Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 166
فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب عَتَوْا : سرکشی کرنے لگے عَنْ : سے مَّا نُهُوْا : جس سے منع کیے گئے تھے عَنْهُ : اس سے قُلْنَا : ہم نے حکم دیا لَهُمْ : ان کو كُوْنُوْا : ہوجاؤ قِرَدَةً : بندر خٰسِئِيْنَ : ذلیل و خوار
پھر جب یہ اس بات میں حد سے زیادہ سرکش ہوگئے جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے کہا ” بندر ہوجاؤ “ ذلت و خواری سے ٹھکرائے ہوئے
اللہ تعالیٰ کی لعنت بد ترین عذاب ہے جس میں وہ مبتلا ہوئے : 189: کسی قوم یا جماعت پر اللہ کی لعنت اس عذاب سے بھی سخت چیز ہے جو کسی قوم کو فنا کردیتا ہے اس لئے کہ لعنت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک قوم بظاہر زندہ رہتی ہے لیکن اس کی زندگی صرف ذلت و خواری کی ایک داستان عبرت ہوتی ہے اس بستی پر بھی اللہ کی ایسی لعنت برسی کہ وہ دیکھنے والوں کے لئے ایک نمونہ عبرت بن گئی یعنی ان کو بندر ذلیل بنا دیا گیا۔ رہی یہ بات بندر ہوجانے کا مطلب کیا ہے ؟ کیا ان کی صورتیں بندروں کی سی ہوگئی تھیں یا دل ؟ آئمہ تفسیر میں بلا شبہ اس بات میں اختلاف ہے ۔ مجاہد (رح) کا قول ہے کہ مسخت قلوبھم ان کے دل مسخ ہوگئے تھے ( ابن کثیر و ابن جریر ) اس کی مکمل تفسیر جلد اول سورة بقرہ کی آیت 65 اور جلد ہذا کی سورة المائدہ 60 میں کی جا چکی ہے وہاں سے ملاحظہ کریں ۔
Top