی بناء پر صیغہ جمع کے معنی ہوں گے یا عربیت کے لحاظ سے تثنیہ کے معنی میں جو اردو میں بہر حال جمع ہی ہیں یعنی جھک پڑے ، مائل ہوگئے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے دل تو پہلے ہی رسول اللہ ﷺ کی طرف مائل ہیں لیکن اس کے باوجود اگر تم آپس میں ایک دوسرے کی مدد کے لے کھڑی ہوگئیں تو پھر ۔۔۔۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنے مؤقف میں نرمی اختیار کی ، سختی نہیں جیسا کہ مضمون سے واضح ہے۔ اس بات کی وضاحت اس لیے کرنا پڑی کہ (صفت قلوبکما) کے معنی یہ کرنا کہ ” تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں “ یا ” تمہارے دل رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مڑ گئے یا پھرگئے “ ہرگز درست نہیں اور نہ ہی اس طرح کا کوئی تصور درست ہوسکتا ہے۔ عورت کا اپنے خاوند سے اچھے کپڑے ، کھانے یا زیور کا مطالبہ کرنے کا مطلب ایسا غلط لینا ہرگز صحیح نہیں بلکہ یہ تو محبت اور دل لگی کا ایک مشغلہ ہے اگرچہ رسول اللہ ﷺ کو ان کاموں میں مشغول کرنا صحیح نہیں تھا کیونکہ آپ ﷺ کی ذمہ داریاں قومی تھیں تاکہ انفرادی اور یہ بات بیوی کو معلوم تھی
Top